سنے گا اقبال کون ان کو،یہ انجمن
ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں!
میرا گزر ایک راستے سے ہوا۔راستے میں دو آدمی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ایک
شخص کہہ رہا تھا کہ’’ برتھ ڈے منانا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے‘‘،جبکہ دوسرا
کہہ رہا تھا کہ ’’جس کی مرضی منائے جس کی مرضی نہ منائے‘‘،اسی آدمی نے نے
ایک اور بات کہی جس نے مجھے کافی حد تک جھنجھوڑ ڈالا،اس نے کہا کہ’’ ہمارا
ایک رشتے دار ہے اور وہ مسجد میں خطیب ہے۔اس نے خود اپنے بیٹے کا برتھ ڈے
منایا،صرف یہی نہیں بلکہ جہاں کیک کاٹا وہاں قرآن کا ختم بھی کروایا‘‘۔
ان باتوں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس گفتگو میں دوہی باتیں
قابلِ بحث ہیں ایک تو یہ ’’کہ اپنی مرضی کرنا اور دوسرا امامِ مسجد کا
کردار‘۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں اپنی مرضی کی۔
اپنی مرضی کرنا بے راہ روی ہے۔اگر انسان ہر معاملے میں اپنی مرضی کرنے لگ
جائے تو جو اشرف المخلوقات کاا سے شرف ملا ہے وہ بے مقصد ہو کر رہ جاتا
ہے،پھر ایک انسان اور جانور میں اتنا فرق نہیں رہتا۔ اپنی مرضی کرنا ایک
مسلمان کا شیوہ یا طریقہ نہیں ہے اور نہ کوئی مسلمان بے راہ روی کی زندگی
گزار سکتا ہے،بلکہ مسلمان کی زندگی تو وہ زندگی ہے جو اسلام نے بتائی ہے۔جس
میں انسان کی اپنی مرضی شامل نہیں ہے بلکہ صرف اللہ ہی کی رضا شامل ہے۔اللہ
نے انسان کو پیدا کیا اور اسے دو راستے بتلا دیے۔ایک راستہ اچھائی کا ہے تو
دوسرا برائی کا۔اب یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ کونسا راستہ منتخب کرتا
ہے؟اگر وہ اچھائی کا رستہ چنتا ہے تو کامیاب ہے وگرنہ ناکام۔ہم مسلمان ہیں
۔ہم نے اچھائی کا رستہ چنا ہے ۔ہم نے اسلام کا رستہ چنا ہے۔تو اس راستے پر
چلنے کے اصول ہیں،قواعد و ضوابط ہیں۔جو کہ انسان کو اس سیدھے رستے پر چلائے
رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اگر ان اصولوں پر چلنے میں ذرہ بھر کی
بھی کوہتائی کی تو انسان مکمل خسارے میں چلا جاتاہے۔
محترم قارئین!اگر ایک بندہ یوں کہہ دے کہ میں نماز نہیں پڑھتا ۔جب کہ نماز
ہر مسلمان پر فرض ہے۔اور وہ شخص دلیل یہ دے کہ جس کی مرضی نماز پڑھے جس کی
مرضی نہ پڑھے۔تو کیا آپ کو ایسے شخص کی دماغی حالت پر شک نہیں ہو گا کہ اس
کام میں کیسی مرضی؟جب کہ یہ ہر حال میں فرض ہے۔
شاید ہم نئے دور کے ہیں،اس لیے خوشیاں بھی نئی ہیں۔یہ ایجادات کا دور
ہے۔اور ہر ایجاد کا منانا گویا ہم نے خود پر فرض کر لیا ہے۔دور جدید کی ایک
اور ایجاد جسے ہم گناہ ہی خیال نہیں کرتے اسے ہم نے اپنے سینوں سے لگا رکھا
ہے۔اور وہ گانوں کاسننا ہے۔ایک شخص جو گانے سنتا ہو اسے کہا جائے کہ بھئی
صاحب گانا نہ سنو،گانا اسلام میں منع ہے،تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ مجھے
گانے سننے سے سکون اور خوشی مل رہی ہے،یا یوں کہہ دے کہ میں آج بہت خوش ہوں
اس لیے سن رہا ہوں۔اسی طرح ایک بندہ کہہ دے کہ جس کی مرضی برتھ ڈے منائے یا
