ڈیمیان موران برطانیہ کا شہری ہے،
مسیحی ہے یا لامذہب․․․ہم نہیں جانتے، مسلمان بہرحال نہیں، ہاں، اس میں کوئی
شک نہیں کہ وہ ایک درمند، انصاف پسند اور جرأت مند انسان ہے۔ اس کے دردِدل،
انصاف پسندی اور دلیری کی عکاس وہ پٹیشن ہے جو اس نے برطانیہ کی سرکاری ویب
سائٹ پر لاؤنچ کی ہے۔ اس درخواست میں موران نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے
کہ وہ آئندہ ماہ برطانیہ کا دورہ کرنے والے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین
نیتن یاہو کو ان 2 ہزار فلسطینیوں کے قتل میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا جائے،
جنھیں اسرائیلی فوج نے 2014 میں غزہ پر اکیاون روزہ یلغار کے دوران قتل کیا
تھا۔ اس آن لائن پٹیشن پر اب تک 80 ہزار سے زیادہ برطانوی شہری دستخط کرچکے
ہیں۔
برطانیہ کے قوانین کے مطابق ملک کا کوئی بھی شہری سرکاری ویب سائٹ پر کسی
معاملے پر پٹیشن دائر کرسکتا ہے، جس میں وہ حکومت اور پارلیمنٹ سے ایکشن
لینے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس پٹیشن پر دستخطوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ
جاتی ہے (یقیناً اب تک یہ تعداد اس ہدف کو پاچکی ہوگی) تو اس معاملے کو
پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ میری اور آپ کی طرح خود
موران کو بھی امید نہیں کہ اس درخواست پر کوئی ایکشن لیا جائے گا اور
برطانوی حکومت نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ برطانیہ میں غیرملکی حکومتوں کے
سربراہوں قانون سے تحفظ حاصل ہے اور انھیں گرفتار نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس
معاملے کا خوش کُن اور امید افزا پہلو اس پٹیشن پر ہونے والے 80 ہزار سے
زیادہ دستخط ہیں۔ واضح رہے کہ اس پٹیشن پر صرف برطانیہ کے شہری دستخط
کرسکتے ہیں۔
ڈیمیان موران اور اس کی دائر کردہ درخواست کی دستخطوں کے ذریعے حمایت کرنے
والے لوگ ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جس کے حکم راں صہیونیت کا ساتھ دیتے
ہوئے اسرائیل کا قیام عمل میں لائے تھے اور نسلی تعصب، فریب اور دہشت کی
بنیاد پر بننے اور اپنا وجود برقرار رکھنے والی اس ریاست کی کُھل کر
سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ برطانوی سلطنت کا سورج غروب ہونے اور امریکا کے
عالمی طاقت بن کر ابھرنے کے بعد اگرچہ امریکا اسرائیل کو برطانیہ سے گود لے
چکا ہے، لیکن اب بھی لندن کا حکم راں طبقہ صہیونی ریاست کی ہر ممکن مدد
کرتا ہے۔
برطانیہ کے انسان دوست اور انصاف پسند افراد کی جانب سے ایسی کوشش پہلی بار
نہیں کی جارہی، فلسطینیوں کے حامی برطانوی وکلاء نے اسرائیل کے وزیرانصاف
Tzipi Livn کے دورۂ برطانیہ کے موقع پر بھی ایسی ہی کاوش کی تھی، جسے
ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مظلوم فلسطینیوں کا معاملہ ہو یا افغانستان
اور عراق کے خلاف امریکی جارحیت، ہمیں جہاں اس سب میں مغربی ممالک کے حکم
رانوں، ان کی افواج، سیاست دانوں اور میڈیا کا سیاہ کردار نظر آتا ہے، وہیں
ان ہی دیسوں میں بسنے والے لاکھوں افراد کے روشن چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں
جنھوں نے ان مظالم اور جارحیتوں کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بل کہ عملی
طور پر جو ممکن تھا کیا۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملوں کے خلاف جتنے
بڑے مظاہرے مغربی ممالک کے شہروں کے ہوئے اس کے آدھے بھی مسلم دنیا میں
نہیں ہوسکے۔
یہ حقائق مسلم دنیا، خاص طور پر پاکستان میں مغرب کے حوالے سے موجود سوچ کی
نفی کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں خصوصاً مذہبی طبقے میں مغرب کو خاص نظر سے
دیکھا جاتا ہے اور یہ غلط فہمی عام ہے کہ مغرب کا ہر خاص وعام مسلمانوں کا
دشمن ہے، یہ حقیقت ہے کہ امریکا اور یورپ کے طاقتور لابیز، جو اقتدار کے
معاملات چلاتی ہیں، مسلم دشمنی کی روش پر گام زن ہیں، لیکن جہاں تک ان
