آپ ؒ کا مزار پاک قصور شہر
میں منبع رشد و ہدایت ہر خاص و عام ہے
صوفیائے کرام نے دین اسلام کی اشاعت میں جواہم کردار اداکیا ہے اس سے تاریخ
کے صفحات روشن ہیں صوفیائے کرام اﷲ عزوجل کے فرمان اورنبی کریم ﷺ کی سنت کی
منہ بولتی تصویر تھے ان حضرا ت نے اپنی زندگیا ں اﷲ عزوجل کے فرمان اورنبی
کریم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں بسر کیں صوفیائے کرام کے ان کارناموں پر
اہل اسلا م جتنا بھی فخر کریں وہ کم ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ برصغیر پاک و
ہند میں اسلام کی شمع روشن کرنے میں ان صوفیاء کرام نے نمایا ں کردار ادا
کیا صوفیاء کرام نے اس وقت ایک عظیم کار نامہ سرانجام دیا جب مسلمانوں نے
دین اسلام کو اپنی عقلوں کے تابع کرنا شروع کردیا تھا۔ صوفیاء کرام نے اﷲ
عز و جل کی محبت اور رسول اﷲ ﷺ کی اتباع کا درس دیا اور ٹھوس دلائل کے ساتھ
اس بات کو ثابت کیا کہ دین اسلام عقلیات نہیں عقائد کانام ہے ان عقائد میں
سب سے پہلاعقیدہ اﷲ عزوجل کی وحدانیت کا اقرار اور رسول اﷲ ﷺ کی رسالت کا
اقرار ہے ۔ صوفیاء کرام کے اسی گروہ سے تعلق رکھنے والے بر صغیر پاک و ہند
کے نامو ر صوفی بزرگ حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نے بھی اپنے اکابرین کے مشن کو
جاری رکھا اور لوگوں کواﷲ عزوجل کی وحدانیت کا درس دیا حضور نبی کریم ﷺ کے
اسوہ حسنہ پر چلنے کی تلقین کی اور لوگوں میں باہمی اخوت و رواداری کو فروغ
دیا ۔حضر ت بابا بلھے شاہ ؒ کی تعلیمات ان کی حیات مبارکہ آنے والے لوگوں
کے لیے نمونہ ہے آپ ؒ نے اپنے اشعار میں جا بجا لوگوں کو اﷲ عزوجل کی
وحدانیت کادرس دیا ہے حضر ت بابا بلھے شاہ ؒ کا شمار برصغیر پاک و ہند کے
نامو ر صوفیا ء کرام میں ہوتا ہے آپ ؒ اپنی صوفیانہ شاعری کی وجہ سے اپنے
ہم عصروں میں نمایا ں مقام رکھتے ہیں آپ ؒ کا اصل نام سید محمد عبد اﷲ شاہ
ؒ ہے لیکن آپ ؒ بابا بلھے شاہ ؒ کے نام سے مشہور ہوئے آپ ؒ کی وحدانیت اور
صوفیانہ شاعری کی بدولت مسلم اور غیر مسلم یکساں طورپر آپؒ کاا حترام کرتے
ہیں۔ حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کا تعلق سادات گھرانے سے تھا اورآپ ؒ کا سلسلہ
نسب چودہ واسطوں کے ساتھ پیرا ن پیر محی الدین حضور سیدنا غوث الا عظم
دستگیر حضر ت سید عبدالقادر جیلانی ؒ سے جا ملتا ہے آپ ؒ سلسلہ قادر یہ
شطاریہ میں حضرت عنایت شاہ قادر ی شطاری ؒ کے دست حق پر بیعت ہوئے اورسلوک
کی منازل طے کرنے کے بعد بلند روحانی مقام پر فائز ہوئے ۔حضرت بابا بلھے
شاہ ؒ کا شمار برصغیر پاک و ہند میں بالعمو م اور پنجاب میں بالخصوص سب سے
بڑے صوفی شعراء میں ہوتا ہے آپ ؒ کا کلا م پنجابی زبان میں ہے جس کا ترجمہ
وقتا فوقتا مختلف زبانوں میں ہوتا رہا ہے آپ ؒ کی شاعر ی میں انسان کی
تخلیق کا مقصد ٗ اس کی آمد کا مقصد ٗ نفس کی خرابیوں کا تذکرہ ٗ عشق حقیقی
اور عشق مجازی میں فرق ٗ مرشد کامل کی توجہ ٗ فنافی اﷲ اور فنا فی الرسول
