امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اور علماے شام
(syed imaad ul deen, samandri)
امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ
الرحمۃ والرضوا ن کی ذات محتاجِ تعارف نہیں، آپ کے علم و فضل کا ڈنکا نہ
صرف برصغیر ہند وپاک میں بجتا ہے بلکہ عرب و عجم یورپ، امریکا و افریکا کی
علمی وادیوں اور عالمی دانش گاہوں میں بھی آپ کی تحقیقی و تجدیدی خدمات کو
سراہا جاتا ہے۔ آپ کے دینی، سائنٹفک نظریات کی تائید و حمایت کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں دنیاے رضویات کو ماہرِ رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے احسانات سے انکار نہیں،پروفیسر صاحب کی بیش بہا
کاوشوں اور محنتوں سے امام احمد رضا پر عالمی جامعات اور دانش کدوں میں
تحقیقات کی راہیں ہَموار ہوئیں، نئے نئے ابواب وَا ہوئے۔
امام احمد رضا کی شخصیت فخرِ اہل سنن ہے۔ وہ جامع الکمالات تھے، مجموعۂ
خوباں تھے، جامع الحیثیات تھے، ماہرِ علومِ عقلیہ و نقلیہ،شرقیہ و غربیہ
تھے ، تفسیر، حدیث، فقہ میں بے مثال۔ نحو، صرف، تجوید، تصوف، سلوک، لغت،
شاعر ی و ادب، ہندسہ، ریاضی،حساب، تاریخ، فلسہ و سائنس، علم ہیئت،نجوم، جفر
میں یکتاے روزگار تھے۔ علم مناظرہ، منطق، جبر و مقابلہ، اقتصادیات
ومعاشیات، ارضیات، طب، جغرافیہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ یہ باتیں محض عقیدت
کی بنیاد پر نہیں کہی گئیں۔ حسد کی عینک اُتاریں اور تصانیفِ رضا کا مطالعہ
کریں۔ مطالعہ کرنے والے امام احمد رضا کو پڑھ رہے ہیں، اور اپنے سَر دُھن
رہے ہیں۔ لوگوں نے انہیں کیا بتایا وہ کیا تھے۔ حاسدین نے انہیں بد نام
کرنے کی سعی ناکام کی مگر
سب یہ صدقہ ہے عرب کے جگمگاتے چاند کا
نام روشن اے رضا جس نے تمہارا کردیا
1323ھ کو جب امام احمد رضا دوسرے سفر حج پر تشریف لے گئے اس موقع پر علامہ
شیخ کمال صالح مکی علیہ الرحمہ نے علم غیبِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم سے متعلق کچھ سوالات جو معترضین کی طرف سے آئے تھے، آپ کی خدمت میں
پیش کیے۔ اور استفسار کے بعد فرمایا کہ جواب ایسا ہو کہ معترضین کے دانت
کھٹے ہو جائیں۔آپ نے کم و بیش 8؍ گھنٹے کی مدت میں بر جستہ قلم برداشتہ
’’الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ‘‘تحریر فرمایا۔ جس میں علومِ مصطفی علیہ
الصلوٰۃ والثناء پر مدلل، تحقیقی گفتگو کی گئی۔ اسی شب شریف مکہ کی محفل
میں عالمِ اسلام سے آئے ہوئے علما کے سامنے پڑھ کر سُنایا گیا۔ نصف کتاب کی
سماعت کے بعد محفل برخواست ہوئی، بقیہ حصہ دوسری شب سُنایا گیا۔ آقاے دو
جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علمِ پاک کے اثبات پر قلم برداشتہ کئی
سو صفحات پر اس تحقیقی جواب پر جلیل القدر علما نے تقریظات اور تصدیقات
تحریر فرمائیں، جن کی تعداد پروفیسر مسعود احمد نقشبندی علیہ الرحمہ کے
مطابق 250؍ کے لگ بھگ ہیں۔ اس پر زینت البلاد’’شام کے درجنوں علما کی
تقریظات و تصدیقات بھی ہیں۔ یہاں علماے شام کے گراں قدر تاثرات پیش کیے
جارہے ہیں،جس سے آپ کی دنیائے عرب میں مقبولیت اور شہرت کا پتہ چلتا ہے۔
شیخ امین السفر جلانی دمشقی علیہ الرحمہ:
شیخ صاحب علومِ دینیہ کے ماہر، مشہور عربی شاعر اور دمشق کی مرکزی جامع
مسجد ’’جامع النجیقدار‘‘ کے امام و مدرس تھے۔ المنظومیۃ المنرھیہ فی الاصول
الفقیہ، عقودالاسانید فی مصطلح الحدیث‘‘ وغیرہ مشہور عربی کتابیں ہیں، آپ
کا وصال 1335ھ/1916ء کو دمشق میں ہوا۔ الدولۃ المکیہ پر اپنے تاثرات کچھ
یوں فرماتے ہیں:
’’میں نے اہم کتاب(الدولۃ المکیہ) مطالعہ کی، یہ اہلِ ایمان کے عقائد کا
خلاصہ ہے اور اہلِ سنّت و جماعت کے مذہب کا موئد۔۔۔ رسالہ مذکورہ مؤلف
