حج کا مکمل مسنون طریقہ

احرام کہاں سے باندھیں؟
اگر سیدھے مکّہ مکرمہ جانے کا ارادہ ہو تو جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ایئر پورٹ پر احرام باندھیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کردیں۔ اگر جہاز پر سوار ہونے سے پہلے احرام نہیں باندھا ہے تو جدہ پہنچنے سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل ضرور احرام باندھ لیں، ورنہ میقات سے بلا احرام آگے بڑھنے کے جرم میں قربانی واجب ہوجائے گی۔ (اس لئے کہ ہندوستان وغیرہ سے جانے والا ہر ہوائی جہاز قرن المنازل کی میقات یا اس کی محاذات سے گذر کر جدّہ پہنچتا ہے۔ اس مقام سے گذرنے سے پہلے حجاج کو بہر حال احرام باندھ لینا ضروری ہے) اگر پہلے مدینہ منوّرہ جانے کا نظام ہو تو یہاں سے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جب مدینہ منوّرہ سے مکہ معظمہ جانا ہو تو ذوالحلیفہ سے احرام باندھا جائے گا۔

احرام باندھنے کا منسون طریقہ
احرام باندھنے سے پہلے مستحب ہے کہ حجامت بنوالیں، ناخن کترلیں، بغل اور زیر ناف بال صاف کرلیں۔ اس کے بعد احرام کی نیت سے غسل کرلیں۔ اگر غسل کا موقع یا انتظام نہ ہو تو وضو کرلیں۔ غسل یا وضو کے بعد مرد حضرات سلا ہوا کپڑا اتار دیں اور ایک تہبند باندھ لیں، اور اوپر ایک چادر اوڑھ لیں، اور خوشبوں لگائیں اس طرح کہ کپڑے پر داغ نہ لگنے پائے، یہ دونوں چادریں سفید ہوں تو بہتر ہے۔ اگر تہبند کو درمیان سے سی لیا جائے تو بھی جائز ہے اور جو حضرات بلاسلی لنگی پہننے کے عادی نہیں ہیں انہیں سلی ہوئی لنگی پہننی چاہئے تاکہ کشفِ عورت کا اندیشہ نہ رہے۔ خواتین احرام کے لئے سلے ہوئے کپڑے نہیں اتاریں گی، بلکہ ان کا احرام صرف یہ ہے کہ وہ اپنا سر ڈھانک لیں اور چہرہ کھولے رکھیں، اور پردہ کے لئے بہتر ہے کہ یہ نقاب کے اوپر کوئی ہیٹ لگالیں تاکہ نقاب چہرے پر نہ لگ سکے۔

احرام کی تیاری کے بعد اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نماز نفل احرام کی نیت سے پڑھیں، بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھیں۔ اس نماز کے پڑھتے وقت چادر وغیرہ سے سر کو ڈھانک لینا افضل ہے کیونکہ ابھی احرام کی پابندیاں شروع نہیں ہوئیں۔ اگر اس وقت خواتین ناپاکی کے ایام میں ہوں تو وہ نماز نہ پڑھیں بلکہ ویسے ہی احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لیں۔ مرد حضرات نماز سے فارغ ہوکر سر سے چادر ہٹالیں اور اس کے بعد حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتّع میں سے جس قسم کا ارادہ ہو اس کی نیت کریں۔ اس کے بعد مرد بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں۔ تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں: لَبَّیْکَ اَللّٰھَمَّ لَبَّیْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ وَالْمَلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَک.

نیت کے ساتھ تلبیہ کے بعد اب آپ باقاعدہ محرم بن گئے اور احرام کی ساری پابندیاں شروع ہوگئیں۔ تلبیہ کے بعد جو چاہے دعا مانگیں، یہ دعا مانگنی مستحب ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارْ ۔

حج تمتّع کی صورت میں مکہ معظمہ پہنچ کر طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ پڑھنا بند کردیا جائے گا اور حج افراد اور حج قرآن میں یہ تلبیہ ۱۰؍ ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ (جسے پڑا شیطان بھی کہا جاتا ہے) کی رمی تک جاری رہے گا اور جب تک بھی تلبیہ کا حکم باقی رہے کثرت سے اور پورے ذوق و شوق سے تلبیہ پڑھنا جاری رکھا جائے، اور پڑھتے وقت اس کے معنیٰ کا بھی استحضار رکھیں، اور یہ تصور کریں کہ ایک سراپا خطا غلام اپنے مہربان آقا کے دربار میں حاضر ہوا ہے۔

