جواب دو....کیا نواز شریف ایک
آمر جنرل ضیا الحق کی باقیات ہیں..... ؟
کیا نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہمیشہ اقتدار کی ہوس رہی ہے.....؟
یہ حقیقت ہے کہ ملک کے سابق صدر فاروق احمد لغاری تو ہمیشہ نواز شریف کو
جنرل ضیا الحق کی باقیات سمجھتے رہے اور اِس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ
یہی وجہ ہے نواز شریف کو جب بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اِس کے
پیچھے کسی نہ کسی جنرل کی ہی مہربانی کار فرما رہی ہیں جو یہ دو بار اقتدار
میں آئے اور یوں اُنہوں نے ہر بار اپنا اقتدار کسی جنرل کے کاندھے پر چڑھ
کر حاصل کیا اور ہر مرتبہ اقتدار سنبھالتے ہی فوج کے خلاف ہوگئے جس کی وجہ
سے اِنہیں اپنے اقتدار کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی اِس سے ہاتھ دھونا پڑا
اور اِس طرح نواز شریف نے اپنے پہلے اقتدار کے خاتمے کے بعد اور اپنے دوسرے
اقتدار سے قبل آنے والی نگراں حکومت کے دور میں بھی فوج کی چاپلوسی شروع
کردی تھی اور تب ہی تو اُنہوں نے اُس وقت کے جنرل جہانگیر کرامت کی نیشنل
سیکورٹی(CDNS)ٓکے حوالے سے اِن کی پیش کردہ ایک معقول تجویز کی حمایت کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ہمارے ملکی حالات میں فوج کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا اور پاکستان کے سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لئے یہ بہت ضروری
ہے کہ ملک کی سیاسی قوتوں اور مسلح افواج کے مابین ہم آہنگی ہو تاکہ جب فوج
ہمارے ساتھ رہے تو ہم خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور داخلی استحکام سمیت
دیگر شعبوں کے لئے بہترین منصوبہ بندی کرسکیں اور اِس کے ساتھ ہی اَب میرے
قارئین اُس تجویز کا بھی بغور مطالعہ کریں جو جنرل جہانگیر کرامت نے ایک
اعلیٰ ترین سطح پر نیشنل سیکورٹی(CDNS)ٓکے حوالے سے ایک ایسی کمیٹی بنانے
کی تجویز پیش کی تھی جس کی نواز شریف نے اپنے(دوسرے) اقتدار سے پہلے بہت
تعریفیں کی تھیں اور اِسے بے انتہا کر سراہا تھا جنرل جہانگیر کرامت کی وہ
تجویز یہ تھی کہ”ملکی سالمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے نیشنل سیکورٹی کونسل
قائم کر کے اِن تمام آئینی اور سیاسی بحرانوں کے خاتمے کی پیش بندی کرنی
چاہئے کہ جن کی وجہ سے ملک کو بار بار انتخابات کا متحمل ہونا اور مارشل لا
کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں CDNSکی یہ اولین ذمہ داری اور فرائض ہوں گے کہ
یہ فیصلے کرنے کی مجاز ہو، نہ کہ صرف حکومت کو مشاورت فراہم کرنے کی پابند....بلکہ
اِسے از خود فیصلوں کا آئینی اور قانونی حق بھی حاصل ہو اور جِسے قابل
اعتمادِ مشیران اور ماہرین کی تھینک ٹینک کی بھی خدمات حاصل ہو اِس نظام
میں جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کواٹرز، وزراتِ دفاع اور مسلح افواج کو بھی شامل کیا
جاسکتا تھا۔“
اگرچہ کہا جاتا ہے اِس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت کی
اُس پیش کردہ تجویز کی تقریباً تمام محب وطن سیاسی جماعتوں سمیت خود
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے محب وطن سیاسی زعمانے بھی زبردست خیر مقدم کیا تھا
لیکن جب نواز شریف کو1997میں دوسری بار اقتدار ملا تو اُنہوں نے اپنی حکومت
سنبھالتے ہی اِس کے اگلے ہی روز اپنے اُس مؤقف کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا
جس کی حمایت یہ نگراں دور ِحکومت میں کرچکے تھے اور جنرل جہانگیر کرامت کی
پیش کردہ اُس معقول ترین تجویز پر سختی سے نوٹس لیتے ہوئے نواز شریف نے
اِسے اپنی اور ملک میں آئندہ آنے والی حکومتوں کے لئے ایک بڑی سازش قرار
