دعوۃِ غوروفکر

دعوۃِ غوروفکر! پھر ہم سوچتے کیوں نہیں؟؟؟ آخر ہم اپنی جانوں پر ظلم کرنے اور انہیں جہنّم کا ایندھن بنانے پر کیوں بضد ہیں؟؟؟ اپنے الرّحمٰن و الرّحیم ربّ کریم اور رحمۃ اللعالین رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم کو چھوڑ کر اور ان کے بالکل واضح اور صریح احکامات و تعلیمات کی اطاعت و اتباع کے بجائے ان کی کھلی مخالفت میں اسلام مخالف فرقوں (مسلمانوں کے اندر پنپنے والے فتنوں) کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟؟؟ معاذ اللہ! خدا نخواستہ کہیں ہم اللہ جلّ جلالہ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم کے احکامات و تعلیمات اور اسوۃ الحسنۃ کی پیروی پر اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین و مشاہیر اور ملا مولویوں کی من گھڑت اور قرآن و سنّۃ و اسوۃ الحسنہ کے بالکل منافی باتوں کی پیروی کو زیادہ اہم سمجھنے تو نہیں لگ گئے ہیں؟؟؟ خوب جان لو کہ ایسا سمجھنا ایمان و اسلام سے بغاوت، کھلا انحراف اور صریح شرک و ارتداد ہے جو عذابِ الٰہی کو دعوت دینے اور خود کو جہنّم کا ایندھن بنانے کی ضد کت متراف عمل ہے!!! اللہ کے واسطے ذرا سوچو اور اب بھی توبہ کرکے سنبھل جانے وقت ہے نہ جانے یہ مہلت کب ختم ہو جائے! خوب اچھی طرح جان لو اور مان لو کہ دین اسلام م رسول اللہ ﷺ کی حیاۃِ طیّبہ میں ہی مکمّل ہو گیا تھا ۔ اس میں کسی کمی و بیشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ کا دین الاسلام فقط قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی سنّۃ و اسوۃ الحسنہ پر منبی ہے اور جمیع صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا طریقہ ہی قابلِ عمل و تقلید ہے، فرقہ پرستی اور بت پرستی ایک جیسے عمل ہیں اور ان دونوں پر سخت ترین وعید آئی ہے۔ فرقوں کا دین اسلام سے اور دینِ اسلام کا فرقوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، متعدد آیات میں اور احادیثِ مبارکہ میں شرک اور فرقوں کی سخت ممانعت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کوئی دوسری محبت غالب آ جائے تو ایمان جاتا رہتا ہے یہ بات اللہ تعالٰی نے قرآن میں بیان فرمائی ہے۔ نبی علیہ الصلٰوۃ والسّلام کی تعظیم و تکریم ، آپ ﷺ کا احترام و توقیر باقی سب انسانوں پو مقدم رکھنا فرضِ عین ہے، یہی قرآن کی تعلیم ہے۔
ترجمہ: "بے شک ایمان لانے والوں (مسلمانوں) پراللہ کا بڑا احسان ہوا کہ ان میں، انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور یقیناًیہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے"۔ (3آلِ عمران اٰیۃ164)
ترجمہ: "اور آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیں کہ ان کے لیئے اللہ کی طرف سے بڑا ہی فضل ہے "۔ ( 33 سورۃ الاحزاب، اٰیۃ-47)
