عفو اور صفح
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا
سب سے بڑا عنصر یہ ہے کہ ہم نے بطور اخلاقیات کے عفو اور صفح کو اجتماعی
وانفرادی زندگیوں میں پسِ پشت ڈال دیا ہے،ذرہ ذرہ سی بات کو ہم انا کا
مسئلہ بنادیتے ہیں اور پھر اُس پر ہر طرح سےمر مٹنے کے لئے تیار ہوجاتے
ہیں،گھر برباد ہوگئے،ادارے تباہ ہوگئے، ملک وملت بدنامی کے دہانے پر ہیں،بس
ہم ہیں جو اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے واسطے کسی معاملے میں ایک انچ بھی
پیچھے ہٹنے کو گوارا نہیں کرتے،عجیب تماشا ہے،کسی کو سمجھائیں،تو طرف داری
کا لیبل لگادیتے ہیں،ہمارے پاس آئے روز اس قسم کے معاملات آتے ہیں،روز کا
تجربہ ہے کہ اگر ایک فریق تھوڑاسا تحمل ، برداشت اور صبر سے کام لے، تو
سارا قضیہ خود بخود رفع دفع ہوجائے، لیکن مجال ہے کہ کوئی اپنی ضد
چھوڑدے۔ایسے میں ثالث بھی حیران وپریشان ہوجاتا ہے، کہ اب کیا کیاجائے،ایک
کی منت سماجت کرتا ہے،دوسرے کو منانے کی کوشش کرتا ہے،مگر ہر ایک ایسی ایسی
باتیں کرتا ہے،کہ جیسے وہ سب سے بڑا طورم خان ہے،تو درخواست یہ ہے کہ ثالث
کو بھی تھوڑی سی رعایت دی جائے،اس کے پاس بھی الجھے مسئلے کے حل کا کوئی
پیمانہ نہیں ہوتا،وہ اپنی راے اور عقل ودانش کو بروئے کار لاکر ایک درمیانی
راہ نکالتاہے،اب اگر وہ کسی ایک فریق پر کچھ بوجھ ڈالے، تو وہ برداشت کرے،
کیونکہ بعض اوقات باعزت حل کے لئے کچھ کھونا پڑتاہے۔
اسلام نے قرآن وسنت اور سیرتِ طیبہ کی صورت میں ایسے بے شمار اوربیش بہا
انمول موتی مسلمانوں کودیئے ہیں،جن سے الجھنوں کو بڑی آسانی سے سلجھایا
جاسکتاہے،مثلاً معاف کردینا،اس کا مطلب یہ ہے کہ غلطی ہوئی ہے، تب ہی معاف
کیا جاتا ہے ،ورنہ معافی(مٹانا) کا پھر مطلب کیا ہے،چشم پوشی کرنا،درگزر
کرنا بھی ہمیں اسلام سکھا تاہے، بہادر اور بڑے دل والے ہی یہ کام کرسکتے
ہیں،دل چھوٹا کرکے یہ کام نہیں ہوسکتے، گھر کا معاملہ ہو،یا عام اجتماعی
مسائل ہوں ،معاف کر دینے کو رواج دیا جائے، چشم پوشی اور در گذر کرنے کو
اپنا شعار بنایا جائے،برکتیں بھی نازل ہونگی،سکون بھی ملے گا۔
نبی کریم ﷺ ایک غزوے سے واپسی کے موقع پر کیکر کے درخت کے نیچھے قیلولہ فر
مارہے تھے،کوئی کافر آیا اور درخت کے ساتھ آپ ﷺ کی لٹکی ہوئی تلوار لے کر
آپﷺ کو مخاطب کرکے کہنے لگا، آپ کو کون بچائے گا مجھ سے ،آپﷺ نے فرمایا،
اللہ۔تلوار اس کے ہاتھ سےیکدم گر گئی ، اب آپﷺ نے وہی تلوارسنبھالی اور
فرمایا، بتا تیرا کو کون بچائے گا، اس نے ڈر کر کہا،مہربانی کا معاملہ
فرمائیو،آپﷺ نے اسے معاف کردیا،کیونکہ آپﷺ تو تھے ہی رحمۃ للعالمین،یقیناً
وہ شخص مسلمان ہوگیا ہوگا۔
مکے کو فتح کرنے کا موقع آیا،آپﷺ نے فرمایا ،اے اہل مکہ تمھارا کیا خیال
ہے، میں تمھارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟ابو سفیان ؓنے کہا، أخ کریم وابن أخ
کریم،آپﷺ اور آپ کا خاندان کریم ہے ،کرم چاہتے ہیں، آپﷺ نے
فرمایا،لاتثریب علیکم الیوم، آج تمھارا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا، میں تمہیں
معاف کرتاہوں۔ اندازہ لگایئے،جنہوں نے آپ ﷺ کو ہمیشہ اذیتیں دیں، آپ ﷺکو
شہید کرنے کی نامسعود کوششیں کیں،مکہ مکرمہ سے نکالا،ہجرت پر مجبور کیا،
