قصور ہمارا ہے

آئے روز نئی نئی کہانیاں ، پوری دنیا کی کہانیاں ایک سائٹ پر جب کہ ہمار ے ملک اور حکمرانوں کی کہا نیاں دوسری طرف تو پھر بھی ہم ہی جیتیں گے۔ روز جب آنکھ کھولتی ہے تو نئی دن کے ساتھ ایک نیا واقع پیش آجاتا ہے اور ہمارے حکمران اس پراپنی مذمتی بیانات ،تحقیقات ، عدالتی کمیشن ، جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم یا کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ جوادارے بنے ہیں وہ اپناکام خود نہیں کریں گے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب تو بادشاہ یا شہنشاہ آدمی ہے ۔ وہ تو جب بھی بیان دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ میاں صاحب وزیر اعظم نہیں بلکہ کسی اپوزیشن جماعت کی نمائند گی کرتے ہیں گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں نواز شریف پنجاب میں کسی سیلاب زدہ علاقے کے دورے پر گئے تھے وہاں میر ے خیال میں کسی نے بتا یا ہوگا کہ اگر ملک میں ٹیم بن جاتے تو سیلاب سے اتنا نقصان نہ ہوتا ۔ وزیراعظم صاحب نے فوراً بیان جاری کیا کہ چھوٹے ٹیم بنانے چاہیے اگر ٹیم ہوتے تو آج اتنا نقصان نہ ہوتا ۔ اسی طرح پولیس یا ہسپتال میں کوئی واقع پیش آجائے تو میاں صاحب فرماتے ہیں کہ حکومت کو جعلی ادویات کی روک تھام کرنی چاہیے ۔ ہسپتالوں میں اضافہ کرنا چا ہیے۔پولیس کی ٹر نینگ ہونی چاہیے۔ پولیس کی نفری میں اضافہ ہو نا چاہیے۔اندھے افراد پر پولیس کی جانب سے تشدد نہیں کرنا چاہیے۔ لوڈشیڈنگ کم کرنی چاہیے۔ تعلیم عام کرنی چاہیے۔ معلوم نہیں کیا کیا کرنا چاہیے اور کس کوکرنا چاہیے ،یہ وزیراعظم کا کام نہیں بلکہ تو کس کا کام ہے کہ ان کو کرنا چاہیے۔ وزیراعظم صاحب ان سے درخواست کر تے ہیں کہ ان کو یہ کرنا چاہیے ْجب ملک کے سر براہ ایسے بیانات دیتے ہو کہ فلاں کام کرنا چاہیے اور فلاں کام کرنا چاہیے تو پھر اﷲ ہی حافظ ہو ،جوہمارا ہے۔ میر ے خیال میں تووزیر اعظم حکم دیتا ہے کہ یہ کل شروع کریں اور میں کام کرنے کا حکم دیتا ہوں ۔بحر حال تیسری باری تو ہے شاید اگلی باری پر ٹیم ، پولیس ، تعلیم اور ہسپتال ٹھیک ہوجائیں۔

پہلاایک واقعہ یاد آیا وہ آپ لوگوں سے شیئر کرتا ہوں اس کے بعد اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ سات ، اٹھ سال پرانی بات ہے میں ان دنوں پشاور میں ایک اخبار کا بیوروچیف تھا ۔ پشاور میں جرمن اورگنائزیشن کی جانب سے انوسٹی گیشن جر نلزم ان وار زون پر تین روزہ ٹر ننگ تھی جس میں میں نے بھی حصہ لیا تھا۔اس میں ہمارے ایک دوست صحافی نے ایک قصہ سنایا کہ جب میں نیا نیا جرنلزم میں آیا تھا تو میں بھی کافی ایکٹیو تھا ۔ اصولوں کی باتیں کرتا تھا ۔ ایک دن کارخانوں چوک میں احتجاج ہو رہا تھا تو وہاں احتجاج کرنے میں بھی گیا ۔ احتجاج کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک صحافی احتجاج کرنے والوں میں سے ایک سے رقم وصول کر رہاتھا میں نے تھوڑا سامعلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ صحافیوں کے نام پر پیسے لے رہا ہے تاکہ اخبارات میں ان کی کوریج ہوجائیں۔مجھے بہت غصہ آیا ۔میں پر یس کلب آیا ان دنوں ہمارے پشاور پر یس کلب کے صدر مرحوم سہیل قلندر صاحب تھے اﷲ ان کو قبر میں آسانیاں عطا کریں اور ان کواپنی رحمت سے نوازے ( دوسرے دوستوں کی طرح مجھ سے بھی محبت اورخلوص کا رشتہ تھا) قلندر صاحب واقعی اپنی ذات میں قلندر تھے۔ تووہ صحافی فرما رہے تھے کہ میں نے صدر پر یس کلب سے شکایت کی کہ اس طرح ایک واقعہ پیش آیا جس سے ہماری بدنامی ہوتی ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے اور ایسے لوگوں کی ممبر شپ ختم کرنی چاہیے۔تو قلندر صاحب نے ایک کمیٹی بنائی جس میں تین افرا د کو شامل کیا اور اس کمیٹی کے سربراہی اس شخص کودی گئی جس نے پیسے لیے تھے۔

