لازوال جدوجہد کی پلاٹینم جوبلی

جب کسی کی شادی کو 25سال ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی شادی کی سلور جوبلی مناتا ہے ۔بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شادی کو 50سال ہوتے ہیں تو وہ گولڈن جوبلی مناتے ہیں ،اگر کسی جوڑے کی شادی کو خو ش قسمتی سے 75سال ہو جائیں تو وہ پلاٹینم جوبلی منا سکتا ہے ،اور اسی طرح 100سال بعد ڈائمنڈ جوبلی منا سکتا ہے ۔26اگست1941 کوجماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا ۔26اگست 2015کو اس کے 74سال پورے ہوگئے اور یہ پچھترویں سال میں یعنی جماعت پلاٹینم جوبلی کے سال میں داخل ہو رہی ہے ۔اس کے قیام سے ایک سال پہلے یعنی 1940میں قرارداد پاکستان منظور ہو چکی تھی ۔

بر صغیر ہند وپاک کی تاریخ کچھ دلچسپ بھی ہے تو فکر انگیز بھی ،اس خطہ میں ویسے تو دین حق اسلام کی روشنی محمدبن قاسم کے زریعے سے پوری قوت کے ساتھ داخل ہوئی جب انھیں حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی دادرسی کے لیے یہاں بھیجا تھا اور پھر راجہ داہر سے معرکہ ہوا ،اور اسلام کی اس فتح نے لوگوں کے دلوں پر اپنا سکہ جمایا ،لیکن اس سے قبل عرب تاجروں کے توسط سے اسلام کا پیغام پہنچ رہا تھاکہ ان کی دینداری ،دیانتداری ،اور خوش اخلاقی کی وجہ سے لوگ دین حق سے متاثر ہورہے تھے پھر اس برصغیر میں صوفیاؤں اور اولیاء کرام اپنی کرشماتی مجلسی نشستوں کے توسط سے بھی اس دین کا نہ صرف پیغام پہنچا رہے تھے بلکہ ان مجلسی محفلوں کے زریعے ذہنی ،فکری ،قلبی اور عملی تربیت بھی کررہے تھے ،ان دو حوالوں سے تو اسلامی فکرکی روشنی پورے برصغیر میں پھیل گئی لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں کم و بیش ایک ہزار سال مسلمانوں کی حکومت رہی اور مسلمان پھر بھی اقلیت میں رہے اس کی وجہ یہ رہی کہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت تھی اسلام کی حکومت نہیں تھی،جس طرح خلافت راشدہ اور اس کے بعد کے ادوار میں اسلامی حکومت قائم تھی تو چاروں طرف پھیلتی رہی ،چہار دانگ عالم میں اس کی وسعت کی ایک مثال یہ تھی کہ اس زمانے میں ہر گھر کا نوجوان محاذجنگ پر رہتا تھا یہی وجہ تھی راجہ داہر کے خلاف جو دستے بھیجے گئے ان میں زیادہ تر بوڑھے حضرات تھے حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم جس کی عمر صرف سترہ سال تھی اس کو سپہ سالار بنایا وہ تو یہ ہوا کہ یہ جب جارہے تھے تو راستے میں ایک فوجی دستہ کسی جنگ سے واپس آرہا تھا اسے محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا بہر حال اسلام کی فطرت میں منجمد ہونا نہیں بلکہ وسعت پذیری ہے ،یہی وجہ ہے کہ بر صغیر میں اگر ایک ہزار برس تک مسلمان برسراقتدار رہے اس کی وجہ ان کا انصاف قائم کرنا تھا وہ معاشرے میں انصاف قائم رکھتے تھے اور عوام کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کے اندر سے عوامی سطح پر کوئی ایسی موثر بغاوت نہیں ہوئی جو ان کو حکومتوں کو گرادیتی ۔

سترھویں اور اٹھارویں صدی میں پوری دنیا میں نوآبادیاتی نظام اپنی جڑیں مضبوط کررہا تھا اٹھارویں صدی کے اوائل میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستا ن میں بظاہر کاروبار کی غرض اور بباطن اس خطہ پر اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کی نیت سے داخل ہوئی یہ کمپنی سو سال تک اپنی کوششوں میں لگی رہی بالآخر 1857کی جنگ آزادی وہ اہم موڑ ہے جب انگریزوں نے اس جنگ آزادی کو کچل کر برصغیر ہند وپاک میں اپنے اقتدار کو مستحکم کیا ۔یہ جنگ ویسے تو ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر چلائی تھی لیکن اس میں مسلمانوں کا نقصان بہت زیادہ ہوا،مسلمانوں میں عمومی طور پر مایوسی پھیل گئی لیکن اس کے باوجود آزادی کی تحریک بالکل سے ختم تو نہیں ہوئی البتہ تھوڑی سی دب ضرور گئی تھی۔

