انگولا میں اسلام پر پابندی!

انگولا کی حکومت نے دین اسلام پر کلی طور پر پابندی عاید کر کے اسلام دشمنی کی تمام حدود پار کر لی ہیں۔ملک میں اسلامی اثرورسوخ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان انگولا کے بد باطن صدر نے کیا، جبکہ اس سے قبل وزیر ثقافت روساکروز سلواکا کہنا تھا کہ اسلام کو قانونی حیثیت دینے کے لیے وزارت انصاف اور انسانی حقوق سے منظوری نہیں لی گئی اور آئندہ نوٹس تک مساجد بند رہیں گی۔

جمہوریہ انگولا وسطی افریقہ کے جنوبی حصے میں واقع ملک ہے، جس کا دارالحکومت لوانڈا ہے۔ یہاں کی کل آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے، جن میں سے اکثریت مسیحی برادری کی ہے، جبکہ صرف 80 سے 90 ہزار مسلمان آباد ہیں۔ ساری دنیا کی طرح حالیہ عرصے میں انگولا میں بھی اسلام کی دعوتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور لوگ تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے۔ مختلف شہروں میں نئی مساجد قائم ہوئیں۔ مدارس کی بنیادیں ڈالی گئیں۔ اسلام کی تعلیمات عام ہونے لگیں، جسے حکومتی سطح پر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ انگولا میں زیادہ تر مسلمان دیگر علاقوں سے یہاں آکر بسے ہیں، اس لیے تہذیب و کلچر کے اختلاف کی وجہ سے بھی یہاں کی حکومت مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ پانچ سال سے جاری تھا۔ تاہم حکومت انگولا نے اکتوبر2013ءکے بعد کھل کر مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ دارالحکومت لوانڈا کے گورنر نے مقامی ریڈیو پر اعلان کیا کہ انگولا میں مسلم انتہا پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور یہ کہ انہیں مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اس کے بعد حکومت نے 80 مساجد کو شہید اور 320 مساجد کو سیل کر دیا، جبکہ 15 مدارس کو مسمار کر کے سیکڑوں طلبہ، اساتذہ اور علمائے کرام کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا۔ ظلم و تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ اب ملک میں مکمل طور پر اسلام پر پابندی کا اعلان کردیا گیا۔

انگولا کی حکومت کی جانب سے اسلام پر پابندی کی یہ وجہ بیان کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے خطرات سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے، حالانکہ یہ اقدام صرف اور صرف عصبیت اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔ اسلام امن پسند دین ہے اور اس کی تعلیمات قتل وغارت، دہشت گری ، ظلم وناانصافی کے خلاف ہیں۔اسلام انسانیت کے احترام کی تاکید کرتا ہے۔ یہ اقدام دراصل ان کی اس پریشانی کا شاخسانہ ہے جو دین اسلام کی مقبولیت میں آنے والی تیزی کے باعث ان کو لاحق ہے۔ آج پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ عنقریب اسلام دنیا بھر پر غالب آجائے گا اور 2050ءتک یورپ میں بھی اسلام کا غلبہ ہوگا۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ عیسائیت کے مذہبی مراکز ویران ہو کر بڑے پیمانے پر نیلامی تک پہنچ گئے ہیں۔ عیسائی ملکوں میں آج نئے چرچ اور گرجے نہ ہونے کے برابر تعمیر ہورہے ہیں، جبکہ چرچوں کی نیلامی عام ہے۔مسلمانوں نے بے شمار چرچ خرید کر مساجد میں تبدیل کر دیے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگولا میں دین اسلام پر پابندی عاید کی گئی ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جودین اسلام کومختلف طریقوں سے اپنے مذموم ارادوں کا ہدف بناتے ہیں اور اسلامی سرگرمیوںکو ختم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بعض ممالک اسلام اور مسلمانوںکو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے طاقت کا بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن کسی ملک نے بھی آج تک علی الاعلان اسلام پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ انگولا پہلا ملک ہے، جس میں کلی طور پر دین اسلام پر پابندی لگا کر اسلام دشمنی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ اس پابندی کے بعد یقینا انگولا میں رہنے والے مسلمانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جو ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ ان ایک لاکھ کے قریب مسلمانوںکا کیا ہوگا، جووہاں قیام پذیر ہیں؟ اس سے زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ دیگر اسلام دشمن ممالک بھی انگولا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام پر پابندی عاید کرسکتے ہیں، جس سے ایسے تمام ممالک میں مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ایسے اقدامات ایک عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہےں، کیونکہ اگر عیسائی حکومتیں اسلام کو ممنوع قرار دیں گی تو یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ایسے مسلم ملکوںمیں جہاں عیسائیوںکی تعداد کم ہے، وہاںعیسائیت کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور عیسائیت پر پابندی عاید کردی جائے۔ یقینا اس سے ایک عالم گیر بے چینی پیدا ہوجائے گی۔ جس کے اثرات دنیا کے امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے، لہٰذا عالمی سطح پر انگولا میں اسلام پر عاید پابندی کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی اورانگولا کے اس اقدام کے خلاف پوری دنیا کواٹھ کھڑاہوجانا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.