اب ’’چائنا کٹنگ احتساب‘‘ کا دورگیا…!.
(سیف و سُبو۔۔۔۔۔۔ شفقت نذیر, Stoke-on-trent UK)
کفن کی کوئی جیب نہیں ہوتی، دنیا سے جاتے
ہوئے انسان کو خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے۔ آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے
قریبی عزیز و اقارب، دوست احباب میں جب بھی کوئی دنیا چھوڑتا ہے تو چاہے وہ
کتنا ہی امیر ہو اسے غریب تر کرکے اس جہان فانی سے رخصت کیا جاتا ہے۔ وہ
اپنے ساتھ قبر میں کچھ بھی نہیں لے کرنہیں جا سکتا سوائے کفن کے جس کی کوئی
جیب نہیں ہوتی لیکن پھر یہ کیا اتنا لالچ کیوں؟ دل نہیں بھرتا جائیدادیں،
بنک بیلنس بنانے کی دھن ایسی سوار کہ کسی بات کا ہوش نہیں، سب پتہ ہونے کے
باوجود انجان ایسے کہ خود آنکھوں سے دیکھ کر بھی کہ ابھی جس کو دفنا کر
آئے ہیں وہ تو اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے کر گیا پھر بھی اپنی ڈگر نہیں
چھوڑتے۔ بابا بلہے شاہ کے مطابق ’’گور پیا کوئی ہور‘‘ کی زندہ مثال بنے یہی
سوچتے ہیں کہ شاید ہمیں تو مرنا ہی نہیں ہے آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا
ہے اور جس احتساب کا آغاز کیا گیا ہے یہ تو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا
لیکن طاہر حنفی کے مطابق:
مصلحت سب کا تھا ایمان بھری بستی میں
سارے دانا تھے کوئی بات نہ سچی کہتا
جب سب ہی ایک دوسرے کے آگے چور ہوں یعنی حمام میں سب ہی ننگے ہوں تو کیسا
احتساب اور کس کا احتساب۔ سیاسی طور پر ایک دوسرے کو دبانے کے لئے ’’احتساب‘‘
کا ڈرامہ تو رچایا جاتا رہا مگر حقیقی معنوں میں سیاسی حکومتیں ایسا کوئی
ادارہ قائم ہی نہ کرسکیں جو بلاامتیاز احتساب کرنے کی اہلیت رکھتا۔ کرپشن،
اقربا پروری اور بدعنوانی کے پنجے ہمارے معاشرے میں ایسے گڑھے کہ اب ان
جیسی قباحتوں کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ دولت اکٹھی کرنے کا نشہ تو
ہمارے سب ہی حکمرانوں کی گھٹی میں پایا جاتا ہے اور وہ ایسے بے دریغ طریقے
سے اور بے رحمانہ انداز سے کہ شاید ہی کسی اور جگہ پر اس کی کوئی مثال ہو۔
عوام کو بے وقوف بنا کر کبھی کسی مرے ہوئے کو زندہ کرکے اور کبھی کسی آمر
کی شاگردی میں زانوئے تلمذ طے کرکے مسند اقتدار پر پہنچنے کے راستے تو کوئی
ان سے پوچھے۔ وڈیرے، جاگیردار اور صنعت کار یہ تین عناصر ہماری قومی سیاست
کے کلی وارث بن چکے ہیں ان کے علاوہ کسی کی کیا مجال کہ وہ اس کوچۂ ارفاء
کی سیاحت کا بھی سوچے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو عوام کی قسمت کے مالک ہیں اور یہی
حقوق ملکیت انہیں دنیا بھر میں کاروبار کرنے، سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں لوٹی
ہوئی رقم رکھنے، منی لانڈرنگ کے ذریعے متحدہ عرب امارات میں رقوم منتقل
کرنے اور کینسوؤں کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنے کا حق دیتا ہے۔ آوازیں
تو بہت اٹھتی ہیں، کرپشن کے خلاف، بدعنوانی کے خاتمے کے لئے، بلاامتیاز
احتساب کے مطالبے کے لئے لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا… ایسا احتساب کون
کرے گا یہ تو بالکل طے ہے کہ جن کے سیاسی مقاصد نہ ہوں وہی ایسا احتساب
کرسکتے ہیں۔ ’’چائنا کٹنگ‘‘ قسم کے تو بہت سے احتساب دیکھ لئے، کیا اب
حقیقی معنوں میں اور بلاامتیاز احتساب ہوسکے گا؟ کہیں اسی احتساب کا آغاز
ہو تو نہیں گیا جس کی بہت سوں کو تمنا تھی اور جس کے انتظار میں پاکستان کے
عوام بھی 67سال سے منتظر تھے۔ بہت چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ ایم کیو ایم
کے بعد اب پیپلز پارٹی بھی دہائی دے رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف
زرداری کا رومانس بھی یوں لگتا ہے ختم ہوگیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ
کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو اسے مروجہ قانون کے مطابق نمٹا
جائے یعنی وہی چائنا کٹنگ احتساب کیا جائے۔ ان کی اس بات سے لگتا ہے کہ
احتساب کرنے والا کوئی اور ہی ہے جس کا ارادہ بہت پختہ ہے۔ پھر آصف زرداری،
میاں نواز شریف کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہیں؟ یہ شور اور یہ دہائی کس کو
سنائی جا رہی ہے؟ یہ کس کا نام لے کر کس کو طعنے دیئے جا رہے ہیں؟ بیک وقت
آرمی چیف اور کور کمانڈر، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کیوں ملتے ہیں؟ اگر
ہمارے سیاست دان سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے اور اپنا احتساب بھی خود کرتے،
کوئی ایسا ادارہ بنا لیتے جو آزادانہ طور پر محتسب کا کردار ادا کرتا تو
کسی اور جانب سے اس ’’صفائی‘‘ کے لئے کیوں زور دیا جاتا یا کوئی اور اس ’’احتساب‘‘
کی کیوں ضرورت محسوس کرتا؟ لیکن افسوس کہ صاحب اقتدار یا اپوزیشن میں سب ہی
وڈیرے، جاگیردار اور صنعت کار سیاست دانوں کو کرپشن، بدعنوانی، کمیشن اور
کک بیکس کے ذریعے اندھا دھند دولت جمع کرنے، جائیدادیں بنانے کی جو لت لگ
گئی ہے وہ کسی طور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آنکھوں پر پٹی اور دل پر
زنگ لگ چکا ہے۔ سب پتہ ہے کہ دنیا سے جاتے ہوئے ہاتھ خالی ہی ہونے ہیں لیکن
پھر بھی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی۔ سعودی عرب کی ایک مالدار ترین شخصیت
شہزادہ الولید بن طلال کو تو یہ بات سمجھ میں آگئی اور انہوں نے اپنی
32ارب ڈالر (تقریباً 52کھرب روپیہ) کی تمام دولت دنیا کے ضرورت مندوں اور
محتاجوں کے لئے وقف کردی اور اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ لوگ حیران ہوں گے
کہ میں یہ کیوں کررہا ہوں؟ میرا ردعمل یہ ہے کہ ہر کوئی ایسے حالات میں سے
گزرتا ہے کہ جو اس کے مستقبل کے فیصلوں پر بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔ مجھے
دنیا کے کئی خطوں کی کئی قوموں کے مشکل حالات براہ راست دیکھنے کا موقع ملا،
مجھے ان کے درمیان کھڑے ہونے کا موقع ملا کہ جو شدید مشکلات سے دوچار تھے
اور سخت ضرورت مند تھے۔ مجھے دنیا بھر کے ممالک اور قوموں کے رہنماؤں کے
ساتھ ملاقاتوں سے بھی بے پناہ مسائل کا علم ہوا۔ میں یہ اعلان خدائے بزرگ و
برتر کی رحمتوں کے اظہار کے طور پر کررہا ہوں اس کے قرآن میں دیئے گئے
احکامات کے مطابق، جن میں کہا گیا ہے کہ اپنے رب کا شکر بجا لاؤ۔ میں اسے
یوں دیکھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ میں اپنی دولت خدا کے بندوں کے لئے وقف
کردوں کہ جو ضرورت مند ہیں۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں شہزادہ طلال کو لکھوں
کہ کچھ ضرورت مند پاکستان میں بھی ہیں جن کی طمع اور لالچ کی کوئی حد نہیں
اپنی دولت کا کچھ حصہ ان ’’محتاجوں‘‘ کو بھی دیں تاکہ ان کی حرص کی پیاس
میں کوئی کمی واقع ہو لیکن شاید اب ان کی بیماری کا علاج کرنے والے معالج
آگئے ہیں جو ان کا علاج بھی کریں گے اور ان کو سمجھائیں گے کہ کفن کی کوئی
جیب نہیں ہوتی دنیا سے جاتے ہوئے انسان کو خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے۔ دو دفعہ
ملک کی وزیراعظم رہنے والی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو قاتلانہ حملے کے
بعد جس سٹریچر پر ہسپتال کے اندر لایا گیا تھا اس کا چوتھا پہیہ ہی نہیں
تھا۔ یہ ہمارے حکمرانوں اور سارے سیاست دانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے لیکن
ایسی باتیں کون سوچے گا…؟ |
|