{بدلتے زمانے اور بدلتے انداز
تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں ۔ اس کاایک مظاہرہ پشتو فلم’ غدار‘ میں ہے جس میں
مشہور ہیرو ارباز خان پر مقبول گلوکار رحیم شاہ کی آواز میں پکچرائز فلم ’
استرگئی دے ر واڑو ، پہ زڑہ مہ بمباری اوکا ، شابا تباہی اوکا ‘ کا گانا ،
"آؤ سب تباہ کردو "میں وہ ہیروہین سے فرمائش کرتے نظر آتے ہیں کہ"آؤ میری
آنکھوں میں دیکھو اور سب کچھ تباہ و برباد کردو"اور ہیروئین جواب دیتی ہے ،
میرا دل ’ بم ‘ جیسا ہے ، تم آؤ اور سب تباہ کردو ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہیرو گانے میں دنیا کو اپنی ہیر وئین کی
خوبیوں سے آگاہ کراتے ہوئے کہتا ہے ، "میری لیلی کی آنکھوں میں ’ بم‘ ہیں ،
میری لیلی مجھے ان ’ بموں سے مارتی ہے۔
لیلی ، شرما کر جواب دیتی ہے کہ "میں آنکھوں سے وار کرتی ہوں ، میری آنکھیں
اتنی ہی ہلاکت خیز ہیں جتنا کہ ڈرون ـ"
پشتو شاعری میں تشدد کا عنصر خطے میں جاری کئی عشروں سے شامل ہوئی ہے۔ ایک
پشتو شعر کا ترجمہ ہے کہ "
ترجمہ : آؤ میرے کفن کی گرہیں کھول کر دیدار کرلو
وہ آنکھیں آج بند ہیں جن سے تم شرمایا کرتے تھے۔
شمالی وزیر ستان میں جب پر تشدد کاروائیاں بڑھتی چلی گئیں تو وہاں کے ایک
مقامی شاعر زوہیب وزیر جو پہلے شعر لکھتے تھے ،،
ترجمہ : تم میرا ارمان ہو
ارمانوں سے کھیلا نہیں جاتا
آجاؤ ، تم میری جان ہو
اپنی جان سے کھیلا نہیں کرتے ،
اور جب شمالی وزیر ستانی سے نقل مکانی کرکے آئے تو یوں کہنے لگے کہ۔۔ " جو
مجھے مارنا چاہتا تھا ،
تو نے مجھے انہی کے در کا ملنگ بنا دیا۔
حالات انسان کی سوچ بدل دیتے ہیں جہاں عشقیہ اور محبت کی شاعری ہوا کرتی
تھی وہاں اب محبت کے صندوق گھروں میں بارود کی آگ سے جل اٹھے ہیں ، ذلف و
رخسار کی داستانیں ، محبوب سے ملنے کی باتیں سب کچھ بارود میں جھلس کر جیسے
رہ گیا ہو۔
رحمان بابا سے کون واقف نہ ہوگا ،حمان بابا کے حلقہ اثر میں بہت شاعر گذرے
ہیں۔عبدالحمید مہمند پشتو شاعری میں ایک نئے مکتب کا موسس ہے ، فارسی مثنوی
وقصہـ" شاہ و گدا ـ"کا پشتو مثنوی میں ترجمہ کیا ، قلندر آفریدی کی شاعری
سرتاپا عشق ہے ، مصری خاں گگیانی مخلتف اصناف سخن کا قادر الالکلام شاعر ہے
جبکہ احمد شاہ بابا جو" احمد شاہ ابدالی" کے نام سے مشہور ہیں صحیح معنوں
میں خوشحال خاں بابا کا جانشین سمجھا جاتا ہے۔ان کا دایون نواے احمد کے نام
سے شائع ہوچکا ہے اس عہد کے دیگر شعرا میں امحزاﷲ خان مہمند، کاظم خان شیدا
اور علی خان ہیں۔
وہ کہتے تھے ۔
کرد گلونہ کڑہ چی سیمہ دی گلزار شی
اغزی مہ کرہ پہ خپو کے بہ دے خار شی
ترجمہ: پھولوں کی فصل اگاؤ کہ راستے گلزار ہوجائیں
کانٹے مت بوؤ کہ پیروں میں چھبیں
۔ایک جگہ اور کہتے ہیں کہ
آدمیت سہ بہ دولت نہ دے رحمانہ ،،
بت کہ جوڑ شی د سروزرونہ انسان شہ ۔۔۔
ترجمہ:ـ انسانیت دولت سے پیدا نہیں ہوتی اے رحمان
بت سونے کا ہو تو بھی انسان نہیں بن جاتا۔
پشتو ادب میں، خوشحال خان بابا نے پشتو غزل کا مقام بہت بلند کیا۔پشتو ادب
کے درمیانی دور 1638-1772میں خوشحال خان خٹک کا بڑا اثر ہے جنھیں "بابائے
پشتو "کہا جاتا ہے، خوشحال خان بابا نے پشتو غزل کا مقام بہت بلند کیا ان
کی تصانیف و تالیف کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔جن میں بازنامہ ، فضل نامہ ،
دستار نامہ ، ہدایہ اور آئینہ معلوم و معروف ہیں۔خوشحال خان خٹک بابا کی
ایک شوخ غزل کا ایک شعر ہے۔
سو پہ باغ کے لایو گل د نو بہار شتہ
دَ بلبلو د طوطیانو پرے چغار شتہ
"ترجمہ:جب تک باغ میں نو بہار کا ایک بھی پھول باقی ہے عنادل اور طوطوں کے
چہچے رہیں گے"۔
شیخ ملا دے زما غم پہ بہار نہ خوری
چی رباب او سریندے غوندے غم خوار شتہ
"ترجمہ : شیخ و ملا کو وقت ِبہار میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ
رباب اور سارنگی جیسے غم خوار موجود ہیں"۔
جبکہ متاخرین کے دور1772-1900ایک جنگ وجدال کا دور تھا جس کی وجہ سے اس کا
اثر شعر و ادب پر بھی پڑا۔اور کلاسیکی شاعری ماند پڑ گئی ، اسکی جگہ عوامی
گیتوں نے لی آزادی ، وطن اور شجاعت کے کارناموں کا اظہار بن گیا۔لیکن غزل
اپنی ترقی کے مدارج برابر طے کرتی رہی۔
غزل گو شاعر میں تیمور شاہ جو احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تھا اردو اور فارسی
کے نو دیوان بھی انھوں نے ورثے میں چھوڑے۔پیر محمد کاکڑ ، محمد رفیق ، حافظ
رحمت اﷲ ، نواب محبت خان ، سعادت یار خان ، دوست محمدی صاحبزادہ ، قاسم علی
آفندی ، نواب رحمت خان ، بیدل ، میآن نعیم،حافظ الپوری ، احمد کلا چوری ،
عب العلی اخوانزہ ، نورلادین ، ملا مقصود اور حافظ عبدالعیم قابل ذکر شاعر
و ادیب تھے جنھوں نے پشتو نثر و شاعر کی ترقی کی راہ میں اپنے کارناموں سے
ایسی تصانیف تحریر کیں جو سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دور جدید کے شعرا میں غلام محمد پوپائی اور سید راحت خیلی نشاۃ ثانیہ کے
علمبردار مانے جاتے ہیں۔ راحت پہلے شخص ہیں جنہوں نے پشتو تراجم کے ذریعہ
اقبال کے افکار کو پشتو بولنے والوں کو متعارف کرایا۔نوجوان شعرا میں ایاز
داؤ ونرے ، اجمل خٹک ، ولی محمد ، قلندر مومند ، عفران اﷲ جاوید اور مطیع
اﷲ ناشاد قابل ذکر ہیں ۔جبکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے نے اعلی پایہ کے اہل
