خوازہ خیلہ میں ایک دن‘ عجیب روایت اور آلودہ پانی
(musarrat ullah jan, peshawar)
روزمرہ کی "بریکنگ نیوز" اور ہر
وقت بھاگ دوڑ سے تنگ آکر میں نے اپنے صحافی دوست عثمان کو فون کیا کہ جس
طرح بھی ہو اس دفعہ پانچ دن کی چھٹیاں میں نے باہر ہی گزارنی ہیں- ایک سال
سے شہر سے باہر آؤٹنگ کا موقع نہیں ملا -خبروں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنا
آپ بھی جیسے"بریکنگ نیوز" ہی لگتا ہے -میرے ساتھی جس کا تعلق بھی ایک ٹی وی
چینل سے ہے اور اس کا آبائی تعلق سوات کے علاقے خوازہ خیلہ سے ہے نے حامی
بھر لی کہ میں تو ویسے بھی سوات جارہا ہوں آپ کیساتھ جا کر اور بھی مزہ
آئیگا-
مقررہ دن پر صبح سویرے تیاری کرلی کہ جب بھی جانا ہو تو نکل جائینگے اور
پھر سوار چار بجے پشاور سے مینگورہ کیلئے سفر کا آغاز ٹوڈی کار میں کیا-
گاڑی تو نئی تھی اور ڈرائیور بھی نوجوان تھا اس لئے کچھ زیادہ ہی تیزی سے
گاڑی چلا رہا تھا تین مرتبہ گاڑی حادثے سے بچ گئی ‘ کیونکہ نئی گاڑی ہونے
کے باوجود بریک کام نہیں کررہے تھے-ہمارے ساتھ دو اور افراد بھی گاڑی میں
سوار تھے جن میں ایک نے تو گاڑی میں سوار ہوتے ہی آنکھیں موند لی جبکہ
دوسرے نے موبائل فون کے ذریعے گانے سننے شروع کردئیے- اسی کے ساتھ ڈرائیور
نے پشتو کے ایسے گانے لگا دئیے- جو میں پشتون ہوتے ہوئے بھی نہیں سن سکتا
تھا کیونکہ اس میں جنس مخالف کے جسم کے ہر عضو کے بارے میں کوئی نہ کوئی
فقرہ سننے کو ملتا تھا- میرا ساتھی جوکہ جماعت اسلامی کا نظریاتی کارکن بھی
ہے نے بھی ان گانوں پر عجیب سی بے بسی کا اظہار کیا اور مجھے احساس ہوا کہ
ہم بریکنگ نیوز کے چکر میں پڑ کر اپنی پشتو شاعری کی طرف توجہ دینا ہی بھول
گئے کئی ایسے چیزیں جو کہ عام طور پر ہر جگہ سنتے ہیں اگر گانوں کی ایسی
صورتحال رہی تو یقیناًپھر " مخصوص فلمیں دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی
کیونکہ " مخصوص فلموں " کی ضرورت "آڈیو گانوں سے پورے ہوسکے گی-
درگئی کے مقام پر سیکورٹی اہلکاروں نے شناختی کارڈ دیکھ لئے اور سوالات کئے
- یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد احساس ہوا کہ سوات کا روزانہ سفر کرنے والے
افراد کی حالت کیا ہوگی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر فلائنگ کوچ میں
کوئی بیٹھا ہو یا پھر خواتین اور بچے ہو ں تو پھر ......... ( کچھ کہہ نہیں
سکتے - تحفظ پاکستان آرڈیننس کا ڈر ہے( ...
