ہم تقلید کیوں نہیں کرتے ہیں؟
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
از قلم: حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ
ترجمہ: حافظ فرحان الہی
امام وکیع بن الجراح الکوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا شعبة عن عمرو بن مرة عن عبدالله بن سلمة عن معاذ، قال: كيف أنتم عند
ثلاث؟ دنيا تقطع رقابكم، وزلة عالم؟ وجدال منافق بالقرآن؟ فسكتوا، فقال
معاذ بن جبل رضي الله عنه: أما دنيا تقطع رقابكم فمن جعل الله غناه في قلبه
هدي ومن لا فليس بنافعته دنياه وأما زلة عالم فإن اهتدي فلا تقلدوه دينكم،
وإن فتن فلا تقطعوا منه آناتكم، فإن المؤمن يفتن ثم يفتن، ثم يتوب، وأما
جدال منافق بالقرآن، فإن للقرآن منارا كمنار الطريق لا يكاد يخفي علي أحد،
فما عرفتم فتمسكوا به، وما أشكل عليكم فكلوه إلي عالمه
سيدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مفہوم:
تم تین موقعوں پر کیا کرو گے؟
جب تمہاری گردنیں کاٹے گی..1
عالم کی غلطی کے وقت..2
3. جب منافق قرآن کو بنیاد بنا کر جگھڑ رہا ہوگا؟
لوگ خاموش رہے تو سیدنا معاذ نے خود فرمایا: جب دنیا تمہاری گردن توڑنے لگے
(تو اسکے متعلق سنو!) جسکے دل میں اللہ تعالی نے بے نیازی رکھ دی، وہ ہدایت
پا گیا اور جس کے ساتھ ایسا نہ کیا تو اسے اسکی دنیا کچھ فائدہ نہ دے گی،
اور عالم کی گمراہی (سے متعلق سنو!) اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو دین میں
اسکی تقلید نہ کرو. اگر وہ کسی آزمائیش میں مبتلا ہوجاۓ تو تم اس سے مایوس
نہ ہونا، کیونکہ مؤمن کی بار بار آزمائیش ہوتی ہے، پھر وہ توبہ کرتا کر
لیتا ہے، اور منافق کا قرآن کو بنیا بنا کر جھگڑا کرنا (تو اس سے متعلق
سنو!) قرآن کے کئ نشانات ہوتے ہیں، جیسے راستے کے نشانات، اور وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں ہوتے، لہذا جن (احکام) کو تم پہچان لو، انہیں مضبوطی سے تھام
لو، اور جو تم پر مشکل ہوں، انہیں عالم کے سپرد کر دو.
(کتاب الزھد جلد: 1، صفحہ: 299 - 300 حدیث: 71)
(تخریج الحدیث: الزھد لابی داؤد رقم: 193 حلية الأولياء لأبي نعيم
الأصبهاني 97/5 جامع بيان العلم وفضله لإبن عبدالبر 111/2 الاحكام في أصول
الاحكام لابن حزم 6/ 236 - 238)
یہ اثر شعبہ کے طریق سے مروی ہے، ابو نعیم فرماتے ہیں: شعبہ نے اس اثر کو
موقوفا بیان کیا ہے اور یہی صحیح ہے. حافظ دار قطنی فرماتے ہیں شعبہ نے
عمرو بن مرہ کے طریق سے موقوفا بیان کیا ہے. یعنی یہ سیدنا معاذ رضی اللہ
عنہ سے منقول ہے اور موقوفا ہی صحیح ہے.
دیکھۓ: اتحاف السادة المتقين 378/1، الوقوف علي الموقوف لعمر بن بدر بن
سعيد الموصلي ص: 87 ح: 64 حافظ ابن قيم نے اعلام الموقعین 239/2 میں اسکی
سند کو صحیح قرار دیا.
حکم الحدیث: اسناد حسن
فقہ الحدیث:
1. یہ اثر مرفوع کے حکم میں ہے، اسے طبرانی نے المعجم الاوسط: 8710 میں
عمرو بن مرہ عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی سند سے مرفوعا بھی روایت کیا
ہے، لیکن اسکی سند منقطع (ضعیف) ہے.