قلم اور محقق پیداکئے۔مثلا امیر حمزہ شینواری ، مولانا عبدالقادر،محمد اشرف
مفتون ، عبدالاکبر فضل رحیم ساقی،محمد نواز خٹک ، میاں احمد شاہ اور میاں
شہپر رسول , ، ڈاکٹر عبداﷲ جان ، پریشان خٹک، میاں عبدالرزاق ، محمد اسلم
خاں خٹک ، عبدالکریم مظلوم ، سمندر خان سمندر، پروفیسر عبدالرحیم نیازی ،
انوار الحق ، ڈاکٹر احسان اﷲ خان ، پروفیسر محمد ادریس اور قاضی ندرت اﷲ
وغیرہ شامل ہیں۔
پشتو ادب میں صحافت کی ابتدا1905کے لگ بھگ ہوئی سب سے پہلے ہفتہ وار"
افغان" کے نام سے سید مہدی علی شاہ نے پشاور سے جاری کیا جو پشتو اور اردو
دونوں زبانوں سے شائع ہوتا تھا ، سید راحت زخلی موجودہ دور کے ممتاز صحافی
مانے جاتے ہیں۔
عہد حاضر میں دہشت گردی کی جاری لہر نے مقامی ادبی میدان کی ہیت کو کافی حد
تک تبدیل کردیا ہے اور اب ایسی کوئی کتاب نہیں ملتی کہ جس میں خیبر
پختونخوا کی سرزمین پربم دہماکوں اور خودکش حملوں کے نتیجے میں بے گناہ
افراد کے بہتے خون کا ذکر نہ ہو۔تاہم عسکریت پسندوں کے ہاتھوں بے گناہ
افراد کی ختہ اور اعضا بریدہ لاشوں پر مضطرب شاعروں نے مشاعروں کی روایت کو
زندہ رکھا ہوا ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں پختون کلچر کے حوالے سے تصویر کا وہ رخ دنیا کے
سامنے لایا جائے جو موجودہ دور میں پختون، ماسوائے دہشت گرد ، انتہا پسند
اور شدت پسند سمجھنے کے تصور سے بالا ہے۔ایک دہائی پر مشتمل شدت پسندی اور
انتہا پسندی کے منفی اثرات پختون ثقافت پر اثر انداز ہیں۔
مشہور پشتو شاعر اکبر سیال کہتے ہیں۔
چاچے خدے ثبا کولو پہ تسبحو پہ دانو ۔
نن ہغہ خلق د سرنوں کاروباری کوی
ترجمہ :"جو لوگ تسبیح کے دانوں پر خدا کا ذکر کیاکرتے تھے ، وہ لوگ آج سروں
کا کاروبار کر رہے ہیں"۔
جدید دور 1900کے بعد میں پشتو ادب اپنے ارتقا کے کئی منازل طے کرچکا تھا ،
اب نئی سیاسی تحریکوں کے ساتھ علمی و ادبی میدان میں بھی نو ڈالی گئی ،
انگریزی زبان اور مغربی ثقافت کے اثرات نے پشتو زبان کو نئی جہتوں سے
روشناس کرایا ، اس دور کے شعرا و ادبا نے غم دوسش کیساتھ فکر فردا کو بھی
موضوع قلم بنایا اور اس طرح پشتو ادب جدید دور کی فکر و نظر کا ترجمان بن
گیا۔
دور حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم امن کے پیغام کے ساتھ محبت اور
بھائی چارے کے اس پیغام کو عام کریں ، جو اب ناپید ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمارے
معاشرے میں ہونے والی تبدیلیاں اگر ، آنکھوں اور دل میں بم اور ڈرون کے
حملوں کے تذکروں سے آنے شروع ہوگئی تو پھر بہتر ہے کہ میں یہ کہہ دوں۔۔۔
آؤ میرے کفن کی گرہیں کھول کر دیدار کرلو
وہ آنکھیں آج بند ہیں جن سے تم شرمایا کرتے تھے۔ |