نہیں،اور یہ جواز پیش کرے کہ چونکہ یہ دن اس کی پیدائش کا ہے،اس لیے اسے اس
دن کی بہت خوشی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ خوشی منا رہا ہے؟گو کہ اس نے اپنی خوشی
کو اسلام پر مقدم رکھ دیا،اور اسلام کو پسِ پشت ڈال کر اس پر فخر بھی کر
رہا ہے۔ایسا شخص کس قدر نادان ہے۔ہماری خوشیاں کیسی ہیں جس پر رب کی ناراضی
ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دن واقعی خوشی کے زمرے میں آتا بھی ہے
یا نہیں؟اگر یہ دن واقعی اس زمرے میں آتا ہے تو نبی کریمﷺ نے اسے کیوں نہیں
منایا؟یاا سے صحابہ نے کیوں نہیں منایا؟،تابعین،تبع تابعین ،خلفائے راشدین
اور اولیا ء اللہ نے ا س دن کو کیوں نہیں منایا؟کیا انہیں اپنے پیدا ہونے
کی خوشی نہیں ہوئی؟۔اگر واقعی یہ خوشی کا دن ہوتا تو اسلام اس کا مکمل
طریقہ بتاتاکہ یہ دن اس طرح منانا ہے،اس دن ایسا کرنا ہے ،اس دن ایسا نہیں
کرنا ہے ۔لیکن شاید ہم لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں بچا کہ ہم یہ لغو کام
کرتے پھریں۔
مجھے تو برتھ ڈے میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ میں اس دن کو مناؤں۔میں
یہ دن کس وجہ کی بنیاد پر مناؤں؟اس وجہ سے کہ میری زندگی کا ایک سال کم
ہوگیا ہے؟اس وجہ سے کہ میں ایک سال اور موت کے قریب ہو گیا ہوں؟اس وجہ سے
کہ اس دن میں دنیا آیا تھا اور پتہ نہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟اس وجہ
سے کہ دنیا کی اتنی ساری مشکلات میں خود کو گھرا پاؤں،اس دنیا میں آنے پر
خوشی مناؤں کہ جو مومن کے لیے تو قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت؟میں
مناؤں تو کس وجہ پر مناؤں؟کوئی ہے جو مجھے اس سوال کا جواب دے سکے؟؟مجھے تو
افسوس ہے ایسے انسان پر جو خود کو موت کے قریب پاتا ہے اور اس پر دھومیں
مچاتا ہے،دعوتیں کرتا ہے،موم بتیاں روشن کرتا ہے،گیت گاتا ہے،کہ لو ہماری
زندگی کاایک سال اورکم ہو گیا۔افسوس صد افسوس...............
اب دوسری بات کی طرف آتے ہیں ۔یہ دلیل بنانا کہ چونکہ خطیب صاحب نے ایسا
کیا تھا اس لیے ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔کیونکہ وہ عالمِ دین ہیں اس لیے جو
کر رہے سو درست کر رہے ہیں،بلکہ ایک سو ایک فیصد درست کر رہے ہیں۔یہ ہماری
سوچ کی کمی ہے۔ہم لوگ جب اپنی خواہش کا پوار ہوتے ہوئے نام نہاد علماء میں
دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے اور جب دوسرا بندہ اسے اس غلط کام
سے منع کرتا ہے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ تم کہاں سے آؤ؟اور جب یہی خطیب
ان کی کسی دوسری خواہش کو روندتے ہوئے کوئی بات کہتاہے تو وہ اس مولوی کو
بھی نہیں چھوڑتے ہیں اوراسے لعن طعن کرتے ہیں ۔
ہم لوگ اپنا فائدہ دیکھتے ہیں ،ہم صرف اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہتے
ہیں۔اب سارے علماء ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں ۔عالمِ با عمل حضرات بھی ہوتے
ہیں۔اب وہ عالم جو برتھ ڈے منا رہا ہے ،اس کے ایسے کرنے کی دو وجوہات ہیں
