کاہل و سستی ایک حماقت!!

چھوٹے ہوتے تھے تو دادی جان پنجابی زبان میں ایک محاورہ سنایا کرتی تھیں جس کا مفہوم تھا کہ چالاک بیٹی اور سست بیٹااچھاٹھیک نہیں ہوتا۔کافی دنوں سے میں دیکھ رہاتھا کہ ہم چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے جنھیں کرنے کے لیے فقط چند سیکنڈ درکار ہوتے ہیں ۔دنوں پر چھوڑ دیتے ہیں ۔سوچا کیوں نہ اسی موضوع پر کچھ بات کرلی جائے ۔

ہماری عادت ہوگئی ہے کہ کام کو طول دینا ۔بجلی کا بل جمع کروانا ہوتو آخری تاریخ کو بینک کی قطار میں لگے ہوتے ہیں ۔دفتر کا کام ہوتوجو کام ایک دن میں کیا جاسکتاہے ۔لیکن کاہلی کی وجہ سے اس گلے دن پر پھینک دیتے ہیں ۔کسی کے ہاں تعزیت کے لیے جان ہوتو ابھی گے ابھی گے۔بچّوں کا بے فارم بنوانا ہے ۔چلو بنوالیتے ہیں ۔پاسپورٹ آفس میں ویزے کی آمد پر ہی یاد آیاارجنٹ فیس دیکر بنوانا۔کہیں کوئی ویکسنی آئی اچھا چانس تھا۔آخری تاریخ کو فارم و کوائف جمع کروانے کو پہنچ گے ۔الغرض کاہلی و سستی زندگی میں ایسی رچ بس گئی کہ بس نہ پوچھیں !!

جو چیزیں میں نے ذکر کی ہیں ۔میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ آپ ان سے اتفاق کریں گے ۔

ہم اپنی کاہلی اور سستی یا ٹالنے کی عادت کے باعث زندگی میں مالی نقصان اٹھاتے ہیں، دوستوں اور خیزخواہوں سے تعلقات خراب کرلیتے ہیں۔ افسران کی ناراضگی مول لیتے ہیں، اعتماد اور عزت کھو دیتے ہیں، اہل خاندان اور رشتے داروں کے ساتھ تنازعات پیدا ہوجاتے ہیں، حادثات اور تکالیف کا شکار ہوجاتے ہیں۔اہل خانہ کو ناراض کرڈالتے ہیں اور خودان تمام واقعات کے باعث ایک شکست خوردہ شخصیت بن جاتے ہیں۔ اسی تساہل کے باعث ہم زندگی کے معمولی معمولی کاموں کو، جن کے لیے عام طور پر صرف پانچ منٹ کافی ہوتے ہیں برسوں ٹالتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اہم معاملات میں ان چھوٹے کاموں کی جانب بے توجہی، بڑے نقصان سے دوچار کردیتی ہے۔ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑی آسانی کے ساتھ مطمئن کرلیتا ہے اور انتہائی اہم امور سے فرار کے لیے ہزاروں بہانے تلاش کرلیتا ہے۔جس کا انجام سختی ہی سختی ہے۔

محترم قارئین!!یہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے ہم سست و کاہل ہیں ۔لیکن ہم یہ سستی و کاہلی کرتے کیوں ہیں؟

سستی اور کاہلی کو ایک مرض سے تعبیر کرسکتے ہیں اور انتہائی نقصان دہ دعادت۔ اس کی وجوہات زندگی کے بارے میں مقاصد کا واضح نہ ہونا، ترجیحات کا متعین نہ ہونا، اہم اور فوری امور کے بارے میں شعور کی کمی، اطمینان اور کارکردگی کے تصور کی کمی، ناکامی کا خوف، اپنی ذات کا حقیت سے بلند تصور، افراد اور متعلقہ لوگوں کو کام تفویض نہ کرنااور نہ ہی ان کی تربیت کرنااور حالات اور ضروریات کے مطابق مطلوبہ صلاحیتوں کی کمی اور ضعف ارادہ ہیں۔یہ تساہل، انسانی زندگی میں مادی طور پر تو نقصان دہ ہے ہی مگر دین کے معاملے میں یہ تساہل بعض اوقات نفاق کی حدود تک لے جاتا ہے۔ نمازوں کے معاملے میں تساہل تو قرآن کے مطابق منافقوں کی علامات میں سے ایک ہے۔ تساہل ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج محض تصور کرنے سے نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ نفس کے خلاف ایک جہاد ہے جو کرنا ہوگا۔

