گھامڑ دُھول پوری
(Ghulam Ibn-e- Sultan, Jhang)
ایک عذاب اور ٹلا ،ایک دردِلادوا سے
نجات ملی،ایک بلائے بے درماں سے چھٹکارا ملا، پیشہ ور منشیات فروش،ندیدہ
جنسی جنونی،بے ضمیر بھتہ خور ،بے غیرت اُٹھائی گیرا،کالے دھن کا متوالا،زیرِ
زمین دنیا کابے حس حاکم، رسوائے زمانہ اچکا،بدنام ڈاکو،سفاک رہزن،اجرتی
بدمعاش،خطر ناک رسہ گیر اور شقی القلب قاتل گھامڑ دُھول پوری اپنے شریکِ
جرم پالتو سگ ِ آوارہ زاہدولُدھڑ کے ہمراہ گزشتہ شب ڈکیتی کی ایک بُزدلانہ
واردات میں ہلاک ہو گیا ۔ گاؤں کی ایک معمر بیوہ نے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے
کرنے کے لیے گزشتہ بیس سال میں جہیز کا جو سامان اور زیورات بنائے تھے اس
کی مخبری ان بد معاشوں اور قاتلوں کو ہو گئی تھی۔ اس ضعیف،ناتواں ، بے بس و
لاچار،مفلس و قلاش اور ستم رسیدہ بیوہ کی یتیم بچی کا جہیز لُوٹتے وقت یہ
دونوں ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور فطرت کی سخت تعزیروں میں جکڑے گئے۔
بُڑھیا کے گھر کے آنگن میں سو سال پرانا ایک گہرا کنواں تھاجسے اب پینے کا
پانی بھرنے کے لیے استعما ل نہیں کیا جاتا تھا ۔بڑھیا نے اس کنویں کو کیکر
کے ڈھینگروں اور دھان کی پرالی سے ڈھانپ رکھا تھا ۔ رات کی تاریکی میں
دونوں ڈاکو جب زیورات اور سامان لُوٹ کر نکلے تو وہ پرالی پر سے گزرے اور
دھڑام سے گہرے کنویں میں جا گِرے۔ سیکڑوں خارِ مغیلاں ان کے لباس کو تار
تار کرتے ہوئے ان کے جسم میں پیوست ہو گئے۔ ہر سرِ خار اس قدر تیزتھا کہ ان
ڈاکوؤں کا پورا جسم فگار ہو گیا اور ان کا سارابدن خون میں لت پت ہو گیا۔
اتنے گہرے کنویں سے باہر نکلنا ان ڈاکوؤں کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔اس غیر
متوقع حادثے کے باعث ڈاکو حواس با ختہ ہو گئے اور ان کا آتشیں اسلحہ ان کے
ہاتھ سے چُھوٹ کر کنویں میں ڈوب گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے کنویں میں رسے پھینک
کر ان ڈاکوؤں کو باہر نکالا تو ان کی جان میں جان آئی لیکن اجل گر فتہ ڈاکو
یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی جان توکوئی دم کی مہمان ہے۔ اپنی یتیم بیٹی کے
ہاتھ پیلے کرنے کی فکر سے نڈھال بُڑھیا نے طمانچے مار مار کر ان ننگِ
انسانیت سفاک ڈاکوؤں کا منہہ لال کر دیا ۔اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے جُوتے
مار مار کر ان خون آشام درندوں کا بھرکس نکال دیا۔ گھامڑ دُھول پُوری اور
زاہدو لُدھڑ کا منہہ کا لا کر کے ان کا سر مونڈ دیا گیا اور ساتھ ہی ان
ابلیس نژاد بھیڑیوں کی پلکیں اور بھویں بھی کنکریٹ بلیڈ سے صاف کر دی گئیں
۔ ان کی قسمت اس طرح ہار گئی کہ بہت سے بوسید ہ کفش مونج کی دو رسیوں میں
پر وکر ان کے ہار دونوں ڈاکوؤں کے گلے میں ڈال کر انھیں ایک خارش زدہ خچرپر
سوار کر کے انھیں گاؤں کے گلی کُوچوں میں گھمایاگیا ۔نوعمر لڑکوں کی غُلیل
سے غُلہ بازی اور سنگ زنی سے اِن مُوذی و مکار درندوں کی آشفتہ سری کی برق
ِتپاں ہمیشہ کے لیے ٹھنڈی ہو گئی ،یہ دونوں گُرگ اپنے انجام کو پہنچے اور
اِن کی آنکھیں مُند گئیں اوریوں زمین کا یہ بھاری بوجھ قدرے کم ہو گیا جس
نے بے بس اور مظلوم انسانیت کا ناک میں دم کر رکھا تھا ۔گھامڑ دُھول پوری
اور زاہدولُدھڑکا نام سنتے ہی لوگ لاحول پڑھتے اور پورے شہر کی ندامت ،لعنت
،ملامت اور خِست و خجالت ان سفہا اور اجلاف و ارذال کا تعاقب کرتی۔ لوگ
جھولیاں اُٹھا کر انھیں بد دعائیں دیتے اور کہتے کہ یہ بداعمال جلدزینہء
ہستی سے اُتر کر عدم کو سدھاریں۔مشکوک نسب کے یہ خون آشام کر گس زادے جہاں
بھی قیام کرتے،وہاں کے درودیوار پر ذلت، تخریب ،بے حسی،بے غیرتی ،بے
ضمیری،بے شرمی ،بے حیائی،نحوست،نجاست،بددیانتی اور بد بختی کے کتبے آویزاں
ہو جاتے۔گھامڑ دُھول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی ہلاکت کی خبر سن کر مظلوموں
کے چہرے کِھل اُٹھے، ظالموں کے دل دہل گئے اور مفت خور لیموں نچوڑ ،جو فروش
گندم نما،بگلا بھگت اوربھتہ خور چُلّو میں اُلّو بن کر بہل گئے۔چڑھتے سورج
کے وہ پجاری جن کے لیے ہوا کا رُخ پہچاننا مرغ ِباد نما سے بھی زیادہ سہل
ہوتا ہے وہ بھی گھامڑ دُھول پوری اور زاہدو لُدھڑکی ہلاکت کے بعد چہل پہل
دیکھنے کی خاطر اس طرف سے ٹہل گئے اور اس ہونی کو دیکھنے میں پہل کی۔ایک
بات قابل غور تھی کہ سب سفیدکوے،کالی بھیڑیں اور گندی مچھلیاں اپنا سا منہہ
لے کر رہ گئیں۔ان کے لیے تو نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن والا معاملہ
تھا۔
گھامڑ دُھول پُوری اور زاہدو لُدھڑ کی جوانی بھی سماج کے لیے ایک بلائے نا
گہانی بن گئی۔اس عرصے میں انھوں نے چربہ ساز ،سارق،کفن دُزدمتشاعر کی حیثیت
سے واہی تباہی بکنا وتیرہ بنایا اور اس طرح جو رُوسیاہی ان کے حصے میں آئی
اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں تھا۔اردوزبان کے کلاسیکی شعرا کے کلام
پر انھوں نے جو مشقِ ستم کی وہ ان کی فکری کجی، بے بصری ،کور مغزی ،علمی
تہی دامنی اور ذہنی افلاس کی دلیل ہے ۔ گھامڑ دُھول پوری ادبی محفلوں میں
اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ نکٹے زاہدو لُدھڑ اور ساتا روہن کے ہم راہ بن
بلائے پہنچ جاتا اور وہاں خوب ہنہناتا۔ عالمِ پیری میں شعرو ادب کی مخلوط
محفلوں میں یہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتااور نجی محفلوں میں زنان
خانے میں پریوں کا اکھاڑا سجا کر راجا اِندر بن جاتا۔ایسے پُر تعیش ماحول
میں اِس نا ہنجار کی متعفن باچھیں اور کالے دھن سے بھری جیبیں کُھل جاتیں۔
اگرچہ یہ متفنی جعل ساز فلسفہ اور شاعری کی ابجد سے بھی واقف نہ تھا لیکن
رواقیت کاداعی بن کر ہذیان بکنااس ابلہ کا وتیرہ بن گیا۔ہیرا منڈی میں ہر
شام یہ پھیکے اور باسی پکوان کی عفونت اورسڑاند کے باوجود ہر اونچی دکان کے
پھیرے لگاتا۔جب یہ ٹُن ہوتا اوراس کی جیب خالی ہوتی تووہاں اکثر منہہ کی
کھاتا لیکن اس چکنے گھڑے پر پھٹکار اور دھتکار کا کوئی اثر ہی نہ ہوتا اور
یہ تھالی کا بینگن گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوتا اور کفن پھاڑ کر ہرزہ
سرا ہو ناا س کی عادت تھی۔ مشاعروں میں بھی اس کی خوب درگت بنتی لیکن یہ نا
ہنجار اپنی تذلیل،توہین اور تضحیک کو اپنی پذیرائی پر محمول کرتا اور اس پر
بھی یہ پھول کپا ہو جاتا۔ مشاعروں میں اس پر جو گلے سڑے ٹماٹر ، پچکے ہوئے
بینگن، رِستے ہوئے کدو ، بد رنگ گوبھی، عفونت زدہ کھیرے، گاجریں ، پالک
،پودینہ ،دھنیاں،مولیاں ،پیٹھے اور دو ہفتے کے باسی شلجم پھینکے جاتے یہ
خسیس وہ سب کی سب باسی سبزیاں اکٹھی کر لیتااور ایک بڑا گٹھڑ اپنے گنجے سر
پر اٹھا کر رنگو کنجڑے کے گھر پہنچاتا جو یہ سبزیاں خوب صورت شاپنگ بیگز
میں ڈال کر ان لوگوں کے گھر بھیج دیتا جوکالا دھن کما کر نو دولتیے بن چکے
تھے۔ اِن گھٹیا عیاشوں کے مطبخ میں یہ گلی سڑی سبزیاں بھیج کر رنگو کنجڑا
اپنے گھر کے اخرجات پورے کرتا۔ شہر کے بڑے بڑے سمگلروں ،منشیات فروشوں،بھتہ
خوروں ،سٹہ بازوں اور جرائم پیشہ افراد کے گھروں میں کام کرنے والی
خادمائیں رنگو کنجڑے ہی سے سبزیاں لے جاتی تھیں اور رنگو کی رسد کا واحد
ذریعہ اسی قسم کے تھڑے والے ہی تھے ۔ رنگو رذیل شہر کے تمام قصابوں سے
چھیچھڑے مُفت مانگ کر لاتا اور ان تما م بُھوکی بلیوں کو فروخت کرتاجو سدا
چھیچھڑوں کے خوابوں میں کھوئی رہتی تھیں ۔ اس کے علاوہ یہ چھیچھڑے وہ بلیاں
بھی ہاتھوں ہاتھ لیتیں جو نو سو چوہے ڈکار لینے کے بعد گنگا نہانے کے لیے
بے چین رہتی تھیں ۔ چھیچھڑوں کے کباب بلیوں کو گرانی کے عذاب سے نجات دلاتے
اور جب کوئی ان کے کباب میں ہڈی بنتا تو تو بلیوں کا عتاب ان کو اپنی اوقات
یا ددلا دیتا تھا۔ کباب ،سبزیاں اورکھانا پکانے والے اس بات سے بے نیاز
رہتے کہ وہ کھانے والوں کو کیا کھلا رہے ہیں۔حریص کو تو سدا اپنی حرص و ہوس
کی حشر سامانیوں سے کام ہوتا ہے ۔ہوا و ہوس کے اس اندھے کھیل میں حد سے
گزرنے والے اس بات سے بے تعلق تھے کہ کسی کی کشتی پار لگتی ہے یاکسی کابیڑا
غرق ہوتا ہے۔ حفظانِ صحت اور صفائی کے معاملات ان کی بلا جانے ۔گھامڑ دُھول
پُوری منزل سے ناآشنا شراب کے نشے میں بد مست سرابوں کے عذابوں کو سہتے
سہتے گلشنِ ادب میں بُوم ،شپر اور کرگس کے مانند جا پہنچتا اور زاغ و زغن
کی طرح اپنی کریہہ آواز سے نحوست ونجاست کو عام کرتا اور صبح و مسا طوفِ
جام کرتا۔یہ خرکار جب مثل خر اپنی ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکالتا تو سب کے
سب سامعین لاحول پڑھتے اور اس سے مخول کرتے۔اس خرِ مجہول کی خار افشانیء
ہذیان کے چند نمونے پیش ہیں:
خضاب آلودہء غیظ وغضب ہیں بال و سر تیرے
تُو اے بُومِ صنم مرنے سے پہلے بد گُماں ہو جا
کفش میں مجھ سے رودادِ زقن سہتے نہ ڈر کژدم
پڑا ہو جس پہ کل چھاپہ وہ میرا آستاں کیوں ہو
بے ضمیروں سے ہاتھا پائی کیا
سر جھکایاجو چھپ کے وار کیا
دِلِ صد چاک کی شتابی سے
زیست گزری ہے کس خرابی سے
ہائے مہماں تجھے ہوا کیا ہے
میزباں کی بھلا سزا کیا ہے
بیٹھ کہ پھر ہولی کا سامانِ سفر غازہ کریں
سیمرغِ سوختہ و کرگس وخر تازہ کریں
گھامڑ دھول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی حیات ِ رائیگاں کی کہانی میں کوئی شخص
دلچسپی نہیں لیتا حالانکہ ایسے راندہ ء درگاہ درندے جب تک زندہ رہتے ہیں،
زمین کا لرزہ خیزبوجھ بنے رہتے ہیں اور زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر
کے مجبوروں کی زندگی کے تلخ حقائق کو خیال و خواب بنا دیتے ہیں۔سیلِ زماں
کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعدیہی ابلیس نژاد سفہا جب اپنے انجام کو
پہنچتے ہیں تو ان کی حیات کا افسانہ عبرت کا تازیانہ ثابت ہوکر انھیں مخلوق
کی نگاہوں میں تماشا بنا دیتا ہے۔اس کہانی کے سبھی کردار دراصل کردار سے
عاری تھے وہ اسی شاخِ تمنا پر آری چلاتے رہے جس پر ان کا آشیا نہ تھا۔ان کے
بھید جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ اسی تھالی میں چھید کرتے رہے جس میں یہ
کھانا زہر مار کرتے تھے ۔ گھامڑ دُھول پوری،زاہدولُدھڑ اور اس کے پالتو
سگان راہ کے سب راز جاننے والے خورو لُدھیک کا سوپُشت سے آبائی پیشہ گداگری