کا تذکر ہ جا بجا موجود ہے ۔آپ ؒ نے اپنی شاعری میں روحانیت کے پوشیدہ رموز
کو نہایت ہی آسان الفاظ میں بیان کیا ہے اور انسان کو اس بات کی طرف توجہ
دلا ئی ہے کہ وہ منزل حقیقی کی تلاش سے پہلے خود کو تلاش کرے کیونکہ اﷲ
عزوجل نے اس کو کسی مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے اور اس کی تخلیق بے معنی نہیں
ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نے بیعت ہونے کے بعد پیر و مرشد حضرت شاہ عنایت
قادری شطاری ؒ کے حکم کے مطابق سخت عبادت و ریاضت کو اپنامعمول بنالیا۔
حضرت شاہ عنایت قادری شطاری ؒ چونکہ قادر ی سلسلہ کے علاوہ شطاری سلسلہ سے
بھی منسلک تھے اوراس سلسلے کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ لوگ سخت عبادت و
ریاضت کے عادی ہوتے ہیں شطاری سلسلہ کاتعلق حضر ت بایزید بسطامی ؒ سے ہے
اورشطار کامطلب ہے تیز اور سر گرم ۔ اس سلسلے کے بزرگ زیادہ تر جنگلوں اور
بیابانوں میں اپنی ریاضت اور عبادت کی تکمیل کرتے ہیں لہذا یہی بات ہے کہ
حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نے بھی سخت عبادت و ریاضت کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
عبادت و ریاضت کے بغیر گوہر مقصود کا حصول ممکن نہیں ہے حضر ت بابا بلھے
شاہ ؒ کو جب پیرو مرشد کی جانب سے عبادت و ریاضت کا حکم ملا تو آپ ؒ نے
مرشد کے حکم کی تکمیل میں لاہو ر سے جھنگ کا سفر کیا اورایک بالکل غیر
مانوس علاقہ جس کا پہلے حضرت بابا بلھے شاہ نے صرف نام سنا تھا کی جانب تن
تنہا چل دیئے پیرو مرشد بھی اپنے اس مرید کی باطنی اورروحانی طاقتوں سے
آگاہ ہونا چاہتے تھے لہذا آپ ؒ نے فرمایا : سنو عبداﷲ: اپنے نفس کو ،قوت کو
آزمانا ٗ کبھی بھوک اور کبھی پیاس سے ٗ کبھی تیز دھوپ اور کبھی سخت سردی سے
ٗ یاد رکھنا صبر ٗ قناعت اور توکل تصوف کی عمدہ ترین عمارت کے چار ستون ہیں
ٗ اگر ایک ستون بھی کمزور ہوتو عمارت منہدم ہوجائے گی میرے پیارے سنو ! ہم
سب بلاشبہ عالم اسباب میں سانس لے رہے ہیں لیکن مسبب الاسباب وہی ذات پاک
ہے ٗ غیر کی گلیوں میں زندہ رہنے سے کو چہ یار میں مر جانا بہتر ہے میرے
پیارے ! جاؤ میر ی دعا تمہارے ساتھ ہے کہ تمہاری منزل آسان ہو ‘‘ ۔ اس کے
بعد حضرت بابا بلھے شاہ ؒ لاہور سے جھنگ کی جانب چل پڑے دل میں یہ خیال
نہیں تھا کہ مال پاس نہیں ہے ٗ رہائش اور کھانے کاانتظام کیسے ہوگا ؟
کیونکہ آپ ؒ نے ان خیالات کو مرشد پاک کے ارشادا ت کی روشنی میں جھٹلا دیا
تھا اور جب آپ ؒ جھنگ پہنچے تو دریا ئے چناب کے کنارے ایک خستہ حال جھونپڑی
خود ہی بنائی اور اس جھونپڑی میں کامل سکون کے ساتھ اپنی عبادت کو جاری
رکھا جھونپڑی کے لیے لکڑیاں درختوں کی شاخوں سے حاصل کیں اور پرد ے کے لیے
بوسیدہ کپڑے ٗ چٹائیوں اور ٹاٹ کے پرانے ٹکڑے حاصل ہوگئے۔ یہاں پر آپ ؒ کئی
برس تک عباد ت و ریاضت میں مصروف رہے آپ ؒ اس خطے میں رہتے تھے جہا ں پر
تمام موسم پور ی آب و تاب سے جلوہ گر ہوتے تھے جب شدید بارشیں ہوتیں تو
جھونپڑی تباہ ہوجاتی لو کے تھپیڑے چلتے جب یخ بستہ ہوائیں چلتی ہوں گی تو
