حضرتِ سیِّدُنا ربیع بن
سلمان علیہ رحمۃ اللہ المنان اپنا ایک ایمان افروز واقعہ بیان فرماتے ہیں
کہ میں ایک مرتبہ کچھ لوگوں کے ساتھ حج پر جارہا تھا ۔ میرا بھائی بھی میرے
ساتھ تھا ۔جب ہم کوفہ پہنچے تو میں ضروریاتِ سفر خریدنے کے لئے بازار کی
طرف چلا گیا ۔وہاں میں نے ایک ویران سی جگہ میں دیکھا کہ ایک خچر مرا پڑا
ہے اور بہت پرانے اور بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے ایک عورت چاقو سے اس کا گوشت
کاٹکاٹ کر تھیلے میں رکھ رہی ہے۔میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ عورت کوئی
بھٹیارن ہو اوریہی مردار کا گوشت پکا کر لوگوں کو کھلا دے،چنانچہ مجھے اس
کی تحقیق ضرور کرنی چاہے ،پس میں چپکے چپکے اس کے پیچھے ہو لیا ۔چلتے چلتے
وہ ایک مکان کے دروازے پر پہنچی ،اس نے دروازہ بجایا تو اندر سے پوچھا گیا
:''کون؟''تو جواب دیا:''کھولو!میں ہی بدحال ہوں۔''دروازہ کھلا تو میں نے
دیکھا کہ چار بچیاں ہیں جن کے چہروں سے بد حالی اور مصیبت ٹپک رہی ہے ۔ وہ
عورت اندر داخل ہوگئی اوردروازہ بند ہوگیا ۔میں جلدی سے دروازے کے قریب گیا
اور اس کے سوراخوں سے اندر جھانکنے لگا ۔ میں نے دیکھا کہ اندر سے وہ گھر
بالکل خالی اوربرباد ہے ۔ اس عورت نے وہ تھیلا ان لڑکیوں کے سامنے رکھ دیا
اورروتے ہوئے کہنے لگی :''لو !اس کو پکا لو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو
۔''
وہ لڑکیاں اس گوشت کوکاٹ کاٹ کر لکڑیوں پر بھوننے لگیں ۔میرے دل کو اس سے
بہت ٹھیس پہنچی اورمیں نے باہر سے آواز دی کہ،''اے اللہ کی بندی !خدا تعالیٰ
کے واسطے اس کو نہ کھا ۔''وہ پوچھنے لگی:''تم کون ہو ؟''میں نے جواب دیا
:''میں پردیسی ہوں ۔''اس نے کہا:''ہم تو خود مقدر کے قیدی ہیں ،تین سال سے
ہمارا کوئی معین ومددگار نہیں ،تم ہم سے کیا چاہتے ہو ؟''میں نےکہا کہ ''مجوسیوں
کے ایک فرقے کے سوا کسی مذھب میں مُردار کھانا جائز نہیں۔''کہنے لگی کہ''ہم
خاندانِ نبوت سے ہیں ،ان کا باپ انتقال کر چکا ہے ،جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا
وہ ختم ہوگیا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ مُردار کھانا جائز نہیں لیکن ہمارا چار دن
کا فاقہ ہے اور ایسی حالت میں مُردار جائز ہوجاتا ہے ۔''
اُن کے حالات سن کر مجھے رونا آگیا ،میں انہیں انتطار کرنے کا کہہ کر واپس
ہوا اوراپنے بھائی سے کہنے لگا کہ ،''میرا ارادہ حج کا نہیں رہا۔''بھائی نے
مجھے بہت سمجھا یا ،فضائل وغیرہ بتائے ۔میں نے کہا کہ ،''بس لمبی چوڑی بات
نہ کرو ۔'' پھر میں نے اپنا ِاحرام اور سارا سامان لیا اورنقد چھ سو درھم
میں سے سو درھم کا کپڑا خریدا اورسو درھم کا آٹا خریدا اوربقیہ پیسہ اس آٹے
میں چھپا کر اس عورت کے گھر لے جا کر تمام چیزیں اس کو دے دیں ۔ وہ اللہ
تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگی اور کہنے لگی :''اے ابن سلمان !جا اللہ تعالیٰ
تیرے اگلے پیچھے سب گناہ معاف فرمائے اورتجھے حج کا ثواب عطا کرے اورجنت
میں تجھے جگہ عطا فرمائے اوردنیا ہی میں تجھے ایسا بدل عطا فرمائے جو دنیا
میں تجھ پر ظاہر ہو جائے ۔''
سب سے بڑی لڑکی نے کہا :''اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا دوگنا اجر عطا فرمائے
اور آپ کے گناہ بخش دے ۔'' دوسری لڑکی نے کہا کہ ''آپ کو اللہ تعالیٰ اس سے
زیادہ عطا فرمائے جتنا آپ نے ہمیں دیا ۔''تیسری نے کہا کہ ''اللہ تعالیٰ
ہمارے نانا جان صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ساتھ آپ کا حشر
کرے۔''چوتھی نے کہا کہ ،''اے اللہ تعالیٰ ! جس نے ہم پر احسان کیا تُو اس
