اردو ہماری شناخت اور ثقافت کی امین

قائداعظم محمدعلی جناح نے واضح طور پرپاکستان میں قومی زبان ’’اردو‘‘ کے نفاذ کا اظہار کیا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد ہی تمام بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کو اپنے خطاب سے دفن کردیا تھا۔ اسی طرح علامہ اقبال کی فکر نے برصغیر کے مسلمانوں میں اپنی اردو شاعری کے ذریعے جو انقلابی پیغام دیا، اُس نے اس ملّت کو بیدار کرنے میں ایک اہم تحریک کا کردار ادا کیا۔علامہ اقبال کی’’علم الاقتصاد‘‘۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی جواقتصادیات پر اردو میں پہلی کتاب تھی۔ان کی فکرتو یہی تھی کہ ملّتِ اسلامیہ اور برصغیر کے لوگوں میں اردو کے نفاذ کے لیے تحریک شروع کریں۔علامہ اقبال انگریزی اور فارسی میں مہارت رکھتے تھے ۔وہ چاہتے تو انگریزی میں یہ کتاب لکھ سکتے تھے مگر اردو میں لکھنااس لیے ضروری سمجھا کہ عوام الناس اس خشک مضمون سے استفادہ کرسکیں۔یہ کتاب اپنی اہمیت اور اوّلیت کی وجہ سے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔

بابائے اردوکی اردوکے نفاذکے لیے جو خدمات ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اپنے خطبہ صدارت پنجاب یونی ورسٹی اردو کانفرنس، لاہورمیں فرماتے ہیں کہ’’قومی زبان کے ذریعے قوم کا ہر فرد اپنی آوازساری قوم تک پہنچا سکتا ہے۔ مقامی بولی میں یہ قوت اور دم کہاں۔ قومی زبان پوری قوم کے خصائص اور اس کی روایت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ مقامی بولی صرف ایک جزوکی نمائندگی کرتی ہے اور بس۔ قومی زبان قوم کے شیرازے کو مضبوط کرتی ہے، اُسے منتشر ہونے سے بچاتی ہے اور قومیت کے ولوے کو زندہ اور تازہ رکھتی ہے۔‘‘اسی طرح خطبۂ صدارت شعبہ اردو ہندوستانی اکیڈمی ۱۹۳۶ء میں انھوں نے کہا کہ’’زبان کا کوئی رنگ روپ (وزن) نہیں، اس کی کوئی ذات نہیں، اس کی کوئی قومیت نہیں، اس کا کوئی مذہب اور وطن نہیں۔ جو اسے بولے، لکھے، پڑھے اور استعمال کرے گا، اسی کی وہ زبان ہوگی۔‘‘ انھوں نے اردو کی لڑائی ہر سطح پر لڑی۔اس کی تفصیل انھوں نے اپنی کتاب ’’پاکستان میں اردو کا المیہ‘‘ میں پیش کی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

خوشی کا مقام ہے کہ اب عدالت عالیہ، صدرمملکت اور وزیراعظم پاکستان نے باباے اردو کے اس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے اورملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اردو کے نفاذ کے حوالے سے اہم فیصلے کیے۔ جس کے تحت وزیراعظم اور وفاقی وزرا اردو میں تقاریر کریں گے، سائن بورڈوں، یوٹیلیٹی بلوں پر اردو زبان میں ہدایات جاری کی جائیں گی۔ مقابلے کے امتحانات اور این ٹی ایس ٹیسٹ بھی اردو میں لیے جانے کی ہدایات ہیں۔ پورے ملک کے اسکول، کالج میں اردو زبان اور ایک نصاب تعلیم کی بھی سفارش ہے۔ تمام وزارتوں، سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں اردو میں کام شروع کرنے کی ہدایت کہ ساتھ ساتھ سرکاری پالیسیوں کا ترجمہ بھی اردو زبان میں کیے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔تمام فارمز ، پاسپورٹ، انکم ٹیکس، اے جی پی آر، واپڈا اور جتنے قومی ، سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں اُنھیں کہا گیا ہے کہ عملی طور پر اردو کو اپنے اداروں میں رائج کریں۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر سرکاری اور غیرسرکاری تقریبات میں بھی اردو میں تقاریر اور بیرون ملک وفود سے ملاقات میں بھی اردو کو اختیار کیا جائے۔ واقعی یہ عملی اقدامات انتہائی مستحسن ہیں، جن پر عمل کرنے سے یقینا ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت اختیار کرسکیں گے۔پاکستانی عوام علاقائی یا لسانی عصبیت سے بالاتر ہوکر قومی دھارے میں آنے کے لیے ’’اردو‘‘ کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ جہاں تک ہماری عدالتِ عالیہ اور اعلیٰ اربابِ اختیار کا تعلق ہے تو انھوں نے اس اہم قومی فریضے کو ترجیحی بنیاد پر حل کردیا ہے۔ اب عوام الناس کا فرض ہے کہ اس کے لیے خود بھی کوششیں کریں اور اردو کے نفاذ کی تحریک میں عدلیہ اور حکومت کا ساتھ دیں تاکہ ان مشکل معاملات کو بہ خیروخوبی نمٹا کر ہم دنیا کی اُن قوموں کی صف میں کھڑے ہوسکیں جہاں ’’قومی زبان‘‘کوفخریہ اختیار کیا جاتا ہے۔