ساڑھے آٹھ بجے مینگورہ میں پہنچنے کے بعد پیدل سفر کیا اور یہاں پر ملنے
والی مشہور لسی پی لی تبھی تروتازگی کا احساس ہوا پشاور کی گرمی اور
مینگورہ کا موسم ایک جیساتھا تاہم فرق صرف اتنا تھا کہ لوڈشیڈنگ مینگورہ
میں زیادہ تھی اس لئے زیادہ تر سفر مینگورہ میں اندھیر ے میں کیا-وہاں سے
نو بجے مقامی طور پر چلنے والے نان کسٹم پیڈ گاڑی جس کی مارکیٹ میں قیمت
سترہ لاکھ روپے تھی اور سوات میں چار لاکھ میں آسانی سے مل جاتی ہیں میں
بیٹھ کر خوازہ خیلہ تک پہنچے- نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ملاکنڈ کے علاقے سوات تک
آسکتی ہیں نان کسٹم پیڈ گاڑی میں سفر کرکے ہم دوست بھی اپنے آپ کو کچھ اور
ہی چیز سمجھنے لگے تھے- پونے دس بجے دوست کے ساتھ اس کے چچا کے گھر پہنچے
وہاں پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ لوڈشیڈنگ صرف پشاور میں نہیں ہوتی بلکہ
یہاں پر بھی ہوتی ہیں لیکن یہاں کے لوگ اتنی پروا نہیں کرتے کیونکہ خوازہ
خیلہ میں رات کو موسم سرد ررہتا ہے اور اگست کے مہینے میں دسمبر کے مہینے
کی طرح کمبل اوڑھنے پڑتے ہیں -
میرے ساتھی صحافی عثمان اور اس کے کزن اعجاز کیساتھ رات گئے تک گپ شپ ہوتی
رہی- سیاست پر بات کرنا یہاں کے لوگوں کا پسندیدہ موضوع ہے بیشتر افراد پی
ٹی آئی کے سپورٹر ہیں اور عمران خان کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن اس
علاقے سے منتخب ہونیوالے ممبر صوبائی اسمبلی جو کہ اس علاقے کے خان ہیں کی
کارکردگی سے مطمئن نہیں - کیونکہ علاقے سے منتخب ہونیوالے خان کی اپنی لندن
میں مصروفیا ت زیادہ ہے اس لئے وہ علاقے میں پینے کے صاف پانی سے لیکر دیگر
مسائل پر توجہ نہیں دے پاتے- بقول یہاں کے لوگوں کے انہیں پتہ تھا کہ علاقے
سے منتخب ہونیوالا ممبر صوبائی اسمبلی بھگوڑا ہے اور دوسری پارٹی سے آیا ہے
لیکن اسے عمران خان نے کھڑا کیا تھا س لئے لوگوں نے اسے ووٹ دیکر منتخب
کیا- سطح سمندر سے گیارہ سو فٹ بلندی پر واقع خوازہ خیلہ بازار میں
ہونیوالے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر بازار کے دکاندار تو پی ٹی آئی کو
گالیاں دیتے ہیں لیکن یہاں کے ٹرانسپورٹر اور مقامی لوگ بہت زیادہ خوش ہیں
کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا-
صبح سویرے دوست عثمان کیساتھ کھیتوں کا رخ کیا- سرسبز پہاڑ اور کھیت دیکھ
کر عجیب سا احساس ہوتا ہے اور پھر جب ساتھ میں چشموں سے پانی بھی آتا ہو تو
یہ روح کو جیسے تروتازہ کرتا ہے ‘ عجیب سی طاقت رکھنے والا قدرتی چشموں کا
پانی مختلف پہاڑوں سے ہوتا ہوا دریائے سوات میں جاگرتا ہے ‘ اب بھی جابجا
مقامی لوگ روایتی طور پرچشموں سے نکلنے والے پانی میں کپڑے دھوتے ہیں -
ساتھی عثمان کے ہمراہ ایک ایسے ٹیوب ویل پر پہنچے جہاں کے گیٹ پر کاغذ لکھا
تھا کہ " صاحب میں چائے پینے کیلئے گیا ہوں" میں پھر آجاؤنگا میری ڈیوٹی
پوری لگا دیں- یعنی ٹیوب ویل آپریٹر جب بھی نکلتے تو یہ کاغذ لگا کر نکل
جاتے تھے جس وقت میں اس کاغذ کی تصویر لے رہا تھا اس کی خوش قسمتی اور میری
بدقسمتی کہ ایک گھنٹے میں ٹیوب ویل آپریٹر وہاں پر موجود نہیں تھا اور جب
تصویر نکال رہا تھا تو آکر کھڑا ہوگیا ساتھ میں اردو میں بات کرنے کی کوشش
کی تو میں نے پشتو میں جواب دیا تو کہنے لگا کہ میں تو ایسے ہی نکل گیا
تھا- ماشاء اللہ وہ شریعت کے مطابق بھی تھا یعنی داڑھی بھی رکھی تھی
لیکن..... خیر چائے پینے کی آفر کی جو ہم نے ٹھکرا دی اور پھر نکل آئے-
سرسبز کھیتوں میں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملے جو گھر میں جلانے کیلئے درخت
کاٹ کر لے جارہے تھے-ٹھیک ہے کہ اس علاقے میں گیس کی سہولت نہیں لیکن اگر
کوئی ایک درخت کاٹ لے تو کم از کم تین نئے درخت لگا دے تو پہاڑوں پر سبزہ