2. اس اثر میں عوام اور علماء ہر دو طبقوں کے لیے تقلید کی ممانعت پر واضع
دلیل موجود ہے، جس سے معلوم ہوا کہ جاہل شخص کے لیے بھی تقلید حرام ہے،
بلکہ اسکے لیے ضروری ہے کہ ہر مسئلہ میں علماء سے اللہ اور اسکے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے متعلق دریافت کرے اور یہ طرز عمل تقلید نہیں
ہوتا. دیکھۓ مسلم الثبوت صفحہ: 289 فواتح الرحموت 400/2، منتھی الوصول لابن
حاجب صفحہ: 218، التقریر والتحریر 453/3، الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی
227/4، ارشاد الفحول للشوکانی صفحہ: 265، کشاف اصطلاحات الفنون 1178/2، نیز
جو جو آدمی جاہل شخص کے لیے کسی عالم کی تقلید کو جائز قرار دیتا ہے، وہ
غلطی پر ہے اور جلیل القدر صحابی سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مخالفت
کرتا ہے، کیونکہ عام آدمی پر بھی دلیل کی اتباع اور پیروی ضروری ہے.
3. اس اثر میں اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر
دنیا کی محبت کو مقدم سمجھنے کی مذمت کی گئ ہے.
4. اس اثر میں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کو سلف صالحین کے فہم اور منہج
کے مطابق سمجھنا واجب ہے، یہی اہل ایمان کا راستہ ہے اور جو لوگ کتاب اللہ
کو سلف صالحین کے منہج اور فہم کے بغیر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود بھی
گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.
5. یہ پہلو بھی نکھرتا ہے کہ اگر اپنے ساتھیوں کو کسی معاملے میں غلطی پر
پائیں تو انھیں نصیحت کرنی چاہیے، ان سے الگ نہیں ہونا چاہیے. بہترین لوگ
وہ ہیں جو اپنی خطاؤں کو ترک کر کے درست راستے کو اپناتے ہیں.
6. عبداللہ بن سلمہ پر اختلاط کا الزام ہے، جس کی طرف انکے شاگرد عمرو بن
مرہ نے اشارہ کیا ہے، اور وہی ان سے یہ حدیث روایث کر رہے ہیں، عمرہ بن مرہ
کی ان سے حدیث کو ترمذی: 146 ابن خزیمۃ: 208، ابن حبان (الموارد: 193، 192)
ابن الجارود: 94 حاکم: 107/4 اور دیگر نے صحیح قرار دیا ہے، لہذا عبداللہ
بن سلمہ سے عمرو بن مرہ کی روایت قبل از اختلاط متصور ہوگی. حافط ابن حجر
عسقلانی رحمہ اللہ انکی ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: حق بات یہ ہے انکی
روایت حسن درجے کی ہے اور حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: حق بات یہ کے انکی
روایت حسن درجہ کی ہے اور دلیل بنانے کے قابل ہے.
(فتح الباری 408/1 ح 305)
7. غنا (بے نیازی) ہدایت کا ذریعہ اور دنیا کی حرص وجھوٹی شہرت کی طمع بے
دینی کا باعث ہے.
8. اگر کسی دینی امر میں مشکل پیش آرہی ہو تو اہل علم سے پوچھنا چاہیے
کیونکہ یہ پوچھنا قطعا تقلید نہیں، جیسا کہ اوپر مذکور ہے.
(حوالہ: ماھنامہ اشاعۃ الحدیث: شمارہ نمبر 128-127 صفحہ: 22 تا 25)
اس روایت سے میں نے سیکھا: اس صحیح اور حسن درجہ کی روایت سے پتا چلتا ہے
کہ جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وأما زلة عالم فإن
اهتدي فلآ تقلدوه دينكم
یعنی: اور عالم کی گمراہی (سے متعلق سنو!) اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو دین
میں اسکی تقلید نہ کرو.
یعنی جب اس کی تقلید نہ کرو اور ایسے مسائل آجائیں جس کا مجھے اور آپ کو
جواب معلوم نہ تو پھر کیا کریں؟ اس صحیح یا حسن درجے کی روایت کے مطابق:
وما أشكل عليكم فكلوه إلي عالمه
مفہوم: اور جو تم پر مشکل ہوں، انہیں عالم کے سپرد کر دو.
