سیدۂ کائنات فاطمۃ الزہراء سلام
اﷲ علیھا کا اِظہارِ غم:-
خاتونِ جنت، سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء سلام اﷲ علیھا کو یہ لازوال
اعزاز حاصل ہے کہ وہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لختِ جگر
تھیں۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے حد محبت تھی اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے بھی انہیں اپنی جان کا حصہ قرار دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے وصال پر سیدہ کائنات سلام اﷲ علیھا کی بے قراری و سوگواری کے
واقعات تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں :
(1) حضرت مسور بن مخرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :
فاطمة بضعة منّي.
’’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب قرابة رسول اﷲ، 3 : 1361، رقم :
3510
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب فاطمة، 3 : 1347، رقم : 3556
3. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فاطمة بنت النبي، 4 : 1903، رقم
: 2449
1۔ سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا کا وِصال حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اہلِ بیت میں سے سب سے پہلے ہوا، جیسا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ اِس بارے میں مختلف روایات ہیں
: سیدۂ کائنات سلام اﷲ علیہا کا وِصال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وِصال مبارک کے چھ (6) ماہ بعد ہوا۔ بعضوں نے آٹھ (8) ماہ کہا ہے،
بعضوں نے سو (100) دن اور بعضوں نے (70) دن کہا ہے، جب کہ صحیح قول چھ (6)
ماہ کا ہی ہے۔ وِصال کے وقت سیدۂ کائنات سلام اﷲ علیہا کی عمر مبارک اُنتیس
(29) سال تھی۔ آپ نے منگل کی رات 3 رمضان المبارک 11ھ کو وفات پائی۔ سیدۂ
کائنات سلام اﷲ علیہا کی اِتنی کم عمری میں وفات کا سبب یہ ہے کہ آپ اپنے
ابا جان تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی
کا غم برداشت نہ کر سکیں، آپ اکثر غمگین رہتیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد کبھی آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور
حق بھی یہی تھا۔
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 176، رقم : 4761
2. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 101
3. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 8، 9
4. ابن اثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
(2) 1. دولابي، الذرية الطاهرة : 111، رقم : 212
2. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربيٰ : 103
3. ابن اثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
4. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 214
2۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں بیان کی گئی روایت کے مطابق حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ کائنات سلام اﷲ علیھا کو اپنے والد
گرامی کی جدائی اتنی شاق گزری کہ بے ساختہ پکار اٹھیں :
يا أبتاه! أجاب رباً دعاه
يا أبتاه! مَن جنةُ الفردوس مأواه
يا أبتاه! إلي جبريل ننعاه
’’اے ابا جان! آپ نے (اپنے) رب کا بلاوا قبول فرمایا۔ اے ابا جان! آپ جنت
الفردوس میں قیام پذیر ہیں۔ اے ابا جان! میں اس غم کی خبر جبرئیل علیہ
السلام کو سناتی ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلي الله عليه وآله وسلم
ووفاته، 4 : 1619، رقم : 4193
2. أحمد بن حنبل، 3 : 197، رقم : 13054
3. دارمي، السنن، 1 : 41، رقم : 88
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 416، رقم : 1029
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 254
3۔ ابن ماجہ (209۔ 273ھ) کی السنن میں بیان کی گئی روایت کے مطابق سیدہ
فاطمہ سلام اﷲعلیھا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال پر درج ذیل
اَشعار کہے :
وا أبتاه! إلي جبرائيل أنعاه
وا أبتاه! مِن ربه ما أدناه
وا أبتاه! جنة الفردوس مأواه
وا أبتاه! أجاب رباً دعاه
’’ہائے اباجان! میں اس غم کی خبر جبرئیل علیہ السلام کو سناتی ہوں۔ ہائے
اباجان! آپ اپنے رب کے کتنے نزدیک ہوگئے۔ ہائے ابا جان! آپ جنت الفردوس میں
قیام پذیر ہیں۔ ہائے ابا جان! آپ نے (اپنے) رب کا بلاوا قبول فرما لیا۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلي الله عليه وآله
وسلم ، 2 : 103، رقم : 1630
2. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب في البکاء علي الميت، 4 : 12، رقم :
1844
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 591، 592، رقم : 6622
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 537، رقم : 1408
5. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 61، رقم : 4396
6. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 311
7. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1 :
562
4۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام
رضی اللہ عنھم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین
سے فارغ ہو گئے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیھا فرطِ رنج و اَلم سے بے ساختہ
اُن سے کہنے لگیں :
يا أنس! أطابت أنفسکم أن تحثوا علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
التراب.
