ذرائع مواصلات کی جدت نے سمندر
پار بیٹھے لوگوں کو تو ایک دوسرے کے قریب کر دیا لیکن ایک ہی چھت کے نیچے
رہنے والے ،ایک ہی گھر کے افراد جن کی رگوں میں ایک ہی خون دوڑ رہا ہے ،
ایک دوسرے سے میلوں دور چلے گئے۔صاف آوازاورفوری رابطے سے سرحدوں کی
دوریاں تو مٹ گئیں لیکن دلوں کے فاصلے بہت بڑھ گئے۔ہم نے سمندر پار رہنے
والوں سے تو سب کچھ کہہ دیا لیکن پہلو میں بیٹھے بہن بھائیوں سے دل کی بات
نہ کہہ سکے۔اس طرزِزندگی نے جہاں ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا وہٖیں
معاشرے میں نہ ختم ہونے والے مسائل کو جنم دیا۔مواصلات کی جدت کا آسیب کب
ہمارے گھروں میں داخل ہوا اور کب ہمارے بچوں کو جکڑ لیا ہمیں پتہ ہی نہیں
چلا۔ہوش تو تب آئی جب ان کھلے ہوئے غنچے نے مرجھانا شروع کر دیا۔کتنے پھول
روندے گئے، کچلے گئے، مسلے گئے،تو ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ تر قی نہیں تنزلی
ہے۔ ایک ایسا اژدھا ہے جو ہمارے اندر کی انسانیت ، ہماری تہذیب اور روایات
کو اس طرح نگل رہا ہے کہ ان کی باقیات بھی باقی نہ رہے۔ ابھی تو قصور سانحے
سے ہی ہمارے حواس مختل تھے کہ نوروز اور فاطمہ کے اقدامِ خودکشی نے پوری
قوم کو ہلا کے رکھ دیا۔آ خر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے
بچوں کا، والدین کا یا ہمارے میڈیا کا۔
ہماری تہذیب و ثقا فت کا رنگ جتنی تیزی سے بدل رہا ہے اور مغربی تہذیب جس
برق رفتاری سے اس میں مدغم ہو رہی ہے اگر اسے روکا نہ گیا تو ہمیں بچوں کے
ساتھ جنسی تشدد، ان کے اقدامِ خودکشُی اور اس سے ملتے جلتے بہت سے واقعات
کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔اگر کراچی حادثے پر ذرا غور کیا جائے تو یہ
بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے محبت کی خاطر اپنی جان دی۔اخبارات، جرائد
اور سوشل میڈیا پر ابھی تک اس بات پر بحث جاری ہے کہ انہوں نے کس فلم سے
متاثر ہوکر یہ قدم اٹھایا ٍ۔'عشق زادے' سے یا 'رام لیلا' سے؍؍۔مگراس بات کی
طرف توجہ کسی نے نہیں دلائی کہ انسان گھر سے باہر محبت کا متلاشی کیوں ہوتا
ہے؟اپنے خیالات، سرگرمیاں اور دل کی باتیں والدین سے کرنے کی بجا؍ئے سوشل
میڈیا پر ان کی اپ دیٹس دینا کیوں پسند کرتا ہے؟کیا موجودہ دور میں بچوں کو
گھر سے ملنے والی محبت اور اعتماد ناکافی ہے۔یہاں اس بات کا مقصد والدین کو
موردِالزام ٹہرانا ہے بھی اور نہیں بھی۔
پہلی بات تو یہ کہ ہو سکتا ہے کہ والدین کی طرف سے ملنے والی محبت اور
اعتماد میں کوئی کمی نہ ہو، بچے کو گھر میں مکمل اعتماد کا ماحول میسر
ہو۔لیکن پھر بھی اگر بچہ جنسِ مخالفکی کشش میں مبتلا ہو کر کوئی خلاف توقع
تقاضا کر بیٹھے تو اس کا حل یہ نہیں کہ بچے کی بات کو مکمل رد کر دیا
جائے،والد اپنی اناکا مسلہ بنا کر یہ فتو یٰ جاری کر دے کہ میرے جیتے جی
ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ ہونا تو یہ چا ہیے کہ پیار اور شفقت سے زندگی کی
اونچ نیچ سمجھائی جائے،نہ تو بچے کی بات کو مکمل رد کیا جائے اور نہ منظور
بلکہ فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑ دیا جائے۔دوسری طرف صورتحال یہ بھی ہو
سکتی کہ والداور والدہ اپنی نجی زندگی میں اس قدر مصروف ہوں کہ ان کے پاس
بچے کے لئے وقت ہی نہ ہو۔ایسی صورتحال میں بچے محبت کا جبلی تقاضا پورا
کرنے کے لئے باہر کی دنیا میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔اور پھر جو ان کی یہ
ضرورت پوری کرتا ہے وہ اس کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے
ہیں۔درحقیقت محبت انسان کی فطری ضرورت ہے زندہ رہنے کے لئےآکسیجن کا کام
دیتی ہے۔جب اس کادائرہ تنگ ہونے لگے یا کوئی اس کو چھیننے کی بات کرے تو
انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے پھر مار دینا یا مر جانا کوئی بڑی بات نہیں
لگتی۔
موجودہ دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں کا پھر سے
تعین کرٖیں۔اللھ رب العزت نے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری
عورت پر عا ئد کی ہے اگر وہ اس ذمہ داری سے غفلت بر تے گی تو بچے پل تو
جا؍ئیں گے مگر ان کے اندر ماں کی ممتا سے ملنے والی خود آعتمادی نہیں آئے
گی۔وہ ممتا کی محبت کو ہمیشہ باہر کی دنیا میں تلاش کریں گے۔آج کل کے بڑ
ھتے ہوۓ معاشی مسائل میں اس امر کی بھی شدت سے ضرورت ہے کہ قرآن اور نماز
کو مضبو طی سے تھام لیا جاۓ۔ بچوں اور بچیوں کو قرآن بمعہ ترجمہ پڑھایا جاۓ
تاکہ وہ اپنی حدود کا تعین کر سکے۔باقی رہی بات ان دو معصوم بچوں کی جو
اپنی بے وقوفی اور والدین کی تھوڑی سی لا پرواہی کے سبب بن کھلے ہی مرجھا
گۓتو اللھ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ۓ اور ان کے والدین کو
صبرِِِجمیل عطا فرماۓ (آمین)۔مولوی حضرات اور دیگر افراد بجاۓ ان پہ حرام
موت کا فتویٰ لگانے کے ان کی مغفرت کی دعا کرٖیں بے شک اللھ بخشنے والا
مہربان ہے۔ |