توختم نہیں ہوگا- ہم بھی عجیب لوگ ہیں لاکھوں‘ کروڑوں روپے گھر پر لگا دیتے
ہیں لیکن گھر میں ہزاروں روپے کی درخت نہیں لگاتے -درخت کاٹنے کا سلسلہ ہر
جگہ پر جاری ہے کیا شہر اور کیا پہاڑی علاقے.....( ہم کب سمجھیں گے خدا
جانے(
مختلف مقامات پر لوگوں کی سہولت کیلئے پاک فوج نے پل تعمیر کئے ہیں جس سے
لوگوں کو آنے جانے میں بہت سہولت ہوگئی ہیں اور مقامی لوگ اس کام پر پاک
فوج کو سراہتے ہیں - صحافی دوست کے کزن کی شادی میں بھی شرکت کی - شادی میں
آنیوالے بیشتر سراج الحق اور عمران خان کے فین نکلے- بیشتر لوگ سیاست پر
بات چیت اور بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان تھے- ان کے بقول پہلے چھ سو
روپے بل آتا تھا اور اب دو ہزار روپے بل آگیا ہے یہ ہمارے ساتھ زیادتی
ہے--- ان لوگوں کی یہ باتیں سن کر ہمارے تو ہوش ٹھکانے آگئے- کیونکہ ہمارے
ہاں پشاور میں تو بل دس ہزار تک آتے ہیں- اور یہ ہم جیسے تنخواہ دار لوگ کس
طرح پورے کرتے ہیں اللہ ہی جانتا ہے-سوات میں شادی والے دن دلہا کو کام
کرتا دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا ‘ یہاں پر ایک عجیب رسم بھی ہے یعنی دلہا
بارات کے ساتھ نہیں جاتا ‘ اس کے گھر والے دلہن کو لیکر آتے ہیں- دلہا
بارات کیساتھ جائے تو برا مانا جاتا ہے ہمارے صحافی دوست کے کزن کی فیملی
جو کہ کراچی سے آئی ہوئی تھی نے اپنے دلہے کو دوستوں کیساتھ چھوڑا کہ یہ
گھر میں رہیگا یا پھر دوستوں کیساتھ کہیں نکل جائیگا اور پھر ایک یا دو دن
بعد واپس گھر آجائیگا اس کے شیطان دوستوں نے دلہا کو گاڑی میں بٹھایا اور
بارات میں شامل کردیا-دلہا نے بہت چیخیں ماری کہ کیا کررہے ہو لیکن
.........
بارات کے بعد خوازہ خیلہ بازار کا رخ کیا اس علاقے کے بیشتر رہائشی بیرون
ملک مقیم ہیں اور مزدوری کرتے ہیں یعنی فیملی کے چار افراد میں سے دو افراد
لازما مشرق وسطی میں ملازمت کرتے ہیں- خوازہ خیلہ بازار کے درمیان سے گزرنے
والے نالے جس میں چشموں کا پانی آتا ہے کے سائیڈ پر گندگی کے ڈھیر اور
بدبوسے میرا برا حال ہوگیا - بچوں کے پمپرز‘ سگریٹ کے استعمال شدہ ڈبے ‘
سرنجیں‘ مختلف ادویات ‘ خون اور جانوروں کے مختلف اعضا ء اور بول برازدیکھ
کر عجیب سا احساس ہوا کہ یہ سب کیا ہے- دنیا بھر میں اس علاقے کی قدرتی اور
حسین نظاروں کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن پاکستان کے سوئٹرز لینڈ میں آلودگی
کی صورتحال کیا ہے اور خاص طور پر آلوددہ پانی ‘ جو نہ صرف انسانی جانوں
بلکہ آبی حیات بھی کیلئے خطر ہ ہے لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں-
مقامی دکانداراپنے دکانوں کا کچرا یہاں آکر پھینک جاتے ہیں جبکہ قصائی جن
کیلئے ذبیحہ خانہ بنایا گیا ہے یہاں پرآکر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں تاکہ
انہیں صاف پانی میسر ہو اور وہ اوجھڑی او دیگر گند یہاں صاف کرے- مقامی
لوگوں کے مطابق خوازہ ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن کا عملہ بھی بازار کا سارا
گند یہاں آکر پھینک جاتا ہے بعض مقامات پر لوگوں نے گٹر کے پائپ بھی چشموں
سے آنیوالے اس نالے کی طرف کردئیے جس سے سارا گند اسی نالے میں سے گزر کر
دریائے سوات میں جاگرتا ہے- جب اس حوالے سے بعض لوگوں سے بات کی تو انہوں
نے عجیب سی منطق پیش کی کہ " جو پانی رواں ) چلتا ) ہو وہ ہمیشہ صاف رہتا
ہے... یعنی بھلے سے آپ دنیا جہان کا گند گرا دیں لیکن یہ پھر بھی صاف ہی
رہے گا-
دل میں عجیب سی اداسی لیکر بازار میں گئے جہاں پر لسی پی ‘ اسی دوران بارش
ہوئی اور موسم اور بھی سرد ہوگیا لیکن اس بارش نے بجلی کا بیڑہ غرق کردیا
اور ہم ساری رات موبائل فون ‘ کیمرہ اور ویڈیو کیم کو چارج کرنے کے چکر میں
سونے سے بھی رہ گئے- لیکن مچھروں کی محبت نے یہ رات بھی یادگار بنا دی- |
|