انیسویں صدی میں برطانیہ کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا بلکہ یہ کہا جاتا تھا کہ اور یہ حقیقت بھی تھی برطانیہ کی حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔لیکن بیسویں صدی آزادی کی صدی ثابت ہوئی جب ہر طرف آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں ،لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں عالم اسلام کو ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غموں کے گہرے سمندر میں ڈبو دیا وہ یہ کہ 1914 میں ترکی میں خلافت عثمانیہ زمیں بوس ہو گئی یہ خلافت راشدہ کی طرز کی خلافت تو نہیں تھی لیکن جیسی بھی تھی امت مسلمہ کی اس سے ایک قلبی عقیدت قائم تھی لہذا یہ اس صدی کا سب سے بڑا غم تھا جو مسلمانوں کو پیش آیا ۔

دنیا کے تمام مسلمانوں میں عمومی طور پر صف ماتم بچھی ہوئی تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں میں تو خلافت کے زوال کا غم اتنا شدید تھا تین دن تک تو لوگوں نے اپنے گھر کے چولھے تک نہیں جلائے مسلمانوں کے اس غم میں بظاہر ہندو بھی شریک تھے ۔چنانچہ ایک بہت زبردست خلافت تحریک اٹھی جو مسلمانوں میں احیائے خلافت کی تحریک تھی گو اس خلافت تحریک کی سربراہی ہندو لیڈر کو دی گئی اس کی شاید وجہ یہ تھی جس انگریز کے خلاف یہ تحریک اٹھائی گئی اسی انگریز نے ایک سازش کے تحت عربوں اور ترکوں کے درمیان عرب وعجم کا تعصب پیدا کر کے خلافت عثمانیہ کو ختم کیا ،اس لیے بر صغیر میں انگریزوں کے خلاف کسی بھی قسم کی تحریک چلانے کے لیے یہ ضروری تھاہندوؤں کوبھی اپنے ساتھ ملا لیا جائے یہی وہ وجہ تھی جس کے تحت اس تحریک کی قیادت ہندوؤں کو دی گئی۔تحریک آزادی کے بعد یہ بھی ایک بہت بڑی اور منظم تحریک تھی جس میں مسلمان خالص دینی جذبے کے تحت شریک ہوئے اور بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی گئیں مگر اس تحریک کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔

جنگ آزادی کی تحریک اور خلافت تحریک ان دونوں کی ناکامیوں سے مسلمان مایوسی کی اتاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے ۔یہی وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک پھر شروع ہوئی ۔شروع شروع میں تو مسلمان اس میں نیم دلی سے شریک رہے لیکن جب مسلمانوں کی ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا گیا اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو پچھلی دو تحریکوں کی ناکامی سے چوٹ کھائے ہوئے مسلمان اس تحریک میں Now and Neverاب نہیں تو پھر کبھی نہیں کے نعروں کے ساتھ دل و جان سے شامل ہوئے پاکستان کی اصل تحریک بنگال اور ہندوستان کے اقلیتی صوبوں یو پی سی پی میں بڑی قوت کے ساتھ اٹھی ۔1940میں جب منٹو پارک جس کا بعد میں نام اقبال پارک رکھا گیا اب یہ مینار پاکستان کہلاتا ہے میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس کے بعد سے تحریک پاکستان میں بہت تیزی آگئی ۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک طویل عرصے سے ترجمان القران کے ذریعے اسلام کے اصل تصویر پیش کررہے تھے جس میں وہ بتارہے تھے اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں ۔ اور یہ کہ یہ اور مذاہب کی طرح ایک مذہب نہیں بلکہ ایک ضابطہ حیات ہے جو قیامت تک کے لیے ہے ۔اپنی تحریروں میں مولانا ایک جماعت کا تصور بھی پیش کررہے تھے کہ امت مسلمہ کو ایک ایسی جماعت کی طرح ہونا چاہیے جو دنیا میں اﷲ کے نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کرے اگر نہیں توپھر امت مسلمہ میں کوئی ایسی جماعت ہو جو اعلائے کلمۃالحق کا فریضہ انجام دے ۔جب 1940میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو مولانا نے یہ دیکھا کہ اب پاکستان کے حصول کی منزل قریب ہے ۔مولانا نے اسی موقع کو مناسب سمجھا کہ وہ برسوں سے اپنی تحریروں کے مسلمانوں میں ایک جماعت کا جو تصور پیش کررہے ہیں اس پر اب عملاَ کام کا آغاز کیا جائے ۔چنانچہ آپ نے خطوط لکھنا شروع کیا اور 26اگست 1941کو لاہور میں 75افراد جمع ہوئے اور جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی بیت المال میں 74روپئے کچھ آنے جمع ہوئے ۔اتفاق سے اس وقت یہ دونوں ہندسے اس طرح مل رہے ہیں کہ جماعت کے 74سال پورے ہو گئے اور وے75ویں سال میں داخل ہو رہی ہے ۔

