پانی کی قلت کے مسئلے کا حل؛ اسلام میں
(Nadeem Ahmed Ansari, India)
رسول اللہﷺ کا ارشادِ مبارک
ہے:پانچ اعمال پانچ خرابیوں کا ذریعہ بنتے ہیں؛(۱)جب کوئی قوم وعدہ خلافی
کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن مسلط کردیتے ہیں(۲)جو لوگ اللہ
تعالیٰ کے احکامات سےہٹ کر فیصلہ کرتے ہیں ان پر فقر نازل ہوجاتا ہے(۳)جس
قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے ان پر ناگہانی موت کی آفت بھیج دی جاتی
ہے(۴۹)جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کی پیداوار روک لی جاتی ہے اور
ان پر قحط سالی بھیج دی جاتی ہے(۵)جو لوگ زکوٰۃ روک لیتے ہیں ان سے بارش
روک لی جاتی ہے۔(معجمِ کبیر طبرانی: ۱۱؍۴۴)
مذکورہ بالا حدیث بغور پڑھیں اور بار بار پڑھیں اور اس کے بعد سوچیں کہ
مذکور بالا گناہوں میں سے کون سا گناہ ایسا ہے، جو ہمارے معاشرے میں رائج
نہیں اور اگر یہ سب باتیں ہمارے معاشرے میں رواج پا چکی ہیں اور یقیناً
رواج پا چکی ہیں، تو ان کے نتیجے میں مخبرِ صادق حضرت محمد رسول اللہﷺ نے
جن آفتوں کے آنے کی خبر دی ہے، ان کاپیش آنا ناگذیر ہے۔ ہمارا ایمان ہے،
رسول اللہﷺ کی زبانِ اطہر سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ سچا اور حق ہے!
چند دنوں سے ایک خبر گشت کر ہی ہے کہ اس سال مانسون کے دوران کم بارش ہونے
کی وجہ سے مہاراشٹر کے آبی ذخائر میں صرف ۴۸فیصد پانی بچا ہے اور مانسون
کے ڈھائی ماہ کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی اوسطاً ۵۸فیصد بارش ہوئی ہے، جب کہ
گذشتہ سال اس مدت میں ۶۲فیصد پانی جمع تھا۔بی ایم سی سپلائی محکمے کا کہنا
ہے ممبئی کو پانی سپلائی کرنے والی جھیلوں میں ۲۲۲دنوں کے لیے ہی پانی
موجود ہے۔اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بی ایم سی نے ممبئی شہر میں پانی کی
سپلائی میں بیس فیصد کٹوتی کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یکم
اکتوبر کو پانی کی صورتِ حال کا دوبارہ جائزہ لے کر آیندہ کے لیے مستقل
لائحۂ عمل تیار کیا جائے گا۔ اس بار صرف جون ہی میں بارش ہوئی اور جولائی
و اگست میں بارش برائے نام ہی ہوئی ہے۔ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق ممبئی
کو پانی سپلائی کرنے والی سات جھیلوں میں پانی کی سطح روز بروز کم ہو جانے
کی وجہ سے ممبئی میں بیس فیصد پانی کی تخفیف کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو زندگی دی ہے اور اس کے
جو لوازمات رکھے ہیں،وہ سارے کے ساے ہر وقت انسان کو یہ یاد دلانے کے لیے
ہیں کہ اُسے اپنی بندگی کا اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور خُدائی کا احساس
رہے لیکن انسان ہے کہ اس حقیقت سے رو گرداں رہتا ہے اور اپنے آپ کو خدا
اور اس کی قدرت کے بالمقابل کھڑا کر لیتا ہے، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں اسے
منہ کی کھانی پڑتی ہے۔وہ انسان جو اپنی بڑائی میں زمین و آسمان کے قُلابے
میں ملاتاہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اگر چاہے تو سارے جَتن کرنے کے باوجود اپنی
چھوٹی سے چھوٹی ایک ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتا، جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد
و نصرت اس کے شاملِ حال نہ ہو۔یوں تو ہر ہر سانس اور لمحے میں اللہ تعالیٰ
کی عظیم نعمتوں کو ہم استعمال کرتے ہیں لیکن من جملہ ان کے پانی اور ہوا کے
بغیر کرۂ ارض پر زندگی کا تصور محال ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ غذا کے
بغیر انسان کئی دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے، مگر پانی کی عدم موجودگی میں اس
