١٨ مارچ آغاز تحریکی سفر، مراحل اور مقصد

سترہ ستمبر ١٩٥٣ کو کراچی کے ایک متوسط وضعدار گھرانے میں ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام الطاف حسین رکھا گیا۔ بچپن، لڑکپن کا سفر طے کیا اور چونکہ اس گھرانے کے افراد علم و عمل کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے چنانچہ وہ بچہ تعلیم کے مراحل بتدریج طے کرتا چلا گیا۔ سائنس میں گریجویشن (بی ایس سی) کی کامیابی کے بعد کراچی یونیورسٹی میں بی فارمیسی میں داخلے کے حصول کے لیے پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

چونکہ بی ایس سی کا رزلٹ بی فارمیسی کے داخلے کے بعد آیا تھا اسلئے انتظامیہ کی طرف سے ان کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ گر ہوتا الطاف حسین نام کا یہ نوجوان بھی ایک عام نوجوان تو اپنے ہم عصر اکثر نوجوانوں کی طرح وہ بھی کندھے اچکا کر دوسروں کی طرح یا تو قسمت کو الزام دیتا یا داخلے جلد بند ہوجانے کو، اور کہہ دیتا کہ اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ مگر وہ ایک باشعور اور ہوشمند نوجوان تھا جس نے نے حالات کے جبر اور ستم ظریفی کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور بی ایس سی ایکشن کمیٹی بنا ڈالی جس کا چیئرمین یہی پرجوش اور پرعزم نوجوان مقرر ہوا کہ جس کے جوش و جذبے جواں اور ہمت و حوصلہ سچا تھا لہٰذا اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے متعلقہ افراد سے بات چیت کی گئی کہ رزلٹ آنے میں ہمارا قصور نہیں لہٰذا داخلے دیے جائیں یہ بہت سے طلبہ کے مستقبل کا مسئلہ ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی جس پر پرامن احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور بالآخر ایکشن کمیٹی نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔

درپردہ یونیورسٹی انتظامیہ نے الطاف حسین اور ان کے چند ساتھیوں کو اس مہم کے خاتمے اور ان کو اور ان کے چند ساتھیوں کو داخلہ دینے کا لالچ دیا کہ وہ اپنی مہم ختم کردیں۔ مگر الطاف حسین نے اس تعلیمی رشوت کو مسترد کردیا چنانچہ سب سے پہلے الطاف حسین نے بھول ہڑتال کی ۔ یہ مہم ٩ ماہ تک جاری رہی آخر کار یونیورسٹی انتظامیہ نے الطاف حسین اور ان کی ایکشن کمیٹی کی عزم اور جذبے کے سامنے ہار مانی اور تمام طلبہ و طالبات (جن میں تمام قومیتوں کے لوگ شامل تھے) کو داخلہ دے دیا گیا۔

دوران تعلیم الطاف حسین نے یہ محسوس کیا کہ ہر جماعت اور قومیت کی اپنی طلبہ تنظیم کراچی یونیورسٹی میں روبہ عمل تھی چنانچہ ان حالات میں اے پی ایم ایس او کا قیام ١١ جون ١٩٧٨ کو جامعہ کراچی میں عمل میں لایا گیا جس کے بانی اور پہلے چیئرمین الطاف حسین تھے۔ قائد تحریک نے صحت مندانہ اور فلاحی طلبہ سیاست میں حصہ لیا اور ١٩٧٩ میں کراچی یونیورسٹی سے بی فارمیسی امتیازی حیثیت سے پاس کرنے میں کامیاب رہے۔ بی فارمیسی کے بعد تعلیم کے عمل کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ١٩٨٠ میں ایم فارمیسی میں داخلہ لیا مگر مسلح طلبا فیوڈلز تنظیموں اور غنڈوں کی بدمعاشی کے سبب کراچی یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ فروری ١٩٨١ کو ایک نام نہاد اسلامی طلبہ تنظیم کے غنڈوں اور دہشت پسند عناصر نے (جی ہاں یہ وہی غنڈہ گرد عناصر ہیں جنہوں نے پاکستان بھر کی جامعات میں اسلحہ کلچر متعارف کروایا اور جو فی الزمانہ بھی ملک بھر کی مختلف جامعات میں تشدد اور ٹکراؤ کی کاروائیوں میں مشغول رہتے ہیں ) قائد تحریک اور دیگر ساتھیوں پر مسلح حملے کیے اور اے پی ایم ایس کا جامعہ کراچی میں داخلہ بند کر دیا گیا۔

جامعہ کراچی چھوڑنے کے بعد الطاف حسین نے کراچی سیونتھ ڈے اسپتال میں کام کیا اس کے بعد بوٹس نامی دوا ساز کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔

الطاف حسین کے کراچی یونیورسٹی میں داخل نہ ہوسکنے کے بعد مخالفین نے یہ خیال کیا کہ انہوں نے الطاف حسین اور اس کے فکر و فلسفہ کو ناکام بنا دیا ہے مگر کرنی خدا کی کیا ہوئی کہ کراچی یونیورسٹی سے مسلح دہشت گردوں کی جانب سے بے دخل کیے جانے کے بعد الطاف حسین نے ١٨ مارچ ١٩٨٤ کو ایم کیو ایم نامی ایک تحریکی سیاسی جماعت بنانے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اہلیان کراچی کو سمجھا دیا کہ سچائی سے بھرپور سیاست برائے خدمت کیا ہوتی ہے ۔

اور پھر دیکھا دیکھنے والوں نے کہ شہر قائد سے مفاد پرستوں اور بڑے بڑے بتوں کو کس طرح عوامی غیض و غضب نے زمین بوس کر دیا وہ بڑے بڑے بت جو اپنے آپ کو کراچی کا مالک اور آقا سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ شہر کراچی کے وہ قائدین ہیں اور اس شہر کراچی میں کوئی دوسرا نہیں جو ان کے اقتدار کو چھیننا تو دور کی بات چیلنج بھی کرسکے۔ جس طرح ان کا غرور اور فرعونیت پاش پاش ہوئی اور آزمائے ہوئے سیاسی پیشہ وروں کو عوام نے جس طرح اپنے ووٹوں کی طاقت سے کراچی کی سیاست سے دربدر کیا اس کی جلن اور اس کی تپش آج بھی وہ سیاسی زعما اور سیاسی شعبدے باز محسوس کرتے ہیں اور یہی دراصل وہ سیاسی عداوت ہے جو ماضی میں کراچی کے اقتدار پر قبضہ کیے ہوئے چند گروہوں کو اپنا ماضی نہیں بھولنے دیتی اور انہیں ہر ہر لحظہ یہ پریشان کن خیال تنگ کرتا ہے کہ اس ایک الطاف حسین نامی شخص نے ان کے سارے سیاسی مزے اور اجارہ داری کو زمین بوس کر کے جس طرح انہیں رسوا کیا ہے وہ فی الواقع ایک مثال ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532845 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.