تھا ۔اس کے علاوہ اس کے خاندان کے کچھ افراد جاروب کش ،تسمہ کش اوربادہ کش
بھی تھے۔زندگی کی کشا کش میں خورو لُدھیک جب گُزشتہ دَہائی کے دوران آئینہء
ایام میں اپنی کج ادائی کو دیکھتا تو اسے پورا عالم دُہائی دیتا سنائی
دیتا۔خورو لُدھیک جسے حادثہء وقت نے جہالت کا انعام دیا تو وہ مورخ بن
بیٹھا ۔ پرائمری فیل یہ ابلہ جو طویل عرصہ تک مقامی عدالت میں عر ضی نویس
رہا، دیکھتے ہی دیکھتے سیا ہ نویس اور شجرہ نویس بن بیٹھا ۔کئی خاندانوں کے
شجرہ نسب کے قدیم دیمک خوردہ مخطوطے اس نے نہ جانے کیسے اور کہاں سے ڈھونڈ
نکالے کہ انھیں دیکھ کر تحقیق کے سرابوں میں بھٹکنے والے آبلہ پا اش اش کر
اُٹھے۔ اس چراغ ِ نیم شب نے ایک ادیبہ فضیحت سے آخری ملاقات میں ماضی کے
کئی حقائق پر پڑی ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد پہلی بار اپنی زبان سے چاٹتے
ہوئے کہا ۔
’’ آخری عہد ِ مغلیہ میں جہاں دار شاہ کے عہدِ حکومت میں نعمت خان کلانونت
کی عاقبت نااندیشی کے باعث جو ُروسیاہی اس کے حصے میں آئی وہ تاریخ کا ایک
سیاہ باب ہے۔اسی زمانے میں دہلی کے نواح میں نعمت خان کلانونت نے ہند ،سندھ
کے سب پائمال اورخوار و زبوں چکلہ داروں کو دہلی شہر میں اکٹھاکیا اور
انھیں شہرسے دُور ایک ریگستان میں خوب صورت اور پر تعیش کوٹھے تعمیر کر کے
دئیے ۔ چنڈو خانوں ،قحبہ خانوں اور عشرت کدوں پر مشتمل اس بستی کا نام
کلانونت نگر رکھا ۔اس نئی بستی میں عشق و مستی او رجنس و جنون کی کھلی
چُھٹی کے باعث یہاں جنگل میں منگل کی کیفیت رہتی تھی۔ شراب اور شباب کے
دلدادہ سب مست بندِ قبا سے بے نیاز شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے دنگل کے
دوران سب حدوں کو پھلانگ جاتے۔نعمت خان کلانونت کے سبز قدم اس آسیب زدہ
بستی کے سب جرائم کوہوا دیتے تھے۔‘‘
’’کلانونت نگر کے لیے زمین اور مکانوں کی تعمیر کے لیے درکار رقم کہاں سے
ملی‘‘ فضیحت نے حیرت سے کہا’’نعمت خان کلانونت کو اس کی کیا ضرورت پڑی تھی
کہ وہ ملک بھر کے رذیل اور ننگِ انسانیت جنسی جنونیوں اور اخلاق باختہ
نفسیاتی اور جنسی مریضوں کو اکٹھا کر کے ان کے آرام و آسائش میں خجل ہو تا
پھرے۔‘‘
’’ضرورت ہی تو ایجاد کی ماں اور فریاد کی نانی ہے اور پُوری دنیا اس کی
دیوانی مستانی ہے ۔‘‘ خورو لُدھیک کفن پھاڑ کر غرایا’’کلانونت نگر میں نعمت
خان کلانونت ، اس کی چچا زاد بہن لال کنور اور لال کنور کی سہیلی زہرہ
کنجڑن کے نام کا کھوٹاسکہ چلتا تھا ۔لال کنور جب جہاں دارشاہ کی بیوی بنی
تو وہ امتیاز محل کا شاہی لقب پا کر ملکہ ء ہند بن بیٹھی۔اس وقت سارا شاہی
خزانہ ایک جسم فروش رذیل طوائف کے قبضے میں تھا ۔سب بھانڈ ،بھڑوے ، رجلے
،خجلے ،بھگتے ،مسخرے ،لُچے ،شہدے،ڈُوم، ڈھاڑی،طبلچی،ڈھولچی،موسیقار اور
کلاکارجو پہلے کلانونت نگر میں زندگی کے دن پورے کر رہے تھے ،لال کنور اور
زہرہ کنجڑن کے قصرِ شاہی میں پہنچتے ہی لا ل قلعے میں جا گُھسے اور انھیں
شاہی خلعت اور جاگیرسے نوازا جاتا۔نعمت خان کلانونت کو ملتان کا منصب دار
بنا دیا گیا ۔اب سچ مچ عقابوں کے آشیانوں میں زاغ و زغن ،بُوم وشپر اور
کرگس گُھس گئے۔‘‘
بہلو خان نے کان کھجاتے ہوئے اور دُم ہلاتے ہوئے کہا’’سنا ہے کبھی کبھی مٹی
کی قسمت بھی جاگ اُٹھتی ہے۔کلانونت نگر کے مکینوں نے تو پھر اپنے مخالف
کینہ پرور حاسدوں اور دام پھیلائے ناوک انداز مہ جبینوں اور ان پر مرنے
والے کمینوں سے خوب بدلے لیے ہوں گے۔‘‘
’’ ہاں ! یہ سب لوگ بدلے بدلے سے دکھائی دیتے تھے اس لیے مہ جبیں حسینوں نے
ان کے خوب لتے لیے۔‘‘خورو لُدھیک نے ہنہنا کر کہا’’لال کنور اور زہر ہ
کنجڑن نے جسم و جاں کے بدلے خرچی سے بے دریغ زر و مال جمع کر نا شروع کر
دیا ۔یہاں تک کہ شاہ ِ بے خبر اور اس کے خاندان کے بے ضرر اور بے بس افراد
بھی ان طوائفوں کے دست نگر بن کر رہ گئے۔‘‘
’’ فطرت کی تعزیریں بہت سخت ہوتی ہیں ،وہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر
کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا ۔‘‘ بہلو خان نے غراتے ہوئے کہا ’’جہاں دار
شاہ کو مغل شہزادے فرخ سیر نے موت کے گھاٹ اُتا دیا اورفروری ۱۷۱۲ میں وہ
فاتحانہ انداز میں جب قصر شاہی میں داخل ہوا تو کلانونت نگر کے سب مکین
روپوش ہو گئے۔بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی آخر ایک نہ ایک دن بکرے کی
گردن تیز چُھری کے نیچے آئے گی۔‘‘
’’ سچ کہتے ہو یہی تو اصل حقائق ہیں جن پر کوئی غور نہیں کرتا ۔ جہاں دار
شاہ کی ہلاکت کے وقت وقت میرے دادا جو جلاد کے منصب پر فائز تھے ایک ہاتھی
پر سوار تھے اور انھوں نے ایک نیزے کی نوک پر جہاں دار شاہ کا زخمی اور کٹا
ہوا سر اُٹھا رکھا تھا۔ جہاں دار شاہ کا دھڑ ایک اور ہاتھی کی دُم سے بندھا
سنگلاخ زمین پر گھسٹتا چلا ا ٓ رہا تھا ۔اس ہاتھی پر میری دادی سوار تھی جو
شہر کی مشہور نائکہ اور گائیکہ تھی ۔‘‘ خورو لُدھیک نے کہا ’’اس زمانے میں
یورپی اورا فریقی تاجر ہندوستان میں تجارت کی غرض سے داخل ہو چُکے تھے۔شاہی
