7 ستمبر۔۔۔۔۔فتح عظیم کا دن
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
اسود عنسی اور مسلیمہ کذاب پہلے
گستاخ رسول ہیں جنھوں نے جھوٹی نبوت کا اعلان کیا جن کے خلاف صحابہ کرام ؓ
نے جہاد کیا ان دجالوں سے لیکر مرزا قادیان تک بہتر (۷۲)کے قریب بد بختوں
نے نبوت کی مقدس دیوار میں نقب لگانے کی نا پاک جسارت کی۔ان تمام کو امت
مسلمہ نے مشترکہ طور پر رد کردیا ۔بعض کے خلاف جہاد کیا گیا بعض کو دیسن
کالا دے ڈالا اور بعض کے خلاف تردیدی مہم چلائی ۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان
عالیہ کا مفہوم ہے کہ میرے بعد ہرمدعی ٔ نبوت کذاب اور دجال ہوگا ۔مرزا
قادیانی کے آباؤ اجداد انگریز کے غلام رہے ہیں اور ان سے مراعات لیتے رہے
۱۸۳۹ ء یا ۱۸۴۰ء میں ضلع گورداسپور میں پیدا ہونے والے مرزا قادیانی کو
انگریز نے اسلام کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس بد بخت کو جھوٹے
نبی کے طور پر امت مسلمہ پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی ۔مرزا قادیانی نے
انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام ،انگریز فوج کو اﷲ کا سایہ اور خود کو اس کا
خود کاشتہ پودا قراردیا۔۱۹۲۹ء تک علمائے کرام نے علمی طورپر اس فتنے کا
محاسبہ کیا ۔جن علمائے کرام ؒ نے اس دجال کے خلاف دیوانہ وار کام کیا ان کی
فہرست بہت طویل ہے مگر اہم ترین ہستیوں میں سے مولانا ثناء اﷲ
امرتسریؒ،مولانا لطیف اﷲ علی گڑھیؒ،مولانا احمد حسن دہلویؒ،شیخ الہند
مولانا محمود حسن ؒ، علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ،مولانا خلیل الرحمان
سہارنپوریؒ،مولانا عبدااﷲ لدھیانویؒ،مولانامحمد اسماعیلؒ ،مولانا محمد علی
مونگیریؒ،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،امیر
شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ،چوہدری فضل حق ؒ،شیخ حسام الدینؒ ،ماسٹر تاج
الدین انصاریؒ،مولانا ظفر علی خان ؒ،حضرت پیر مہر علی شاہؒ،امیر ملت پیر
جماعت علی شاہؒ،مولانا شاہ احمد نورانیؒ،مولانا یوسف بنوری،ؒ سید نفیس شاہ
ؒکے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ
بخاری ؒ کی ہدایت پرمولانا لعل حسین اختر ؒ نے ۳ جون ۱۹۲۵ ء کو تمام مکاتب
فکر کی مجلس مشاورت بلائی تاکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اس فتنے کا بھر پور
سدباب کیا جائے۔ اس مجلس نے درج ذیل مطالبات پیش کئے جنھیں متفقہ طور
پرحاضرین مجلس نے منظور کیا ۔ (۱) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا
جائے۔ (۲) ظفر اﷲ قادیانی کو وزیرداخلہ کے عہدے سے علیحدہ کیا جائے۔(۳)
تمام کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹا یا جائے۔
۱۹۲۵ء کے عرصہ میں قادیانیوں نے بلوچستان اور پنجاب کو قادیانیت نے اپنے
ہولڈ یافتہ علاقے بنانے کیلئے سرگرمیاں شروع کیں تو کراچی میں قائم ہونے
والی کل جماعت مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے نتیجے میں قادیانیوں کے خلاف بھر
پور احتجاجی مہم شروع ہو گئی ۔یہ مہم قلیل ترین عرصہ میں ملک گیر تحریک کی
شکل اختیار کر گئی ۔اس تحریک میں مجلس احرار اسلام،جمعیت علمائے
اسلام،جمعیت علمائے پاکستان، تنظیم اہل سنت ،جمعیت اہل حدیث ،جماعت اسلامی
اور حزب اﷲ شامل تھیں ۔
۱۹۳۷ ء کو آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔قادیانیت
کے خلاف فیصلہ کن تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مئی ۱۹۴۷ ء میں نشتر میڈیکل
کالج ملتان کے طلباء کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے
پشاور جا رہا تھا ،جب ٹرین (ربوہ) موجودہ چناب نگر پہنچی توقادیانیوں نے
اپنے معمول کے مطابق مرزا کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا
،نوجوان طلباء میں یہ دیکھ کر غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور مشتعل ہوگئے ،طلباء
اور قادیانیوں کے مابین تکرار ہو گئی ،طلباء نے ختم نبوت زندہ باد اور
قادیانیت مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا ئے ۔قادیانیوں نے اس وقت تو اس
گروپ کو جانے دیا۔واپسی پر ۲۹ مئی کو طلباء جب ربوہ پہنچے تو قادیانی دیسی
ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلباء پر حملہ آور ہوگئے انہوں نے طلباء کو گھیر کر
تشدد اس قدر کیا کہ طلباء لہولہان ہو گئے ۔فوری یہ خبر فیصل آباد پہنچ
گئی۔تحفظ ختم نبوت کے مقامی رہنماء مولانا تاج محمود ایک بہت بڑے جلوس کے
ساتھ فیصل آباد اسٹیشن پہنچ گئے ۔یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اس
لئے ہزاروں شہری پہلے ہی اسٹیشن پر موجود تھے ۔مسلمانوں نے اس گھنڈہ گردی
پر شدید احتجاج کیا اور طلباء کی مرہم پٹی کروائی گئی۔اگلے روز یہ المناک
خبر سارے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہروں کا ایک طوفان امڈ آیا ۔اس
واقعہ نے تحریک ختم نبوت کو نئی جہت دی ۔حکومتی ایوانوں تک صدائے احتجاج
پہنچ گئی۔پنجاب کے قائد حزب اختلاف علامہ رحمت اﷲ ارشد ؒ نے اس واقعے پر
اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے فرمایا:ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق
تمام مسالک کے علمائے کرام متفق ہیں کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔
پیر مہر علی شاہ ؒاورقطب الااقطاب مولانا احمد علی لاہوریؒ کا مرزا قادیانی
کو مباہلہ ومناظرہ کا چیلنج اور امیر ملت جماعت علی شاہ ؒ کی مرزا کی موت
کے متعلق سچی پیشنگوئی تاریخ کے ایک ایمان افروز ابواب ہیں جن سے اولیاء
اﷲؒ کی ولایت ومقام ظاہر ہوتا ہے۔جو ایک ایمان والے کیلئے تقویت ایمان کا
ذریعہ ہیں۔۵۰۰ علمائے کرام کی طرف سے شیرنوالہ لاہور میں سید عطاء اﷲ شاہ
بخاریؒ کو امیر شریعت کا خظاب اور آپؒ کے ایمانی، وجدانی وجوشیلے،قربانیاں
خطاب تحریک ختم نبوتک کا نایاب ورثہ ہیں۔
۹جون ۱۹۷۴ء کو لاہور میں مولانا یوسف بنوریؒ کی صدارت میں کل جماعتی مجلس
عمل تحفظ ختم نبوت کا اجلاس ہوا ۔ اس موقع پر باقاعدہ طور پر مجلس عمل تحفظ
ختم نبوت تشکیل دی گئی ۔مولانا یوسف بنوریؒ کو اس کا کنوینر مقرر کیا
گیا۔اس کا اگلا اجلاس فیصل آباد میں ۱۷ جون کو ہوا جس میں مذکور بالا
جماعتوں نے شرکت کی ۔اس موقع پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل پائی ۔اس کی
کنوینر مولانا یوسف بنوریؒ جبکہ جنرل سیکرٹری صاحبزادہ محمود احمد رضوی ؒ
کو منتخب کیا گیا اس کے بعد علمائے کرام نے پورے ملک میں تحریک برپاکردی ،
مسلمان شمع رسالتﷺ کے پروانے بن کر آگے بڑھتے رہے گرفتاریاں شروع ہو گئیں
آغا شورش کاشمیریؒ،سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ ودیگر قائدین کو جیل کی کال
کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا مگر تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر رہی۔اس احتجاجی
عمل میں تب کی طلباء تنظیموں نے بھی میدان عمل میں آگر اس تحریک میں ایک
نئی روح پھونکی۔آخر کار حکومت نے مسلہ ختم نبوت کے سامنے خود کوسرنڈر
کردیا۔ذوالفقار علی بھٹو مرحومؒ نے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسلے پر سفارشات
مرتب کرنے کیلئے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا ۔جمعیت علمائے
پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی ؒ نے قومی اسمبلی میں ایک
پرائیویٹ بل پیش کیا ،جس پر اٹھائیس معززاراکین اسمبلی کے دستخط تھے ،یہ بل
حزب اختلاف کی طرف سے تھا ان دونوں حزب اختلاف کے قائد مولانا مفتی محمود ؒ
تھے ۔صاحبزادہ علی فاروق خان کی صدارت میں قادیانی مسلے پر ایوان میں بحث
شروع ہوگئی ۔قادیانی اور لاہوری گروپ نے اپنے محضر نامے پیش کئے ۔قادیانیت
کے جواب میں "ملت اسلامیہ کا موقف " نامی محضر نامہ پیش کیا گیا۔حضرت شیخ
الاسلام مولانا یوسف بنوریؒ کی قیادت میں مولانا محمد شریف
جالندھریؒ،مولانا محمد حیاتؒ،مولانا تاج محمود ؒ،مولانا عبدالرحیم اشعرؒ،نے
حوالہ جات کی تدوین کی۔مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سمیع الحق نے ان
حوالہ جات کو ترتیب دے کر ایک خوبصورت کتاب مرتب کی ۔چند دنوں میں یہ محضر
نامہ تیار ہو گیا ،جس کو مولانا مفتی محمود ؒ نے قومی اسمبلی میں
پڑھا۔لاہوری گروپ کے جواب میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ نے مستقل محضر
نامہ تیار کیا ۔قادیانی گروپ کے سربراہ ،مرزا ناصر کو قومی اسمبلی کے سامنے
اپنا موقف پیش کرنے ،سوالات کے جوابات کیلئے بلایاگیا ۵ سے ۱۱ اور ۲۰ سے
۲۱اگست لاہوری گروپ کے صدر الدین، عبدالمنان عمر اور سعود بیگ پر ہر روز
جرح ہوئی۔۵،۶ ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب یحیٰی خان بختیار نے
بحث کو سمیٹا ۔انہوں نے دو دن تک اراکین اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل موقف
پیش کیا۔
۷۔ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ۴ بج کر ۵۳ منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروہوں مرزائی اور
لاہوری گروپ کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا
۔ذوالفقار علی بھٹونے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیا اور عبدالحفیظ
پیر زادہ نے آئینی ترمیمی بل پیش کیا ۔یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا
۔حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم اور ۱۹۸۴ء کے امتناع
قادیانیت صدارتی آرڈیننس پر مکمل عملدرآمد کرے جس پرتا دم تحریر عمل نہیں
کیا جا رہا ۔اس وقت بھی قادیانیت کے تعاقب میں تحریک تحفظ ختم نبوت ،عالمی
مجلس ختم نبوت ،انٹر نیشنل ختم نبوت،شبان ختم نبوت،فدایان ختم نبوت سر گرم
عمل ہیں اور گلی گلی کوچہ کوچہ میں ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا کر تحفظ
ختم نبوت میں پیش پیش ہیں۔
قارئین کرام ! ۷، ستمبر کادن ہمیں ختم نبوت کے عظیم مشن کی خاطر سب کچھ
قربان کرکے ناموس رسالت ﷺ پر فدا ہو جانے کا درس دیتا ہے ۔اس دن پر ہم
قائدین تحریک ختم نبوت کی کاوشوں کو دل کی اتھا گہرائیوں سے سلام کرتے ہیں
۔مگر مسلمانان عالم کے نام ایک سوال ہے کہ ناموس رسالت ایکٹ۲۹۵۔سی کے ہوتے
ہوئے آج تک قادیانیت کے خلاف موثر کاروائی عمل میں کیوں نہیں لائی گئی؟ اس
کا اصل محرک کیا ہے؟ ہمارے نزدیک اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج وہ مقدس نظام
نہیں ہے جس نے سب سے پہلے منکرین ختم نبوت کا قلع قمع کرنے کیلئے اجماع کیا
اور اس پر ڈٹ گئے آج عہد خلافت راشدہ ؓ کے جھوٹے مدعیان ختم نبوت کا کوئی
پیروکار، نام لیوا زمین پر موجود نہیں ۔جبکہ آج قادیانیت کا ناسور ایک الگ
تھلگ مذہب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس کی وجہ اسلامی نظام خلافت کا نہ
ہونا ہے ۔امت کو اس فرض اول کو ادا کرکے عبادت الہٰی کا حق ادا کرنا ہوگا
بصورت دیگر امت ایسے ہی گھمبیر مسائل کا شکار رہے گی۔ ٭٭ |
|