دیا تھا اور آج بھی تاریخ کی کتابوں میں یہ الفاظ درج ہیں کہ شریف برادران
نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے تین سے چار گھنٹے تک ایک بند
کمرے میں ملاقات کی جس کے اگلے ہی روز آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت انتہائی
خاموشی اور راز داری سے اپنی طبیعت کی خرابی کو جواز بناتے ہوئے اور غالباً
اپنی تجویز کو اپنی ذاتی رائے قراردے کر اپنے اِس اہم ترین عہدے سے مستعفی
ہوگئے۔
حالانکہ آج بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ جنرل جہانگیر کرامت نے اپنی یہ
تجویز باہمی مشاورت سے دی تھی اور نواز شریف کی بھی اِن کی اِس تجویز پر
بھرپوُر حمایت اور تائید حاصل تھی مگر حسبِ روایت اور فطرت نواز شریف نے
وہی کیا جو یہ اِس سے قبل بھی کر چکے تھے یعنی اپنی غیر سیاسی بالغ النظری
کے باعث وہ اپنے اقتدار کی مسند پر قابض ہوتے ہی یہ فوج سے پنگے بازیاں
شروع کردیتے ہیں اِس بار بھی یہ جنرل جہانگیر کرامت کیCDNSکی تجویز سے مکر
گئے اور اِس ہی بنا پر اِن کے ایک سب سے بڑے مخالف کے روپ میں سامنے آئے
اور اِن کی اِس تجویز کی اِس قدر مخالفت کی کہ بالآخر بیچارے جنرل جہانگیر
کرامت کو اِس ملک کی بقا و سالمیت کے خاطر خود ہی اپنے عہدے سے مستعفیٰ
ہونا پڑگیا اور یوں نواز شریف کی اِن کے خلاف تیار کی گئی سازش کامیابی سے
ہمکنار ہوئی کیونکہ نواز شریف شائد اُس وقت سے ہی اِن سے خائف ہوگئے تھے کہ
جب جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکورٹی بنانے کی تجویز پیش کی تھی اور وہ
پہلے ہی یہ تہیہ کرچکے تھے کہ اگر اِن کی قسمت میں دوبارہ اقتدار ملا تو وہ
سب سے پہلے جنرل جہانگیر کرامت کو ہی اِن کے عہدے سے ہٹا دیں گے یا اِن کی
CDNSکی تجویز کے خلاف کوئی ایسی سازش تیار کریں گے کہ جنرل جہانگیر کرامت
اپنی تجویز کی ناکامی پر خود ہی اپنے عہدے کو چھوڑ جائیں گے اور پھر وہی
ہوا کہ جنرل جہانگیر کرامت سول حکومت کے روپ میں اُس وقت کے آمر وزیر اعظم
نواز شریف کی سازش کا شکار ہوگئے اور وہ جنہیں 11جنوری1999 کو اپنے عہدے سے
ریٹائر ہونا تھا وہ قبل از وقت اپنا یہ عہدہ چھوڑ گئے۔
یوں یہی نواز شریف ہیں کہ جنہوں نے سینارٹی کے لحاظ سے جنرل علی قلی خان
اور خالد نواز کو پسِ پشت ڈال کر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا اور
اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک منہ چڑھاتی اور بازو اُچکاتی حقیقت ہے کہ شروع
شروع میں تو پرویز مشرف ..... نواز شریف کی جانب سے یوں نوازے جانے پر
پھولے نہیں سماتے تھے اور ہر طرف نواز شریف کے دم چھلہ ہی بنے پھرا کرتے
تھے( اور یہی جنرل پرویز مشرف جنہوں نے بعد میں نواز شریف کی کھٹیا کھڑی
کردی تھی) مشرف، نواز شریف کی حکم عدولی کرنا گناہِ عظیم سمجھتے رہے مگر
جیسے جیسے مشرف، نواز شریف کی عادتوں اور فطرت کو سمجھنے لگے تو مشرف اور
نواز کے درمیان ایک وسیع و عریض خلیج حائل ہونے لگی اور بالآخر یہ خلیج
کارگل کا محاذ کھلتے سے قبل ہی اُس وقت سامنے آئی جب نواز شریف نے احتساب
کے نام پر اپنے مخالفین کو پھنسانے کا ایک جامع منصوبہ بنایا جس سے متعلق
آج بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اِس احتساب کی آڑ میں نواز شریف نے اپنوں کو دودھ
سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینکنے جیسے عمل کا سہارا لے کر اِنہیں بچانے
کا منصوبہ بنا رکھا تھا جس مشرف سخت ناراض تھے اور دوسری طرف نواز شریف نے
اپنے اِسی دوسرے دور میں ”قرض اُتارو ملک سَنوارو“ کی آڑ میں بھی بیرونی
ملک سے زیادہ سے زیادہ امداد حاصل کرنے کی ٹھانی اور یوں نواز شریف ایک بڑا