محل میں بھی بیگمات کے علاج کے لیے غیر ملکی طبیب اورفرنگی معالج اکثر بے
روک چلے آتے تھے۔ لال کنور اور زہرہ کنجڑن دونوں طوائفوں کو جوڑوں اور
پٹھوں کے در دکا عارضہ لا حق تھا ۔ کلانونت نگر میں ان کے کئی کشتہء ستم
اُلّو اور اُّلّو کے پٹھے عطائی ہمہ وقت ان طوائفوں کے لیے کُشتے بنانے میں
مصرو ف رہتے تھے ۔لال کنور کا علاج ایک انگریز معالج کرتا تھا جب کہ زہرہ
کنجڑن نے اپنے علاج کے لیے ایک حبشی فزیو تھراپسٹ کی خدمات حاصل کر ر کھی
تھیں۔ ان دونوں طوائفوں کو اپنے علاج اور مساج سے فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ ان
کے عارض کو دیکھ کر جہاں دارشاہ دنیا و ما فہیا سے بے خبر ہو جاتا اور بر
ملا کہتا کہ اس کی زندگانی تو عارضی ہے ۔ فرخ سیرکے ہاتھوں جہاں دار شاہ کی
ہلاکت کے بعد جب لا ل کنور اور زہر ہ کنجڑن اپنے ذہن پر حسرت و ندامت
کابوجھ لیے دل شکستہ قصر شاہی سے فرار ہو ئیں تو دونوں کا پاؤں بھاری تھا
اور مسلسل علاج بھی جاری تھا ۔‘‘
’’ یہ واقعات تو بہت سنسنی خیز ہو تے چلے جا رہے ہیں ۔‘‘ فضیحت نے اپنی
انگشت اپنی ناک پر رکھتے ہوئے کہا’’ جہاں دار شاہ کی زندگی تو واقعی عارضی
ہی ثابت ہوئی اس لیے کہ فرخ سیر کے سپاہیوں نے اس گھٹیا عیاش نام نہاد
بادشاہ کو موت کے گھاٹ اُتار کر بے غیرتی اور بے ضمیری کے ایک بھیانک تاریک
اور قابل نفرت باب کوختم کر دیا ۔مصیبت کی اس گھڑی میں لا ل کنور اور زہرہ
کنجڑن پر کیا گزری؟‘‘
’’ لال کنور اور زہرہ کنجڑن نے اپنے مداحوں اور اہلِ کرم کا تماشا دیکھنے
کی خاطر گڑوی بجا کر گیت گانے والی بھکارنوں کا بھیس بنا لیا اور ایک گدھا
گاڑی پر سوار ہو کر دہلی سے ۳۱۹ کلو میٹر جنوب میں واقع شہر گوالیار کے
قلعہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک بے چراغ نواحی بستی میں ایک
کٹیا میں سر چھپانے اور جان بچانے میں کام یاب ہو گئیں۔ اس زمانے میں گرد و
نواح کا سارا کُوڑا کرکٹ گدھا گاڑیوں میں بھر کر گوالیار سے باہر کچھ فاصلے
پر واقع گہرے کھڈوں میں پھینک دیا جاتا تھا ۔‘‘خورو لُدھیک نے منہہ میں
افیون کی گولی ڈالی اورحقے کے کش لگاتے ہوئے کہا’’ یورپی اقوام کی یہاں آمد
اور ہوسِ ملک گیری کے باعث یہاں ہر طرف گدھوں کے ہل پھر گئے ۔شہر اور گردو
نواح کی بستیوں کے باشندے اپنے طور پر بھی کچرا اور کباڑ ان کھڈوں میں گِرا
جاتے۔ان کھڈوں سے عفونت اور سڑاند کے اس قدر بھبھوکے اُٹھتے تھے کہ وہاں سے
گزرنااور سانس لینا دشوار تھا ۔میر ا دادا اکرو لُدھیک جو پیشے کے اعتبار
سے جلاد تھا میر ی دادی شعاع کو ساتھ لے کر ہر صبح اور شام کو بلا ناغہ ان
کھڈو ں میں پڑے کُوڑے کے اُونچے اُونچے ڈھیروں کو پھرولتا اور کام کی چیزوں
کی تلاش میں غلاظت کے ہر انبار کو سُو نگھتا اور ٹٹو لتا تھا ۔اکرو اور
شعاع دونوں پیار کے بندھن میں بندھے تھے اور ہر وقت ایک دوسرے کی محبت کے
گُن گاتے تھے۔ اس رومان بھری فضا میں غمِ ایام کو فراموش کر کے وہ دونوں
ایک دوسرے سے راز و نیاز کی باتیں کرتے۔میری ماتا جی اور پِتا جی نے بھی
اپناآبائی پیشہ جاری رکھا۔اہلِ جور اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں جلاد ابن
جلاد ہوں اور عفونت زدہ کُوڑے کے ہر ڈھیر کا دریوزہ گر اورخانہ زاد ہو ں ۔
میں وہ کُوزہ ہوں جس کی گِل کُوڑے کے ڈھیر سے لی گئی تھی۔‘‘
’’کُوڑے کے متعفن ڈھیر پر بیٹھ کر پیار ،محبت اور حسن و رومان کی باتیں
کرنا غلیظ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘ فضیحت نے حقارت سے کہا’’تم تو جلاد
ابن جلاد ہو ،تم سے بھلا نفاست اور عطر بیزی کی توقع کیسے کی جا سکتی
ہے؟۔کُوزے میں سے وہی کچھ باہر نکلتا ہے جو کہ اس میں موجود ہو تا ہے۔‘‘
’’سچ ہے کہ میرا شجرہ نسب یہی ہے لیکن کچھ درندوں کا شجرہ نسب تو اس قدر
مشکوک ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔‘‘خورو
لُدھیک نے اپنے میلے دانت پیستے ہوئے کہا’’کُوڑے کے ڈھیر سے مفادات اور جاہ
و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ ہر دور
میں موجود رہے ہیں۔میرے آبا کا سو پشت سے یہی پیشہ ہے اور مجھے اس پر کوئی
ندامت نہیں کہ ہم اروڑی پھرول لوگوں نے کئی لعل و یاقوت کُوڑے کے ڈھیر سے
اُٹھائے اور اہلِ ثروت کی خالی جھولی میں ڈال کر زندگی کی نئی راہیں اور
خشمگیں نگاہیں دکھائیں۔مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں جلاد
ابن جلاد ابن جلاد ہو ں ۔ہا ہا ہا!‘‘
’’کان کھو ل کر سُن لو میں بھی صیا دابن صیاد ابن صیاد ہوں۔‘‘بہلو خان ایسے
غرایا جیسے باسی کڑی میں اُبال آ گیا ہو۔ اس نے بغلیں بجاتے ہوئے کہا
’’میرا تعلق اہلِ ہوس ،ابن الوقت اور مفاد پرست طبقے سے ہے۔میرے منہہ نہ
لگنا ورنہ کسی کو منہہ دکھانے کے قابل نہ رہو گے۔‘‘
’’اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ختم کرو ۔‘‘فضیحت نے اپنے خضاب آلودہ
بال سنوارتے ہوئے کہا’’جلا اور صیاد کی بیداد گری بجا لیکن یہاں تو بات
شجرہ نسب کی ہو رہی تھی۔ لوڈ شیڈنگ کے آغاز سے پہلے گھامڑ دُھول پُوری اور
زاہدو لُدھڑکی حیات کے افسانے کے ناخواندہ ابواب پر روشنی ڈالی جائے ۔‘‘