بیت اللہ میں حاضری
مکہ معظمہ پہنچنے اور رہائش وغیرہ کے متعلق انتظامات وغیرہ مکمل ہونے پر اب حرمِ محترم میں حاضری کے لئے تیار ہوجائیں۔ بیت اللہ شریف پر نظر پڑتے ہی خوب دل جمعی اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا کریں اور اگر آپ نے حج افراد کا احرام باندھا ہوتو جاتے ہی اولاً طوافِ عمرہ کریں، حج تمتّع کرنے والے کے لئے طوافِ قدوم کا حکم نہیں ہے، اور حج قران کرنے والا عمرہ کے بعد طوافِ قدوم کرے گا۔ تمتّع اور قران کرنے والا شخص اس طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل اور ساتوں چکروں میں اضطباع کرے گا، اور اس کے بعد عمرہ کی تکمیل کے لئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے گا۔ اور حج افراد کرنے والا اگر طوافِ قدوم کے بعد ہی حج والی سعی کرنا چاہے تو اسے بھی طوافِ قدوم میں رمل اور اضطباع کرنا پڑے گا۔ رمل اور اضطباع مردوں کے لئے ہر اس طواف میں مسنون ہے جس کے بعد سعی کا ارادہ ہو۔ عورتوں کے لئے رمل اور اضطباع کا حکم نہیں۔

طواف کی ابتداء و انتہاء حجر اسود کے استلام (بوسہ لینے) سے ہوتی ہے۔ حجر اسود کے سامنے فرش پر پورے مطاف میں ایک کالی پٹّی بنی ہوئی ہے، اس پٹّی کے قریب جا کر اس طرح کھڑے ہوں کہ حجر اسود دائیں جانب ہو۔ پھر طواف کی نیت اس طرح کریں کہ ’’ اے اللہ میں خالص تیری رضا اور خوشنودی کے لئے تیرے مقدس گھر کے سات چکّروں کے طواف کی نیت کرتا ہوں۔ لہذا اسے میرے لئے آسان کردے اور قبول فرما۔‘‘ نیت کرنے کے بعد دائیں طرف چلیں اور حجراسود کے بالکل سامنے آجائیں یعنی چہرہ اور سینہ حجراسود کی طرف کرکے کالی پٹی پر کھڑے ہوجائیں اور پھر نماز کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْدپڑھیں اور ہاتھ چھوڑ دیں۔ اس کے بعد حجراسود کا استلام کریں، اس کی صورت یہ ہے کہ اگر حجراسود تک پہنچنے کا موقع مل جائے تو اپنا منہ دونوں ہاتھوں کے بیچ میں اس طرح رکھیں جیسے نماز میں سجدے میں رکھا جاتا ہے اور نرمی کے ساتھ بوسہ دیں اور اگر بھیڑ کی وجہ سے حجراسود تک نہ پہنچ سکیں تو پھر کالی پٹی پر کھڑے کھڑے دور سے دونوں ہتھیلیاں حجراسود کی طرف اس خیال کے ساتھ کریں کہ وہ حجراسود پر رکھی ہوئی ہیں پھر ان ہاتھوں کو چوم لیں۔ اور اس وقت یہ کلمات پڑھیں:اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ.