ممالک کے عام لوگوں کا تعلق ہے، تو وہاں انسان دوست اور امن دوست افراد کی
بہت بڑی تعداد آباد اور اس رجحان کے ہمارے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ
فعال ہے، جس کا اندازہ برطانیہ میں سامنے آنے والی اس آن لائن پٹیشن اور اس
پر ہونے والی دستخطوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سرگرمیاں اس کے باوجود
ہوئی ہیں کہ مغربی میڈیا بڑی مہارت کے ساتھ حقائق چھپاتا اور عوام کو دھوکا
دیتا ہے۔ فلسطینیوں کا قتل عام ہو، عراق اور افغانستان پر حملے ہوں یا
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ، مغربی میڈیا کا کردار ہمیشہ منافقانہ
اور حقائق کی پردہ پوشی پر مبنی ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ غیرجانب داری کا
سوانگ رچاتے ہوئے مظلوم کے بجائے ظالم کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے باوجود
مغرب کے وہ لوگ جو سچائی کی تلاش کرکے اس کی حمایت میں نکل کھڑے ہوتے ہیں
قابل ستائش ہیں-
سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک کے عوام کو فلسطین پر اسرائیلی مظالم، کشمیر میں
بھارت کے ظلم وجبر اور امریکا کے مسلم ممالک افغانستان اور عراق پر حملوں
اور ایسے ہی دوسرے اقدامات کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرنے کے لیے ہم نے کیا
کیا۔
برطانیہ وہ ملک ہے جس نے اسرائیل قائم کیا اور پھر اس کی سرپرستی کرتا رہا
ہے، ایسے ملک کے ہزاروں شہریوں کا وہاں ہماری طرف سے کسی کوشش کے بغیر اس
طرح کا اقدام کرنا خوش آئند اور قابل داد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم
امریکا اور یورپ کے عوام کے سامنے حقائق لائیں تو وہاں مسلمانوں کے موقف کے
حق میں رائے عامہ ہم وار ہوسکتی ہے، اور عوام کا دباؤ حکومتوں کو مکمل طور
پر نہیں تو خاصی حد تک مسلم اور اسلام مخالف پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور
کرسکتا ہے، کیوں کہ مغرب میں بہرحال رائے عامہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس طرح
کی تبدیلی مسلم دنیا میں سرگرم انتہاپسندوں کے دہشت گردی کے جواز اور اس
نیریٹیو کو بھی چیلینج کرے گی کہ ہم ہتھیاروں اور تشدد کے ذریعے ہی اپنا
موقف منوا سکتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا امریکا اور یورپ کے عوام کو سچ بتانے کے لیے کوئی
کوشش نہیں کرتے۔ یہ کام میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے،
مگر عالمی سطح پر مسلمان اس شعبے میں بہت کم زور ہیں، بل کہ مسلم ممالک کے
لوگ دوسروں کی بابت خبریں بھی مغربی میڈیا کے ذریعے جان پاتے ہیں۔ مسلمانوں
کو اس شعبے پر پوری توجہ دینی ہوگی، ہمیں امریکا اور یورپ میں انگریزی اور
مقامی زبانوں میں چینل اور اخبارات لانے ہوں گے، یہ عمل کچھ طویل ضرور ہے
لیکن اس کے اثرات دوررس اور دیرپا ہوں گے۔ اس حوالے سے مسلم ممالک کی
حکومتوں سے کوئی توقع رکھنا بے کار ہے، لیکن ہم میں سے وہ لوگ جو کشمیر سے
فلسطین تک جاری مظالم پر دل جلاتے ہیں، جو اس معاملے میں مغربی دنیا اور
عالمی طاقتوں کے رویے کا شکوہ کرتے ہیں، وہ سوشل میڈیا کا ذریعے اپنا موقف
مغربی دنیا کے عام آدمی تک پہنچا سکتے ہیں۔ صرف پاکستان کے دس ملین سے
زیادہ شہری فیس بک سے وابستہ ہیں، اگر دیگر مسلم ممالک کے سوشل میڈیا پر
موجود افراد کا شمار کیا جائے تو یقیناً یہ تعداد کروڑوں تک جاپہنچے گی، ان
میں سے کیا چند لاکھ افراد بھی یہ کوشش نہیں کرسکتے۔ سوال یہ نہیں کہ حالات
بدلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے، دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، یہ
دلیل، منطق اور حقائق ایسے ہتھیار ہیں جنھیں استعمال کرکے آپ حالات میں بڑی
حد تک تبدیلی لاسکتے ہیں۔ یہ کوشش صبرآزما اور وقت طلب ضرور ہے، لیکن اس کے
اثرات مسلم ممالک اور دنیا کے لیے خیر کا باعث ہوں گے۔ تو آئیے خیر اور
سلامتی کی تلاش میں کوششوں کا آغاز کریں۔ |