’’ ڈفلی اور راگ کی بات کر کے تو تم نے میرے دل کے زخموں کو پھر سے تاز ہ
کر دیا ہے ۔میں جب بھی غمِ جہاں کا حساب کرتا ہوں تو مجھے اپنے جدِ امجد
تان سین کی یاد بے حساب ستانے لگتی ہے ۔ ہمارے آبا و اجداد نے دہلی سے
گوالیار جانے کا آہنگ اس لیے کیا تھا کہ وہ اُس آہنگِ سازِ محفل کو سننے کے
آرزو مند تھے جس کے تار موت کے بے رحم ہاتھوں نے توڑ دئیے۔اِسی شہر میں تان
سین کی آخری نشانی موجود ہے جو سُر ،لے اور راگ کی دل خراش کہانی کہی جا
سکتی ہے ۔ روشنی تو نگاہ کی ضیا کے عکس کا نام ہے جب آنکھ ہی بند ہو تو
طلوع ِ صبح کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘خور ولُدھیک نے بغلیں جھانکتے ہوئے
ہرزہ سرائی جاری رکھی’’میرے پِتا گُھونسہ ہذیانی اور ماتا تلچھٹ ویرانی کی
زندگی تپسیا کی عجب کہانی ہے۔انھوں نے کُوڑے کے ہر ڈھیر کی خاک چھانی ،ہر
استخواں کو نوچنے کے لیے کئی ہفت خواں طے کیے۔کُوڑے کے یہ ڈھیرمافوق الفطرت
عناصر کی آماجگاہ تھے۔ انھوں نے کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنی انا کو کچل
کر چلہ کشی مدام کی اور جنس و جنوں کی رسم عام کی ۔ہر پچھل پیری،ڈائن،چڑیل
،دیو ،بُھوت ،پری اور آدم خور مخلوق کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ بد
روحوں سے ہم کلا م ہو کر ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے آئینہ ء
ایام میں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی دُھندلی سی تصویر بھی دیکھ
لیتے تھے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نمک کی کان میں جو بھی رہتا ہے وہ نمک
بنے یا نہ بنے نمکین ضرور ہو جاتا ہے ۔میرے آنجہانی والدین کی ساری زندگی
اس پُر اسرار مخلوق کے ساتھ گزری جس کے نتیجے میں وہ ان ہی کے رنگ میں رنگے
گئے۔اب میں بھی اپنے آنجہانی والدین کی طرح بن گیا ہوں اور میری بیوی صبوحی
بھی ایک کلموہی ڈائن بن چُکی ہے۔ہماری مثال ققنس کی سی ہے کہ جب ہمارے
والدین کی چِتا راکھ میں بدل گئی تو اس راکھ میں سے میرا اور صبوحی کا وجود
بر آمد ہوا ۔‘‘
’’ یہ بھی اچھی رہی کہ اس وقت ایک بھوت اور چڑیل میرے سامنے ہے ۔‘‘فضیحت نے
حیرت سے کہا’’گھامڑ دُھول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی عبرت ناک کہانی تو ابھی
شروع ہی ہوئی تھی کہ تم بے پر کی اُڑانے لگے جب کہ تمھارے خاندان کا ایک
فردخلیل خان جوفاختہ اُڑایا کرتا تھا وہ بال و پر اور قوت پرواز رکھتی
تھی۔تم نہ جانے کس جہاں اور وہم و گُماں میں کھو جاتے ہو کہ حقائق کو بیان
کرنے سے ہچکچاتے ہو اور سننے والوں کو ترساتے ہو۔‘‘
’’کہانی شروع ہو گئی ہے تو اپنے انجام کو بھی پہنچ ہی جائے گی۔‘‘صبوحی نے
چمگاڈر جیسی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا’’پہلے تومُردہ گدھے کے گوشت سے تیا ر
کی گئی یہ تکا بوٹی کھائیں ساتھ ہی یہ ما اللحم چہار آتشہ ، اور شراب بھی
نوش ِ جاں کریں ۔یہ شراب ہم اپنی بھٹی میں تیار کرتے ہیں جو ہم نے گوالیار
کے کھڈوں میں کُوڑے کے ڈھیر میں لگا رکھی ہے ۔ نسل در نسل ہم مُردہ خانے
،قحبہ خانے ،چنڈو خانے صنم خانے اور عقوبت خانے بنا کر اپنی تجوریاں بھر
رہے ہیں۔ ہمارایہ دھندا کالا دھن کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔یہ بات خانہء
دِل میں بٹھا لینی چاہیے کہ کالا دھن کمانے والے کو اپنی رو سیاہی اور جگ
ہنسائی سے ہراساں نہیں ہو نا چاہیے۔ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ عشاق جب کوئے
یار سے نکلیں گے تو سُوئے مُردار چلیں گے۔تمھارے یہاں آنے سے پہلے رابن ہُڈ
،ہلاکو خان ، شداد، فرہاد ،مجنوں،چنگیز خان،نمرود اور فرعون ہمارے مہمان
تھے۔ان کی خاطر مدارت کے لیے چڑیلیں کاسہء سر میں انسانی خون بھر کر
لائیں۔بہت سی ڈائنیں بھی ہمارے لیے تازہ خون اورگوشت لاتی ہیں اور ہماری
خوب تواضع کرتی ہیں۔اگر چاہو تو میں ڈائنوں ،چڑیلوں ،بد روحوں اور بُھوتوں
سے تمھیں ابھی ملوا سکتی ہوں ۔میں خود بھی ایک ڈائن ہوں آؤ میرے گلے لگ
جاؤ۔‘‘
’’مجھے تو اس ضیافت سے معاف رکھیں ۔‘‘فضیحت اپنی عرق آلو پیشانی کو اپنے تر
دامن سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’ کُوڑے کے ڈھیر کی خاک چھا نتے چھا نتے تم خود
بھی کُوڑا کرکٹ بن گئے ہو۔ تمھاری ہر بات نحوست ،نجاست ، نخوت ،خباثت ،خست
اور خجالت سے لبریز ہوتی ہے ۔تم جب بات کرتے ہو تو تمھارے منہہ سے گندگی
جھڑتی ہے ۔‘‘
’’منہہ سنبھال کر بات کرو اور ہمارے سامنے آئیں بائیں شائیں کرنے کی ضرورت
نہیں ورنہ میں تمھارے ساتھ وہ سلوک کروں گی کہ تمھیں اپنی نانی اور چھٹی کے
دودھ کی یاد ستانے لگے گی اور تم جائیں،دائیں اور سائیں سائیں کرتی پھرو
گی۔‘‘صبوحی نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نو چتے ہوئے اور قہر بھری آنکھیں
دکھاتے ہوئے زہر بھرے لہجے میں کہا’’ بجا کہ ہم مردار خور اور حرام خور ہیں
لیکن تم تو زندہ انسانوں کا خون پی جاتی ہو اور پھر بھی شیخی خور بن رہی ہو
۔اب میرے بِن بلائے مہمانوں کی ہڈ بیتی پر مبنی افسانوں کو بھی سُن لو ۔‘‘