دور سے استلام کرنے میں بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا قریب سے بوسہ لینے میں، اس لئے زیادہ بھیڑ میں جانے کی کوشش نہ کریں، خاص کر خواتین حتی الامکان غیر مردوں کے اختلاط سے بچنے کا اہتمام کریں۔ استلام کرنے کے بعد فوراً اپنا چہرہ، سینہ اور قدم حجراسود کو اپنے دائیں طرف کرکے چلنا شروع کردیں اور چکر کے دوران رُخ بیت اللہ شریف کی طرف نہ کریں بلکہ نظر نیچے کئے ہوئے گولائی میں چلتے رہیں اور جب ایک چکر پورا ہوجائے اور دوبارہ کالی پٹی پر پہنچیں تو پھر چہرہ اور سینہ حجر اسود کی طرف کرکے استلام کریں اور فوراً پہلی ہیئت پر آجائیں، اسی طرح ساتوں چکر پورے کریں۔ ہر چکر میں جب بھی رکن یمانی پر پہنچیں تو اگر قریب ہوں تو سینہ اور قدم بیت اللہ شریف کی طرف کئے بغیر دونوں ہاتھوں یا صرف دائیں ہاتھ سے رکن یمانی کو چھونا سنت ہے، لیکن اس وقت ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے گا، اور اگر بھیڑ کی وجہ سے قریب جانا مشکل ہو تو دور سے اشارہ وغیرہ نہ کیا جائے بلکہ وہاں سے ویسے ہی گذر جائیں۔ طواف کے ساتوں چکروں میں باوضو رہنا ضروری ہے۔ اگر پہلے چا رچکروں کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو وضو کرکے طواف از سر نو کرنا ہوگا اور اگر چار چکروں کے بعد وضو ٹوٹا ہے تو اختیار ہے چاہے تو وضو کرکے بقیہ چکروں کو پورا کرلے یا ازسرِ نو طواف کرے۔ اور طواف کے دوران ذکر واذکار، تسبیحات، دینی گفتگو اور جو بھی دعا یاد ہو وہ کی جاسکتی ہے۔ متعین دعائیں پڑھنا ہی ضروری نہیں اور جو دعا بھی پڑھیں اتنی آہستہ پڑھیں کہ دوسروں کی عبادت میں خلل نہ پڑے۔ طواف کے دوران جب رکن یمانی سے گذریں تو حجراسود تک پہنچتے پہنچتے درج ذیل دعا پڑھنا احادیث سے ثابت ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ۔ رَبَّنَا آتِنَا فَی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْاَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، وَاَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ الْاَبْرَاْرِ یَا عَزِیْزُ، یَا غَفَّار،ُ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ .

اگر طواف میں اضطباع کیا گیا ہے تو طواف کے بعد سب سے پہلے اضطباع کی کیفیت ختم کرلیں اور اپنے دونوں مونڈھے احرام کی چادر سے ڈھک لیں۔ طواف کے سات چکر پورے ہونے پر دو رکعت نماز واجب الطواف پڑھنا ضروری ہے۔ ہاں اگر مکروہ وقت ہو تو مزید طواف کرسکتے ہیں، اور مکروہ وقت گذرنے کے بعد سب طوافوں کی الگ الگ نمازیں ترتیب وار پڑھ لیں۔ طواف کے دوران نمازیوں کے آگے سے گذرنا منع نہیں اور طواف کے علاوہ حالت میں بہتر ہے کہ نمازی کے عین سامنے سے نہ گذریں بلکہ کم از کم سجدے کے مقام کے آگے سے گذریں۔ طواف کی نماز مقام ابراہیم ؑ کے سامنے پڑھنا مسنون ہے۔ پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھیں۔ اگر مقامِ ابراہیم ؑ میں بھیڑ کی وجہ سے جگہ نہ ملے تو پورے حرم میں کہیں بھی طواف کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

طواف کے بعد ملتزم (جو حجراسود اور بیت اللہ شریف کے دروازے کے درمیان تقریباً ڈھائی گز کی کعبہ کی دیوار کا حصہ ہے) سے لپٹ کر دعا مانگنا مستحب ہے۔ اگر موقع ملے تو اس جگہ سے لپٹ کر اپنا چہرہ اور پیٹ اور سینہ لگا کر جو چاہیں دعا مانگیں۔ یہ دعا کی قبولیت کا خاص مقام ہے۔ البتہ اگر احرام کی حالت میں ہوں تو اس سے نہ لپٹیں کیونکہ اس جگہ پر خوشبو لگائی جاتی ہے جس کا احرام کی حالت میں بدن سے لگانا منع ہے۔ طواف کے بعد زمزم پینا بھی مسنون ہے اور زمزم پیتے وقت جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔

صفا مروہ کی سعی
طواف کے بعد اگر سعی کرنی ہے تو حجراسود کا استلام کرکے کالی پٹی کی سیدھ میں چلیں، اسی جانب صفا پہاڑی کا مقام ہے۔ جب اس جگہ کے قریب پہنچیں اور چڑھنے کا ارادہ کریں تو یہ الفاظ کہیں : اَبْدَأُبِمَا بَدَاَ اللہُ تَعَاَلیٰ بِہٖ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعْاءِرِ اللہِ۔