سا میڈئین پاکستان کا کشکول اٹھانے بھیک اور امداد مانگنے کے لئے ساری دنیا
میں در در مارے مارے پھرتے رہے اور اِس دوران اُنہوں نے اپنی بھیک مہم کے
دوران اربوں امریکی ڈالرز کی امداد جمع کی(جو اِن کے دور میں 3ارب 20کروڑ
ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے علاوہ تھی) اِس امداد سے متعلق آج بھی یہ خیال
کیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے امداد کی مد میں ملنے والے اربوں ڈالر کو
ملک کی فلاح کے لئے آٹے میں نمک کے جتنی مقدار سے بھی بہت کم خرچ کیا مگر
ساری کی ساری اربوں ڈالرز کی امداد وہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں کھلائے
گئے اپنے کھاتوں میں اُنڈلتے رہے اور اُنہوں نے اِن ڈالروں کو اپنے کھاتوں
میں اِس قدر اُنڈیلا کہ وہ لبالب بھر کر چھلک اُٹھے مگر پھر بھی وہ اپنی
اِس کرپشن سے باز نہ آئے اِسے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ ساری دنیا نے بھی
خود دیکھا کہ نواز شریف نے قرض اُتارو ملک سنوارو کی آڑ میں کتنی کرپشن کی
ہے جو اَب سب کے سامنے آ چکی تھی اور یوں نواز شریف کی اِس کرپشن اور فوج
کے خلاف کی گئی سازشوں کا ایک بھیانک انجام 12اکتوبر 1999کی اُس وقت ہوا جب
نواز شریف کے ہی لائے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے اِن کی بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ
حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود کو چیف ایگزیکٹیو کی اصلاح کے ساتھ دنیا کو
متعارف کروایا اور ملک کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور نواز شریف کو
اپنا جہاز اغوا کرنے کی پاداش میں کئی سال کے لئے ملک بدر(جلاوطن )کردیا
اور پھر بعد میں متحرمہ بے نظیر بھٹو کی کاوشوں اور انتھک محنت کے بعد جب
مشرف اِن کے بہلاوے میں آئے تو نوازشریف اپنی جلاوطن ختم کر کے ملک واپس
آئے گئے اور تب سے یہ اَب تک تو ملک میں ہیں مگر پرویز مشرف اِن کی سازشوں
کا شکار ہوکر ملک سے باہر نکل گئے ہیں شائد یہ ایک خود ساختہ جلاوطنی کی
حیثیت سے بیرونی ممالک میں خود ہی رہنے پر مجبور ہیں حالانکہ وہ ملک آ
...جا بھی سکتے ہیں مگر وہ پھر بھی ایسا نہیں آرہے ہیں۔ کیونکہ نواز شریف
نے موجودہ حکومت کو مشرف سے انتقام لینے اور اِنہیں سزا دلوانے کے لئے تیار
کر رکھا ہے۔
اگرچہ اَب بھی نواز شریف اور اِن کے بھائی شہباز شریف رات کی تاریکیوں میں
اپنے اقتدار کی حصول کے خاطر مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں اور گاہے بگاہے
کسی نہ کسی بہانے جنرل کیانی سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں مگر یہ ہمارے
جنرل کیانی کی اعلی ٰ ظرفی ہے کہ وہ سب کا سب کچھ دیکھنے اور سننے کے
باوجود بھی کوئی ایسا ویسا اور کیسا عمل نہیں کر رہے ہیں کہ جس سے ملک میں
قائم جمہوری عمل کی کڑیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر کر رہ جائیں۔ مگر
اِس کے باجود بھی نواز برادران اور مسلم لیگ (ن) کا ایک ایک رکن اِس کوشش
میں ہے کہ کسی بھی طرح سے پتھر میں چھید ہوجائے اور اِس پاکستان پیپلز
پارٹی کی اِس جمہوری حکومت کا شیرازہ بکھر جائے اور ملک پر ایک اور آمر
قابض ہوجائے تاکہ آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اقتدار ملے
اور نواز شریف ملک کے صدر یا وزیراعظم کے روپ میں حکومتی ذمہ داری سنبھالے
سامنے آئیں۔
اگرچہ ادُھر ایک حیران کن نقطہ یہ ہے کہ نواز شریف ایک طرف موجودہ حکومت کے
خلاف سازشوں میں مصروف ہیں تو وہیں یہ فوج کو بھی اقتدار سنبھالنے اور اِسے
اپنی مداخلت جاری رکھنے کا مشورہ بھی دیتے رہتے ہیں تو اُدھر ہی ایک خبر یہ
بھی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے یوم پاکستان پر