پر جلد ہی عرصۂ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔پانی کی ضرورت انسان کو براہِ راست
بھی ہے اور بالراست بھی، اس لیے کہ فصلوں وغیرہ کے لیے بھی پانی اتنی ہی
اہمیت رکھتا ہےبلکہ پانی انسان و حیوان اور تمام جان داروں کے لیے یکساں
ضروری ہے۔پانی؛ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک ایسی نعمت ہے، جس کے بغیر
انسان تو کیا؛چرند، پرند اور درند نیز درخت واشجار کا بقا بھی ناممکن ہے،
اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: [وجعلنا من الماء کل شیء حی] مراد یہ ہے
کہ ہر جان دار کی تخلیق میں پانی کا دخل ضروری ہےاور جاندار وذی روح اہلِ
تحقیق کے نزدیک صرف انسان اور حیوانات نہیں بلکہ نبابات اور جمادات میں بھی
روح اور حیات ثابت ہےاور ظاہر ہے کہ پانی کو ان سب چیزوں کی تخلیق وایجاد
اور ارتقا میں بڑا دخل ہے۔ (معارف القرآن: ۶؍۱۸۲-۱۸۱)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اس نعمتِ بے بہا کی قدر وقیمت کا صحیح اندازہ
نہیں اور اسی لیے ’قدرِ نعمت بعد از زوالِ نعمت‘ کے اصول کے مطابق آج ہمیں
پانی میں کٹوتی یا بعض علاقوں میں قحط کا سامنا ہے۔ مہاراشٹر میں ممبئی اور
مراٹھواڑوغیرہ کا علاقہ ان دنوں پانی کی قلت کا شکار ہے، جو کہ تشویش ناک
ہے۔اس موقع پر ایک مسلمان ہونے کے ناطے مضمون نگار، آپ حضرات کی توجہ اس
فرمانِ الٰہی پر مبذول کرانا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت
محمد ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا؛
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا، فَمَن يَأْتِيكُم
بِمَاءٍ مَّعِينٍ۔
آپ کہہ دیجیے!ذرا یہ بتلائو کہ اگر کسی صبح تمھارا پانی (جو کہ زمین میں
اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا ہے) نیچے کو اتر کر غائب ہوجائے تو کون ہے،
جو تمھارے لیے شفاف پانی لائے؟(الملک: ۳۰)
اس آیت کے ذریعے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ تم پر لازم ہے کہ اس پانی
کی قدر کرو اور پانی کے بے دریغ یا ضرورت سے زائد استعمال سے احتراز
کرو۔کسی چیز کا جائز جگہ پر ضرورت سے زائد استعمال ،اسراف اور ناجائز جگہ
پر استعمال تبذیر کہلاتا ہے اور یہ دونوں ہی کام اسلام میںناپسندیدہ ہیں
اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ارتکاب سے روکا ہے اور جب کسی نعمت کو اللہ
تعالیٰ کی مرضی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، اس سے اللہ کی نعمت کے چھن
جانے کا اندیشہ ہے۔یاد رکھیےکہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری
کی تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر ہمیں اپنی نعمتوں سے محروم کردے گا، جیسا کہ
قرآنِ کریم میں وضاحت موجودہے۔اسی لیے اسلام میں عبادات میں بھی اسراف کو
ممنوع قرار دیا گیا ؛ ایک حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی حضرت نبی کریم ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے وضو کے متعلق دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے اسے تین
تین مرتبہ اعضائےوضو کو دھونا سکھلایا، نیز فرمایا کہ وضو اسی طرح کیا جاتا
ہے، جس نے اس پر زیادتی کی، اس نے برا کیا اور ظلم کیا۔ (مشکوٰۃ: ۴۷)دیکھیے
رحمۃ للعالمین ﷺ نے وضو میں بھی اسراف اور ضرورت سے زیادہ پانی استعمال
کرنے کو برائی بلکہ ظلم سے تعبیر کیااور ہم ہیں کہ اپنی روز مرہ کی زندگی
میں پانی کا بے جا استعمال کرتے ہیں؟یہ جانتے ہوئے کہ قیامت میں ہم سے اللہ
تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (التکاثر: ۸)
خیر اس تفصیل سے ہمیں ایک تو معاشرے کی کوتاہیوں کی طرف توجہ دلانا مقصود
