تبدیلی پرانے کھلاڑیوں سے
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
عمران خان کو شاید معلوم نہیں کہ
ان کی پا رٹی اب آہستہ آہستہ نہیں بلکہ بہت تیزی کے ساتھ روایتی پارٹی بنتی
جارہی ہے بلکہ بہت حد تک بن چکی ہے ۔ملک میں تبدیل کا جونعرہ لگایا گیا تھا
اس میں زیادہ تر نواجونوں نے لبیک کہہ کر عمران خان کا ساتھ دیا تھا کہ ملک
میں تبدیل ناگزیر ہے ۔ سسٹم تبدیل ہونا چاہیے ۔ سیاست صرف مفاد کا نام نہیں
بلکہ رشوت خوروں اور مفاد پرستوں کے علاوہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی سیا ست
میں آنا چاہیے اور ملک کے بہتر ی کیلئے کام کرنا چاہیے ۔میں ہر گز پرانے
سیاسی کھلاڑیوں کے خلاف نہیں ہوں۔ ان پرانے لوگوں میں یقینا اچھے اور
ایماندار لو گ بھی ہوں گے اور ہوتے بھی ہے بلکہ میرا ماننا ہے کہ ہر سیاسی
جماعت میں مخلص اور سچے لوگ موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ پارٹیا ں چلتی
ہے۔میں یہ بھی نہیں کہتا کہ نئے لوگوں کو تحر یک انصاف میں نہیں آنا چاہیے
بلکہ صرف نظر یاتی لوگ پارٹی میں آئیں اور تمام فیصلے میرٹ پر ہو ۔ پارٹی
تنظیم کے پاس اختیارات ہو وہ فیصلہ کر یں کہ کس کو ٹکٹ ملنا چاہیے اور کس
کو نہیں لیکن پی ٹی آئی میں دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح یہ سسٹم نہیں ہے
بلکہ پرانے کھلاڑی وہی پرانے سسٹم کہ تحت ٹکٹوں کی تقسیم کرتے ہیں جس کی
وجہ سے مخلص اور اہل لو گوں کو ٹکٹ نہیں ملتا بلکہ اختیار اایم پی اے اور
ایم این اے کو دیا گیا ہے جس کے تحت وہ ٹکٹ تقسیم کرتے ہیں ۔ اب جو لوگ
پارٹی میں مفاد کے لیے آئے ہیں ان کو اس سے کیا غرض کہ پارٹی کے لیے کون
اہل ہے اور کون نا اہل۔ان کے نزیک اہل ان کا بھائی ، بیٹا ، بھتیجا،رشتہ
دار اور دوست ہوتے ہیں جن کو ٹکٹ ملتا ہے۔
ہم جنرل الیکشن کی بات نہیں کرتے کہ اس میں ٹکٹ زیادہ تر میرٹ پر نہیں دیے
گئے لیکن حال ہی میں بلدیاتی انتخابات جس میں زیادہ تر اپنوں اور ناہل
لوگوں کو نوازا گیا ۔ان کی مثال ہمیں صرف روایتی سیاسی پارٹیوں میں ہی ملتا
ہے ۔جوبلد یاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کا سبب بنی اور پی ٹی آئی
میں مایوسی پیدا ہوئی ۔جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو تو زیادہ
نشستیں ملی ہے ان کو معلوم نہیں کہ اگر پی ٹی آئی اہل لوگوں کو ٹکٹ دے دیتی
تو اس سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی تھی۔ عوام پرانی سیاسی پارٹیوں سے
نالاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے آزاد امیدوار بھی اس الیکشن میں جیت گئے
جس کا مطلب ہے کہ لوگ روایتی سیاست اور سیاستدانوں سے عاجز آچکے ہیں ۔ عوام
کے پاس چوائس بہت کم رہ گئی ہے کہ وہ نئے اور اہل لوگوں کو منتخب کریں۔
اس بلد یاتی الیکشن میں اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صوبے کا
وزیراعلیٰ پرویز خٹک جن کے تقر یباً سارے بھائی بہن اور رشتہ دار ایم این
اے اور ایم پی اے ہیں ایک بھائی لیاقت خٹک رہتا تھا اس کو بھی ضلع کا ناظم
اعلیٰ بنا دیا گیا۔اصل میں وہ بچارہ شریف آدمی ہے ۔ ہماری طرح سیاست سے ان
کا کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی چونکہ وزیر اعلیٰ کا بھائی ہے اس لیے ان کو
بھی سیٹ پر بیٹھنا مقصود تھا ٹکٹ اپنے گھر سے شروع کر کے تمام ایم پی اے
