جمعرات11مارچ صبح دس بجے میں
اپنے ڈھائی سالہ بیٹے احمد سدیس کے پیر کی سرجری کے سلسلے میں عباسی ہسپتال
کراچی کے برنس وارڈ میں تھا جب اچانک دور سے آتی ایمبولینسوں کی مکروہ
آوازوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی۔ یوں تو ہسپتالوں میں
ایمبولینسوں کا آنا جانا خلاف معمول بات نہیں، لیکن خلاف معمول وہ سوگوار
مجمع تھا جو ایمبولینسوں کے جلو میں ٹراما سینٹر کے ایمرجنسی وارڈ میں
کھنچا چلا آیا تھا۔ مجمع کو دیکھ کر یکایک میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور
سارے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ یہ عام مجمع نہیں تھا، پیش منظر بہت
واضح تھا....دل کو کچھ ہونے لگا، یا الہی اب کیا ہوا؟ اب کس کے مبارک لہو
سے عدو نے اپنی پیاس بجھائی ہے۔ یکدم نگاہوں میں کئی مبارک ہستیوں کے چہرے
گھوم گئے۔ اسی وقت حواس باختہ حافظ ذیشان نظر پڑے جو ہمارے محلے کے ہی
ساتھی ہیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو تیر کی طرح آئے اور گلے لگ گئے۔ ”بھائی!
حضرت بہت زخمی ہیں اور معاویہ شہید ہوگیا۔“
یوں لگا کسی نے زور سے دل پر گھونسا مارا ہو۔ ایک لمحے سے پیشتر میں سمجھ
گیا تھا کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے، وہ مولانا عبدالغفور ندیم کو ہی حضرت
کہتا تھا، جو اہلسنت والجماعت کے مرکزی رہنما اور سیکریٹری اطلاعات تھے اور
جو ہمارے محلے کی مسجد صدیق اکبر ناگن چورنگی کے ہر دلعزیز امام اور میرے
استاد بھی تھے۔ تھوڑی دیر پہلے دل میں آنے والے بدترین اندیشوں کی تصدیق
ہوگئی تھی۔ چند جاں گسل لمحات کے بعد جب بولنے کے قابل ہوا تو اس سے مولانا
کی حالت دریافت کی، اس نے اٹکتے ہوئے بتایاکہ حضرت شدید زخمی ہیں اور انہیں
لیاقت نیشنل لے جایا گیا ہے جب کہ مولانا کے دو بیٹے جو نسبتاً کم زخمی تھے،
انہیں بھی ابھی لیاقت نیشنل لے جایا جا رہا ہے اور مولانا کے چھوٹے
صاحبزادے معاویہ ندیم موقع پر ہی شہید ہو گئے ہیں۔ پھر اس کی زبانی تفصیل
یہ سامنے آئی کہ مولانا عبدالغفور ندیم اپنے تین صاحبزادوں اور دو ساتھیوں
کے ساتھ ہائی کورٹ اپنی پیشی پر تشریف لے جارہے تھے۔ جب ان کی گاڑی تقریباً
نو سوا نو بجے ناظم آباد چھ نمبر سے ذرا آگے پہنچی تو پہلے سے تیار تین
موٹر سائیکلوں پر سوار چھ سے زائد بدبختوں نے ان پر شدید فائرنگ شروع کر دی۔
جس سے موٹر سائیکل پر سوار مولانا کے ایک فرزند معاویہ ندیم تو موقع پر ہی
جان ہار گئے اور خود مولانا عبدالغفور ندیم، ساتھ موجود دو بیٹے راشد ندیم
اور صہیب ندیم اور دو گن مین ندیم اور وصی شدید زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں حضرت
کی نازک حالت کے پیش نظر ڈاکٹروں نے آئندہ اڑتالیس گھنٹے اہم قرار دے دیے۔
مولانا شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض بھی تھے اور زخمی حالت میں خون
ٹیسٹ ہونے پر ان کو ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص بھی ہوئی تھی، یہی وجہ تھی کہ
ڈاکٹر زیادہ پر امید نہیں تھے۔
جمعرات کا یہ افسردہ دن ابھی ڈھلا ہی تھا کہ آنے والی رات اپنے جلو میں ایک