علامہ مرشد فھامہ شیخ احمد رضا خاں ہندی کی عظمت شان پر گواہی دے رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ آخرت میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے جھنڈے تلے ان کو اور ہم
کو جمع فرمائے۔(آمین)[14؍ صفر 1322ھ/1914ء]۔۔۔ (امام احمد رضااور علماے
شام: ص4؍مطبوعہ کراچی)
شیخ محمد امین دمشقی علیہ الرحمہ:
امام وقت، صوفیِ کامل، فقیہِ عصر امام محمد امین بن محمد الدمشقی معروف
’’سوید‘‘ رحمۃ اللہ 1273ھ/1855ء میں دمشق کے ایک تجارت پیشہ خاندان میں
پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا سفر حج میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت آپ کی عمر10؍
سال تھی۔ اکابرین و مشاہیرینِ وقت سے شرفِ تلذ حاصل کیا۔ معروف اساتذہ میں
شیخ الخطیب ، شیخ سلیم العطار، شیخ عیسٰ الکروی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم کا
اسمِ گرامی آتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے دواران مملکتِ عثمانیہ نے آپ کو
’’الکلیۃ الصلاحیہ القدس الشریف‘‘ (فلسطین) میں منصب قضاۃ اور مدرسین کی
تربیت کے لیے متعین کیا، مگر حکومتِ عثمانیہ کے زوال کے باعث انگریز حکومت
نے اس یونی ورسٹی کو بند کر دیا۔ بعد ازاں آپ دمشق سے ’’المجمع العلمی
العربی‘‘ میں فروغ زبانِ عربی کے اہم کام پر معمور رہے۔ اس کے علاوہ ملکِ
شام کے مشہور جامعات میں آپ کو درس و تدریس کاشرف رہا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’علامۂ کبیر، فھامۂ شھیر، محقق و مدقق کامل شیخ احمد رضا کاں کی تالیف
’’الدولۃ المکیۃبالمادۃ الغیبیہ‘‘ مطالعہ کی۔ میں نے اسے ایک ایسا عظیم
الشان سایہ دار درخت پایا جو اپنے دامن میں مذہبِ اسلام کا جوہر سمیٹے ہوئے
ہے۔ اور ایک چمن جو عقائد اہلِ ایمان کا نچوڑ ہے۔
بے شک علم ذاتی محیط اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے ؛لیکن اللہ تعالیٰ اپنے
مخصوصین کو ایسے علم سے آگاہ کرنا جس سے وہ پہلے نا آشنا تھے، ایسی بات ہے
جس کے جائز اور واقع ہونے میں کوئی شک نہیں یہ علم ذاتی بلکہ اللہ تعالیٰ
کی تعلیم پر موقوف ہے۔ تو بلا شبہہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو ایسے علوم سے مطلع کیا۔ جو آپ کے لیے خاص ہیں، اور آپ
کے سوا تمام مخلوقات ان سے آشنا ہیں۔ [16؍ ربیع الثانی
1331ھ/1913ء]۔۔۔(ایضاً:ص8)
علامہ شیخ سید محمد تاج الدین حسنی دمشقی علیہ الرحمہ:(سابق صدر جمہویہ
شام)
حضرت علامہ صوفی شیخ محمد تاج الدین بن محمد بدرالدین بن یوسف الحسنی
المراکشی ثم الدمشقی 1307ھ/1890ء دمشق میں پیدا ہوئے۔ علومِ دینیہ والد
محترم تاک العلما محمد بدرالدین علیہ الرحمہ سے پائے۔ عہدِ عثمانیہ میں شام
کی پارلمنٹ کے رُکن رہے۔ 1335ھ/1916ء میں ’’اخبارِ شرق‘‘کے چیف ایڈیٹر
ہوئے۔ 1920ء میں محکمۂ تعلیم کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔ اوقاف و فتویٰ، شرعی
عدالت اور حجازی خط کے دفاتر اسی محکمہ کے تحت تھے۔ 1941ء۔1943ء ملک شام کے
صدر جمہوریہ کے معزز ترین عہدے پر فائز رہے۔ دمش میں بروز پیر 10؍ محرم
الحرام 1362ھ/ 17؍ جنوری 1943ء کو وفات پائی۔ الدولۃ المکیہ میں اپنی تقریظ
درج کرے ہوئے ہوئے تحریر فرمایا:
’’1331ھ میں جب دمشق سے مدینۂ منورہ حاضر ہوا، اور سید العالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی چوکھٹ کی زیارت سے شرف یاب ہوا، تو مجھے ’’الدولۃ
المکیہ‘‘ کے مطالعہ کے لیے کہا گیا، چناں چہ میں نے اس کتاب کو اس طرح
مضطربانہ دیکھ جس طرح دوست دوست کو جُدا ہوتے وقت دیکھتا ہے۔ میں نے اسے بے
