26 - اگست 2006ء کو کوہلو میں
سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ سردار اکبر
بگٹی اپنے دو پوتوں اور سات کمانڈروں سمیت جاں بحق ہوگئے۔
سردار اکبربگٹی 12 - جولائی 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1939ء میں وہ اپنے
والد نواب محراب خان بگٹی کی وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ انہوں نے چیفس
کالج، لاہور سے تعلیم مکمل کی اور 1949ء میں پاکستان سول سروس کے ایک کورس
میں شمولیت اختیار کی۔ 1958ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور کچھ
دنوں کے لئے مرکزی کابینہ کے رکن بھی رہے۔
صدر ایوب خان کے دور میں سردار اکبر بگٹی کئی دیگر بلوچ سرداروں کے ساتھ
بیشتر وقت پس دیوار زنداں رہے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں انہوں نے
بلوچستان میں نیپ (NAP) کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ فروری 1973ء سے
جنوری 1974ء تک وہ بلوچستان کے گورنر رہے۔
1985ء کے عام انتخابات میں ان کے بھائی میر احمد نواز بگٹی اور سلیم اکبر
بگٹی بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1988ء کے عام
انتخابات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے بلوچستان نیشنل الائنز کے نام سے ایک
سیاسی جماعت تشکیل دی اور 1989ء سے 1990ء تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔
1990ء میں انہوں نے جمہوری وطن پارٹی کے نام سے ایک اور سیاسی جماعت تشکیل
دی اور اسی برس بلامقابلہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1993ء اور
1997ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ 2003ء میں سوئی میں چھائونی
کے قیام کے فیصلے نے حکومت اور سردار اکبر بگٹی کے درمیان گہری خلیج حائل
کردی۔ 2005ء سوئی میں مقیم خاتون ڈاکٹر، ڈاکٹرشازیہ خالد کے ساتھ زیادتی کے
واقعہ کو سردار اکبر بگٹی نے اپنی عزت و ناموس پر حملہ قرار دیا اور یوں ان
کا علاقہ ایک مرتبہ پھر تصادم کی لپیٹ میں آگیا۔ سردار اکبر بگٹی سے مصالحت
کے لئے حکومت نے کئی وفود بھیجے مگر ان کی ناراضی کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی
دوران 26 اگست 2006ء کو حکومتی سیکیورٹی فورسز کے ایک حملے کے نتیجے میں
سردار اکبر بگٹی اپنے اس غار میں، جہاں انہوں نے پناہ گاہ بنا رکھی تھی،
اپنے مسلح ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوگئے۔ چند روز بعد جب سردار اکبر بگٹی کی
لاش بازیاب ہوئی تو حکومت نے اسے ایک صندوق میں بند کرکے سپرد خاک کردیا۔ |