سویرے سویرے اسکے کانوں میں جو
پہلی آواز پڑی وہ یہی تھی کہ پاگل مرگیا،پاگل مرگیا۔جاڑے کی یخ بستہ سویر
تھی وہ ایسی سویر میں اپنی گرم بستر میں دیر تلک پڑا اسکی حدت سے محظوظ
ہوتا رہتا تھا۔یہ خبر سننے کے بعد بھی اس نے کروٹ بدلی رضائی کو کانوں کی
طرف سرکایا- گھٹنوں کو کھینچ کر سینے کیساتھ لگا اور ہاکی سے بن کر دوبارہ
نیند کی وادیوں میں جانے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن پاگل مر گیا پاگل مرگیا کی
آواز بار بار اسکے کانوں میں گونجتی وہ خیالات کی جھنجٹ سے آزاد ہونے کو
کبھی ادھر کروٹ بدلتا تو کبھی ادھر لیکن کوئی امید بارآور ثابت نہ ہو سکی۔
آخر کار اسنے بستر چھوڑا اور باہر کو نکل پڑا،ایک عجیب کشش اک خواہش اسکو
ادھر لئے جاتی تھی جدھر پاگل کی نعش پڑی تھی وہ کبھی لمبے ڈگ بھرنا شروع کر
دیتا تو کبھی دوبارہ چہل قدمی پر آ جاتا وہ جلد از اسکو دیکھ کر واپس آنا
چاہتا تھا تاکہ دوبارہ بستر میں آرام کر سکے-جب وہ سارا گاؤں پار کرکے
قبرستان کی اگلی نکڑ پر پہنچا تو چند لوگ نعش کو گھیرے ہوئے تھےاسنے جھک کر
نعش کا معائنہ کیا،کل رات کو ہی اسکو گلی کے کونے پر ملا تھا اس کا چہرہ
مٹی سے لت پت تھا۔بال آپس میں یوں الجھے اور گڈمڈ تھے جیسے جنگل میں پرانے
درختوں کی شاخیں ہوتی ہیں۔شائد مہینوں کیا سالوں سے کنگی نہ کی تھی۔بدن پر
لباس کی صورت میں کسی بوسیدہ کپڑے کے چھیتڑے تھے۔جو کبھی شائد مکمل سوٹ
ہوتے ہونگے لیکن ابھی محض اسکا نشان ہی باقی تھا،سردی کی شدت سے بچنے کو
یوں تو جسم پر جمی میل کی تہہ ہی کافی تھی لیکن پھر بھی ایک پرانی جرسی جو
شائد کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی گئی تھی قمیض تلے اور اسکے تلے اک اور سویٹر
نما ایک چیز پہنی ہوئی تھی اور پاس ہی چادر پڑی تھی،جسکی حالت سے لگتا تھا
کہ اسی جاڑے کی ابتدا میں کسی نے ترس کھا کر دی تھی چونکہ نہ تو ابھی اسپر
میل کچیل زیادہ تھی اور نہ ہی دوسرے کپڑوں کی مانند زیادہ پھٹی ہوئی تھی
ہاں دو ایک جگہ پیوند ضرور لگے تھے لیکن وہ بھی شائد تب کہ تھے جب وہ پچھلے
مالک کے استعمال میں ہوتی ہو گی۔اسکے کانوں میں مختلف آوازیں پڑ رہی ،اور
ہر کوئی اپنے تئیں موت کی درست وجہ بتلانے کی سعی میں تھا۔کسی نے نشہ کی
کمی کو سبب ٹھہرایا تو کسی نے بھوک کی شدت اور کسی نے سردی کو سبب بتلایا
۔ویسے بھی تکے مارنے کی ضرورت ہی بھلا کیا تھی نعش خود چیخ چیخ کر بتلا رہی
تھی کہ موت کا سبب کیا رہا ہوگا ایسے جاڑے میں جہاں وہ کمرے کو انگھیٹی کی
حدت سے کمرے کرنے کے باوجود دوہرے لحاف اوڑھ کر سویا تھا ایسے کھلے آسمان
کا لحاف اوڑھے اور زمین کے ننگے فرش پر جس پر پاؤں بھی رکھو تو سردی اندر
تک سرایت کر جاتی ہے موت کا سبب تلاشنے کی کیا ضرورت تھی۔
وہ یہ سب دیکھ کر کل رات کا کا منظر یاد کرنے لگا جب اسنے ماں سے سردی کے
سبب دوسرا لحاف مانگا تو انہوں نے کہا اٹھو اور پیٹی سے نکال لاؤ اس نے
پیٹی کھولی تو اسمیں غالباً والدہ ماجدہ کے جہیز کی رنگ برنگی رضائیاں اور
تولیاں پڑی تھیں تو شائد نا کبھی استعمال ہوئیں تھیں اور نا کبھی ہوں بس
کبھی کبھار کوئی مہمان آ جائے تو ایک آدھ رات کو نکلتی تھی ورنہ برسوں سے
یونہی پڑی ہوئی تھی ہاں ہر سال دو سال میں ساون کا مہینہ گزرنے کے بعد بے
بے انکو دھوپ سینکنے کی خاطر نکالتی تھی اوچھاڑ اتارتی انہیں دھوتی دوبارہ
چڑھاتی اور دوبارہ انکو پیٹی کی زیننت کی خاطر رکھ چھوڑتی تھیں۔وہ سوچ رہا
تھا کہ آیا ان لحافوں کی ضرورت ان پیٹیوں کو ہے یہ یہاں۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ کسی نے اسے جھنجھوڑا چلو گھر چلیں،کن سوچوں
میں گم ہو اس نے بھی کہا ہاں چلو "پاگل" تو مرگیا،پاگل تو مرگیا۔۔۔ |