قصورمیں بچوں سے زیادتی کا واقعہ پیش آیا ۔ پہلے تو پنجاب حکومت اور پولیس نے بہت کوشش کی کہ اس واقعے کو کوئی آور رنگ دیا جائے لیکن میڈیا کے تحقیقات اور رپورٹنگ نے معاملے کو اب تک دبانے سے بچایا۔ سیاست دانوں کو بھی خیا ل آیا وہ بھی مظلومو ں کے پاس چلے گئے اور واقعے کا حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ پی ٹی آئی نے معاملے کو اسمبلی میں اٹھانے کا اعلان کیا جس کی اجازت اسپیکر کی جانب سے نہیں دی گئی اور کہا گیا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے ۔ویسے مجھے یاد نہیں کہ حکومت کسی ایشوز پر اسمبلی میں بات کرتی ہے۔ اسمبلی میں نہ تو اربوں ڈالر کا قرضہ لینے پر بات ہوتی ہے اور نہ ہی پیسے میٹرو اور موٹرویز کی تعمیرات پر خرچ کرنے چاہیے یا نہیں، گفتگو کی جاتی ہے ۔ اسمبلی میں صرف سیاست کی باتیں کی جاتی ہے ۔ بحر کیف حکومت نے تو اس مسئلہ کو غیر اہم قرار دے دیا کہ اسمبلی میں اس پر بات نہیں ہونی چاہیے تاہم تادم تحریر خیبر پختونخوا اسمبلی نے صرف اس واقعے کے خلاف قرارداد پاس کرا دی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے جے آئی ٹی یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا نے کاحکم دیا جس کے سربراہ ابوبکر اﷲ بخش کو بنا دیا گیا جو یہاں پر 2013سے2015تک آر پی او رہے چکے ہیں جن کاکام ایسے ہی کاموں کی تحقیقات اور جرم کو روکنا ہوتاہے ۔ ابوبکر صاحب اس علاقے کا سربراہ تھے۔ یہ گھناونا کام ہوتا رہا۔اب اسی سربراہ کو جس کے زیر کنٹرول ان علاقوں میں جرائم ہوتے رہیں ۔ انسانیت شرماتی رہی۔ویڈ یو بنتے رہیں جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق پولیس بھی اس گھناونے جرم میں برابر کی شریک تھی، ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ ان کے ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔ تواب وزیر اعلیٰ نے اس بے خبر پولیس آفیسر کو جس کے متعلق خود تحقیقات ہونی چاہیے ۔جوائنٹ انواسٹی گیشن ٹیم کا سر براہ مقر ر کیا گیا ۔ اب کیا تحقیقات ہوگی اور کیا سزائیں ہوگی پہلے بھی اس طرح کے جے آئی ٹی بنائیں گئے ہیں۔ ان رپورٹس پر کیا عمل ہوا؟۔ جب حکمران خود مجرم ہو،سر براہان چور ہوتووہ کیا حکم دیں گے اور کیا عوام کو انصاف ملے گا؟جن کوحکم دینا چاہیے اور کام کرنا چاہیے کہ ایسا کل سے شروع کرو ۔ وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ جیسے وہ حکومت میں نہیں بلکہ پڑوس ملک سے پاکستان کے دورے پر آئے ہیں۔ حکمران ایکشن لیتے ہیں اور کام کرتے ہیں ۔

کس سے گلہ کر یں اور کسے سے شکایت کریں ۔ہمیں خود اپنے قول وفعل کو درست کرنا چاہیے۔ خود ایسے لوگوں کومنتخب کرنا چاہیے جو ہمارا سوچے اور ہمارے لیے کام کریں۔جب تک گنگاروں کوسز ائیں نہیں ملے گی ایسے افسوس ناک واقعا ت ہوتے رہیں گے اور ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی کے شرمندہ ہوتے رہیں گے کیوں کہ قصور ہمارا ہے اور سزا بھی ہمیں ہی ملے گی۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226215 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More