کا نِعْمَ الْبَدَل جلدی عطا کر اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے ۔''
پھر میں واپس آگیا ۔
میں مجبورًا کوفہ ہی میں رک گیا اورباقی ساتھی حج کے لئے روانہ ہو گئے ۔جب
حاجی لوٹ کر آنے لگے تو میں نے سوچا کہ''ان کا استقبال کروں اوراپنے لئے
دُعا کرنے کا کہوں ،شاید کسی کی مقبول دعا مجھے بھی لگ جائے۔''جب مجھے
حاجیوں کا قافلہ نظر آیا تو اپنی حج سے محرومی پر بے اختیار رونا آگیا ۔میں
ان سے ملا تو کہا :'' اللہ تعالیٰ تمہارے حج کو قبول فرمائے اور تمہیں
اخراجات کا بدلہ عطا فرمائے ۔'' ان میں سے ایک نے پوچھا کہ ''یہ دعا کیسی
؟''میں نے کہا ''یہ اس شخص کی دعا ہے جو دروازے تک کی حاضری سے محروم ہو
۔'' وہ کہنے لگے،''بڑے تعجب کی بات ہے کہ اب تو وہاں جانے ہی سے انکار کر
رہا ہے ۔کیا تو ہمارے ساتھ عَرَفات کے میدان میں نہ تھا ؟...تونے ہمارے
ساتھ رَمِیٔ جَمَرَات نہ کی ؟ ...اور کیا تو نے ہمارےساتھ طواف نہ کئے؟''...آپ
فرماتے ہیں کہ میں دل ہی دل میں تعجب کرنے لگا کہ اتنے میں خود میرے شہر کا
قافلہ بھی آگیا ۔میں نے کہا کہ''اللہ تعالیٰ تمہاری کوششیں قبول فرمائے۔''
تو وہ بھی یہی کہنے لگے کہ''تُو ہمارے ساتھ عرفات پر نہ تھا ؟یا رمی جمرات
نہ کی ؟ اوراب انکار کرتا ہے۔''
پھر ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اورکہنے لگا کہ ''بھائی !اب کیوں اِنکار
کرتے ہو ؟کیاتم ہمارے ساتھ مکے شریف اورمدینہ منورہ میں نہ تھے ؟اور ہم
شفیع اعظم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی قبرِ انور کی زیارت کر کے
واپس آرہے تھے تو رش کی وجہ سے تم نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائی تھی
،جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے : '' جو ہم سے معاملہ کرتا ہے ،نفع کماتا ہے،اب
یہ تھیلی واپس لے لو ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ربیع بن سلمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ ''میں
نے اس تھیلی کو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ،میں اس کو لے کر گھر واپس آگیا ۔
عشاء کے بعد وظیفہ پورا کیا اوراسی سوچ میں جاگتا رہا کہ معاملہ کیا ہے ؟اچانک
میری آنکھ لگ گئی ۔ خواب میں سرور عالم ،نورِ مجسم صلَّی اﷲتعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلّم کی زیارت کی ،میں نے آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو
سلام عرض کیا اورہاتھ چومے ۔''پیارے آقاصلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم
نے مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دیا اورکچھ یوں ارشاد فرمایا :،''اے ربیع !آخر
ہم کتنے گواہ اس بات پر قائم کریں کہ تونے حج کیا ہے ؟ تومانتا ہی نہیں ،سُن
جب تو نے میری اولاد میں سے ایک عورت پر صدقہ کیا اور اپنا زادِ راہ ایثار
کر کے اپنا حج ملتوی کر دیا ۔تو میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ تجھے
اس کا اچھابدلہ عطا فرمائے ۔''تو اللہ تعالیٰ نے تیری صورت کا ایک فرشتہ
بنا کر حکم دیا کہ وہ قیامت تک ہرسال تیری طرف سے حج کیا کرے ۔ اور دنیا
میں تجھے یہ بدلہ دیا ہے کہ چھ سو درھم کے بدلے چھ سو دینا رعطا فرمائے ،
تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھ ۔''پھر آقا صلَّی اﷲتعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے
وہی الفاظ دہرائے '' جو ہم سے معاملہ کرتا ہے ،نفع کماتا ہے۔''حضرتِ
سیِّدُنا ربیع بن سلمان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ جب میں سو کر
اٹھا اور تھیلی کو کھولا ، تواس میں چھ سو اشرفیاں ہی تھیں ۔(رفیق
الحرمین،ص ۲۸۷) |