انسان کی زندگی کیا ہے کبھی اچھا
وقت اور کبھی برا وقت اور ان حالات میں مکان کا کرایہ،بچوں کی تعلیم و
تربیت ،خوشی،غم،بیماریاں ہر طرف سے ایک ظالم فوج کی طرح یلغار کرنے لگتے
ہیں اور اگر آمدنی کم ہو خرچے زیادہ ہوں، کرتے کیا نہ کرتے لوگوں سے قرض
لینا پڑا اب قرض کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے بس جب وقت ِ مقرر آ گیا لوگوں نے
تقاضا کرنا شروع کیا الحمد ﷲ سب کو آہستہ آہستہ ملتا رہا لیکن تھوڑا لیٹ ا
ب لوگوں کی کیا ذمہ داری بنتی تھی اگر کسی نے آپ سے قرض لیا ہے تو کیا
تھوڑا دیر سویر ہو جانے پر دوسروں کو بتایا جائے پیٹھ پیچھے برائی کی جائے
قرض تو آپ کا ادا ہو گیا لیکن زندگی بھر آپ کی وجہ سے ایک شخص بدنام ہو گیا
چلیں عزت اور ذلت تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے آپ نے یہ جو لوگوں میں کسی کو بدنام
کیا کیا یہ صحیح عمل ہے؟ہماری دنیا کا مزاج کیا ہے اگر کسی نے مجھ سے قرض
مانگا دے دیا پھر مانگا پھر دے دیا اور کبھی انکار کر دیا تو جو دیا اُس کو
یاد نہیں رکھیں گے جب نہیں دیا اس کو یاد رکھا جائے گا یہ کہہ کر کہ یہ تو
ایسا ہی ہے اس کے پاس تھے اور نہیں دیئے وغیرہ وغیرہ اب دو گناہ ہو گئے ایک
غیبت اور دوسرا سوء ظن،قرض دے کر لوگوں میں بدنام کیا ایک گناہ اور قرض نہ
دینے پر فضول باتیں سوچیں دوسرا گناہ ،یہ سب ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں کوشش
کر نی چاہئے کہ قرض نہ لیں لیکن قرض لینا اسلام میں حرام نہیں ہے اور دینے
والے کے لئے حکم ہے کہ اﷲ نے اگر تمہیں اس قابل بنایا ہے کہ تم دوسروں کو
قرض دے سکتے ہو تو اﷲ کا شکر ادا کرو ،دنیا میں سب سے اہم ہے عزت ِ نفس اگر
کسی نے کسی کی عزتِ نفس کو مجروح کر دیا تو پھر قرض دینے کا کیا فائدہ الٹا
ثواب کی جگہ گناہ ہی ملے گا،ایک ہوتا ہے صدقہ جاریہ انسان مر جاتا ہے ثواب
جاری رہتا ہے جیسے کسی نے مسجد بنوا دی انسان مر گیا مسجد میں جب تک نماز
ہو گی عبادتیں ہوں گی ثواب ملتا رہے گا اسی طرح ایک ہوتا ہے گناہ ِجاریہ
انسان مر جاتا ہے گناہ ملتا رہتا ہے مثلاً کوئی شخص گانے گاتا ہے اُس کے
مرنے کے بعد جب تک اُس کے گانے بجتے رہیں گے گناہ ملتا رہے گا سی طرح اگر
آپ نے کسی کی برائی کی ہے،لوگوں کے دل میں نفرت قائم کی ہے،لوگوں کی نگاہ
میں قرض لینے والے کو گرایا ہے ،اُس کی عزت ِ نفس کو مجروح کیا ہے،بند کمرے
کی بات کو کھلے میدان میں بیان کیا ہے ،کسی کی چغلی کی ہے،تو سمجھ لیں جب
تک لوگوں کے دل میں قرض لینے والا بدنام رہے گا اُس وقت تک گناہ ملتا رہے
گا اﷲ خود ستار العیوب ہے گناہوں کو چھپانے والا آپ کو بھی یہی حکم دیتا ہے
کہ تم دوسروں کے عیب کسی کہ نہ بتاؤ میں اﷲ ہر گناہ کی سزا خود دوں گا تو
انسان کون ہوتا ہے اپنی مرضی سے فیصلے لینے والا،قرآن قرض کے بارے میں کیا
کہتا ہے:
ــ’’۔۔۔۔۔جنہوں نے اﷲ کے بندوں کو بغیر سود کے قرض دیا ہے ان کو یقیناً کئی
گنا بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لئے بہترین اجر ہے‘‘
(سورہ حدید آیت ۱۸)
’’کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنہ دے وہ اس کو دو گنا کر دے اور اس کے لئے با عزت
اجر بھی ہو‘‘(حدید ۱۱)
آیت سے سمجھیں جو قرض آپ لوگوں کو دیتے ہیں اصل میں وہ قرض اﷲ کو دیا جاتا
ہے اور اﷲ دو گنا بڑھا کر آپ کو ادا کرتا ہے تو قرض لینے والے کوبدنام کرنا
یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے،آپ کو پتہ ہے کہ یہ شخص دے سکتا ہے پر نہیں دے
رہا اب بھی آپ اپنے معاملات اﷲ کے ساتھ صحیح رکھیں انشاء اﷲ اﷲ اس دنیا میں
بھی اور اُس دنیا میں بھی آپ کو ایسے شخص کا انجام دیکھائے گا اور اگر کوئی
واقعاً مجبور ہو قرض دینے کے قابل نہ ہو تو انتظار کریں جب تک وہ غنی نہ ہو
جائے اوراﷲ آپ کے اس قرض کو کسی نہ کسی شکل میں دو گنا کر کے دے گا بس
انسان کا اﷲ پر عقیدہ مضبوط ہونا چاہئے یہ نصیحت سمجھیں کہ آج آپ دوسروں کو
عزت دیں گے کل اﷲ آپ کو عزت دے گا آج آپ کسی کو بدنام کریں گے کل اﷲ بھی آپ
کو بدنام کرے گا خدا ہمارے معاشرے کو مضبوط بنا کہ قرض لینا ہی نہ پڑے اور
اگر مجبوری میں کوئی لے لے تو کوئی مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کی ذلت
اور رسوائی کا سبب نہ بنے۔
|