’’اے انس! کیا تمہارے دلوں نے اِس بات کو گوارا کر لیا کہ تم رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مٹی ڈالو؟‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلي الله عليه وآله وسلم
ووفاته، 4 : 1619، رقم : 4193
2. أبو يعلي، المسند، 6 : 110، رقم : 3379
3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 402، رقم : 1364
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 537، رقم : 1408
5. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 416، رقم : 1029
6. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 409، رقم : 6519
5۔ اِمام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) المسند میں روایت کرتے ہیں کہ سیدۂ
کائنات حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ کہا :
يا أنس! أطابت أنفسکم أن دفنتم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في التراب
ورجعتم.
’’اے انس! کیا تمہارے دلوں نے اس بات کو گوارا کر لیا کہ تم رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مٹی میں دفن کر کے واپس چلے آؤ۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 204، رقم : 13139
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 254
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 3 : 493
حضرت حماد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد
اور مشہور تابعی حضرت ثابت البنانی رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرتے تو :
بکي حتي تختلف أضلاعه.
’’وہ اتنا روتے کہ ان کی پسلیاں اپنی جگہ سے ہل جایا کرتی تھیں۔‘‘
ابن جوزي، الوفاء بأحوال المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم : 803
6۔ اِمام طبرانی (260۔ 360ھ) المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں :
فلما انصرف الناس قالت فاطمة لعليّ رضی الله عنه : يا أبا الحسن! دفنتم
رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : نعم. قالت فاطمة رضي اﷲ عنها :
کيف طابت أنفسکم أن تحثوا التراب علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟
أما کان في صدورکم لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الرحمة؟ أما کان معلم
الخير؟ قال : بلي، يا فاطمة! ولکن أمر اﷲ الذي لا مرد لهز فجعلت تبکي
وتندب، وهي تقول : يا أبتاه! الآن انقطع جبريل عليه السلام، وکان جبريل
يأتينا بالوحي من السماء.
’’جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے
بعد) واپس آئے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیھا نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا : تمہارے دلوں نے کیسے گوارا کر لیا کہ تم رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مٹی ڈالو؟ کیا تمہارے دلوں میں رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے لیے رحمت نہیں تھی؟ کیا وہ بھلائی کی تعلیم دینے والے
نہیں تھے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فاطمہ! کیوں نہیں (آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام خوبیوں کا جامع تھے)، لیکن خدا کا حکم کوئی
نہیں ٹال سکتا۔ پس سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیھا نے رونا شروع کر دیا، آپ کی
ہچکی بندھ گئی، اور یہ کہتے جاتی تھیں : اے ابا جان! اب جبریل علیہ السلام
کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ہے جو آسمان سے وحی لے کر اترتے تھے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 64، رقم : 2676
2. ابو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 4 : 79
7۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد تمام صحابہ کرام
رضی اللہ عنھم بالعموم مغموم رہتے، حتیٰ کہ بعض نے مسکرانا ہی ترک کر دیا۔
حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سیدہ عالم حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنھا کے
بارے میں بیان کرتے ہیں :
ما رأيت فاطمة رضي اﷲ عنها ضاحکة بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد کبھی بھی حضرت
فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنھا کو مسکراتے نہیں دیکھا۔‘‘
ابن جوزي، الوفاء بأحوال المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم : 803
8۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا آقائے
دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوتیں تو آپ کی