پہلے تو اللہ تعالیٰ نے جو لطف وکرم اپنے حبیبِ کریم اور محبوب دلنواز (صلی اللہ علہ وسلم) پر فرمایا، اس کا ذکر ہوا ۔ اب اس ابر رحمت کابیان ہو رہا ہے جو امت مسلمہ پر برسایا جانے والا ہے۔ ارشاد ہے: اے مر ے نبی! اپنے غلاموں کو بھی یہ بشارت دے دو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ان پر بھی ہوگا اور وہ فضل وکرم قلیل اور محدود نہیں ہو گا بلکہ فضلا کبیرا ہوگا۔ آپ خود ہی غور فرمایئے کہ وہ رب العزت جس کے سامنے ساری دنیا و ما فیہا متاع قلیل ہے یعنی تھوڑا سا سامان، تو جس فضل کو وہ فضلِ کبیرا فرما رہا ہے اس کی وسعتوں کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔ یہ سب محبوب کریم رؤف و رحیم (صلی اللہ علیہ وسلم) کاصدقہ ہے جن کی غلامی کے باعث ہمیں یہ شرف حاصل ہے۔ کاش ! ہم اس غلامی کی قدر کو پہچانتے اور اس جمال جہاں افروز پر اپنی جان ، اپنا دل اور ہو ش وخرد قربان کرتے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کا طریقہ تھا۔ تب ہمیں اس فضل ِ کبیرا کا صحیح احساس ہوتا۔ اب بھی اگر ہم اپنے اپنے خود ساختہ اکابرین کی پیروی کے مقابلے میں اللہ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی اطاعت و اتباع کو اپنی اوّلین ترجیح بناتے ہوئے فرقوں سے لاتعلق ہو جائیں اور رسول اللہ ﷺ کے امّتی بن کر ان ہی کی سنّۃ واسوۃ الحسنہ کو اختیار کرلیں تو یقیناً اللہ کے اس فضلِ کبیر کے مستحق بن سکتے ہیں جس کا مژدہ اس متذکرہ بالا آیۃِ مقدسہ میں سنایا گیا ہے۔ یا اللہ ہمیں سچا، صالح مومن و مسلمان بنادے اور اپنے فَضْلًا كَبِيْرًا کا حقدار بننے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین
ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا "۔ (9سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)
یہاں آٹھ چیزیں گنوا دی گئی ہیں کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی ایک یا سب محبتوں کا مجموعہ اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلےمیں زیادہ ہے تو پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا لہجہ اور انداز ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص کو چاہئےکہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب کرے۔ اس کے ایک پلڑےمیں یہ آٹھ محبّتیں ڈالے اور دوسرے پلڑے میں ایک ایک کر کے باری باری اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جہاد کی محبّتیں ڈالے اور پھر اپنا جائزہ لے کہ کہاں کھڑا ہوں! چونکہ انسان خود اپنے نفس سے خوب واقف ہے (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ) ( القیامۃ) اس لیئے اسے اپنے باطن کی صحیح صورت حال معلوم ہو جائے گی۔ بہر حال اس سلسلے میں ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر تو اس کی ساری خواہشیں ، محبّتیں اور حقوق (بیوی، اولاد، نفس وغیرہ کے حقوق) ان تین محبتوں کے تابع اور ان سے کمتر درجے میں ہیں تو اس کے معاملاتِ ایمان درست ہیں اگر مذکورہ آٹھ چیزوں سے کسی ایک بھی چیز کی محبت یا سب محبتوں کو ملا کر اس مجموعے کا گراف یا وزن ، اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے جذبے سے اوپر چلا گیا تو یقین جان لیں کہ وہاں توحید و رسالت پر آپ کا ایمان ختم ہو چکا ہے اور جو کچھ آپ نے باقی بچا کے رکھا ہے وہ سوائے شرک کے کچھ نہیں ۔
ایمان کی اساس ہی اس جذبے پر قائم ہوتی ہے کہ بندہءِ مومن ، اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی محّبت ، اطاعت و اتباع کو باقی تمام انسانوں اور چیزوں کی محبّت، اطاعت و اتباع پر ترجیح دے ۔ اسی حقیقت کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے
یہ مال و دولت ِدنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ!
