مکہ کی جانب روانگی
حب حجاز میں اندرونی طور پر امن بحال ہوگیا اور دشمنوں کو اسلحہ سے بے دخل
کر کے شورشوں اور سازشوں کا قلع قمع کردیا گیا نیز صلح ”حدیبیہ“ کو ایک سال
گزر گیا تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اصحاب کے ہمراہ
مکہ تشریف لے جائیں اور زیارت کعبہ سے مشرف ہوں۔ چنانچہ بتاریخ اول ذی
القعدہ 7 ہجری میں آنحضرت 2 ہزار مسلم افراد کے ہمراہ عمرہ کرنے کی نیت سے
مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔
وہ قافلہ جو عمرہ کرنے کی نیت سے روانہ ہوا تھا اس کے آگے آگے سو مسلح گھڑ
سوار چل رہے تھے تاکہ دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ ہو تو وہ ان مسافرین کا
دفاع کرسکیں جن کے پاس اتنا ہی اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں
رکھا کرتے تھے۔
جس وقت مسلح سپاہ اسلام کا پیش دستہ ”مراءظہران“ نامی مقام پر پہنچا تو
قریش کے سرداروں کو ان کی آمد کا علم ہوا۔ چنانچہ انہوں نے یہ اعتراض کیا
کہ اسلحہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہونا صلح ”حدیبیہ“ کے معاہدے کی خلاف ورزی
ہے۔
اس پر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اسلحہ ساتھ لے کر
حرم میں نہیں جائیں گے۔ مشرکین نے مکہ خالی کر دیا اور اطراف کے پہاڑوں پر
چڑھ گئے تاکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ سے محفوظ رہتے ہوئے ان کی حرکات نیز افعال کا
مشاہدہ کرسکیں۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خاص جاہ و جلال کےساتھ مکہ میں تشریف فرما
ہوئے۔ جس وقت آپ خانہ کعبہ کی جانب تشریف لے جا رہے تھے تو فضا ”لبیک اللھم
لبیک“ کے نعروں سے ایسی گونج رہی تھی کہ جس سے مشرکین کے دلوں پر غیر
معمولی رعب و خوف طاری ہوگیا۔
ناقة رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زمام حضرت ”عبداللہ بن رواحہ“ پکڑ
کر چل رہے تھے۔ وہ نہایت ہی فخریہ انداز میں رجزیہ بیت پڑھ رہے تھے۔
خلوا بنی الکفار عن سبیلہ خلوا فکل الخیر فی رسولہ
”اے کفار کی اولاد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے راستہ صاف کر دو۔
انہیں آگے آنے کے لئے راستہ دو کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر خیر
کا منبع اور ہر نیکی کا سرچشمہ ہیں۔“
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر اصحاب رسول پروانہ وار نثار تھے۔ چنانچہ
آپ ان کے حلقے میں خاص رعب و دبدبے کے ساتھ داخل مکہ ہوئے اور طواف کرنے کے
لئے ”مسجد الحرام“ میں تشریف لے گئے۔ اس سیاسی عبادی سفر سے جس قدر ممکن
ہوسکتا تھا فائدہ اٹھانے کی خاطر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کہ زائرین زیادہ سے زیادہ اپنی دینی قوت کا مظاہر کریں۔ نیز جس وقت طواف
کریں تو حرکت تیزی کے ساتھ کی جائے۔ احرام کے کپڑے کو اپنے جسم کے ساتھ اس
طرح لپیٹیں کہ قوی و تنومند بازو لوگوں کو نظر آئیں تاکہ دیکھنے والوں پر
ان کی ہیبت طاری ہو جائے۔ (ابن کثیر ج۳ ص ۴۳۲)
ظہر کے وقت حضرت ”بلال“ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس کام کے لئے مقرر کیا گیا
کہ وہ خانہ کعبہ کی چھت پر جائیں اور اذان دیں تاکہ خداوند تعالیٰ کی
وحدانیت اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت مجسم کا اہل مکہ عینی
مشاہدہ کرسکیں اور جو لوگ فرار کر کے پہاڑوں پر چلے گئے ہیں وہ یہ بات اچھی
طرح جان لیں کہ اب وقت فرار گزر چکا ہے۔ واپس آجاؤ نماز اور فلاح و بہبود
کی جانب آنے میں جلدی کرو۔
حی علی الصلواة حی علی الفلاح
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس آواز نے قریش کے سرداروں پر ہر کچل دینے
والی ضرب اور ہر شمشیر براں سے زیادہ اثر کیا اور انتہائی طیش و غضب میں
آکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے باپ دادا اس غلام کی
آواز سننے سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے اور انہیں یہ دن دیکھنا نصیب
نہ ہوا۔
اس طرح ”عمرة القضا‘و ادا ہوا۔ جس کے ذریعے خانہ کعبہ کی زیارت بھی ہوگئی
اور عبادت بھی۔ اس کے ساتھ ہی کفر کو اسلام کی طاقت کا اندازہ اور آئندہ
سال فتح مکہ کا میدان بھی کامیابی کےساتھ ہموار ہوگیا۔ چنانچہ اس کے بہت سے
سیاسی، عسکری اور ثقافتی اثرات نہ صرف اہل مکہ اور اطراف کے قبائل پر مترتب
ہوئے بلکہ خود مسلمانوں کے قلوب پر نقش ہوئے۔
یہ سیاسی، عبادی تحریک قریش سرداروں کے دلوں پر ایسی شاق و گراں گزری کہ
انہوں نے 3 دن بعد ہی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنا
نمائندہ بھیجا اور کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے مکہ سے چلے جائیں۔
اس سفر میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کی ”میمونہ‘ نامی خاتون
سے رشتہ ازدواج قائم کیا تاکہ قریش کا تعلق آپ کے ساتھ مستحکم اور دشمنی و
عداوت کا جذبہ کم ہو جائے۔ کیونکہ قریش سرداروں سے قرابتداری تھی۔ یہی نہیں
بلکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی چاہا کہ شادی کی رسومات مکہ
ہی میں انجام پذیر ہو جائیں اور آپ قریش کو دعوت ولیمہ میں مدعو فرمائیں
اگر یہ کام انجام پذیر ہو جاتا تو اہل مکہ کو اپنی طرف مائل کرنے میں مؤثر
اقدام ہوتا۔ مگر افسوس اہل مکہ نے اس تجویز کو قبول نہ کیا۔ چنانچہ رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رسم مکہ سے واپس آتے وقت ”سرف“ نامی مقام
پر ادا کی۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |