’حِجا ب‘ عربی اور’ پَردَہ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے ،اردو
میں بھی لفظ پردہ ہی مستعمل ہے لیکن حجاب کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان
دونوں لفظوں کے معنی کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں یعنی نقاب، اوڑھنا، ستر،
آڑ،اوٹ، رکاوٹ، چلمن، نقاب، حیا، شرم، جھجک، جھینپ، گھونگٹ،آھنگ،الاپ، پردہ
عبایا یابرقع وغیرہ ‘۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حجاب یا پردہ سے’
عورت کا اپنے آپ کو غیر محرموں اور اجنبیوں سے خود کو پوشیدہ یا چھپا کے
رکھنا ہے‘۔ لفظ ’عورت ‘ بھی عربی زبان کالفظ ہے جس کے معنی ’چھپی ہوئی،
ڈھکی ہوئی،پوشیدہ،مخفی اور پردہ نشیں کے ہیں۔ہمارے معاشرہ میں لفظ پردہ کا
استعمال دیگر چیزوں کے لیے بھی ہوتا ہے مثال کے طور پر ہم اپنے گھروں،
دفتروں، دکانوں کی کھڑکیوں، دروازوں، روشن دانوں پر حسین و جمیل پردے
لٹکاتے ہیں اور انہیں ’پردہ‘ کہا جاتا ہے، ایک ہی جگہ یا کمرے کو کپڑے کے
ذریعہ دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو پردہ کہلاتا ہے۔ اکثر بڑے ڈرائنگ روم
کو جو ڈائنگ روم بھی ہو کو عارضی پردے کے ذریعہ دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا
ہے۔کچی آبادیوں ، غریب محلوں، خانہ بدوشوں کی جھونپڑیوں میں کپڑے کے پردوں
کا عام استعمال نظر آتا ہے۔ کچے مکانوں میں دروازوں حتیٰ کے باورچی خانوں،
غسل خانوں اور بیت الخلایا جائے ضرورت کے دروازوں پر کپڑے یا ٹاٹ کے پردو
سے ہی اس جگہ کو محفوظ کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں حجاب سے مراد وہ’ پردہ‘
یا’حجاب‘ ہے جو مسلمان عورت کو قرآن میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر مخصوص دن(Day)، سال(Year) اور دس سالوں (Decade) کو منانے کے
لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں نے مختلف دنوں ،
ہفتوں ،سالوں اور دس سالوں کا انتخاب کیا جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح کے
مسائل اور issuesجن میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے تھے
کو اجاگر کرنا تھا۔بسا اوقات یو این کے ذیلی ادروں نے اپنے پروگرام کے
مطابق بعض مسائل کو اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں کو مقرر کرلیا جیسے عالمی
ادارہ صحت WHOنے صحت کا عالمی دن، World No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن
،دل کا عالمی دن،ٹی بی کاعالمی دن وغیرہ کے انعقاد کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح
یونیسکو نے بھی بعض موضوعات کو اجاگر کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار
کرنے کے لیے مختلف دنوں کا انتخاب کیا اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے
سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسیزاور نمائش کااہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا
عالمی دن‘، عالمی لٹریسی ڈے‘، عالمی ماحولیاتی ڈے‘، ماں کا عالمی دن، باپ
کا عالمی دن،مادری زبان کا عالمی دن ، کتاب کے عالمی دن کے لیے یونیسکو نے
23 اپریل کا انتخاب کیا اور اس دن کو ’’کتاب اور کاپی رائٹ کا عالمی دن‘‘
قرار دیا۔بنیادی مقصد عوام الناس میں کتاب کی اہمیت اجاگر کرنا،کتاب سے
محبت اور انسیت کا شعور بیدار کرنا، لوگوں میں مطالعہ کی عادت کا فروغ شامل
ہے اوراسی طرح دیگر موضوعات پر دنوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔دنوں کے علاوہ
پورے پورے سال کو کسی عالمی نوعیت کے موضوع کے منتخب کر لیا جاتا ہے جیسے
1968عالمی سال برائے انسانی حقوق تھا ، 1970عالمی سال برائے تعلیم تھا،
1974 عالمی سال برائے آبادی کے طور پر منایاگیا۔ پورے سال ان موضوعات پر
آگاہی کے پروگرام ترتیب دئے جاتے رہے، اسی طرح دس سالوں یعنی(Decade) پر
مبنی پروگرام بھی اقوام متحدہ کی جانب سے ترتیب دیے جاتے ہیں جیسے
2005-2015 زندگی کے لیے پانی (Water for Life Decade)منتخب کیا گیا ہے۔
4ستمبر کو ’حجاب کا عالمی دن‘قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات واضح اور طے شدہ
حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ یا اس کا کوئی ذیلی ادارہ حجاب یا پردہ کو اہمیت
نہیں دے گا اور اس کے لیے کوئی دن مقرر نہیں کرسکتا۔ جس کی وجہ مغرب کا
اسلام سے واضح ٹکراؤ ہے۔ مغرب نے تو عورت کے حجاب کرنے یا نقاب لینے کو غیر
قانونی قرار دیا اور اس کی خلاف ورزی پر سزا تجویز کی ۔ مغرب یا مغربی
ممالک کے لیے حجاب یا پردہ غیر اہم ہوسکتا ہے لیکن مسلمان عورت کے لیے حجاب
کی اہمیت مسلمہ ہے۔ 4 ستمبر کو’ عالمی حجاب دن‘ منتخب کرنے کی وجہ یہ سامنے
آئی کہ 2 ستمبر2003 میں فرانس میں عورت کے اسکارف پر پابندی کا قانون منظور
کیا گیا۔اس سے قبل مختلف مغربی ممالک غیر اعلانیہ طور پر مسلمان خواتین کے
حجاب کرنے یا نقاب لینے کو نہ پسند کرتے اور اسے تَضحِیک آمیز نظروں سے
دیکھا کرتے ۔گویا ایسی مسلمان خواتین کے لیے متعصبابہ اور امتیازانہ سلوک
روا رکھا جاتا۔ 9/11 کے واقع کے بعد اس رویے میں زیادہ تیزی آگئی۔یہ واقعہ
دنیا کی تاریخ میں مغرب اور مشرق کے مابین کھچاؤ اور تناؤ کا باعث بنا ،
مغرب نے مسلمانوں سے منافقانہ ، باغیانہ اور نفرت آمیز رویہ اختیار کرنے کی
ابتداکی۔امریکہ میں رونما ہونے والے اس واقع نے پورے مغربی ممالک کو مسلم
ممالک سے بد خواہ و بد اندیش کردیا۔مغرب کو ہر داڑھی والا مسلمان دھشت گرد
اور حجاب میں موجود مسلمان عورت مشکوک دکھائی دینے لگی۔ فرانس میں حجاب پر
پابندی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اب مسلمانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ
نہیں رہ گیا تھا کہ وہ مغرب زدہ ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی میدان
میں نکلیں اور ان کا مقابلہ مردانہ وار کریں۔ چنانچہ جولائی 2004 میں لندن
میں قائم مسلمانوں کی ایک تنظیم ’اسمبلی فار دی پرٹیکشن آف حجاب‘ کے زیر
اہتمام مغرب کے غیر اخلاقی اور امتیازی رویے کے خلاف منظم و متحد ہوکر
جدوجہد کا آغاز کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں مسلم
دنیا کے کئی سو محققین، علماء و مدبرین نے شرکت کی ۔ کانفرنس کی صدارت
علامہ یوسف القرضاوی نے کی ، مفکرین و محققین نے حجاب کی اہمیت ، ضرورت اور
مغرب کی بے جا پابندیوں، رویوں اور غیر اخلاقی و غیر قانونی عمل کی شدید
مذمت کی اور مقالات پیش کیے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے اختتام کانفرنس 4
ستمبر کو ’’عالمی یوم حجاب‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ مختلف دنوں کا اہتمام
کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جو فہرست اس وقت نیٹ پر موجود ہے اس میں چار
ستمبر تاحال خالی ہی ہے۔ اگر اقوام متحدہ چاہے تو اس دن(4 ستمبر ) کواقوام
متحدہ کی جانب سے مسلمان خواتین کے لیے ’عالمی یوم حجاب‘ کا دن قرار دے
سکتی ہے۔
یکم فروری کو بھی ’عالمی حجاب ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد
بنگلہ دیشی نژاد جو اب امریکن ہیں ناظمہ خان نے یکم فروری 2013کو رکھی اور
اسی روز پہلا ’عالمی یوم حجاب‘ منایا گیا۔ نیٹ پر فراہم اطلاع کے مطابق
امریکہ کے شہر نیویارک میں کوئی116مندوبین نے شرکت کی جس میں مسلمان خواتین
جو حجاب لیتی ہیں کے مسائل اور مشکلات کا دفع کرنے کے لیے عملی جددوجہد کا
آغاز کیا گیا اور یکم فروری کو اس دن کے لیے منتخب کیا گیا۔ ناظمہ خان جو
ایک پڑھی لکھی با پردہ بنگلہ دیشی امریکن سماجی کارکن ہیں ۔ خواتین کے
حوالے سے سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں۔دن خواہ کوئی سا بھی ہو یکم فروری
یا 4ستمبر بنیادی بات مقصد کا حصول ہے۔ اس دن ان تمام تنظیموں، اداروں
خصوصاً خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اس دن کی
اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیں، اس موضوع پر مضامین
شائع کیے جائیں، قلم کار اس دن اس موضوع پر خصوصی مضامین تحریر کریں،
اخبارات اور رسائل اس کی مناسبت سے مضامین کی اشاعت کا اہتمام کریں۔ حجاب
یا پردہ پس ماندگی ،
کم تری، احساس محرومی کا باعث نہیں بلکہ یہ مسلمان عورت کی ذینت ہے،اس کا
حسن ہے، اس کا فخر ہے، اس کا مان ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر برائیوں اور خرابیوں کی ایک وجہ خواتین کی حجاب سے
دوری بھی ہے۔ قرآن نے خواتین کو واضح الفاظ میں پردے کا حکم دیا ہے۔پا
کستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود اسلامی اقدار پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے
قاصر نظر آتاہے۔ ہم چند سالوں سے ہر سال ہی سعودی عرب جارہے ہیں۔ خواتین با
پردہ اور عباَ وقباَ میں نظر آتی ہیں۔ بازاروں میں ، شپنگ سینٹرز
میں،تفریحی مقامات پر، اسپتالوں میں،ائر پورٹ پر الغرض ہر جگہ عباَپوش
خواتین نظر آتی ہے۔ کہیں کوئی رکاوٹ ، پردہ یا عباَ خواتین کے کاموں میں
حائل نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔اکثر احباب یہ کہتے ہیں
کہ پردہ تو نظر کا ہوتا ہے، ظاہری طور پر اپنے آپ کو مخصوص لباس میں
ڈھانپنے کا نام پردہ نہیں۔ان کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ واقعی پردہ نظر
ہی کا ہوتا ہے۔ لیکن ایک ہی قسم کی چیز دو پلیٹوں میں ڈھکی ہوئی ہو اور
دوسری جانب وہی چیز ایک پلیٹ میں کھلی ہوئی ہو تو دیکھنے والے کی نظر فورناً
کھلی ہوئی پلیٹ پر پڑے گی۔ کھلی ہوئی چیز پر گرد و غبار،مکھی مچھر بہ آسانی
پہنچ جائیں گے جب کہ ڈھکی ہوئی چیز گرد و غبار کے علاوہ نظر بد سے بھی
محفوظ رہتی ہے۔
خواتین کے لیے پردے کے احکامات کلام کریم کی دو سورتوں میں واضح طور پر
بیان کیے گئے ہیں۔ سورۃ’ النور‘ آیت 31 میں خواتین کے لیے پردے کا حکم دیتے
ہوئے کہا گیا : ترجمہ: ’اور اَے نبی ﷺ ! مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی
نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ،اور اپنا بناؤ
سنگار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ ظاہر ہوجائے ، اور اپنے سینوں پر اپنی
اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنابناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں
کے سامنے : شوہر،باپ، شوہروں کے باپ، اپنے باپ ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے،
بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں،اپنے
مملوک،وہ زیر دست مردجو کسی اورقسم کی غرض نہ رکھتے ہوں،اور وہ بچے جو
عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔وہ اپنے پاؤں زمین پر
مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں
کو علم ہو جائے‘۔
کلام مجید کی سورۃ’ النور‘آیت31کی تشریح کرتے ہوئے مفسرِ قرآن سید ابوالا
علیٰ مودُودی ؒ نے تفھیم القرن میں ’باپ‘ کے لیے استعمال ہونے والے عربی کے
لفظ ’ابآَءِ ‘کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ اس لفظ کے مفہوم میں
صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا،پَردادا، نانا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک عورت
اپنی دَدھیال اور نَنھیال، اور اپنے شوہر کی دَدھیال اور ننھیال کے اِن سب
بزرگوں کے سامنے اسی طرح آسکتی ہے جس طرح وہ اپنے والد اور خُسر کے سامنے
آسکتی ہے‘۔ بعض خواتین اپنے بزرگوں کو جو احترام دیتی ہیں وہ عزت و احترام
وہ اپنے شوہر کے بزرگوں کے لیے ان میں پایا نہیں جاتا جس کی تاویل یہ پیش
کردی جاتی ہے کہ شوہر کے باپ کے علاوہ کسی اور بزرگ سے ان کا کیا رشتہ؟
حالانکہ شوہر سے رشتہ جڑ جانے کے بعد شوہر کے تمام رشتوں سے وہی تعلق قائم
ہوجاتا جو شوہر کا ہوتا ہے۔ ان کی عزت و توقیر میں کوتاہی کم علمی کے سوا
کیا ہوسکتی ہے۔ پردہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر بہت زیادہ تحقیق و جستجو
کے ساتھ قلم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بعض معاملات میں اختلافات بھی آڑے آجاتے
ہیں۔ لیکن جو بات قرآن میں کہہ دی گئی وہ ہرصورت میں پتھر پر لکیر ہے ،
ہمارے لیے اس کا ماننا ، اس کا اقرار کرنا اور اس پر عمل کرنا لازمی ہے۔
قرآن کریم کی ایک اور سورۃ میں بھی خواتین کو منہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا۔
سورۃ’ الاحزاب‘ کی آیت59: ترجمہ: ’اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور
مُسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر
چادر لٹکا کر( گھونگٹ نکال) لیا کریں ۔ یہ امر اُن کے لیے موجبِ شناخت(
وامتیاز) ہوگا تو کوئی اُن کو ایزانہ دے گا اور خدا بخشنے والا مہر مان
ہے‘‘۔اس حوالے سے متعدد احادیث مبارکہ بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔
ترمذی ، ابو داؤد میں حدیث بیان ہوئی ’ایک مرتبہ آنحضرت محمد ﷺ کے پاس آپ ؑ
کی شریک حیات حضرت اُمِ سَلَمہؓ اور حضرت مَیمونہؓ بیٹھی تھیں، اتنے میں
حضرت ابنِ اُ مِ مکتومؓ آگئے۔ آنحضرت ﷺ نے دونوں بیویوں سے فرمایا: احتجبا
منہ’ان سے پردہ کروں‘۔ بیویوں نے عرض کیا :یا رسول اﷲ الیس اعمٰی لا یبصرنا
ولایعرفنا، ’یا رسول ؑاﷲ ! کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ
پہچانیں گے‘۔ آپؑ نے فرمایاـ:افعمیا و ان انتما، الستما تبصرانہٖ، کیا تم
دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھتیں؟‘۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت
آئشہ ؓ کے پاس ایک نابینا آیا تو انھوں نے ا ُس سے پردہ کیا۔ کہا گیا آپ اس
سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا؟ جواب میں اُم ّ
المومنین نے فرمایا :لٰکنی انظر الیہ، ’میں تو اسے دیکھتی ہوں‘۔ اس کے
علاوہ حضرت عائشہ ؓ کا فرمان ہے کہ ’’عورت کی خوبی دوباتوں میں ہے۔ اس کو
کوئی نامحرم نہ دیکھے اور وہ کسی نا محرم کو نہ دیکھے‘‘۔
خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی محفل میں
عورتوں میں سے بہترین عورت سے متعلق بات چلی، تو کسی نے کسی صفت کا اظہار
کیا تو کسی نے کسی صفت کو عورت کے لیے بہترین قراردیا۔ اسی دوران حضرت علیؓ
کسی کام سے اپنے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کرحضرت فاطمتہ الزہرا ؓ سے
محفل میں ہونے والے موضوع کا تذکر فرمایا، تو حضرت فاطمتہ الزہراؓنے فرمایا
کہ ’’میرے خیال میں دنیا کی سب سے بہترین عورت وہ ہے جو نہ خود کسی غیر مرد
کی طرف دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کی طرف دیکھے‘‘۔حضرت علیؓ اپنے گھر سے
واپس اسی محفل میں تشریف لائے اور بتایا کہ حضرت فاطمتہ الزہراؓ نے بہترین
عورت کی پہچان یہ بتائی ہے۔ تو بنی کریم ﷺ نے فرطِ محبت سے فرمایا’’تو میرے
جگر کا ٹکڑا ہے‘‘۔
عورت کا اپنے آپ کو غیر محرموں اور اجنبیوں سے خود کو پوشیدہ یا چھپا کے
رکھنے سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ عورت کو ایک چادر میں چاروں جانب سے لپٹ کر
ہی باہر نکلنا چاہیے۔ہمارے رسول ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ نے کہا کہ’ بہترین عورت
وہ ہے جو نہ خود کسی غیر مرد کی طرف دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کی طرف
دیکھے‘ اس سے ہرگز مراد یہ نہیں کہ عورت ایک چادر میں اس طرح لپٹ جائے کہ
اسے کچھ نظر ہی نہ آئے،فاطمہ ؓ نے دیکھنے اور دکھانے کو منع فرمایا۔ حتیٰ
کہ نابینا کو بھی جو غیر محرم ہو کو دیکھنے کو منع فرمایا گیا۔ قرآن کی
سورۃ’ الاحزاب‘ کی آیت59 میں کیا کہا گیا’اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں
اور مُسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں)
پر چادر لٹکا کر( گھونگٹ نکال) لیا کریں ۔یہاں بھی صرف منہ کو چادر کے پلو
سے جس طرح گھونگٹ نکالا جاتا ہے اس طرح چھپانے کا حکم ہے۔ قرآنی آیات میں،
احادیث مبارکہ میں غیر محرم کو دیکھنے اور دکھانے اور اپنے منہ کو چھپانے
کا حکم نظر آتا ہے۔ کسی بھی جگہ یہ موجود نہیں کہ عورت اپنے منہ کوا س طرح
چھپائے کہ اس کے لیے چلنا مشکل ہوجائے، یہ بھی حکم نہیں ملتا کہ ایک عورت
جو شرعی پرہ کرتی ہو، جب اس کے سامنے اس کے عزیز رشتہ دار یا اس کے شوہر کے
قریبی عزیز رشتہ دار آجائیں ، وہ ان سے پردہ ضرور کرے، گھونگٹ ضرور نکالے
لیکن ان کے ادب و احترام میں انہیں کم از کم سلام ضرور کرے۔ ہمیں کسی بھی
جگہ اس قسم کا کوئی حکم یا پابندی نظر نہیں آتی کہ شرعی پردہ کرنے کا مقصد
اپنے اور اپنے شوہر کے قریبی رشتہ داروں کو جو تمہارے سامنے آجائیں تو تم
اَن جان بن جاؤ، بُت بن جاؤ، ان کے احترام میں انہیں سلام بھی نہ کرو۔اس کی
وضاحت اس وجہ سے کرنا پڑی کہ ہمارے معاشرہ میں اکثر ایسی خواتین نظر آتی
ہیں جو شرعی پردہ کرتی ہیں، بازاروں ، شاپنگ سینٹر ز میں، خرید و فروخت کے
مرکز، سبزی والے، دودھ والے، پھل فروخت کرنے والے سے خوب بھاؤ تاؤ کرتی
ہیں، بلکہ دام کم کرانے کے لیے غیر محرموں سے خوب خوب مکاملہ ہوتا ہے لیکن
اپنی کسی محفل میں اپنے گھر آئے ہوئے اپنے ہی عزیز رشتہ دار یا شوہر کے
عزیز رشتہ داروں کو سلام کرکے عزت دینامناسب تصور نہیں کرتیں۔ ہم اگر اپنے
بڑوں کی عزت و تکریم نہیں کریں گے تو ہمارے بچے ہم سے کیا سبق لیں گے۔ ایسا
کرکے ہم ان کی کیا تربیت کریں گے۔ قرآن تو احترام کا،عزت کا، محبت کا، اچھے
سلوک کا درس دیتا ہے۔ ہمارے بنی ﷺ تو اپنے سے چھوٹوں کو بھی سلام کرنے میں
پہل کر دیا کرتے تھے۔
سعودی عرب میں شاہ عبداﷲ نے 2011میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے خواتین کو
بلدیاتی انتخابات میں بطور امیدوار شرکت کا حق دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
سعودی عرب میں 2005سے اب تک کا تیسرا موقع ہے کہ سعودی شہری کونسلوں کے
ارکان کا انتخاب کریں گے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں 200خواتین نے
انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ خواتین کو بلدیاتی نظام میں
کردار اداکرنے کے شاہی فرمان کے باوجود اس وقت یہ موضوع زیر بحث ہے ۔ سخت
گیر مذہبی سوچ کے حامی ایک مبلغ عبد الرحمان لبراک نے واضع طور پر خواتین
کی بلدیاتی نظام میں شمولیت کی مخالفت کی ہے ۔ جب کہ خواتین کے حقوق کے لیے
سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کا موقف یہ ہے کہ سعودی خواتین کو صرف بلدیاتی
الیکشن میں امیدوار بننے کی اجاذت دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام
شہری بلدیاتی اداروں میں خواتین ارکان کے لیے باقاعدہ کوٹے بھی مقرر کیے
جائیں۔ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حجاب یا پردہ خواتین کے لیے کسی بھی جگہ
، کسی بھی لمحے رکاوٹ اور مشکلات پیدا نہیں کرتا ۔ ایسی خواتین جو حجاب
لیتی ہیں، پردہ کرتی ہیں ہماری سیاست کا ہم حصہ رہیں ہیں اوراب بھی ہیں اور
اب بھی عملی سیاست میں سرگرم عمل دکھائی دیتی ہیں۔ ڈاکٹر فریدہ احمد مرحوم
نے منتخب ایوانوں میں نمائندگی کی ،ڈاکٹر فرحت ہاشمی عالمہ ہیں ،قمر النساء
قمر سماجی کارکن ہیں ، النساء سینٹر میں اکثر سماجی بہبود کے پروگراموں میں
پیش پیش نظر آتی ہیں، سمیحہ راحیل قاضی سے کون واقف نہیں ، سیاست بھی کرتی
ہیں، ٹی وے ٹاک شو میں خوب بولتی بھی ہیں،ڈاکٹر شائستہ زیدی استاد اور
معروف اسکالر ہیں، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی حجاب میں رہتے ہوئے اپنی بہن کے لیے
کس طرح تن من دھن سے کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، ناظمہ خان (عالمی یوم حجاب،
۲ فروری کی خالق)، بنگلہ دیشی امریکن ہیں جو امریکہ میں رہتے ہوہے حجاب
کرتی ہیں اور سارے کام بھی سرانجام دیتی ہیں۔عالمی سطح کی معروف خواتین جو
حجاب کے ساتھ اعلیٰ خدمت انجام دے رہی ہیں دیگر کے علاوہ امریکہ کی اسلی
سانسر، جمیلہ افغانی، ابتہاج محمد، مریم سلطانہ، خولہ بنت الزہروی، نیما
اسمعیل نواب، رابعہ البصری، سوریا سید، فوج میں، پولس میں، ائر فورس
میں،نیوی میں ، بنکوں میں ، انشورس کمپنیوں میں،اسپتالوں میں، ڈیوو کی بسوں
میں میزابانی کرتی بہ حجاب میزابانیں ، ہوائی جہازوں کو اڑاتی ہوئی پائیلٹ
اور فضائی میزبان حجاب میں نظر آتی ہیں۔ کیا کبھی کسی میزبان نے یہ شکایت
کی کہ حجاب سے اس کے کاموں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
حجاب میں رہتے ہوئے جب خواتین کو از خود کوئی مشکل نہیں پیش آتی تو سامنے
والوں کو خصوصاً مغرب ذدہ ذہن کو کیا تکلیف اور پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ بات
پریشانی کی نہیں بلکہ مسلمانوں سے تعصب ، بغض ، کینہ ہے جس کا اظہار مختلف
طریقے سے کیا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین جو حجاب لیتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ
مغرب کے بلاجواز اعتراضات و مشکلات کا مقابلہ اسلامی جذبے اور ہمت سے کریں۔
یہ ہمارا ایسا عمل ہے کہ جسے کسی دنیاوی عمل سے نافذ نہیں کیا گیا بلکہ یہ
تو ایک ایسا ہی عمل ہے کہ جیسے ہم اپنے مالک کے دیگر احکامات پر عمل کرتے
ہیں اسی طرح خواتین کو اس پر بھی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو انہیں کرنا
چاہیے۔ اکثر خواتین پردے کے بارے میں قرآنی آیات کی تشریح اور وضاحت میں
مختلف دلیلیں اور تاویلیں بھی پیش کرتی ہیں۔ بعض اپنی دلیل میں یہ بھی کہتی
ہیں کہ خانہ کعبہ میں دوران طواف منہ کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ بے شک
ایسا ہے اور ایسا ہی ہوتا بھی ہے۔ اس قسم کی تمام تر باتوں، تاویلوں اور
دلیلوں کا جواب صرف یہ ہے کہ ہم وہ کرتے ہیں جس کا حکم اﷲ تبارک و تعالیٰ
نے قرآن میں دیا اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اس حکم پر عمل کرنے کی ہدایت
فرمائی۔
پردے کے حوالے سے معروف شاعر اکبر الہٰ آبادی کی ایک معروف نظم سے دو اشعار
بے پردہ آئیں مجھ کو نظر چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا
اکبر الہٰ آبادی کی یہ نظم ان کے دور میں مسلمان خواتین کے پردہ کی صورت
حال کی تصویر کشی کرتی ہے۔ آج ہمیں اپنے ملک اور دیگر اسلامی ممالک میں جو
تصوریر نظر آتی ہے وہ زیادہ پریشان کن نہیں۔ اچھائی کی ، بھلائی کی کوششیں
جاری رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی ایمانداری سے سروے کرے تو نتیجہ یہ سامنے آئے
گا کہ آج مسلمان خواتین میں حجاب کا رواج زیاہ ہوا ہے۔ وجوہات کچھ بھی
ہوں۔لیکن ایسا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی حجاب کو اپنی شاعری میں
موضوع بنایا۔ مسلمان عورت کو اپنے فارسی شعر میں جنابِ فاطمہؓ کی پیروی
کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ تو اپنے آپ کو چھپا کر رکھے گی تو تب ہی
تیری گود میں اعلیٰ و بلند
کردار کے انسان پرورش پاسکیں گے
بتولے باش وپنہاں شوازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری
(ترجمہ: اے مسلمان عورت تو جناب فاطمہؓ ّبتول) کی پیروی کر اوراُ ن کا
طریقہ اختیار کرتے ہوئے بیرونی دنیا سے اپنے آپ کو چُھپا کر رکھ تاکہ پھر
تیری گود میں جناب امام حسین ؓ (شبیر ؓ) ایسے اعلیٰ اور بلند کردار انسان
پرورش پاسکیں)
پاکستان کی ایک سیاسی و مذہب جماعت نے 4ستمبر تا14ستمبر ’عشرہ فروغِ حجاب‘
منا نے کا اعلان کیا ہے۔یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ ملک بھر میں سیمینار،
کانفرنسزاور گفتگو کے پروگرام منعقد کیے جائیں گے،جامعات اور دیگر تعلیمی
اداروں میں حجاب کے موضوع پر تقریریں ہوں گی،حجاب سے متعلق مواد تقسیم کیا
جائے گا، حجاب کے حوالے سے یہ ایک اچھا اور مثبت قدم ہے۔ خواتین کی
دیگرفلاحی وسماجی تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں
کو بھی اس دن حجاب کے حوالے سے خصوصی پروگراموں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی اس دن حجاب کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے
پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔ریڈیو، ٹیلی ویژن بھی اس دن خصوصی پروگرا م
کریں۔ اس عمل سے مغربی دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ مسلمان اپنے دینی تشخص
کے حوالے سے غافل نہیں اور نہ ہی وہ اسلام دشمنوں کے مزموم عزائم سے خوف
زدہ ہوں گے۔ (4ستمبر 2015مصنف سے رابطے کے لیے۔E-Mail:
[email protected])
|