صفا پر بس اتنا چڑھیں جہاں سے بیت اللہ شریف نظر آئے، زیادہ اوپر چڑھنا مکروہ ہے۔ یہاں اوّلاً قبلہ رخ ہو کر سعی کی نیت کریں پھر اس طرح ہاتھ اٹھائیں جس طرح دعا میں اٹھائے جاتے ہیں۔ نماز کی تکبیر تحریمہ کی طرح کانوں تک ہاتھ نہ اٹھائیں جیسا کہ بہت سے ناواقف لوگ کرتے ہیں اور ہاتھ اٹھائے ہوئے ذکر واذکار اور دعا میں مشغول ہوں، یہ بھی دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔ پھر صفا سے مروہ کی طرف چلیں، مروہ پہنچ کر ایک چکر مکمل ہو جائے گا۔ مروہ میں بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاکرذکر واذ کار میں مشغول ہوں، جیسا صفا پر کیا ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان جہاں ہری لائٹیں لگی ہوئی ہیں اس حصے میں مردوں کے لئے تیز چلنا مسنون ہے، لیکن عورتیں اپنی ہیئت پر چلتی رہیں، وہ ہر گز نہ دوڑیں۔ سبز ہرے ستونوں کے درمیان یہ دعا پڑھنا بھی منقول ہے: رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالْاَکْرَم ۔

سعی کے دوران اگر وضو باقی نہ رہے تو وضو کرنا لازم نہیں، اگر وضو کرکے آئے تو از سر نوسعی کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ بس بقیہ چکر پورے کرلیں، خواہ شروع سعی میں وضو ٹوٹا ہو یا بعد میں۔ سعی سے فارغ ہوکر مسجد حرام میں کسی جگہ، دو رکعت نفل پڑھنا بھی مستحب ہے۔ یہ نماز سر منڈوانے سے پہلے پڑھی جائے گی۔ خیال رہے! سعی صرف عمرہ یا حج کے ارکان کے ساتھ مشروع ہے۔ بلا عمرہ یا حج نفلی سعی ثابت نہیں۔

سر کے بال منڈوانا؍ کتروانا
سعی کی تکمیل کے بعد عمرہ کرنے والے (اور تمتع والے) حضرات سر کا حلق یا قصر کرا کر احرام کھول دیں۔ حلق یا قصر کے بغیر احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوسکتیں اور حنفی مسلک میں کم از کم چوتھائی سر کا حلق یا قصر لازم ہے اور پورے سر کا حلق یا قصر سنت ہے۔ جس شخص کے سر میں ایک انگلی کے پوروے سے کم بال ہوں اس کے لئے قصر جائز نہیں، بلکہ حلق (منڈوانا) ضروری ہے۔ حلق یا قصر حدودِ حرم میں ہونا ضروری ہے ورنہ دَم لازم ہوگا۔ عمرہ کرنے والا یا حج کرنے والا جب سب ارکان ادا کرچکے اور صرف حلق یا قصر باقی رہ جائے تو اپنے بال خود بھی کاٹ سکتا ہے اور اپنے جیسے دوسرے محرم کے بال بھی، لیکن بال کے کاٹنے سے پہلے ناخن وغیرہ نہ کاٹے ورنہ دَم لازم ہوجائے گا۔

عمرہ کے بعد مکہّ میں قیام
عمرہ کی تکمیل کے بعد تمتع والا حاجی حلال ہوجاتا ہے۔ اب مکہ معظمہ کے قیام کو غنیمت خیال کریں اور زیادہ سے زیادہ طواف، حرم میں نماز با جماعت اور تلاوت و اذکار کا اہتمام رکھیں۔ یہاں ہر نیکی کا ثواب ایک لاکھ گنا ملتا ہے۔ اگر چاہیں تو اس درمیانی زمانہ میں آپ نفلی عمرے بھی کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں حدودِ حرم سے باہر تنعیم (مسجد عائشہؓ) یا جعرانہ وغیرہ جاکر احرام باندھنا ہوگا۔

منیٰ کے لئے روانگی
یو م الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ کی رات ہی سے منیٰ کی روانگی شروع ہوجاتی ہے۔ اس لئے آپ ۷؍ ذی الحجہ کی شام ہی سے احرام وغیرہ کی تیاریاں مکمل کرلیں تاکہ معلم کی بسوں کے نظام کے مطابق آپ منیٰ جاسکیں۔ کیونکہ ناواقف اور ناتجربہ کار لوگوں کے لئے معلم کی بسوں کے بغیر منیٰ کی قیام گاہ پر پہنچ پانا بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔ البتہ جو حضرات واقف کا ر ہیں وہ اطمینان سے آٹھویں تاریخ کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد منیٰ روانہ ہوں۔

حج کا احرام اگر چہ مکہ معظمہ میں اپنی قیام گاہ پر بھی باندھا جاسکتا ہے لیکن مسجد حرام میں جاکر نیت اور تلبیہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ جو حضرات طواف زیارت کے بعد کی بھیڑ سے بچنا چاہیں اس دن ہی ایک نفلی طواف (مع ر مل و اضطباع) کرکے حج کی سعی مقدم بھی کرسکتے ہیں۔ اگر اس وقت سعی کرلی تو بعد میں سعی کی ضرورت نہ ہوگی۔ منیٰ جاتے وقت ایک جوڑا کپڑا، لوٹا، چٹائی، چھتری اور پانی کا تھرمس اور کچھ کھانے کی خشک چیزیں (بسکٹ، نمکین وغیرہ) جیسے ضروری سامان لے لیں، زیادہ بوجھ نہ کریں، اور خیموں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہونے دیں۔ بلکہ درمیان میں چادر ڈال کر دونوں کے حصے الگ کردیں۔ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی نماز فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد مردوں کے لئے بلند آواز سے اور عورتوں کے لئے آہستہ آواز سے ایک مرتبہ تکبیر تشریق:اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُپڑھنا واجب ہے۔

عرفات کے میدان میں
سنت یہ ہے کہ فجر پڑھ کر عرفات کے لئے روانہ ہوں۔ عرفات جاتے وقت نہایت ذوق و شوق کے ساتھ تلبیہ کاورد کریں اور رحمتِ خداوندی کے امیدوار بن کر عرفات کا قصد کریں کیونکہ یہی پورے حج کا ماحصل ہے۔
عرفہ کا وقوف جو کہ فرض ہے وہ زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے، اس لئے زوال سے پہلے ہی پوری تیاری کرلیں، تاکہ بعد میں کوئی وقت ضائع نہ ہو۔ اس دن جو لوگ مسجد نمرہ میں امام عرفات کے پیچھے نمازیں پڑھیں وہ تو ظہر اور عصر دونوں نمازیں ظہر کے وقت میں ادا کریں گے مگر جو حضرات اپنے اپنے خیموں میں انفرادی یا اجتماعی نمازیں پڑھیں ان کے لئے دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھنی ضروری ہیں۔ اگر وہ ظہر کے وقت میں عصر پڑھ لیں گے تو ان کی عصر ادا نہ ہوگی۔ غروب آفتاب تک عرفات میں قیام کرنا واجب ہے۔

وقوف عرفات کا پورا وقت دعا، ذکر، تلبیہ اور دیگر عبادات میں گذاریں۔ البتہ جو لوگ امام عرفات کے ساتھ جمع بین الصلوٰتین کرچکے ہیں وہ اب کوئی نماز نہ پڑھیں، اور خیموں میں رہنے والے حضرات ظہر سے عصر کے درمیان جتنی چاہیں نمازیں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ قیمتی لمحات سستی میں ہر گز ضائع نہ کریں۔ غروب سے کافی پہلے ہی معلم کے آدمی حاجیوں کو بسوں میں بٹھانا شروع کردیتے ہیں۔ اگر بس میں بیٹھ بھی جائیں تو ذکر واذ کار اور دعا سے غافل نہ ہوں۔ یہ بسیں غروب سے پہلے عرفات سے نہیں نکل سکتیں اس لئے اپنی سیٹوں پر بیٹھے بیٹھے دعا، تلبیہ اور اذکار میں مشغول رہیں۔ غروب ہونے اور رات آجانے کے باوجود عرفات میں مغرب کی نماز ادا نہیں کی جائے گی۔

مزدلفہ کو روانگی
سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے مزدلفہ کو روانگی ہوگی۔ اب جب بھی آپ مزدلفہ پہنچیں تو عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ ان دونوں کا جمع کرکے پڑھنا سب پر ضروری ہے۔ خواہ اکیلے نماز پڑھیں یا امام کے ساتھ۔

مزدلفہ کی یہ رات بہت ہی متبرک ہے۔ بعض علماء نے اسے شبِ قدر سے بھی افضل بتایا ہے۔ اس لئے اس رات میں تھکان کے باوجود عبادت کرنا بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اسے محض سوکر ضائع نہ کریں۔ مزدلفہ میں عام طور پر کھلے آسمان کے نیچے اپنی اپنی چٹائیوں پر رات گذاری جاتی ہے۔ نیز بہت کچھ انتظامات کے باوجود پانی وغیرہ کی قلت کا سامنا ہوتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ عرفات ہی سے پانی وغیرہ کا انتظام کرلیں اور کچھ کھانے پینے کی اشیاء بھی ہمراہ لے لیں۔

حنفیہ کے نزدیک وقوفِ مزدلفہ کا اصل واجب وقت ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح سے طلوعِ آفتاب کے درمیان ہے۔ اس لئے اوّل وقت فجر کی نماز پڑھ کر جتنی دیر ہوسکے مزدلفہ کا وقوف کریں اور الحاح وزاری کے ساتھ دعا میں مشغول رہیں۔ مزدلفہ میں شیطان کی رمی کے لئے چنے کے دانے کے بقدر کنکریاں جمع کرلیں اور انہیں پانی سے پاک کرلیں۔

مزدلفہ میں قبلہ کی تعیین کی آسان شکل یہ ہے کہ بیت اللہ شریف کے اوپر ایک پہاڑی پر بہت بڑا ٹاور لگا ہوا ہے اس پر سفید لائٹ جلتی بجھتی رہتی ہے۔ یہ مکہّ معظمہ کے اِرد گرد میلوں سے نظر آتی ہے۔ رات کے وقت قبلہ معلوم کرنے کی یہ آسان صورت ہے۔ مزدلفہ میں آپ جس مقام پر بھی ہوں اس لائٹ کو دیکھ کر قبلہ کی تعیین کرلیں۔

مزدلفہ سے واپسی
۰ ۱؍ ذی الحجہ کو وقوفِ مزدلفہ کے بعد منیٰ کے لئے روانگی ہوگی۔ اگر ہمت اور طاقت ہو اور منیٰ میں اپنی جائے قیام کا صحیح پتہ معلوم ہو اور ضعیف خواتین وغیرہ ساتھ نہ ہوں تو مزدلفہ سے منیٰ کے لئے بسوں سے سفر کرنے کے بجائے پیدل آنے میں زیادہ سہولت ہے۔ اس سے آپ کا وقت کافی بچ جائے گا۔

دوبارہ منیٰ میں
منیٰ پہنچ کر سب سے پہلا عمل آخری جمرہ (بڑے شیطان) کو کنکری مارنا ہے۔ آج کل صبح کے وقت اژدہام ہوتا ہے۔ اس لئے زیادہ شوق میں آکر جان کو خطرہ میں نہ ڈالیں بلکہ منیٰ پہنچ کر اوّلاً اپنی قیام گاہ پر آرام کریں۔ اور دوپہر یا اس کے بعد اطمینان سے جاکر رمی کریں، بالخصوص ضعفاء اور خواتین کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ رمی شروع کرتے ہی تلبیہ پڑھنے کا سلسلہ بند کر دیں۔ اگر صرف حج کا احرام ہو تو رمی کے بعد حلق یا قصر کراکر احرام کھول دیں اور خواتین کیلئے حلق جائز نہیں، وہ صرف اتنا کریں کہ چوٹی کے سرے سے انگلی کے پوروں کے برابر اپنے بال کاٹ لیں۔ اگر قران یا تمتع کا احرام ہے تو پہلے واجب قربانی کریں اس کے بعد ہی سر منڈوائیں۔

حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق قارن اور متمتع کے لئے رمی، قربانی اور حلق میں ترتیب واجب ہے، اس لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ یہ ترتیب قائم رہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے ضعف یا نئے سعودی قوانین یا کسی اور عذر کی بناء پر ترتیب قائم نہ رکھ سکے تو صاحبینؒ اور ائمہ ثلاثہ کے قول پر اس پر دَم واجب نہ ہوگا۔

