جنرل صاحب!ایک آپریشن فرقہ واریت کے خلاف بھی!!
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
وطن عزیزپاکستان میں دہشت گردی
اوردہشت گردوں کے خلاف فائنل راؤنڈ کھیلاجارہاہے،یہ کام ہمارے جمہوری حکم
ران اپنی جمہوری مجبوریوں کی وجہ سے کبھی نہیں کرسکتے تھے ،جوآج مسلح افواج
کریاکرارہی ہے۔اس کے روح رواں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ہیں،جن کی
رگوں میں دوڑنے والاخون ملی ودینی غیرت کی وجہ سے جوش
ماررہاہے،میجرراجاعبدالعزیزبھٹی کے بھانجے اور میجر شبیر شریف کے بھائی میں
یہی اوصاف ہونے بھی چاہییں،جواللہ تعالیٰ کی عطاسے جنرل راحیل شریف میں
موجودہیں۔جنرل صاحب یقیناًایک طویل عرصے سے دہشت گردی اوردہشت گردوں کے نیٹ
ورک،پشت پناہوں،سپورٹرزاوراسپانسرزکے حوالے سے ہوم ورک کیے بیٹھے تھے،جس کے
لیے کسی مناسب وقت کے منتظرتھے،جوپشاورکے آرمی پبلک اسکول میں کھیلے جانے
والے گھناؤنے کھیل کی صورت میں مل بھی گیا،اس سے نہ صرف آپریشن ضرب عضب
کومہمیزملی ،بل کہ اس کادائرہ بھی شمال کے پہاڑوں کے مکینوں سے وسیع وعریض
قلعوں،محلات اوربینک بیلنس والوں تک پھیل گیا۔جنرل صاحب نے اپنی حکمت عملی
اورحب الوطنی سے ایک طرف توبلوچستان کے عوام سے اپنائیت سے بات کی اور''میں
تمھیں وہاں سے ہٹ کروں گاکہ تمھیں پتابھی نہیں چلے گا''کی قبیل کے فوجی
لہجے سے گھائل ان احساس محرومی کی چکی میں پستے عوام کی سماعتوں سے جب محبت
سے بھرپوریہ لہجہ ٹکرایاکہ آپ کی محرومیوں کاازالہ کیاجائے گا،آپ کے حقوق
کاتحفظ کیاجائے گا،تودل سے نکلی یہ بات ان کے دلوں کوبھی یوں ہی مسخرکرنے
میں کامیاب ہوگئی ،جس طرح اس سے قبل قبائل کے کئی ہتھیاربندکمانڈروں
کوکرگئی تھی۔شہرقائدکی حالت دودہائیوں سے دگرگوں تھی،یہاں بھی پورے ہوم ورک
کے ساتھ عین فسادکے مراکزپرنشترکاری کی گئی،جوقابل اصلاح تھے،وہ رام ہوگئے
اورجو''بغل میں چھری منہ میں رام رام''والے ہندوبنیے کے راتب پرپلتے تھے،ان
کے کس بل بھی نکال گئے،اللہ کرے یہ ایکشن اپنے منطقی انجام کوپہنچے،جس کی
قوی امیدہے،مگرقائم علی شاہ کی نوازعلی شاہ سے ملاقاتیں،یوسف رضاگیلانی کے
وکٹری کے نشانات اوربڑے زورچھوٹے زرداری صاحبان کی انتقامی کارروائی والی
باتیں اس حوالے سے تھوڑے شکوک ضرورپیداکررہی ہیں۔امیدہے میجرجنرل بلال
اکبراسی طرح جذبہ بلالی کے ساتھ سیف ہاؤسزکاتعاقب جاری رکھیں گے
اور''غریبوں کی ماں کراچی''کودہشت کی آماج گاہ بنانے والوں کی تمام سازشیں
اسی طرح ناکام ہوتی رہیں گی۔
بیرونی راتب پرپلنے والوں کے بعض ایجنڈے ایک سے بھی ہوتے ہیں،ان میں دینی
مدارس کی کردارکشی اورمدارس کودہشت گردی کے اڈے اوردہشت گردوں کی آماج گاہ
کہنابھی شامل ہے،بلکہ اس ''کارخیر''میں تویہ سب ایک سے ایک بڑھ کرحصہ لیتے
ہیں،کہ اس کے دام بہت اچھے ملتے ہیں۔جنرل صاحب نے حکومت کو اندرونی خوف سے
نکالتے ہوئے سواسال قبل نیشنل ایکشن پلان اورتحفظ پاکستان آرڈیننس
منظورکرایا،جس کی کارکردگی بلاشبہ تیزبل کہ تیزتررہی،جس کاایک اندازہ صرف
اس بات سے لگائیے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ماہ گزشتہ میں کراچی میں سب سے
زیادہ ہلاکتیں پولیس مقابلوں کے نتیجے میں ہوئیں،ہزاروں افرادپس دیوارزنداں
ڈالے گئے،پولیس نے موقع غنیمت جان کرخوب دیہاڑی بنالی،بہت سے
چور''چورچور''کی صدالگاکربچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے،مجرموں کے لیے بنائے
جانے والے قانون میں بے گناہ بھی رگڑے میں لائے گئے،صرف لاؤڈاسپیکرایکٹ
پرعمل درآمدکی تیزی کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے کہ ''صحیفہ اہل حدیث''نامی
ہفت روزہ کے ایڈیٹر کے خلاف نمازجمعہ میں اشتعال انگیزتقریرکامقدمہ جس