جیسے کہ اللہ نے فرمایا:
فاسئألوا أھل ذکر إن کنتم لا تعلمون.
مفہوم: پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو
یعنی دین میں مشکل مسائل علماء کی طرف پھیرو مگر انکی تقلید نہ کرو بلکہ
علماء کو چاہیے کہ مسائل کا جواب قرآنی آیات اور صحیح روایت سے دیں اور
صحیح یا حسن روایات فہم سلف سے دیں کہ یہ فہم صرف میرا نہیں بلکہ سلف
الصالحین (نیک اور صالح علماء) کا بھی یہ فہم تھا. اور یہ بہتر ہے کہ سوال
کرنے والے کو بتائیں کہ فلاں روایت صحیح سند سے آئ ہے. تاکہ اس عام بندہ
میں بھی علم حاصل کرنے اور علماء حق سے تمسک کی محبت پیدا ہو.
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ایک عامی کو ایک عالم سے قرآن و حدیث کی دلیل
معلوم کر کے مسئلہ پوچھنا چاہیے؟ اس سلسلہ میں ایک دلیل تو پہلے ہی سیدنا
معاذ بن جبل رضي الله عنه کی موقوفا صحیح روایت ہے جو اوپر درج کر دی گئ.
دوسری دلیل یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضي الله عنه نے فرمایا: لا
تقلدوا دينكم الرجال..."إلخ
اپنے دین میں مردوں (یعنی لوگوں) کی تقلید نہ کرو..الخ
(السنن الکبری للبیہقی 10/2 وسندہ صحیح) نیز دیکھیں دین میں تقلید کا
مسئلہ: صفحہ: 35
سیدنا عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: "أغد عالم أو متعلما ولا تغد إمعة بين
ذلك"
مفہوم: عالم بنو یا متعلم (سیکھنے والا، طالب عالم) بنو، ان دونوں کے
درمیان (یعنی ان کے علاوہ) مقلد نہ بنو.
(جامع بیان العلم و فضلہ 71/1، 72 ح 108، وسندہ حسن)
إمعہ کا ایک ترجمہ مقلد بھی ہے.
دیکھۓ تاج العروس (ج:11 ص:4) المعجم الوسیط (ص 26) اور القاموس الوحید ص
134
سیدنا عبداللہ ابن مسعود کے نزدیک لوگوں کی تین اقسام ہیں.
1. عالم
2. طالب عالم
3. مقلد
انھوں نے لوگوں کو مقلد بننے سے منع فرما دیا تھا اور عالم یا طالب علم
بننے کا حکم دیا تھا.
اس کے علاوہ بھی کم از کم 100 ایسے علماء سلف تھے جو تقلید نہیں کرتے تھے
جس کی تفصیل حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ کی "تحقیقی اصلاحی اور علمی
مقالات" کی جلد: 3 صفحہ: 25 تا 64 مطالعہ کیا جاسکتا ہے.
آخر میں صرف دو اور حوالے. حافظ ابن عبدالبر اندلسی رحمہ اللہ نے اپنی
مشہور کتاب میں باب باندھا: باب فساد التقليد والفرق بين التقليد والاتباع
مفہوم: تقلید کے فساد کا باب اور تقلید اور اتباع کا فرق.
جامع بیان العلم و فضلہ جلد:2 صفحہ:218 جامع بیان العلم و فضلہ جلد:2
صفحہ:218
اور دوسری جگہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا:
لا فرق بین مقلد و بهيمة
مفہوم: مقلد اور جانور میں کوئ فرق نہیں.
جامع البیان العلم وفضلہ ج:2 ص:228
اللہ ھمیں تقلید جیسی ذہنی بیماری سے بچاۓ اور اس موضوع کو قرآن والسنۃ اور
سلف الصالحین کے واضع دلائل سے سمجھنے عمل کرنے اور بغیر ریا کاری کے
پھیلانے کی توفیق عطا فرماۓ، آمین اللھم آمین. |
|