قوم کے نام اپنے جاری کردہ پیغام میں یہ کہا ہے کہ فرشتہ بھی آمر بن کر آئے
تو وہ عوام کے مفادات کا قتل عام کرے گا اور آئین توڑنے والے جمود کے حامی
پاکستان کے اصل دشمن ہیں اور اُنہوں نے غالباً اپنے اِس پیغام میں اپنی ہی
جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا مخلص جہاندیدہ اور انقلابی قیادت ہی ناممکن کو
ممکن بناسکتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِس عزم کو بھی دُہراتے ہوئے
کہا کہ پاکستان کو محفوظ، مضبوط ،خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کے لئے ملک
میں انقلاب لانا ہوگا اور اِن کا کہنا تھا کہ اِن انقلابی مقاصد کے حصول کے
لئے قوم کو میرا ساتھ دینا ہوگا اُنہوں نے کہا کہ میرا ملک آج ایک پسماندہ
ملک ہے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی میری قوم، بدامنی، استحصال، غربت، بیماری،
جہالت، بے روزگاری اور مہنگائی کا شکار ہے میرے ملک کی یہ صُورتِ حال مجھے
پریشان کئے رہتی ہے اور میں راتوں کو اِس فکر میں ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں
پاتا کہ میری قوم کی یہ حالت ہو اور میں آرام سے سوجاؤں نہیں میں اُس وقت
تک سُکھ اور چین سے نہیں سو سکتا کہ جب تک میں اپنی محنت اور عزم سے اپنی
قوم کو اِس کے اِن مسائل سے نجات نہ دلوا دوں جس سے آج میری قوم دوچار ہے
اِن کا کہنا تھا کہ یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا قوم کو
میرے ساتھ کمر ہمت باندھنا ہوگا تاکہ میں اپنے ملک میں تبدیلی لاؤں اور قوم
کو اِن غاضب اور فاسق حکمرانوں سے نجات دلواؤں جنہوں نے ملک میں مہنگانی کو
بے لگام چھوڑ رکھا ہے اور خود عیش کی زندگیاں بسر کررہے ہیں۔ اور ایک دوسری
خبر یہ ہے کہ نواز شریف نے رائے ونڈ میں فرانسیسی سفیر ڈینیل جون آیو سے
ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام اِس وقت غربت،
مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہیں اور موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل
کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور اِس پر سونے پہ سُہاگہ یہ کہ توانائی کے بحران
نے عوامی پریشانیوں میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور اِن کا اِس کے ساتھ
ہی یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ صُورتِ حال ایک آمر کے طرزِ حکمرانی،
قوانین اور غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
جی ہاں میرے قارئین!اَب بولیں کہ یہاں آپ نواز شریف کی اِن طرحدار، بل
کھاتی للچاتی اور دلوں بیقرار کرتیں دونوں خبروں کے بعد کیا سمجھے
....؟ٹھیک .... ٹھیک یہ وہی نواز شریف ہیں جنہوں نے اپنے دوسرے اقتدار میں
قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر اربوں ڈالرز امداد بٹوری اور ملک پر خرچ
کرنے کے بجائے اپنے ہی بینک بیلنس بھر کر نکل گئے تھے اور آج ایک بار پھر
قوم کو ملک میں انقلاب لانے کے نام پر یہ اُکسا رہے ہیں تاکہ قوم اِن کے
کہنے پر آکر اِن کے شابہ بشانہ کھڑی ہو اور جو یہ کہیں قوم وہ کرے اور اِس
طرح ایک بار پھر اقتدار اِن کے ہاتھ آجائے اور یہ ملک میں انقلاب کے نام پر
قابض ہوکر قومی خزانے سے دولت لوٹ کر پھر ملک سے بھاگ جائیں یا پھر کوئی
آمر اِنہیں جلاوطن کردے جس طرح یہ پہلے بھی ہوچکے ہیں مگر اِس بار قوم یہ
خود سوچے کہ کیا.....؟اِب یہ پھر نواز شریف کی اِن چکنی چِپڑی باتوں میں
آجائے گی جس طرح یہ پہلے آئی تھی اور یوں نواز شریف ہر بار عوام کو بے وقوف
بناکر اپنا اقتدار حاصل کرتے رہے اور اِس کے بعد عوام کو سوائے بول بچن کے
اور کچھ نہیں دے سکے اور ہمیشہ ہی ملک سے جلاوطن ہوتے رہے ہیں۔ |