کیا عرب اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے؟
(Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed, )
ایک زمانہ تھا یہ عرب اپنی وحشت
ناک درندگی میں اپنی مثال آپ تھے، اور وہ کونسی برائی تھی جو ان میں موجود
نہ تھی ، اسلئے سارا عالم ان کی بربریت کی داستان سن کر لرزہ براندام تھا،
اپنی ہی سیادت کو باقی رکھنے کے لیٔے کسی اور کی قیادت کو تسلیم کرنے پر
تیار نہیں تھے، اسلئے کویٔ بھی ان پرحکومت کرنے کو تیارنہ تھا ،لیکن محمدﷺکی
بعثت اور اعلانِ نبوت اور آ پ کی محنت ِ شاقہ کے بعد یہ حالت یکسر بدل گیٔ
،اورایک ایسا عظیم انقلاب برپا ہوا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں
ملتی ،شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے اس دور کی عکاسی اپنے اس شعر میں اسطرح
کی ہے ::فاران کی چوٹی سے جب صدا ہویٔ بلند ،جھوٹی سیادت کے جنازے نکل
گیٔے::یعنی ان کی زندگیاں اور حالات ایسے بدلے کہ انسانی عقل بھی دنگ رہ
گئی ، یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ،اب ایک دوسرے کے ہمدرد و بھایٔ بن
گئے،اور سارے برے اعمال سے توبہ کر لی تھی اور وہ منظر سامنے آیا جو سارے
جہاں میں بالکل نیا اور منفرد تھا ،اب یہ عرب وحشی و خونخوار انسانیٔت کے
حقیقی محسن بن کر دنیا کے سامنے آے ،اور اسطرح ان کی ایک خاص شناخت بھی
قائم ہوئی تھی، جس سے یہ سارے جہاں میں نہ صرف ممتازبنے، بلکہ امن و آمان
کے پیامبریا علمبردار بن کر اُبھرے تھے،
خالق کایٔنات نے انہیں اپنے حبیب محمدﷺ کے واسطہ سے جو فرض منصبی عطا
فرمایا تھااسے وہ بلا کم وکاست نبھایا،اور اس فرایٔض منصبی کو نبھانے میں
کسی بھی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے اور ہر آن سر فروشی کامظاہرہ کیا ،یہاں تک
کہ اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا،اسلیٔے اﷲ تعا لیٰ
نے ان کو ایسی فضیلت بخشی جس سے قیامت تک آنے والا مسلمان رشک کرتا
رہیگا،لیکن افسوس آج یہی عرب اپنے اس فرضِ منصبی سے بالکل لا پرواہ نظر
آرہے ہیں ،کل تک انہیں اپنے شعار یعنی شعارِ اسلام پر ناز تھا،آج انہیں
غیروں کے طور طریقہ اچھے لگنے لگے ہیں،کل تک دنیا ان کے نام سے کانپتی
تھی،لیکن آ ج ان پر دنیا کا خوف تاری ہے ،کل تک انہیں اپنے لباس پر فخر
تھا،لیکن آ ج انہیں اپنے لباس پر بھی اطمنان نہیں رہا، کل تک دنیا ان کی
عورتوں کو دیکھنے کی تمنّا کرتی تھی ،اور ان کی یہ تمنّا ان کے اندر گھٹ کر
رہ جاتی تھی،لیکن آج یہ اپنی عورتو ں کو یوروپ اور دیگر بازاروں میں بے
پردہ کر کے تماشہ بنا رہے ہیں،
یہ عرب فقیر اور بھوک مرے ضرور تھے،لیکن اپنی ٹوٹی ہویٔ تلوار سے صرف ایمان
ویقین کے بل پر وقت کے متکبّرحکمرانوں کے سروں سے بادشاہی کے تاج کو اُتار
پھینکا تھا، یہ عرب محمدﷺ کی رہنمائی و تربیت کے بعد دین حق کے داعی بن
کراس پیغام حق کو دنیا ئے انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لئے ٹڑپتے اور بے
چین رہتے تھے ،مگر آج یہ باطل کے مدعو بن رہے ہیں ، ، فخر کائنات محمدﷺ کی
تربیت کے بعد اﷲ کے ایک حکم اور اپنے نبی کے ایک اشارہ پر ساری شرابیں
راستوں اور گلیوں میں بہا دینا ان کے لئے آسان ہوا تھا،اور ساری برایؤں سے
پاک ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آیا تھا،
لیکن افسوس آج یہ اسی طرف لپکتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور شراب خانہ،قحبہ
خانے،قمار خانے اب ان کی تہذیب کا حصّہ بن رہے ہیں ،اور ،لیکن احساس یا
ادراک شایٔد ہی انہیں ہو،کیونکہ اب انہیں صرف جھوٹی شہنشاہیٔت کا نشہ ہے ،مگر
یہ کویٔ معمولی مسئلہ نہیں ،بلکہ کسی بڑے المیہ کی دستک ہے،جس سے پوری
اُمتہ مسلمہ اثر انداز ہوگی ،اب اگر مسلمان پھر سے اپنی قیادت یا سیادت یا
اپنے وقار یا عزت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے عربوں کو ان
کافرض منصبی یاد دلاکر انہیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر کھینچ کرلانا ہوگا،
ورنہ وہ دن دور نہیں یہ عرب سب سے پہلے اپنی شناخت کھوبیٹھیں گے اور ذلت و
رسوایٔ کے ایسے غار میں گر جائیں گے، جہاں سے نکلناان کے لیٔے محال بن
جایٔگا،اور ان کی قسمت پر ہمیشہ کے لیٔے مہر لگ جاے گی اور یہ ایسا ناقابلِ
تلافی نقصان ہوگا جو صرف عربوں کی حد تک نہیں ہوگا بلکہ جس کاخمیزہ پوری
اُمتہ مسلمہ کو بھگتنا پڑیگا،اور جسے دوبارہ بحال یا قائم کرنا انتہائی
مشکل امر ہوگا ، اور ربّ کائنات کا فرمان صادر ہوگا، جسے ہوتے ہے دنیا کئی
بار دیکھ چکی ہے، واِن تتولّویستبدل قوما ًغیرکم ثم لایکو نُ امثالکم، اور
اس عظیم نقصان پرانہیں اقبالؒ کے اس شعر کو یاد کرکے رونا پڑیگا،
گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی،سرّیا سے زمیں پر آسماں نے ہم
کو دے مارا۔۔ |
|