مولانا مودودی سے جب کسی نے یہ سوال کیا جب مسلم لیگ تحریک پاکستان لے کر چل رہی ہے تو آپ کو اپنا وزن اس میں ڈالنا چاہیے تھا نہ کہ آپ نے اپنی الگ جماعت بنالی مولانا نے جواب دیا کہ اس کی دو وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ مسلم لیگ جس اسلام کے نعرے کی بنیاد پر ملک حاصل کرنے کی جدجہد کررہی ہے اس کے مطابق اس کے پاس ایسے تربیت یافتہ کارکنوں کی ٹیم نہیں ہے جو قیام پاکستان کے بعد اس نئی مملکت میں اسلامی نظام قائم کر سکے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر خدا نہ خواستہ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ اسلامی نظام قائم کرنے میں ناکا م ہو جائے تو ایک ایسی جماعت ہونا چاہیے جو اس کام کا بیڑہ اٹھالے ۔

پاکستان بننے کے بعد مولانا نے دو اہم کام کیے ایک تو یہ کہ پاکستان کا دستور نہیں بن سکا تھا اس لیے دستور سازی کی مہم بھرپور انداز میں چلائی گئی مولانا یہ سمجھتے تھے کہ اس وقت تحریک پاکستان کے نعرے وعدے اور دعوے تازہ تازہ ہیں اس لیے اسلامی دستور کی تشکیل اس مرحلے پر نہ ہو سکی تو بعد میں بہت مشکلات ہو سکتی ہیں ۔آپ نے جب یہ دیکھا کہ دستور سازی کے سلسلے میں کچھ مشکلات ہیں تو آپ نے بڑی محنت اور دن رات کی جدوجہد سے ملک کے چوٹی کے 22علماء کی شراکت سے قرارداد پاکستان منظور کروائی جسے صدر ضیاء الحق نے دستور کا حصہ بنادیا یہ اتنا بڑا اور اہم کام تھا کہ اس سے ملک کی منزل مقصود کا تعین ہو گیا اب کوئی اس سے انحراف نہیں کر سکتا ۔دوسرا اہم کام مولانا مودودی نے یہ کیا کہ ملک میں جمہوریت قائم کرنے کی جدوجہد کی اور اس کے لیے آپ نے بائیں بازو کی تنظیموں تک سے اتحاد کیا ۔مولانا یہ سمجھتے تھے کہ اس ملک میں جمہوریت ہوگی تو ایک وقت وہ آئے گا جب اس ملک کے لوگ اسلامی نظام کے حق میں اپنی رائے دے سکیں گے ،یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی نے ایوب خان کے مارشل لاء کی شدید مخالفت کی تھی ،ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا سے ملاقات کر کے کہا کہ مجھے آپ کا تعاون چاہیے مولانا نے کہا کہ آپ منتخب سربراہ ہیں ملک میں اسلامی نظام نافذ کر دیں ہمارا تعاون آپ کے ساتھ ہو گا ۔ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جب ضیا ء الحق نے مولانا سے ملاقات کر کے یہ کہا کہ مولانا میں ملک میں اسلامی نطام نافذ کرنا چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ تعاون کریں تو مولانا نے انھیں جواب دیا کہ آپ نوے دن میں انتخاب کرا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیں یہ اس قوم پر آپ کا احسان ہو گا ۔

آج قیام پاکستان کے اڑسٹھ سال کے بعد ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ جماعت اسلامی نے کتنا سفر طے کیا ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آج ملک میں جماعت اسلامی وہ واحد تنظیم ہے جو اپنے تربیت یافتہ کارکنوں کی ایک ٹیم رکھتی ہے اس کے پاس زندگی کے ہر شعبے میں ماہرین کی ٹیم ہے جو اسلامی نظام قائم کرنے کے سلسلے میں ضروری عناصر ہیں۔جماعت اسلامی نے دو مرتبہ شہر کراچی کو دیانتدار قیادت فراہم کی ہے ایک عبد الستار افغانی مرحوم کی شکل میں اور دوسرے جناب نعمت اﷲ خان ایڈوکیٹ صاحب جب کہ ایک دوسری تنظیم نے بھی دو قیادتیں دی تھیں جن پر بعد میں کرپشن کے الزام میں مقدمات قائم ہوئے ۔اس وقت جماعت اسلامی کی جدوجہد ایماندارانہ اور دیانتدارانہ انتخابات کے لیے ہورہی ہے تاکہ ایک دو انتخابات کے بعد اس ملک جماعت اسلامی کامیاب ہو کر آئے برصغیر کے مسلمانوں کا ایک اسلامی پاکستان کا خواب پورا ہو جائے ۔ان شاء اﷲ
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56351 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.