طوافِ زیارت
قربانی اور حلق کے بعد طوافِ زیارت کے لئے مکہّ معظمہ جائیں، یہ طواف فرض ہے اور۰ ۱؍ سے ۱۲؍ ذی الحجہ تک کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جو عورت ناپاک ہو وہ اس وقت طواف زیارت نہ کرے بلکہ منیٰ ہی میں مقیم رہے اور بعد میں پاک ہونے پر طوافِ کرے۔ اس تاخیر سے اس پر کوئی جرمانہ نہ ہوگا۔

اگر پہلے حج کی سعی نہ کی ہو تو طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنی ہوگی اور اس طواف کے شروع کے تین چکروں میں رمل کیا جائے گا اور جب حلق کے بعد سلے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کریں تو اضطباع نہ ہوگا اور سعی بھی سلے ہوئے کپڑوں میں ہوگی۔ ایام منیٰ (۱۰، ۱۱، ۱۲؍ ذی الحجہ) میں رات کا اکثر حصہ بھی منیٰ میں گذارنا مسنون ہے۔

رمی جمار
۱۱؍ اور۱۲؍ تاریخ کو زوال کے بعد سے تینوں جمرات کی رمی کی جائے گی۔ اس میں بھی اوّل وقت بھیڑ میں جانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اطمینان اورآرام کے ساتھ رمی کریں۔ ان دودِنوں میں زوال سے قبل رمی جائز اور معتبر نہیں ہے، اس کا خیال رکھیں۔ کمزور اور خواتین اگر رات میں رمی کریں تو ان پر کراہت نہیں ہے۔ لہذا جو لوگ رات کے وقت میں رمی کرنے پر قادر ہوں ان کی طرف سے دوسرے کی رمی درست نہ ہوگی۔
کنکری اس طرح ماریں کہ وہ گول دائرہ کے اندر ہی گریں اس سے باہر نہ جائیں۔ جمرۂ عقبہ اور جمرہ وسطیٰ کے بعد قبلہ رو ہو کر دعا مانگنا مسنون ہے، آخری جمرہ کے بعد دعا کا حکم نہیں ہے۔ منیٰ کے ایام خاص طور پر ذکرِ خداوندی کے دن ہیں۔ اس دوران عبادات کا خاص اہتمام رکھیں۔ ۱۲؍ ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے منیٰ سے مکہّ معظمہ کے لئے روانہ ہوجائیں۔ اگر ۱۳؍ ذی الحجہ کی صبح صادق تک منیٰ میں رک گئے تو ۱۳ ویں تاریخ کی رمی بھی واجب ہوجائے گی۔

طوافِ وداع
مکہّ معظمہ واپس ہوکر جو حضرات فوراً وطن جانا چاہتے ہیں ان پر جانے سے پہلے طواف وداع کرنا واجب ہے۔ اگر بلا عذر اسے چھوڑ دیا تو دَم لازم ہوجائے گا، طواف زیارت کے بعد کیا گیا نفلی طواف بھی طواف وداع کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص طواف وداع کئے بغیر میقات سے باہر چلا جائے تو اس پر دَم واجب ہے اور وہ اوّلاً عمرہ کرے پھر طواف وداع کرے، صرف طواف وداع کے لئے باہر سے بلا احرام عمرہ آنا منع ہے۔ جو عورت واپسی کے وقت ناپاک ہو اس کے لئے طواف وداع کے لئے رکنا لازم نہیں، وہ بلا طواف وداع کئے وطن لوٹ سکتی ہے۔

مکہ معظمہ میں جتنا بھی قیام نصیب ہو اسے غنیمت سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ طواف اور عمروں کا اہتمام رکھیں، زندگی میں یہ مواقع باربار نصیب نہیں ہوتے۔ واپسی کے وقت نہایت حزن و ملال کا اظہار کریں، اور بیت اللہ کی جدائی پر گریہ وزاری کے ساتھ واپس ہوں۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو بار بار مقبول حاضری کی دولت سے نوازے۔ آمین یارب العالمین۔
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347121 views (M.A., Journalist).. View More