اور قیامت لیے نازل ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اسی رات دس بجے دہشت گردوں نے عالمی
مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے
جانشین مولانا سعید احمد جلال پوری، ان کے سولہ سالہ فرزند محمد حذیفہ ، دو
شاگرد اور ایک خادم پر شدید فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مولانا، ان کا بیٹا
حذیفہ اور ساتھ موجود و علماء موقع پر ہی شہید ہو گئے اور ایک عقیدت مند
زخمی ہوگئے تھے۔ بارہ گھنٹوں سے بھی کم وقت میں یہ دوسرا بہت بڑا سانحہ تھا۔
اگلے دن جمعہ کو نماز جمعہ میں جامعہ بنوری ٹاؤن میں حضرت جلال پوری شہید
اور باقی شہداء کی نماز جنازہ ہوئی اور اسی دن مسجد صدیق اکبر میں معاویہ
ندیم شہید کی بھی نماز جنازہ ہوئی۔
اگلے دو دن عجب کرب میں گزرے۔ جانے والے تو چلے گئے تھے لیکن مولانا
عبدالغفور ندیم ہنوز موت و زیست کی کشمکش میں تھے۔ چاہنے والے مسلسل دعاؤں
میں لگے رہے لیکن پھر وہی ہوا جو خالق کائنات کو مولانا کے لیے منظور تھا
اور جو خود اُن کی بھی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ شہادت کی خواہش۔ وہ
بھلا اپنے پیش روؤں سے پیچھے کہاں رہ سکتے تھے، انہی سے جا ملے جن کے مشن
کو لیے وہ برسوں سے اپنی ضعیفی اور بیماریوں کے باوجود تن دہی سے مصروف عمل
تھے۔ وہ جس قافلے کے مسافر تھے اس قافلے کے اگلے سارے مسافر اسی طرح اپنے
لہو میں غسل کر کے منزل مقصود تک پہنچے تھے۔
حضرت جلال پوری کی شہادت کا بھی دل پر بڑا اثر تھا کہ وہ بے شک بہت بڑے
بزرگ اور جامع اوصاف کے حامل تھے، لیکن مولانا عبدالغفور ندیم کی شہادت کا
سن کرنڈھال ہوگیا جو شاید ان سے قریبی قلبی تعلق کی بنا پر تھا۔ وہ ہماری
مسجد صدیق اکبر کی رونق تھے۔ وہ ہمارے امام وخطیب ہونے کے علاوہ مجھ سمیت
اکثر اہل محلہ کے استاد بھی تھے کہ ہم نے ان سے قرآن اور اس کا ترجمہ پڑھا
تھا ۔
وہ پچھلے کم وبیش اٹھارہ سال سے اس مسجد میں اپنی خطابت سے لوگوں کے دلوں
کو گرماتے رہے۔ ہر جمعہ کو ان کا بیان سننے دور دور سے لوگ اہتمام سے آیا
کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہر اتوار کو بعد عشاء ان کا درس قرآن اور ہر پیر کو
بعد عشاءان کا درس حدیث بھی احباب میں بہت مشہور تھا۔ اور حیرت کی بات یہ
تھی کہ حاضرین مجلس میں سے اکثر ماڈرن نوجوان ہوا کرتے تھے جن کی زندگی
حضرت کی برکت سے دنوں میں بدل جایا کرتی تھی۔ اللہ نے ان کی زبان میں جو
تاثیر رکھی تھی اس کا سب سے بڑا ثبوت خود راقم ہے کہ میں نے چھ سال پہلے
رمضان شریف میں ایسی ہی ایک مجلس میں ان کے بیان میں داڑھی رکھنے کا پکا
عزم کیا تھا۔
بوٹا سا قد‘ مگر انتہائی متناسب چھریرا جسم‘ خوبصورت گلگوں چہرہ‘ اور اس پر
مولانا کی خوش لباسی....سفید کاٹن کے کلف لگے سوٹ پر جب جمعہ کے روز سندھی
ٹوپی پہنے اپنے حجرے سے جلوہ افروز ہوتے تو کئی نگاہیں جھپکنا بھول جاتیں۔
منبر پر بیٹھتے تو مجمع پر رعب طاری ہو جاتا.... پھر زور دار مگر مدلل
انداز میں ایسا پرتاثیر بیان فرماتے کہ اکثر شرکاء توبہ کر کے ہی مسجد سے
باہر آتے۔ بیان اکثر فضائل صحابہ پر مبنی ہوتا۔ اور کیوں نہیں ہوتا کہ بچپن