مثل پایا، اس کی صداقت بیانی اور استقامت فشانی روشن ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو
کہ اس کتاب کے مؤلف بڑے صاحبِ فضل مولانا شیخ احمدرضا خاں ہیں۔ جو اپنے ہم
مِثلوں میں بہترین اور قدر و منزلت والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں جزعطا فرمائے اور ہم سب کو قیامت کے دن حضور سیدالانبیاء
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔میں نے چند جوہات کی
وجہ سے تقریظ میں اختصار کو پیشِ نظر رکھا پہلی بات تو یہ کہ مؤلف کے اوصاف
تفصیل و تطویل سے بے نیاز ہیں۔ دوسری یہ کہ میں دیارِ حبیب صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم سے جُدا ہورہا ہوں، آنکھیں اشک بار ہیں، اور یہ تقریظ لکھ رہا
ہوں۔[9؍ ربیع الثانی 1331ھ/ 1913ء]۔۔۔ (ایضاً: ص،9)
شیخ محمد یحییٰ الفلعی النقشبندی علیہ الرحمہ:
آپ مملکتِ عثمانیہ کے لشکر میں شامل تھے۔ عظیم فقیہ، صوفی با صفا۔ آپ کی
تمام تر مشہور تصانیف میں ’’خطبہ فی الحشر علی مساعدۃ الجاہدین‘‘ مشہور
ترین ہے۔ آپ نے 1341ھ /1942ء میں وفات پائی۔ ان کی تاریخ وفات میں علما و
دانش وران کا اختلاف ہے، کچھ کے نزدیک 1337ھ ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ آپ
کا وصال 1338ھ میں ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
الدولۃ المکیۃ پر اپنی ایمان افروز تقریظ مین فرماتے ہیں:
’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے آقا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو
تمام علوم عطا فرمائے، اور تمام پشیدہ رازوں سے آگاہ فرمایا۔ ہمارا یہ
عقیدہ ہے کہ ساری مخلوقات تک اللہ تعالیٰ کا علم پہنچانے کے لیے آپ واسطۂ
عظمیٰ ہیں۔ اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کو معرفت حاصل ہو۔ جاہل کو کیا
پتا۔۔۔؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مؤلف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہمیں
ان کے ساتھ قیامت کے دِن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جھنڈے تلے جمع
فرمائے۔[21؍ صفر 1327ھ/1909ء]۔۔۔ (ایضاً:ص21)
شیخ محمد بن احمد رمضان شامی علیہ الرحمہ:
حضرت شیخ محمد بن احمد رمضان شامی المدنی الشاذلی رحمۃ اللہ علیہ مدینۂ
منورہ کے ممتاز ادیب تھے۔ آپ کے اشعار زبان زدِ عام و خاص تے۔ آپ کی تصنیف
میں ’’صفوۃ الادیب‘‘ مناجات الحبیب فی الغزل والنیب‘‘ اور شعری دیوان
’’تنبیہ الانام فی ترتیب الطعام‘‘ اور مساعرۃ الادیب‘‘ مشہور ترین ہیں، ان
کی تمام تصانیف مطبوعہ ہیں۔ 1340ھ/1921ء کے بعد وفات پائی۔ الدولۃ المکیہ
پر اپنی گراں قدر آراء یوں رقم فرماتے ہیں:
’’1331ھ میں جب زیارت کے ارادے سے مدینۂ منورہ حاض ہوا تو بعض فضلا نے حضرت
علامہ امام احمدرضا خاں ہندی کی تالیف الدولۃ المکیہ سے آگاہ کیا۔ میں یہ
کتاب مطالعہ کی اور اس کو حسنِ بیان اور پختگی برہان میں آفتاب کی مانند
چمکتا پایا۔ یہ حقیقت صاحبِ بصیرت اہلِ دل اور اہلِ تقویٰ پر پوشیدہ نہیں۔
علامہ موصوف نے خالق او مخلوق کے علم کا عمدہ طریقے سے فرق بیان کردیا، جو
عین حق ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مؤلف کو جزائے خیر فرمائے اور علماے اہلِ
سُنّت و جماعت کی تائید فرمائے، اور ہم کو اُن لوگوں میں کر دے جوسُن کر
اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔آمین (ایضاً:ص10)
یہ تو صرف بلادِ شام سے متعلق چندعلما کے تاثرات ہیں۔ امام احمد رضا دنیاے
عرب میں مقبولیت کے اثرات کا تفصیلی مطالعہ کے لیے’’امام احمد رضا اور
علماے عرب، امام احمد رضا اور علماے مکۃ المکرمہ، امام احمد رضا اور علماے
شام، امام احمد رضا علماے حجاز کی نظر میں‘‘ وغیرہ کتابوں کو ملاحظہ
فرمائیں - |
|