آیت زیر نظر میں جو آتھ چیزیں اللہ ربّ العٰلمین نے گنوائی ہیں ان میں سے پہلی پانچ رشتہ وپیوند کے زُمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری تیں ، مال و دولت ِ دنیاکی مختلف شکلیں ہیں ۔ علامہ اقبال ؔ فرماتے ہیں کہ ان چیزوں کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہ ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت ہیں۔ جب تک لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی شمشیر سے اِن بتوں کو توڑا نہیں جائے گا ، بندۂ مومن کے نہاں خانۂ دل میں توحید کا عَلَم بلند نہیں ہو گا۔
ترجمہ: "مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردو پیش ہیں ‘ ان کو یہ جائز نہیں تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ سے پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان (ﷺ)کی جان سے عزیز سمجھیں، یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو تھکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جو خبر لی ان سب پر ان کا (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا"۔ (9سورۃ التوبہ اٰیۃ 120)
اہل مدینہ اور ان کے اردگرد کے بدو لوگوں کے لئے زیبا نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو چھوڑ کر پیچھے رہ جاتے اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے یہ اس لیئے کہ انہیں ‘ پیاس مشقت اور فاقے کی (صورت میں ) جو بھی تکلیف پہنچتی ہے اللہ کی راہ میں ‘ اور جہاں کہیں بھی وہ قدم رکھتے ہیں کفار (کے دلوں) کو جلاتے ہوئے اور دشمن کے مقابلے میں کوئی بھی کا میابی حاصل کرتے ہیں تو ان کے لیئےاس (سب کچھ) کے عوض نیکیوں کا اندراج ہوتا رہتا ہےیقیناً اللہ نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
ترجمہ: "نبی (ﷺ) کا حق مؤمنین پر ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اور نبی (ﷺ) کی ازواج (مطہرات) ان(مؤمنین )کی مائیں ہیں ، اور کتاب اللہ کی رو سے رشتہ والے ، اور مسلمانوں اور مہاجرین کے بنسبت ، ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرو یہ کتاب میں لکھا ہے"۔ (33-الاحزاب، اٰیۃ-6)
ترجمہ: "اور جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔ (4-سورۃ النّساء– اٰیۃ- 115)
ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ ِمومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو ۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کا اتفاق یا امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں ۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو ۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے "کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی). سو راہ ِحق کے ترک و اختیار کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی جبر و اکراہ نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا " لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ" پس جو کوئی اپنے ارادہ و اختیار سے راہ حق و ہدایت کو اپناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اسی کی توفیق دیتا ہے اور جو کوئی اسکے برعکس ضلالت و گمراہی کے راستے کو اپناتا ہے اس کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے ، جس کفرو گمراہی کی طرف وہ دانستہ پھر گیا ہے اللہ اس میں حائل نہیں ہوتا اور اسے ادھر ہی پھرنے دیتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا " انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ" ( 009:127) ترجمہ: "جب یہ لوگ پھر گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا" یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا ضابطہ و دستور یہی ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، ان کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے جدھر کو انہوں نے اپنا رخ خود کیا ہوتا ہے، اور جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے "فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ" ( 061:005) ترجمہ: " جب یہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا"۔ یہاں پر المومنین سے مراد جیسا کہ ظاہر ہے اور حضرات مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ اس سے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) مراد ہیں، سو اس طرح اس ارشاد ربانی سے راہ حق اور راہ باطل دونوں واضح ہو جاتی ہیں پس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کی راہ حق کی راہ ہے۔ اور ان کے خلاف والی راہ باطل کی راہ ہے۔ اور رسول ﷺکی راہ سے،سنّۃِرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مراد ہے، اس لئے حق والوں کو اہل السنّۃکہا جاتا ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنّۃ کو ماننے والے نیز اہل حق چونکہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو حق مانتے ہیں اس لئے وہ اہل جماعت بھی کہلاتے ہیں ۔ یعنی حضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کی پوری جماعت کو بلا کسی تفریق و استثناء کے ماننے والے اس لئے حق والوں کا نام و عنوان "اہل السنّۃ و الجماعۃ" ہے یعنی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنّۃکو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کو بھی مانتے اور انکو معیار حق جانتے ہیں ۔ پس جو لوگ سنت کو نہیں مانتے وہ اہل حق کے خلاف، اور اہل باطل میں سے ہیں (جیسے پرویزی، جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث)، اور اسی طرح جو لوگ سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو نہیں مانتے بلکہ وہ ان کے درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں یعنی کچھ کو مانتے ہیں، اور باقیوں کو نہیں مانتے وہ بھی اہل حق میں سے نہیں، بلکہ اہل باطل میں سے ہیں جیسے وہ رافضی جو حضرات صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے بغض و عناد رکھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم، ان لوگوں کا شعار تبراء ہے ان کی کتابیں ایسی کفریہ مغلظات سے بھری پڑی ہیں، اور جو صرف "پنجتن" کے پاک ہونے کا نظریہ رکھتے اور دعویٰ کرتے ہیں۔
پس اہل حق وہی ہیں جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو بھی بلا تفریق و استثناء حق جانتے اور مانتے ہیں ۔ اسی لئے ان اہل حق کو "اہل السنۃ والجماعۃ" کہا جاتا ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت اور ان ﷺ کے صحابہء کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کی سب جماعت کو مانتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں پیغمبر نے ارشاد فرمایا "مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی" یعنی اہل حق اور نجات و فلاح پانے والے لوگ وہی ہیں جو میرے اور میرے صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے طریقے پر ہیں ۔ پس اس سے حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز واضح ہے۔ اور اس پرکھ و معرفت کیلئے ایک ایسا معیار رکھ دیا گیا جو نہایت واضح اور آسان بھی ہے۔ اور قیامت تک صاف راہنمائی کرنے والا بھی۔ والحمد للہ جل علا.
اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہر اس شخص کے لیئے باعث ہلاکت و تباہی ہےجس نےکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کو توڑا اور جان بوجھ کرکر ان کی خلاف ورزی کی - والعیاذ باللہ - اور رسول اللہ ﷺکی مخالفت اور نافرمانی کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ انسان پیغمبر کے لائے ہوئے دین متین سے پھر جائے اور اس سے مرتد ہوجائے اس میں اپنا الگ فرقہ بنائے - والعیاذ باللہ ۔ سو اللہ جَلَّ جَلَاُلہٗ اور اس کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت والعیاذ باللہ ہلاکت و تباہی کی راہ ہے اور اس کا نتیجہ و انجام بہت ہی برا اور نہایت ہی ہولناک ہے - والعیاذ باللہ العظیم - بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے رسول اور اس کی ہدایت کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان کے راستے سے ہٹ کر الگ اپنی پگڈنڈی (فرقہ) اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو ان کی اپنی چاہت اور انتخاب کے مطابق ان کی اپنی پگڈنڈی پر چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے - والعیاذ باللہ - اور ان کی اپنی اختیار کردہ یہ راہ ان کو سیدھی لے جا کر جہنم میں ڈالیگی جو کہ خساروں کا خسارہ اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اور یہ ایسا خسارہ ہے جس کی پھر تلافی بھی ممکن ہی نہیں ہوگی - والعیاذ باللہ العظیم - اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی عنایت و پناہ میں رکھے اور رسول اللہ ﷺ کی جماعۃ کے ساتھ جڑا رہنے کی توفیق عطا فرمائے - آمین ثم آمین۔
اہل ایمان کے راستے کی خلاف ورزی کا نتیجہ نہایت برا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے اہل ایمان کے طریقے کو چھوڑ کر کسی اور طریقے کی پیروی کی ۔ یعنی اس نے اہل ایمان کی راہ کو چھوڑ کر کسی ایسے راستے سے آپ ﷺکی پیروی کی جو کہ کتاب و سنت کی تعلیمات مقدسہ اور احکام کے مقتضیٰ کے خلاف ہو کہ اہل ایمان کا راستہ وہی ہے جو ان تعلیمات کے مطابق ہو ۔ اور وہ بھی وہ تعلیمات جو کہ صحیح فکر و فہم پر مبنی ہوں اور اسلاف امت یعنی صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) اور ان کے تابعین اور اَتباع تابعین (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے توسط سے ہمارے پاس پہنچی ہوں ۔ اور ان کو بھی انہی حضرات کی توضیح و تشریح کے مطابق مانا جائے۔ کیونکہ خیر القرون سے تعلق رکھنے والے یہ حضرات (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) قرآن و سنت کے منشاء و مدعا اور اس کے صحیح مفہوم و مصداق کو بعد کے لوگوں سے بہرکیف زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ اور اسی کی تائید و تصدیق اللہ آخری رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد عالی مقام سے ہوتی ہے " خَیْرُ الْقُرُوْن قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذینَ یَلُوْنَہُمْ " سو قرآن و سنّۃ، اور سلفِ امت، حضرات صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) اور ان کے بعد آنے والے وہ تمام اَصحاب وہ تمام اَصحاب صدق و صفا جو " وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ " کے زمرے میں آتے ہیں ، ان کی راہ ِحق و صدق کو چھوڑ کر کوئی اور راہ (فرقہ )اپنانا قطعی طور پر گمراہی ہے ، جس کا انجام ہلاکت و تباہی ہے - والعیاذ باللہ العظیم - اسی لئے اہل حق کو اہل السنّۃ والجماعۃ کہا جاتا ہے کہ وہ سنّۃِ رسول اللہ ﷺ کو بھی مانتے ہیں اور ان صاحب سنّۃ یعنی حضرت رسالت پناہ علیہ الصلوۃ والسلام کے جملہ صحابہء کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) اور ان کے سچے، صالح اور متّقی پیروکاروں کو بھی۔ اس سے ہمارے یہاں کے بعض رؤسائے اہل بدعت نے جو مروجہ بدعات کے جواز و ثبوت پر دلیل کشید کرنے کی سعی مذموم کی کہ چونکہ یہ بدعات عام اور جاہل مسلمانوں میں رواج پذیر ہیں ۔ اس لئے یہ درست ہیں ۔ تو یہ استدلال سراسر باطل و مردود ہے۔ کیونکہ بات ان عامۃ المسلمین کی نہیں جو دینی تعلیمات سے نابلد و نا آشنا ہیں ۔ بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور سلف امت کے فہم و ادراک کی ہے۔ اور ان میں سے کسی میں بھی ان بدعات میں سے کسی کا بھی نہ کوئی ثبوت ہے نہ وجود۔ نہ قرآن میں نہ حدیث میں ۔ اور نہ ہی خیر القرون کے اصحاب خیرو برکت میں ۔ بلکہ یہ سارے فرقےتو صرف ہمارے برصغیر ہندو پاک کے اہل ھویٰ اور شکم پرست اہل بدعت کی ایجادیں ہیں - والعیاذ باللہ العظیم - اور اسی طرح ان لوگوں کا " مَا راہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُو عِنْدَ اللّٰہ حَسَنٌٌ " کے مشہور اثر سے استدلال کرنا بھی سراسر باطل و مردود ہے۔ کیونکہ اس اثر کا بشرط صحت سیدھا صاف اور صحیح مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو اہل علم و فضل ، اور ثقہ مسلمان اچھا دیکھیں وہ اچھی ہے۔ نہ کہ وہ عامۃ المسلمین جن کو دین کی تعلیمات حقہ کا پتہ ہی نہ ہو ۔ ورنہ آج کے دور میں تو سینما بینی، فلم بینی ، جوابازی اور سودخوری، رشوت ستانی، زناکاری، وغیرہ کون کونسی برائیاں ہیں جو مسلم معاشرے کے اندر موجود نہیں ، اوامر (یعنی جن اعمال کو اختیار کرنے کا قرآن و سنّۃُ میں حکم ہے) کوآج کے دور میں عملاً "نہی" سمجھ کر ان سے اجتباب برتا جانے لگا ہے اور جو نواہی ہیں (یعنی جن اعمال کو اختیار کرنے سے قرآن و سنّۃ میں سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے) ان سب کوآج کل اوامر سمجھ کر اختیار کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے ۔ تو کیا اپنی اس منطق سے تم لوگ ان سب کے جواز کا فتوی دے دو گے؟ اور اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم لوگ یہاں پر یہ منطق کس طرح بگھارتے ہو؟ اللہ سے ڈرو ! رسول اللہ ﷺ کی جماعۃ (امّۃِ مسلمہ)میں تفرقہ ڈال کر اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں اپنی اپنی بنائی ہوئی خود ساختہ راہوں (فرقوں) کو چھوڑ دو کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے متنبہ کر دیا ہے (ترجمہ 4-سورۃ النّساء– اٰیۃ- 115) : "اور جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔ انسان اپنے انجام کا ذمہ دار خود : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بندہ جدھر کا رخ کرے گا اس کو ادھر ہی چلتا کردیا جائے گا : کیونکہ دین و ہدایت کی عظیم الشان اور بےبدل نعمت زبردستی اور اعراض و انکار کے رویے پر کبھی نہیں مل سکتی، بلکہ وہ سچی طلب اور حقیقی تڑپ پر ملتی ہے، جس کو دلوں کے راز جاننے والا وہ علّام الغیوب پوری طرح جانتا ہے۔ پس دارومدار آدمی کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے۔ جدھر جائے گا اس کو ادھر ہی چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ یہاں سودا زور زبردستی کا ہے ہی نہیں، بلکہ { نُولِّہٖ مَا تَوَلّٰی } کا اصول کارفرما ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے جدھر جانا چاہے گا اور جو رخ اور راستہ اپنائے گا اس کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا۔ کہ دنیا کے اس دارالامتحان میں اصل مدار و انحصار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے۔ سو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ } (النصف: 5) یعنی جب ان لوگوں نے زیغ اور ٹیڑھے پن کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت کی دولت سے نہیں نوازتا - والعیاذ باللہ العظیم -

پرویزاقبال آرائیں
About the Author: پرویزاقبال آرائیں Read More Articles by پرویزاقبال آرائیں: 21 Articles with 27240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.