اچانک ایک تیشہ برادر بُوڑھا وہاں آ دھمکااور بولا ’’میرا نام فرہاد ہے سب
جانتے ہیں کہ سنگ تراشی میں میرا کمال میرے کچھ کام نہ آیا،میں نے دُودھ کی
نہر رواں کر دی مگر ایک پیمان شکن بادشاہ کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے
باعث میں اُس کی بیٹی شیریں کے وصل سے محروم رہا ۔اگر میں تلنگانہ میں کسی
نہر کی بھل صفائی کرتا تو کوئی تلنگا مجھے میری مزدوری سے محروم نہ کرتا
۔میرا واسطہ ایک ایسے بادشاہ سے پڑ گیا جو دِل کا مفلس و قلاش تھا۔اس دنیا
میں نیکی اور بھلائی کا صلہ کسی کو نہیں ملتا۔کاش میں نے آخری وقت تیشہ
اپنے سر پر مارنے کے بجائے پیمان شکن فرعون کے سر پر مارا ہوتاتو ایک درندہ
پنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن میرے جذباتی فیصلے نے ایک ظالم کو مزید تقویت
دی۔‘‘
ایک نو جوان لنگڑاتا ہوا آگے بڑھا اورکہنے لگا ’’ میرا نا م مہینوال ہے
،میں نے اپنی ٹانگ کاٹ کر اس کے تکا بوٹی بھون کر اپنی محبوبہ سوہنی کو پیش
کیے جو اس نے جی بھر کر کھائے اوراگلے روز اسی قسم کے مزید خوش ذائقہ تکا
بوٹی اور کبابوں کی فرمائش کی۔وہ مجھے کرب میں دیکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتی
رہی اورآخر کاردریائے چناب کی طوفانی لہریں مجھے بہا لے گئیں جہاں سیکڑوں
نہنگوں نے میری تکا بوٹی کر ڈالی ۔یہاں وفا کا بدلہ جفا اور سزا کے سوا کچھ
بھی تو نہیں اور محبت کا سراب ایک پیہم عذاب ہے۔‘‘
تلوار ہاتھ میں تھامے ،سر پر خودپہنے ،پشت پر ترکش میں تیر اور کمان سجائے
،زرہ بکتر پہنے اور سیاہ چادرسے اپنا منہہ چھپائے نشے میں دھت ایک خطرناک
بد معاش ہرزہ سرا ہو ا ’’میرا نام رابن ہُڈ ہے۔ چھے سوسال قبل میں نے ڈکیتی
اور خون ریزی کے جس گھناونے دھندے کی قبیح رسم شروع کی اب تک وہ رائج ہے۔
ساری دنیا مجھے خوف اور دہشت کی علامت سمجھتی ہے ۔جفا کے سب ہنگامے میرے دم
سے تھے کوئی میرا عذاب کہاں سے لائے گا؟دنیا بھر کے ڈاکو ہر دور میں میرے
قبیح کام کی تقلید بھی کرتے رہیں گے اور مجھ پر تنقید بھی کرتے رہیں گے۔سچ
تو یہ ہے کہ آج مغربی دنیا میں ہر طرف ڈاکو راج ہے جو میرے لیے بہت بڑا
خراج تحسین ہے۔میں زندگی بھر ڈاکے ڈالتا رہا عیاش امیروں سے دولت چھین کر
اپنی تجوری بھرتا رہا لیکن سب کچھ یہیں رہ گیا ۔اس دنیا کا مال و دولت اور
اثاثہ سب فریب ہے یہ کبھی وفا نہیں کرتا ۔میں ڈاکے ڈالتا رہا اور کئی بار
موت سے بال بال بچا لیکن موت ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے ایک دن ڈاکہ
زنی کے دوران موت نے مجھے دبوچ لیا۔‘‘
’’بات کہاں سے کہاں جا پہنچی لیکن اصل کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی ابھی
وہاں سے بال برابر بھی آگے نہیں بڑھی۔‘‘خورو لُدھیک جو ابھی ابھی اپنی
کُٹیا سے کسی انسان کا تازہ خون پی کر آیا تھا ،اُس نے اپنی خون سے لتھڑی
باچھیں اپنے گریبان سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’ لال کنور اور زہرہ کنجڑن جب
گوالیار پہنچیں تو انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اب ان کا زمانہ بیت
چکا ہے اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں ان کی کشتیء جاں ہچکولے کھاتی
پھرتی ہے لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ایک مشاطہ سے مِل کر ان کہنہ مشق
،آزمودہ کار اور جسم فروش رذیل طوائفوں نے نئے شکار پھانسنے کے لیے نئے جال
تیار کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کر لی ۔چھے ماہ کی مسلسل ریاضت ، رنگ
نکھارنے والی کریموں ،جڑی بُوٹیوں اور کُشتوں کے استعمال سے نہ صر ف وہ
جسمانی طور پر پُر کشش ہو گئیں بل کہ اُ ن کا رنگ بھی پہلے سے کہیں زیادہ
نکھر گیا ۔ا س کے ساتھ ہی موسیقی اور رقص کی تربیت بھی انھوں نے حاصل کر
لی۔ اب انھیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ کہ وہ ناز و ادا اور عشوہ و غمزہ کے
تیروں سے عشاق کے کشتوں کے پشتے لگا سکتی ہیں اور خرچی کی وافر آمدنی سے ان
کے سب دلدر دور ہو جائیں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ دونوں طوائفیں اپنی کوکھ
میں پروان چڑھنے والے بچوں کے بارے میں بہت فکر مند اور مضطرب تھیں اور اس
اُجڑے دیار میں ان کا جی نہ لگتا تھا۔‘‘
’’ہر ماں کو اپنے نومولو د بچوں کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔‘‘فضیحت نے کہا
’’لال کنور اور زہرہ کنجڑن کی سوچ میں تعجب کی کون سی بات ہے ؟‘‘
یہ سُن کر خورو لُدھیک کی باچھیں کِھل اُٹھیں اور وہ بچھیرے کی طرح ہنہنایا
’’ایک معزز خانہ دار خاتون جبماں بننے والی ہوتی ہے تو اس کی سوچ اور ایک
طوائف جب بادِلِ نا خواستہ ماں بننے والی ہوتی ہے تو ان دونوں کی سوچ میں
زمین آسمان کا فرق ہے۔‘‘
’’ ماں تو صرف ماں ہوتی ہے اس میں کوئی حدِ فاصل نہیں۔صرف درد آشنا ہی ایک
ماں کے دردِ دِل کو سمجھ سکتا ہے ‘‘فضیحت نے تلملاتے ہوئے کہا ’’بے حس پتھر
اور بے درد درندے ماں کی مامتا اور اس کی تڑپ کی کیفیت کو کیسے سمجھ سکتے
ہیں ۔‘‘
’’اب اس کے بعد کے واقعات سنو گی تو تمھیں تمام فرق معلوم ہو جائے گا