سے ہی اصحاب رسول کی محبت ان کے دل میں رچ بس گئی تھی۔
وہ ضلع خانیوال کے ایک گمنام قصبہ سرائے سدھو میں پیدا ہوئے، سند فراغت
دارالعلوم کبیر والا سے حاصل کی اور صحابہ سے انتہائی محبت کے باعث 1988ء
میں سپاہ صحابہ میں شامل ہوگئے۔ پھر چند سال بعد ہی تحفظ ناموس صحابہ کا
مشن لیے کراچی چلے آئے۔ پہلے کچھ عرصہ ملیر بیت المکرم مسجد میں رہے۔ ان
دنوں مولانا اعظم طارق شہید مسجد صدیق اکبر میں امامت وخطابت کے فرائض
انجام دیتے تھے لیکن جب آپ کو جھنگ تشریف لے جانا پڑا تو اپنے پیچھے مولانا
عبدالغفور ندیم کو صدیق اکبر مسجد میں اپنا نائب مقرر کر گئے اور مولانا نے
بھی نیابت کا حق ادا کر دیا۔ ان کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی کا ذکر
اہتمام سے کرنا چاہتا ہوں جو بہت کم جگہ میں نے دیکھی، وہ ہے حضرت لدھیانوی
کی طرح دین کے تمام کام کرنے والوں پر یکساں شفقت کا معاملہ کرنا اور وسعت
قلبی کا مظاہرہ کرنا۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بندہ ان کے قریب ہوا....
مثلاً ان کی مسجد صدیق اکبر میں دعوت و تبلیغ کا کام بہت عروج پر ہے اور
ظاہر ہے، مولانا کی سرپرستی کے بغیر یہ بہت مشکل تھا۔ غرض سب پر بہت شفقت
فرمایا کرتے تھے۔
بہرحال دشمنوں نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ وہ اپنے احباب، اہل محلہ بلکہ اہل
شہر میں کتنے مقبول تھے اس کا اندازہ ان کے جنازے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔
بلامبالغہ ہزاروں عقیدت مندوں کے جلو میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز
جنازہ امیر .... حضرت مولانا احمد لدھیانوی مدظلہ نے پڑھائی اور تدفین مسجد
صدیق اکبر کے ہی بغلی صحن میں ہوئی۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ حضرت ممدوح کی
مظلومانہ شہادت اور ان سے انتہائی عقیدت رکھنے کے باوجود کسی قسم کی بدامنی
اور اشتعال انگیزی نہیں ہوئی۔ بار بار سب کو پرامن رہنے کی تلقین کی جاتی
رہی۔ جس سے اندیشوں کے برعکس فضا پرسکون رہی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سے شہداء کے قاتلوں کا مطالبہ کرنا کارِ عبث ہی ہے۔
اللہ خود ہی ان بدبختوں کو عبرت کا نشاں بنائیں گے، اسلام کی سر بلندی،
ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کی حفاظت کی خاطر ان شہیدانِ ناموس رسالت و
صحابہ نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے ایک بار پھر چمن اسلام کی آبیاری کی
ہے۔ یہ خوش قسمت لوگ ہمارے ماتھے کا جھومر تھے اور رہیں گے۔ فردوس بریں
بازو پھیلائے محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان محبوبوں کی منتظر
ہے۔ حور وغلمان ایسے ہی قدسیوں کی راہ تکتے ہیں۔ انشاء اللہ ان حضرات کی
قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی
ہم نے رسمِ محبت کو زندہ کیا، زخم دل جیت کر نقدِ جاں ہار کر
ہم سے بزمِ شہادت کو رونق ملی، جانے کتنی تمناؤں کو مار کر
کچھ نے دعوے محبت کے کیے اور متاعِ دل وجاں بچا لے گئے
کوئی لایا دلیلِ محبت مگر خون کی ایک اک بوند کو وار کر |