اور ایم این اے کو پہلا حق دیا گیا جو ناکامی کا سبب بنا۔ میں ڈیرہ اسماعیل
خان،مردان ، صوابی ،ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی بات نہیں کرتا میں صرف اپنے
حلقے نوشہر ہ کی بات کرتا ہوں جہاں پر ہمارے دوسرے ایم پی اے خلیق الرحمن
صاحب نے اپنے ایک بزرگ بھائی کو پبی تحصیل کا ناظم بنا دیاجبکہ نائب ناظم
اشفاق احمدبن گئے جو بلدیاتی الیکشن سے پہلے مسلم لیگ نون میں تھے ۔ والد
نور محمد چونکہ عرصہ دارز سے مسلم لیگ نون اور اقبال ظفر جھگڑا کا تواف
کرتے ہیں۔ اب بھی نون لیگ میں ہے ۔بیٹا مفاد کے لیے پارٹیاں تبدیل کرتا
رہتا ہے ۔ مشرف کے بلدیانی نظام میں والد مسلم لیگ میں اور موصوف خود
پیپلزپارٹی کے ناظم بن گئے تھے چونکہ ان کی حکومت تھی اس لئے ان کے ٹکٹ پر
الیکشن لڑا۔ اب پی ٹی آئی میں آکر نائب ناظم اشفاق احمد لوگوں کو پی ٹی آئی
کانظریہ پڑھائیں گے ۔اسی طرح دوسرے بھی ۔ بات یہ نہیں کہ یہ لوگ اب پارٹی
میں آئیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں لیڈر شپ کی اہلیت اور نظریہ ہی پی ٹی
آئی کا نہیں ، یہ لوگ صرف اپنی مفاد کے لیے پی ٹی آئی کو استعمال کررہے ہیں
اور موسمی پرندوں کی طرح گھونسلے تبدیل کرتے ہیں۔ جو پی ٹی آئی کے پرانے
کارکن اور اہل لوگ ہے ان کو سائٹ لائن لگا دیا گیا ہے ان میں ایک ساجد لالا
بھی ہے جن سے میری کو ئی دعا سلام نہیں لیکن پی ٹی آئی کے نظریاتی لوگ ان
فیصلوں سے مایوس ضرور ہو ئے ہیں۔ یہ معاملہ پورے صوبے کا ہے۔
اسی طرح عمران خان نے ضلع ناظم منتخب کرنے کے لیے کہا تھا کہ میں خود
امیدواروں کے انٹر ویو کروں گا۔ بے چارے عمران خان کو معلوم نہیں کہ پرانے
کھلاڑی کس طرح ان کو خلط گائیڈ کرتے ہیں ۔ میں صرف نوشہر ہ کی بات کرتا ہوں
۔ نوشہر ہ میں ضلع ناظم کے لیے صرف ایک امیدوار نے اپلائی کیا اور وہ تھا
وزیر اعلیٰ کا بھائی لیاقت خٹک جس کی قابلیت صرف یہ ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کا
بھائی ہے باقی ولاحوالہ والا قوتہ۔۔جن ممبران نے اپلائی کرنا تھا ان سب کو
ادھر اُدھر کر دیا۔اب ایک امیدوار رہ گیا تھا اس کا انٹرویو کیا ہونا تھا
عمران خان کے ساتھ جب شاہ محمود قریشی ہو اور سامنے والے کرسی پر لیاقت خٹک
اور ساتھ میں بھائی پر ویز خٹک تو عمران خان کیا کرتے ۔
اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ پرانے کھلاڑیوں نے تحر یک انصاف کو کیسے یر غمال
بنا دیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جب میرا بھائی ناظم نے بنے تو پی ٹی آئی کا
دوسرا امیدوار کیوں جیتے صوبے میں چار، پانچ ڈسٹرکٹ سیٹ اسی طرح پی ٹی آئی
ہار گئی جن میں اعظم سواتی کاایبٹ آباد اور ہزارہ کے علاوہ ڈیراسماعیل خان،
مردان ، صوابی اور پشاور بھی شامل ہے ۔پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر ان لوگوں
کو پارٹی کی طرف سے نوٹسز بھی دیے گئے ہیں لیکن اس کا نتیجہ میں ابھی سے
بتا دیتا ہوں کہ ان لو گوں کے خلاف کچھ بھی کارروائی نہیں ہوگی۔ کاش عمران
خان وجہہ الدین رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے، پارٹی الیکشن میں د ھاندلی اور
ڈسپلن کے خلاف ورزی کرنے والوں کوسزا دیتے تو آج یہ لوگ اس طرح نہ کرتے۔اب
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان ان پرانے کھلاڑیوں سے ملک میں تبدیلی لا سکیں
گے۔ جو پرانے طریقوں پر چل رہے ہیں۔ اس پرمزید بات آئندہ کالم میں ہو گی۔ |
|