۔‘‘خورو لُدھیک نے کڑیالا چباتے ہوئے اور پُھنکارتے ہوئے کہا’’دسمبر کی ایک
شام تھی اس قدر سردی پڑ رہی تھی کہ رگوں میں خون جم رہا تھا لیکن دو عورتوں
کا خون اس قدر پتلا ہو گیا تھا کہ ہر ایک نے اپنی گود میں ایک پوٹلی اُٹھا
رکھی تھی اور وہ گدھا گاڑی پر سوار گوالیار کے پرانے شہر سے نکل کر لشکر سے
گزرتی ہوئی پُھول باغ سے ہوتی ہوئی گو الیار کے قدیم کھڈوں کی طرف بڑھ رہی
تھیں۔ علاقے کی دائی گائتری کے ذریعے پِتا جی کو پہلے سے اس معاملے کی بھنک
پڑ گئی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ لال کنور اور زہرہ کنجڑن جیسی ڈائنیں انسانی
ہمدردی سے عاری ہوتی ہیں ۔ مشکوک نسب کے ایسے نومولود بچوں کو اُن کی مائیں
رات کی تاریکی میں اپنے گناہوں کی اذیت سے بچنے کے لیے گوالیار کے کھڈوں
میں پھینک کر ان سے نجات حاصل کرتی تھیں۔فضا میں بڑے بڑے بُوم اور شِپر
نیچی پرواز کر رہے تھے۔ بُوم جب کسی آبادی میں رات کے وقت نیچی پرواز کرتے
ہیں تو سب شُوم اسے بُرا شگون سمجھ کر سہم جاتے ہیں ۔کئی پُر اسرار
طیور،دیو ہیکل جانور،حشرات اور ہیولے دکھائی دے رہے تھے جن کی وجہ سے پتا
پانی ہو رہا تھا ۔ گوالیار کے کھڈوں اور ویرانے کی زمین کانپ رہی تھی دُور
اُفق پر سر خ آندھی کے آثار نمو دار ہوئے ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ فضا کی
سب چڑیلیں،بد روحیں اورڈائنیں اپنی ہم پیشہ ،ہم مشرب و ہم راز سہیلیوں
کوخوش آمدید کہنے کی خاطر کُوڑے کے ڈھیر کے گرد جمع ہیں۔
ا س ویرانے میں ہر طرف ہُو کا عالم تھا ۔گدھا گاڑی گوالیا رکے کھڈو ں کے
قریب پہنچی تو پِتا جی پہلے ہی کُوڑے کے ڈھیر کے نزدیک چہرے پر بھبھوت مل
کر کافور ،ہر مل ، اکڑا ، پوہلی ،دھتورا ،حنظل ،لوبان ،سونف اور کاسنی سلگا
کر ان کی دھونی رمائے ایک خون آلود متعفن چادر پرلیٹے بد روحوں سے راز و
نیاز کی باتوں میں مصرو ف تھے ۔انھوں نے چاندنی رات میں دونوں طوائفوں کو
پہچان لیا لیکن ان طوائفوں نے یہ سمجھا کہ یہ کوئی بُھوت ،دیو یا آدم خور
ہے جو پلک جھپکتے میں ان گٹھڑیوں کو اُچک کر اپنی راہ لے گا۔سب سے پہلے لا
ل کنور نے سفید رنگ کی ایک چادر کو کھولا اور اس میں دو روتے ہوئے نو مولود
بچوں کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ۔لا ل کنور کے بعدکے بعد زہرہ کنجڑن نے
ایک پیلی چادر کی گٹھڑی کھول کر دو بچوں کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ۔ان
نو مولود بچوں کی چیخ پُکار سُن کر بھی یہ چڑیلیں ٹس سے مس نہ ہوئیں اور
مُڑ کر ایک نظربھی ان نو خیز پھولوں کو نہ دیکھا۔ دونوں پان کی جگالی کرتی
ہوئی بڑے اطمینان کے ساتھواپس اپنے قحبہ خانے میں جلد پہنچنے کے لیے وہ
اپنی گدھا گاڑی کی طر ف چل دیں۔
لال کنور بولی’’ میں نے اپنے دشمن کی غلیظ نشانیوں کو کُوڑے کے ڈھیر پر
پھینک دیا ہے۔اس گورے نے میرے جسم کو نوچا لیکن یہ نہ سوچا کہ اس کا نتیجہ
کیا نکلے گا۔ مجھے سبز باغ دکھا کر خود کالا باغ چلا گیا اور کبھی میری خبر
تک نہ لی ۔مجھے تو وہ تماشا بنا کر چل دیا لیکن اب اس کی اولاد عبرت کی
مثال بنے گی اوران کا تماشا ہرکوئی دیکھے گا۔‘‘
زہرہ کنجڑن نے آگ بگولا ہو کر کہا ’’ تم جانتی ہو کہ مجھے بھی ایک کالے ناگ
نے ڈس لیا ۔وہ کافر مجھے کافرستان لے جانے کا جھانسہ دیتا رہا لیکن نا
معلوم وہ کافر کس قبرستان میں جا کر روپوش ہو گیا ۔ میں نے اس بد صورت کالے
اژدہا کی قابلِ نفرت نشانیوں کو یہاں پھینک دیا ہے ۔سانپ کے بچے کبھی وفا
نہیں کرتے خواہ ان کو چُلّو میں دُودھ پِلایا جائے۔‘‘
زہرہ کنجڑن نے گدھے کو چابک مارا اور گدھا تڑپتا ،تلملاتا اور دوڑتا ہوا ان
طوائفوں کے مقدر کی تاریکیوں کی طرح بھیانک اندھیروں میں گُم ہو گیا ۔ یہ
رات ان طوائفوں کی زندگی کی ایسی رات تھی جس کی سحر کبھی نہ ہو سکی ۔ان
چڑیلوں کے جانے کے بعد پِتاجی نے سب سے پہلے سفید رنگ کے کپڑے میں لپٹے بچو
ں کو دیکھا،یہ سفیدرنگ کے جڑواں بچے تھے جن میں سے ایک لڑکا تھا اور ایک
لڑکی تھی۔ اب وہ پیلے رنگ کی چادر کے قریب آئے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ
گئے کہ یہ کالے رنگ کے دو جڑواں بچے تھے جن میں سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی
تھی ۔
اس دوران ماتا جی ایک چٹان( جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہنو مان جی
کی نشانی ہے) کی یاترا کرنے اوروہاں گھٹنے ٹیکنے کے بعد کُوڑے کے ڈھیر کے
قریب آ پہنچیں ۔چار بچوں کو گھر لا کر وہ اس لیے بہت خوش تھے کہ کئی بے
اولاد جوڑوں نے ان سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب کوئی اس قسم کا مشکوک نسب کا
بچہ ملے تو وہ فی الفور انھیں دے دیں اور منہہ مانگا انعام حاصل کریں
۔پِتاجی نے نئے جوڑے بنائے اور ایک کالے بچے کے ساتھ ایک گوری بچی کو ملا
دیا اور اسی طرح ایک گورے بچے کے ساتھ ایک کالی بچی کا جوڑ بنا دیا ۔کالا
بچہ اور گوری بچی تو اسی روز گو الیار کے قدیم شہر کے ایک معمر ،متمول اور
بے اولاد تاجر ٹھاکر موہن کو دے دیا ۔ ٹھا کر ان بچوں کو دیکھ کر خوشی سے