محترم قارئین !!!سیرت رسول عربی کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ ہم سستی و کاہلی کا لبادہ اتار پھینکیں اور چستی اور چابک دستی کا لبادہ زیب تن کرلیں۔میرے مطالعہ سے ایک حدیث مبارکہ گزری :
عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍؓ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَعَوَّذُ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکسْلِ(رواہ البخاری)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺیوں پناہ مانگتے ، آپﷺ فرماتے یا اﷲ! میں سستی سے تیری پناہ مانگتاہوں۔‘‘
میں چونک کر رہ گیا۔کہ سستی اور کاہلی کس قدر مذموم فعل ہے ۔بخاری شریف کی ایک اور حدیث مبارک آپ کے ذوق مطالعہ کی نظر۔
عَنْ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلَہُ فَیَأْتِیَ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ عَلَی ظَہْرِہِ فَیَبِیعَہَا فَیَکُفَّ اللَّہُ بِہَا وَجْہَہُ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْہُ أَوْ مَنَعُوہُ (رواہ البخاری(

تم میں سے کوئی شخص کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر گٹھر اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لائے اور فروخت کرے اس کے ذریعہ اﷲ اس کی حفاظت کرے یہ اس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگے اور لوگ اسے دیں یانہ دیں۔ یہ قول اس بات کے غماز ہیں کہ کسب معاش کے لئے تگ و دو کرنا ہمارا وطیرہ حیات ہونا چاہئے خواہ اس کے لئے بظاہر کمتر درجے کا ہی کوئی پیشہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔

محترم قارئین!!
دیکھا آپ نے کہ ہم کب سے سستی و کاہلی کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے نقصانات بھی اُٹھا چکے ہیں۔لیکن ایک عادت ایسی لگی کہ چھوٹتی ہی نہیں ۔لیکن یاد رکھیں ۔کئی مرتبہ ان حرکات کی وجہ سے ہم کئی قیمتی رشتوں کو بھی کھو چکے ہیں ۔کئی مرتبہ اپنا مستقبل داو ٔ پر لگا چکے ہیں ۔کئی مرتبہ دنوں کی غفلت سالوں کا روگ بھی بن گئی ۔

اب بھی ہم نہ سدھریں تو کب سدھریں گے ۔ہمیں اپنی کاہلی کو دور کرنا ہوگا۔میں چونکہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں ۔لوگوں سے ملنے کا اکثر اتفاق رہتاہے ۔مقرر ہونے کی حیثیت سے تقاریب میں لوگوں سے میل جول ہوتا ہے ۔ذاتی مشاہدے سے اسی نتیجہ پر پہنچاہوں کہ ہمارے گرد تین طرح کے آدمی ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو سوچتے ہی رہتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں دوسرے وہ جو بلا سوچے سمجھے ہر طرف ہاتھ پیر مارتے ہیں اور ہر طرف سے منہ کی کھاتے ہیں، تیسرے وہ جو سوچتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں، یہی خوش قسمت آخر مٹی کو سونا بنا لیتے ہیں۔ دنیا میں ہر بات کا نتیجہ مشتبہ ہوتا ہے سوائے محنت کے یہ شجر بہر کیف بارآور ہوتاہے۔سستی اور کاہلی سے کبھی کوئی مشکل آسان ہوئی نہ کوئی معرکہ سر ہوا ۔ ہر بڑے کام کے پیچھے متواتر عرق ریزی ہے۔

محترم قارئین!کچھ ہمّت کریں !آج ہی بلکہ ابھی ہی یہ عہد کرلیجیے کہ آئندہ سستی و کاہلی نہیں کریں گے ۔مجھے احقر کو اپنے تاثرات سے ضرور نوازئیے گا۔میری مقدور بھر کوشش ہوتی ہے کہ اپنے قارئین کے لیے بہتر اور نفیس معلومات فراہم کروں ۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544434 views i am scholar.serve the humainbeing... View More