مدینہ منورہ میں بھی آپ ﷺ کو چین سے نہ رہنے دیا،صحابہؓ کے ساتھ زیادتیاں
کیں، تذلیل اور مذاق کی کوئی کسر نہ چھوڑی، ایسوں کو ہمارے پاک نبیﷺ معاف
کرتے ہیں،اور ہم معمولی معمولی باتوں کی رنجشوں کو تاحیات دل میں بسائے
رکھتے ہیں،کیا یہی محبتِ رسولﷺ کا تقاضا ہے۔
ایک یہودی آتاہے،مسجد نبویﷺ میں آپ ﷺ سے نہایت بد تمیزی سے اپنے قرض کا
مطالبہ کرتے ہیں،حضرتِ عمرؓ اور دیگر صحابہؓ موجود ہیں، وہ سب بر آفروختہ
اور غضبناک ہوتے ہیں،لیکن میرے آقا ﷺ بڑی نرمی اور خوش اخلاقی کے ساتھ ان
سے یہ معاملہ کرتے ہیں،کہ حضرتِ عمر کو حکم ہوتاہے،جاکر اس کا جتنا حق ہے
وہ اسے دیدو،اور بیس سیر زیادہ دینا،کیونکہ ان کو اپنے ہی حق کے لئے جھگڑنا
پڑا ہے،اور پھر اپنے صحابہؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے ہیں ،جس کا حق بنتاہو
وہ کچھ سنا بھی سکتا ہے،اللہ اللہ کیا کہنے! یہ ہیں اسلام کے اخلاقِ عالیہ
ومثالیہ،ان اخلاق کو ہم اپنے معاشرے میں اپنے اوپر نافذ کرینگے، تو ہمارے
آدھے جھگڑے ختم ہوجائینگے،بقیہ آدھے قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں
بہت آسانی سے حل ہو سکتے ہیں، مگر کوئی ہو جومسلم(تابعدار)،ہمارا مسئلہ یہ
ہے کہ ہم نام کے مسلم اور کام کے منتقم(انتقام لینے والے) ہیں۔
اسلامی تاریخ انبیا،اولیا اور اہل اللہ کے اخلاقِ کریمانہ کے کارناموں سے
بھری پڑی ہے،خود بھی اور اپنی اولاد کو بھی ان حقائق تک رسائی دی
جائے،مطالعہ کیا جائے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے،اپنے غصے اور
انتقامی جذبے کا روحانی علاج کیا جائے، تاکہ آپ اور آپ کاماحول پُرسکون
ہوجائے،تقویٰ کے حصول میں بہترین اور قریب ترین چیز معافی ہے،عفو کو اپنا
یا جائے، بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے، بچوں کو معاشرے کا ایک اہم فرد
اسی وقت بنایا جاسکتا ہے جب ذہنی طور پر ان کی نشو نما بہتر ماحول میں
اچھائیوں کی طرف کی جائے۔ اعمال قبیحہ کے اظہار کے موقع پر ان کی سرزنش بھی
کی جائے اور بعد میں پیار و محبت سے سمجھا بھی دیا جائے تو اس عمل سے بچہ
بہت کچھ سیکھ لیا کرتا ہے۔ ذہنی طور پر سب بچے ایک طرح کے نہیں ہوا کرتے۔
ادنیٰ ، متوسط اور کمزور تینوں طرح کے بچوں سے والدین اور اساتذہ دونوں کو
واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کمزور بچوں کا مذاق اڑانا انہیں بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ
ہر کام میں ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے سے رہنے لگتے ہیں۔ جس بچے کو ہر وقت
تنقید کا سامنا ہو وہ کسی چیز کو قبول نہیں کرسکتا ہے۔ جس بچے کی اچھے
کاموں پر حوصلہ افزائی کی جائے ،انہیں دینی ماحول مہیا کیا جائے ۔ احکامات
الہٰی پر عمل کرنے کی ترغیب اور برائیوں سے دور رکھنے کی ذہن سازی انتہائی
ضروری ہے ۔ آج کل اولادیں حد بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں لیکن ضروری دینی
احکامات سے تہی دامن رہتی ہیں۔ اولاد کے حقیقی خیر خواہوں کے لئے لازم ہے
کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اسلامی اخلاقیات میں رول ماڈل بنایا جائے ۔
بالخصوص معافی تلافی میں۔ |
|