پھولا نہ سمایا اور پِتا جی کو ایک ہزار اشرفی انعام میں دی ۔ اگلے روزماتا
جی اور پِتا جی نے فیصلہ کیا کہ گورا بچہ اور کالی بچی آگرہ میں مقیم ادھیڑ
عمر کے بے اولاد صراف کر تار کے حوالے کیے جائیں ۔کرتا رنے بھی ان بچوں کو
بڑی خوشی سے قبول کیا اور پِتا جی کو پندرہ سو اشرفیاں انعام میں دیں۔ سیلِ
حوادث کے بگولے بیتے دنوں کی یادوں کو خس و خاشاک کے مانند اُڑا لے جاتے
ہیں۔اس واقعہ کے بعد کسی نے میرے والدین کے دِلِ شکستہ کا کبھی حال نہ
پوچھا ۔میرے والدین نے راز داری کی خاطر لبِ اظہار پر تالے لگا لیے۔
وقت پر لگا کر اُڑتا رہا اور یہ نو مولود بچے اپنے نئے آشیانوں میں پروان
چڑھتے رہے ۔اُدھر لال کنور اور زہر ہ کنجڑن نے اپنا آبائی پیشہ اختیار کر
لیا اور قحبہ خانوں کی زینت بن گئیں۔ماضی اپنے مستقبل سے بے خبر اپنے انجام
کی طر ف بڑھ رہا تھا ۔ سولہ سال بیت گئے تو ایک دِن ٹھاکر مو ہن کے بچوں نے
تاج محل دیکھنے کی فرمائش کی ۔ٹھاکر اپنے دونوں بچوں اور بیوی کو ساتھ لے
کر آگرہ پہنچا اوراپنے دیرینہ دوست صراف کرتار کے ہاں قیام کیا ۔دونوں
خاندانوں کا یہ میل ملاپ طویل عرصے کے بعد ہوا تھا ۔وراثت اور جائیداد کے
مسائل کے باعث تمام سرکاری دستاویزات میں انھوں نے ان بچوں کو ہمیشہ اپنی
حقیقی اولاد ہی ظاہر کیا۔بچوں کو دیکھ کر ٹھاکر نے حیرت اور مسرت کے ملے
جُلے جذبات سے کہا :
’’لوگ کہتے ہیں کہ جوڑے افلاک کی وسعتوں میں بنتے ہیں لیکن کچھ جوڑے ایسے
بھی ہوتے ہیں جو زمین پر ذہن و ذکاوت اور فکر و خیال کی مدد سے بنائے جا
سکتے ہیں۔ کرتار مجھے اس قسم کے جوڑے بنانے کی اجازت دے دو ۔‘‘
’’تم جیسا چاہو کر لو ٹھاکر ،تمھیں اختیار ہے ‘‘کرتار صرا ف نے مسکراتے
ہوئے کہا’’ مجھے تمھارا ہر فیصلہ منظور ہے ۔‘‘
ٹھاکر نے کہا ’’تم اپنے گورے بیٹے کے لیے میری گوری بیٹی لے لو اور میں
اپنے کالے بیٹے کے لیے تمھاری کالی بیٹی کو اپنی بہو بنا لوں گا ۔‘‘
’’میں اس فیصلے پر راضی ہوں ۔‘‘کرتار نے کہا’’آج ہی یہ کام کر لیا جائے ۔‘‘
شام کو جب ٹھاکر واپس گھر جا رہا تھا تواس کے ہم راہ اپناکالا بیٹا اور
کرتار صراف کی کالی بیٹی تھی جو کہ اب اس کی بہو بن چُکی تھی۔ اس نے اپنی
گوری بیٹی کرتار صراف کے گورے بیٹے کو دے دی تھی۔‘‘
لوگ شادی کو بالعموم خانہ آبادی کا نام دیتے ہیں لیکن یہ شادی کیا ہوئی کہ
یہیں سے ٹھاکر اور صراف کی خانہ بربادی کا آغاز ہو گیا۔یہ نو بیاہتا جوڑے
ہنسی خوشی جب اپنے گھروں میں پہنچے تو شبِ عروسی کے بعد علی الصبح دونوں
دلھنیں پُر اسرار حالات میں اپنے اپنے کمروں میں مُردہ پائی گئیں۔ ٹھاکر
اور صراف کے اپنے بیٹوں نے اُسی روز اپنی پرورش کرنے والے محسنوں کی زندگی
کی شمع گُل کر دی۔اب گورا اور کالا نوجوان بلا شرکتِ غیرے اپنے آبا کی
جائیداد کے وارث بن گئے ۔ جب ان عیاشوں کو بغیر محنت کیے اس قدر وافر مقدار
میں مفت کا مال مل گیا تو انھوں نے اسے بڑی بے رحمی سے بے دریغ لُٹایا ۔جب
تمام جمع پُونجی جوئے ،منشیات اور سٹے بازی میں ضائع ہو گئی تویہ نا
ہنجارڈاکو بن گئے اور اس گھناونے دھندے میں رابن ہُڈ کو بھی مات دے دی۔
’’اُف !یہ انہونی کس قدر لرزہ خیز ہے ۔‘‘ بہلو خان نے چونک کر کہا ’’کیا اس
کالے ا ور گورے نوجوان کا اتا پتا تمھیں معلوم ہے ؟‘‘
’’ہاں میں سب کچھ جانتا ہوں لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔‘‘ خورو لُدھیک نے
سر کھجاتے ہوئے کہا’’ وہ یہاں سے بہت دُور چلے گئے ہیں۔‘‘
’’جہاں بھی چلے گئے ہیں میں ان سے فوری طور پر ملوں گی اور ان کو تمام
حقائق سے آگا ہ کروں گی۔‘‘فضیحت نے آہ بھر کر کہا’’ان نوجوانوں کی بے حس
اور بے غیرت ماؤں کو تو مر جانا چاہیے۔‘‘
’’ ڈکیتی کی ایک لرزہ خیز واردات میں دوسفاک ڈاکوؤں نے ان طوائفوں کا کام
تمام کر دیا ۔‘‘خورو لُدھیک نے کہا’’اس کہانی کے آخری دو کردار بھی گزشتہ
روز اپنی الگ دنیا بسانے کے لیے یہاں سے چلے گئے ۔‘‘
’’تمھاری ہر با ت ایک اُلجھن اور پہیلی ہوتی ہے‘‘ فضیحت نے پریشانی کے عالم
میں کہا’’ اس کہانی کے آخری دو کردار کون سے ہیں ۔اب یہ ایک ایسا معما جو
نہ تو سمجھنے کا ہے اور نہ ہی تم ہمیں یہ سمجھا سکے ہو۔کیا طوائفوں کے
بیٹوں کو اپنی حقیقی ماؤں اور بہنوں کے بارے میں تمام راز معلوم ہو گئے
تھے۔‘‘
’’اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘خورو لُدھیک نے کہا’’فطرت کی
تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں۔کوئی چیرہ دست مجرم فطرت کی تعزیروں سے بچ نہیں
سکتا۔‘‘
’’کہانی کے وہ دو آخری کردار کو ن تھے ؟ ‘‘بہلو خان نے بُڑ بُڑاتے ہوئے
کہا’’ اب ہمیں کن بھول بھلیوں میں لے کر جا رہے ہو ؟ پہیلیاں نہ بجھواؤہمیں
صاف صاف بتا دو کہ کہانی کے آخری دو کرداروں سے تم کس طرح واقف ہو اور وہ
دونوں کردار کس طرح اپنے انجام کو پہنچے؟
تو پھر سُن لو ‘‘خورو لُدھیک نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی پچکی
ہوئی ناک پر دھری موٹے سفید شیشوں والی عینک میں سے جھانکتے ہوئے کہا’’گورا
تو گھامڑ دُھول پُوری تھا اور کالازاہدو لُدھڑ تھا۔‘‘ |
|