1906ء میں جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس تحریک کو جو قوت ملی وہ صرف اور صرف اردو ہی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اردو نے پورے برصغیر میں ایک نظریاتی جنگ لڑتے ہوئے اپنی قوت کے ذریعے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو یکجا کردیا۔ جو لوگ انگریزی سے نابلد تھے انھوں نے اردو کے پیغام سے ایسی قوت حاصل کی جو اُن کے اندر آزادی کی لہر پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی اور ایک آزاد مملکت کی صورت میں سامنے آئی۔بلاشبہ اب پاکستان کے قیام کو 68برس ہوچکے ہیں مگر اب تک اردو کے نفاذ کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔مگر عدالتِ عالیہ اور حکومتِ وقت نے دیرسے ہی سہی مگرخوش آئند اقدام اُٹھایاہے اور اس اہم فیصلیپر عدالت عالیہ اور حکومت پاکستان مبارک باد کی مستحق ہیں۔

آئینِ پاکستان1973 کے آرٹیکل 251 میں اردوکو متفقہ طور پر قومی زبان کا درجہ دے کردفتری، عدالتی اور تعلیمی اداروں میں نافذ کرنا تھا۔ اس نفاذ کو تقریباًپندرہ برسوں میں مکمل ہوجانا تھا اور 15 اگست 1988 ء سے نافذالعمل بھی ہوجانا چاہیے تھا مگر ہماری بیوروکریسی اور انگریزی نظام کے متوالوں نے اس اہم قومی فریضے کو انجام دینے کے بجائے عوام کو اس سے دور رکھا۔ قومی تعلیمی پالیسی میں طے تھا کہ ’’قومی زبان اردو کی تدریس‘‘ پرائمری تا گریجویشن کی سطح تک بطور لازمی مضمون ہوگی۔ اردو ہماری شناخت اور ثقافت کی امین ہے اس لیے اس کا عملی نفاذ ضروری تھا۔

ظاہر ہے کہ ایسے اقدامات سے وسیع ترروز گار کے مواقع میسرآسکیں گے اور مقابلے کے امتحان میں اردو کے عمل دخل سے ہر شعبے کے لیے قابل افراد میسر آسکیں گے۔

سب کو علم ہے کہ اس زبان میں اتنی وسعت ہے کہ یہ اپنے اندر تمام قدیم وجدیدعلوم کو سمیٹے ہوئے ہے۔ مزید نئی نئی اصطلاحات وتکنیکی معلومات بھی اس میں ضم ہوتی جارہی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اردو صرف ادب کی زبان ہے تو یہ انتہائی غیرسنجیدہ بات ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی قومی زبان کے بغیر دنیا کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرسکیں گے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں قومی زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے خصوصی زبانوں میں مہارت کے لیے تعلیم کے شعبے الگ ہوتے ہیں۔ اس کی پہلی مثال دہلی کالج کی ہے جس کا قیام آج سے تقریباً 190 سال قبل 1825 میں ہوا۔اس میں تمام علوم وفنون کی تعلیم اردو میں دی جاتی تھی۔ ابتدا میں ان کے پاس اردو کی علمی کتابیں نہیں تھیں،اساتذہ انگریزی کتاب کے مطالب اردو میں بیان کرتے اور شاگرد یادداشتیں لکھ لیتے۔اساتذہ اور طلبہ کے اس باہمی تعاون سے تقریباًسوا سوکتابیں ترجمہ اور تالیف ہوئیں۔اردو میں نہ صرف دہلی کالج میں سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حیدرآباددکن کے نواب میرعثمان علی خان نے 97 سال قبل 1918 میں جامعہ عثمانیہ قائم کی، اس جامعہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بنیادی تعلیم اردو میں دی جاتی تھی جب کہ ثانوی طور پر انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ اس ادارے کے شعبے تصنیف وتالیف وترجمہ نے آج سے برسوں قبل ہی اردو میں جدید تعلیم کا انتظام کردیا تھا، جو سائنس، طب، قانون، عمرانیات وغیرہ پر مبنی تھیں۔ موجودہ دور میں وفاقی جامعہ اردو نے بھی اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے درسی کتب کے تراجم شائع کیے ہیں جن میں سائنس، طب، حیوانیات، عمرانیات، ارضیات وغیرہ شامل ہیں۔اب ہمارے ملک کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ اردو کی ترقی کے لیے عملی کردار ادا کرتے ہوئے اس کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کریں۔

C/o
Dr. Rais Ahmed Samdani (President)

صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 86777 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.