کیسے گزارہ ہوتا ہوگا مگر آپ ؒ دنیا سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف اﷲ تعالی
سے لو لگا ئے بیٹھے رہے آپ ؒ کے طرز عمل کو وہ کسا ن بھی دیکھتے جن کی زرعی
اراضی دریا کے قریب تھی ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ایک نوجوان دنیا سے بے
نیاز عبادت الہی میں ہمہ تن مشغول رہتا ہے اوردوسرے درویشوں کی طرح دست
سوال نہیں کرتا تو ایک دن ایک کسان صبح سویرے مکئی کی روٹیاں اورساگ لے کر
آپ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بڑے ادب سے عرض کیا کہ اگر آپ ؒ اسے کھالیں
تو میں بڑی خوشی محسوس کروں گا آپ ؒ نے اس کے اصرار پر ایک روٹی کھالی
اورباقی روٹیاں اورسالن اس کسان کو واپس کردیا اس کسان نے گڑ گڑا کر عر ض
کیا : ’’ حضور کیا آپ ؒ کو میری روٹیاں اور سالن پسند نہیں آئے ‘‘ آپ ؒ نے
فرمایا : ’’نہیں ! بلکہ میں نے تو پسندیدگی کے ساتھ آپ کی لائی ہوئی روٹی
کھائی ہے لیکن مجھے میرے مرشد پاک کا حکم ہے کہ کم کھاؤں اور کم سوؤں
چنانچہ میں نے اسی لئے ایک ہی روٹی کھائی ہے ‘‘ حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کا
تذکرہ اس کسان نے جاکر اپنی برادری اور دیگر لوگوں سے بھی کیا پھر کیا تھا
لوگ جوق در جوق آپ ؒ کے پاس آنے لگے کھانے پینے کی اشیاء کا ڈھیر لگ گیا
اورآپ ؒ کی عبادت میں خلل واقع ہونے لگا لوگوں نے ہمیشہ عمر رسیدہ لوگوں کو
ہی اتنی سخت ریاضت کرتے ہوئے دیکھا، سنا تھا مگر یہ نو جوان توابھی سے اتنی
کڑی ریاضتیں اورمحنتیں کررہا تھا اب حضرت بابا بلھے شاہ ؒ اس تنہائی کی
کیفیت سے دو چار نہیں تھے جس تنہائی میں آپ ؒ نے نے گزشتہ کئی ماہ گزارے
تھے آپ ؒ کا دل ہجوم دیکھ کرگھبرانے لگا آپ ؒ جب از حد ادا س ہوجاتے تو پیر
و مرشد حضرت شاہ عنایت قادری شطاری ؒ خواب میں وارد ہوکر آپ ؒ کو تسلی دیتے
آپ ؒ کو اس بات کا احساس تھا کہ مرشد پاک کی نظر کرم کی وجہ سے محنت رائیگا
ں نہیں جائے گی اسی لئے آپ ؒ اورزیادہ انہماک سے عبادت میں مصروف ہوجاتے
۔حضرت بابا بلھے شاہ ؒ ایک سو دس سال کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے
آپ ؒ کا مزار پاک قصور شہر میں منبع رشد و ہدایت ہر خاص و عام ہے۔ آپ ؒ کے
مزار پاک سے علم و عرفان کی روشنی آ ج بھی جاری ہے اور ہزاروں طالب عرفاں
اپنی پیاس بجھانے کے لیے آپ ؒ کے مزار پاک پر حاضر ہوتے ہیں اور دلی مرادیں
پاتے ہیں ۔حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کا نام صوفیائے کرام کے گروہ میں ایک
درخشاں ستارے کی مانندہے آپ ؒ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ آپ ؒ نے اپنے ذاتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کی سر بلندی کے لیے
اپنی زندگی بسر کی اور دین کی تبلیغ اورشریعت کی پاسداری کو اولین ترجیح دی
۔آ پ ؒ کی سیرت پاک کا مطالعہ کرکے ہم بھی اپنی زندگیا ں دین اسلام کی
روشنی میں گزارسکتے ہیں اﷲ پاک عمل کی توفیق عطا ء فرمائے ۔آمین |