۔ایک تو یہ کہ وہ جدید قسم کے عالم ہوں اور خواہش سے نفس سے مجبور ہوں،یا
وہ صرف دو رکعتوں کے امام ہوں ۔ہم لوگ امام بھی اسے بناتے ہیں کہ جس کی
ڈاڑھی فٹ فٹ لمبی دیکھی اسے مصلۂ امامت پر لا کھڑا کیا چاہے اسے الف ب تک
نہ آتی ہوں۔ بات چل رہی تھی برتھ ڈے کی کہ ان عالم دین نے کیک کاٹنے کے
ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھوادیا،واہ واہ ...سبحان اللہ !یہ تو یوں ہی ہو گیا
کہ ایک شخص یہ کہہ کر شراب پی لے کہ وہ اس کے بعد آبِ زم زم پی لے گا تو
پاک صاف ہو جائے گا،نہ شراب کا گناہ رہے گا نہ اس گناہ کا نشان۔سب دھل جائے
گا۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان صاحب نے قرآن پڑھا کر غلط کام کیا بلکہ میں
یہ کہوں گا کہ جو یہ دن منایا گیا،موم بتیاں روشن کی گئیں اور کیک کاٹا
گیا،کیا یہ درست تھا؟کیا یہ غیر اللہ کا طریقہ نہ تھا؟۔کیا دین کا تھوڑا سا
بھی علم رکھنے والا کوئی شخص یہ بات نہیں جانتا کہ جس کسی نے جس قوم کی
مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہو گا؟ اب آپ بتایئے کہ کیا ایسا شخص
مسلمانوں والا کام کر رہا ہے یا غیر مسلموں والا؟کیا ایسا شخص کھلی منافقت
نہیں دکھا رہا ہے؟ادھر سے قرآن بھی پڑھوایا جا رہا ہے ادھر سے آگ جلا کر
کیک بھی کاٹا جا رہا ہے۔ادھر سے اللہ کا بھی حکم مان لیا کہ قرآن پڑھا کرو
اور ادھر سے غیر کا بھی طریقہ اپنا لیا۔کیا ایسے شخص کا مل ایمان والا
ہے؟ایسا شخص تو منافق ہے اسے چاہیے کہ وہ صرف خالص اسلام پر عمل کرے۔نہ یہ
کہ آدھا تیتر بنے اور آدھا بٹیر۔کیا اسلام مکمل نہیں ہے(نعوذ باللہ)؟کہ اس
نے تھوڑا سا طریقہ غیر سے بھی لے لیا!۔یقیناًاسلام مکمل ہے لیکن انسان کی
عقل مکمل نہیں ہے۔اسے تو بس اپنی خوشی عزیز ہے،اپنی چاہت کا خیال ہے۔اللہ
کی کوئی قدر نہیں کہ آیاوہ اس کام سے خوش ہے یا نہیں؟
خود کو بندہ مسلمان بھی کہلوائے اور غیر مسلموں کا طریقہ بھی اپنائے۔یہ سرا
سر اپنے آپ سے دھوکا ہے۔اسلام صرف نماز ،روزہ،حج،زکوٰۃ کا نام نہیں ہے بلکہ
یہ ایک پورا نظامِ حیات کے قوانین کا مجموعہ ہے۔ یہ کامل و اکمل ہے۔یہ ایک
مکمل و جامع ہے۔جس نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق راہنمائی کی ہے۔اسلام نے
برتھ ڈے منانے کا حکم نہیں دیا ہم چونکہ اسلام کے پیروکار ہیں اس لیے ہم
بھی نہیں مناتے ۔اور آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کوئی کام جس سے اسلام نے
ہمیں منع کیا ہو اس کے کرنے کے متعلق یہ جواز ہر گز نہ بنائیں کہ اس کام سے
مجھے خوشی مل رہی ہے،یا یہ کہ جس کی مرضی ایسا کرے یا نہ کرے،یا یہ کہ فلاں
مولوی نے ایسا کام کیا تھا سو میں بھی ایسا کروں گا۔ہماری راہنمائی کا منبع
کسی مولوی کی زندگی نہیں بلکہ صرف رسول پاکﷺ کی زندگی میں ہمارا طریقہ
ہے۔ہمارے پاس اپنی عقل ہے،ہم اپنے شعور سے کام لیں اور یہ تحقیق کریں کونسی
چیز درست اور کونسی غلط؟
ہر درد مند دل کورونا مر ا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگا دے |