تھا کہ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کریں تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ
وہ ہم پر اپنی نعمتوں کو کچادہ کر دے گا، اس کے علاوہ اسلام میں پانی کی
قلت سے نمٹنے کے مزید چند طریقے تعلیم فرمائے گئے ہیں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ
کی رحمت سے لپٹ کر رحمتِ باراں کا سوال کرنا۔پانی کی کمی ہو جانے کو قحط
اورپانی کی ضرورت پر بندوں کا اللہ سے بارش طلب کرنےکو استسقاء کہتے
ہیںاوررسول اللہﷺ سے بارش طلب کرنے کے لیے دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے۔ (ابوداود:
۹۸۱، بخاری:۹۶۸)بلکہ دعا کے ساتھ ہی ساتھ اس موقع پر نمازِ استسقاء کے نام
سے ایک نفل نماز بھی مشروع ہے، اس نماز میں اذان و اقامت نہیں ہوتی، جب کہ
امام نماز کے بعد خطبہ دیتا اور بارانِ رحمت کے لیے دعا کرتا ہے۔(ابن ماجہ:
۱۲۵۸، ترمذی: ۵۱۲) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے؛ حضرت
نبی کریمﷺ نے بارش طلب کرنے کے لیے عید کی نماز کی طرح دورکعت پڑھائی۔ (ابوداود:
۹۸۴)اسی لیے اکثر فقہائے کرامؒ کے نزدیک یہ نماز مستحب ہے۔
نمازِ استقاء کے لیے لوگوں کا مسلسل تین دن آبادی سے باہر نکلنا مستحب ہے،
جس میں ان کا پیدل، پرانے ، دھلے ہوئے یا پیوند لگے کپڑوں میں عاجزی
وانکساری کے ساتھ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے سر کو نیچا کر کے نکلنا مستحب
ہےنیز یہ بھی مستحب ہے کہ نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ہر دن صدقہ کریں،روزہ
رکھیں،تمام گناہوں سے بکثرت معافی طلب کریں،اپنے ساتھ میں ضعیف اور کمزور
بوڑھے اور بچوں نیز جانوروںکو بھی ساتھ لے جائیں۔(ترمذی: ۶۰۰، ۳۵۲۲، سنن
کبریٰ بیہقی: ۶۶۱۷)نماز کے بعد امام دعا کے لیے قبلہ رخ کھڑے ہو کر اپنے
ہاتھوں کو اٹھائے اور مقتدی قبلہ رخ بیٹھے ہوئے اس کی دعا پر آمین کہیں ۔(بخاری:
۹۶۷)اس موقع پر صرف امام کھڑا ہوگا اور مقتدی کھڑے نہیں ہوں گے،ا س لیے کہ
احادیث میں صرف حضورﷺ کے کھڑے ہونے کا ذکر ہے، صحابہ کرامؓ کا نہیں۔پھر
امام یوں دعا کرے گا؛
اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا غَیْثًامُّغِیْثًا، نَافِعًاغَیْرَضَارٍّ،
عَاجِلًاغَیْرَاٰجِلٍ، اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھَائِمَکَ،
وَانْشُرْرَحْمَتَکَ، وَأَحْییْ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ، اَللّٰھُمَّ أَنْتَ،
اللہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّأَنْتَ الْغَنِیُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاء، اَنْزِلْ
عَلَیْنَاالْغَیْثَ وَاجْعَلْ مَاأَنْزَلَتَ لَنَاقُوَّۃً وَبَلاَغًااِلَیٰ
حِیْنٍ۔
اے اللہ! ہمارے لیے نفع بخش،نقصان نہ دینے والی بارش نازل فرما، جلدی نہ کہ
دیرسے، اے اللہ!تیرے بندوں اور جانوروں کو سیراب فرمااوراپنی رحمت کو عام
فرما اور تیرے مردہ شہر کو زندہ فرما،اے اللہ! توہی معبود ہے تیرے سوا کوئی
معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم محتاج ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور جو بارش
تو ہم پر نازل کرے اسے ہماری طاقت کا ذریعہ بنا جب تک ہم زندہ
رہیں۔(ابوداود: ۹۸۸،۹۹۴،۹۹۲)
اس طرح اس مضمون میں واضح ہوتا ہے کہ اول تو ہم اپنی کوتاہی سے توبہ کریں
اور پانی میں اسراف کرنے سے بچیں، دوسرے اللہ تعالیٰ سے بارانِ رحمت کی
دعائیں کریں اور اس مقصد کے لیے نمازِ استسقاء پڑھیں۔یہ وہ چند نبوی طریقے
ہیں، جن کے ذریعے سے ہم اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کر سکتے اور پانی کی قلت
کے مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت والی بارش سے سرسبز
و شاداب فرمائے۔ آمین |
|