تاریخ کابنایاگیا،وہ بجائے جمعہ کے بدھ کادن تھااورموصوف جن پرکراچی میں
بیان کایہ مقدمہ درج ہوا،اس روزلاہورمیں تھے۔ایسے ایک دونہیں درجنوں لطیفے
سامنے آئے۔
این جی اوزنے اپنے دام کھرے کرنے کے لیے پوری کوشش کی کہ اس کارخ دینی
مدارس کی جانب پھیراجائے،اوروہ اس میں کافی حدتک کامیاب بھی ہوئے۔مدارس میں
چھاپے،تلاشیاں،طلبہ واساتذہ کوہراساں کرنے اورگرفتاریوں کاگویاایک سلسلہ
شروع ہوگیا،جوتھمنے میں نہ آتاتھا۔اہل مدارس کومشتعل کرنے کے لیے رجسٹریشن
کے پراسس کونہ صرف مشکل بنادیاگیابل کہ اس میں ایسے ایسے سوالات ڈالے گئے
،جن کاکوئی جوازنہیں بنتاتھا۔اہل مدارس کایہ صبرہی تھاکہ بالآخرجنرل صاحب
نے حکومتی قیادت اورمدارس نمایندگان کوساتھ بٹھایا،دونوں طرف کی باتیں
سنیں،حکومتی اہل کاروں کی من مانیوں پرسرپیٹ کررہ گئے۔جلتی پرتیل ڈالنے
والی این جی اوزکی گردن ناپنے کابھی فیصلہ ہوا۔وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی
خان کی پریس بریفنگ اورتنظیمات مدارس کے قائدین بالخصوص مولاناقاری
محمدحنیف جالندھری اورمولانامفتی منیب الرحمن کے قومی اخبارات میں شایع
ہونے والے کالموں میں اس سلسلے میں تمام تفصیلات آچکی ہیں۔نصاب کی اصلاح
کافیصلہ ہو،مدارس کی رجسٹریشن آسان بنانے کامعاملہ ہو،یکساں نصاب رائج کرنے
کی بات ہویااشتعال انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی ،تمام معاملات
کاافہام وتفہیم سے حل ہوجاناایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔امیدہے یہ خلیج جواین
جی اوزکی محنت سے حائل ہوئی ہے،اب دورہوجائے گی۔
جنرل صاحب کے ان اقدامات اورشریف حکومت کے ان پرعمل درآمدسے ملکی مسائل ان
شاء اللہ بڑی حدتک حل ہوجائیں گے،ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے ساتھ
جنرل صاحب ایک قدم اوربھی اٹھائیں۔وہ ہے ملک سے فرقہ واریت کے عفریت
کاہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ۔اس مسئلے کے حل اورخاتمے کے لیے ماضی میں کئی
قابل قدرکوششیں ہوئی ہیں اورحسن اتفاق ،کہ ہوئی بھی میاں محمدنوازشریف کی
حکومتوں میں،ان میں مولاناعبدالستارخان نیازی کی سربراہی میں بننے والی
کمیٹی،ڈاکٹراسراراحمدمرحوم کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی،سپریم کورٹ کے
اس وقت کے چیف جسٹس(ر)جسٹس سیدسجادعلی شاہ کاسوموٹوایکشن وغیرہ قابل
ذکرہیں،ان کی فائلوں میں دبی کارگزاریوں کی روشنی میں اہل سنت والجماعت
اوراہل تشیع کی قیادت اوردونوں فرقوں کے غیرجانب داراہل علم کوبٹھاکراس
مسئلے کے اصل اسباب وعوامل کاجائزہ لینے،ان کاتجزیہ کرنے،ان میں اندرونی
وبیرونی رول کی نشان دہی کرنے،اس کی حوصلہ شکنی کرنے اورفسادوجدال کاباعث
بننے والے جملہ امور،جن میں اشتعال انگیزتقاریر،بیانات،کتب،لٹریچروغیرہ سب
ہی شامل ہے،کوزیربحث لانے اوراس پرپابندی عایدکرنے کی ضرورت ہے۔ہم سمجھتے
ہیں کہ سیاست دان کبھی بھی یہ مسئلہ حل نہیں کرناچاہتے،کیوں کہ ان کی
بقاکامداراس پرہے کہ قوم مختلف ایشوزپرلڑتی رہے،اوروہ حکومت کرتے
رہیں۔اگرجنرل راحیل شریف صاحب اس جانب بھی پیش قدمی فرمائیں ،توان کااس
دکھی قوم پراحسان عظیم ہوگا۔ویسے بھی محرم الحرام قریب ہے اورضلعی وصوبائی
سطح پرابھی سے محرم میں امن وامان کے قیام کے پلان مرتب ہونے شروع ہوچکے
ہیں،جن کاحشرقوم ماضی میں دیکھ چکی ہے،سانحہ راول پنڈی کوئی زیادہ پرانی
بات نہیں۔بیوروکریسی میں بیٹھے حکومتی کل پرزے اب بھی اسی نوع کی ڈنگ
ٹپاؤپالیسیاں ترتیب دیں گے،جن سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوتارہاہے۔توجنرل
صاحب!بسم اللہ کیجیے!ایک آپریشن ضرب عضب فرقہ واریت کے خلاف بھی ہوناچاہیے۔ |
|