کیفیت اس طرح ہوتی کہ
أخذت قبضة من تراب القبر، فوضعته علي عينيها، فبکت وانشأت تقول :
ماذا ممن شم تربة أحمد
أن لا يشم مدي الزمان خواليا
صبت عليّ مصائب لو أنها
صبت علي الأيام صرن لياليا
’’قبرِ اَنور کی مٹی مبارک اُٹھا کر آنکھوں پر لگا لیتیں اور حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں رو رو کر یہ اَشعار پڑھتیں :
(جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اَقدس کی خاک کو سونگھ لیا
ہے اسے زندگی میں کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وِصال کی وجہ سے مجھ پر جتنے عظیم مصائب آئے ہیں اگر وہ دنوں پر
اُترتے تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔)
1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 134
2. ابن قدامة، المغني، 2 : 213
اِس غم ناک صورت حال میں جب سیدہ کائنات سلام اﷲ علیہا کی وفات کا وقت قریب
آیا تو انہوں نے موت کو خوش دلی سے قبول کیا کیونکہ موت انہیں ربِ
ذُوالجلال اور اپنے ابا جان سے ملانے والی تھی۔ اس کیفیت کا ذکر اَئمہ و
محدثین نے یوں کیا ہے :
عن أم سلمة رضي اﷲ عنها قالت : اشتکت فاطمة سلام اﷲ عليها شکواها التي قبضت
فيه، فکنت أمرضها فأصبحت يوما کأمثل ما رأيتها في شکواها تلک، قالت : وخرج
عليّ لبعض حاجته، فقالت : يا أمه، اسکبي لي غسلاً، فسکبت لها غسلاً فاغتسلت
کأحسن ما رأيتها تغتسل، ثم قالت : يا أمه، أعطيني ثيابي الجدد، فأعطيتها
فلبستها، ثم قالت : يا أمه، قدمي لي فراشي وسط البيت، ففعلت واضطجعت
واستقبلت القبلة وجعلت يدها تحت خدها، ثم قالت : يا أمه، إني مقبوضة الآن
وقد تطهرت، فلا يکشفني أحد فقبضت مکانها، قالت : فجاء عليّ فأخبرته.
’’حضرت ام سلمیٰ رضي اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدۂ فاطمہ سلام اﷲ علیہا
اپنی مرضِ موت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی۔ مرض کے اس
پورے عرصہ کے دوران میں جہاں تک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر
تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے۔ سیدہ نے کہا : امی جان!
میرے غسل کرنے کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی، آپ نے اچھی طرح غسل کیا۔
پھر فرمایا : امی جان! مجھے نیا لباس دیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اسے آپ نے
زیبِ تن فرمایا اور قبلہ رُخ ہو کر لیٹ گئیں، ہاتھ مبارک رُخسار مبارک کے
نیچے کر لیا، پھر فرمایا : امی جان! اب میری وفات ہوگی، میں پاک ہو چکی
ہوں، لہٰذا کوئی مجھے (غسل دینے کے لیے) بے پردہ نہ کرے۔ پس اسی جگہ آپ کی
وفات ہوگئی۔ حضرت اُم سلمیٰ کہتی ہیں : بعد ازاں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ
تشریف لائے اور میں نے انہیں سیدہ کے وِصال کی اطلاع دی۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 461، 462، رقم : 27656
2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 629، 725، رقم : 1074، 1243
3. دولابي، الذرية الطاهرة : 113
4. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 211
5. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 2 : 250
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربيٰ : 103
7. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
اَصحابِ سیر و تاریخ نے لکھا ہے کہ سیدۂ کائنات سلام اﷲ علیہا کی وفات مغرب
اور عشاء کے درمیانی وقت میں ہوئی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو رات کے وقت
دفن کیا گیا اور سیدنا علی، سیدنا عباس اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ
عنھم نے آپ کو لحد میں اتارا۔ یوں آپ اپنے ابا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے جا ملیں۔
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 177، 178، رقم : 4763 - 4765
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 3 : 31، رقم : 11826
3. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 25، رقم : 33938
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 31
5. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 175، 176
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربيٰ : 104
7. شيباني، الآحاد والمثاني، 5 : 355، رقم : 2937
8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 29
9. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 2 : 8
10. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
جاری ہے--- |