حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا
کہ کیا میں تمہیں دین کی سمجھ رکھنے والا حقیقی عالم نہ بتاؤں یہ وہ عالم
ہے جو لوگوں کو اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ کرئے اور نہ اﷲ کی نافرمانی کی
انہیں کھلی چھٹی دے اور نہ انہیں اﷲ کی پکڑ سے بے خوف و بے فکر ہونے دے اور
نہ قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں ایسا لگے کہ قرآن چھوٹ جائے اس عبادت میں
خیر نہیں ہے جس میں دینی علم نہ ہو اور اس دینی علم میں خیر نہیں ہے جسے
آدمی سمجھا نہ ہو یا جس کے ساتھ پرہیزگاری نہ ہو اور قرآن کی اس تلاوت میں
کوئی خیر نہیں جس میں انسان قرآن کے معنی اور مطلب میں غور و فکر نہ کرے۔
قارئین ! تاریخ انسانی کو غور سے دیکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے
کہ کوئی بھی اقتدار دائمی نہیں ہوتا اور دولت کبھی بھی کسی ایک جیب کا مقدر
نہیں ٹھہرتی زمانہ جسے علامہ اقبال ؒ نے زنجیرِ ایام کہہ کر دموں کے الٹ
پھیر کا نام دیا یقینا یہ ایسا ہی ہے ۔ ناجانے کیوں پھر بھی ہم ناقص عقل
انسان اس عارضی گھر کو دائمی ٹھکانہ سمجھ کر ایسی ایسی ناسمجھی کا مظاہرہ
کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔خیر آج کا ایک انتہائی مختصر کالم محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید
کو قدرت کی طرف سے ملنے والے ایک اور سنہری موقع کے متعلق ہے آج ہی انہوں
نے ہم سے رابطہ کر کے یہ خوشخبری ہمارے ساتھ شیئر کی کہ آزاد کشمیر حکومت
نے رواں سال ان کے ختم ہونے والے پرنسپل شپ کے کنٹریکٹ میں دوسال کی توسیع
کر دی ہے اور اب وہ 2017ء تک میرپور میڈیکل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کام
کرینگے ۔ ہم نے اس خبر پر انہیں مبارکباد دینے کے بعد انہیں دعا دی کہ اﷲ
کرے کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس سیٹ کا تقاضہ
ہیں صورتحال اس وقت انتہائی گھمبیر ہے اور اس صورتحال کو سمجھنا انتہائی
ضروری ہے گزشتہ دنوں میرپور میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج کی
عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں راقم سمیت میرپور اور آزاد کشمیر
بھر کی بڑی بڑی شخصیات شریک تھیں ۔ راقم بڑی شخصیات کے سامنے یقینا ایک
حقیر زرے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں کے مصداق
جو باتیں ہم نے نوٹ کیں وہ بتاتے چلیں ۔ اس تقریب میں سرکاری حکم نامے کے
ذریعے سرکاری سکولوں اور کالجوں کے معصوم طلباء و طالبات کو صبح دس بجے
پنڈال میں بٹھا دیا گیا کیونکہ مہمان خصوصی عالیٰ مرتبت تین میڈیکل کالجز
اور چار یونیورسٹیز سمیت ریکارڈ میگا پراجیکٹس شروع کرنے والی سرکار نے
پوری دنیا کے مہذب ممالک کے حکمرانوں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے یقیناگیارہ بجے
تشریف لانا تھی لیکن راقم سمیت چار ہزار کے قریب گناہگار آنکھوں نے چوہدری
عبدالمجید وزیراعظم آزاد کشمیر کے شاہانہ فلیٹ کو ایک بجے نمودار ہوتے
دیکھا معصوم طلباء و طالبات کے علاوہ مجبور سرکاری ملازمین پسینے میں
شرابور تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اس تقریب کو ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ رکھتے ہوئے
ایک گھنٹے کے اندر ختم کر دیا جائیگا لیکن میڈیکل کالج جیسی نازک سپیشلٹی
والی اس درس گاہ میں سیاسی بھاشن کا سلسلہ شام ساڑھے چار بجے تک جاری رہا ۔
ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے کہ میڈیکل کالج میں سیاسی تقریریں کس لیے کی
گئیں لیکن ہماری خام عقل یہ کہتی ہے کہ یقینا میڈیکل کالجز میں پڑھنے والے
طلباء و طالبات اور انتہائی معصوم چھوٹے چھوٹے بچے ، بچیاں جو سرکاری
سکولوں اور کالجوں سے بحکم سرکار مغوی بنا کر رکھے گئے یقینا ان میں
آئیوڈین والے نمک کی طرح سیاسی شعور کی بہت زیادہ کمی تھی جو سیاسی تقریروں
کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سائنس کی رو سے پسینے کے ساتھ
آئیوڈین والا نمک بھی بہ گیا ہوگا اور سیاسی شعور بلند ہوا ہویا نہ ہوا ہو
لیکن 2000کے قریب لوگ پسینے بہنے کے بعد نمک کی کمی کا شکار ضرور ہو گئے
ہوں گے اﷲ کرے کہ وہ آئیوڈین والا نمک نہ ہو ورنہ نقصان کا تخمینہ بڑھ بھی
سکتا ہے ۔ بقول چچا غالب
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلش غمزہ خونریز نہ پوچھ
دیکھ خون نابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے میرا روئیں گے یار؟
مگر آشفتہ بیانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
قدر سنگ سر رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگ پیری ہے جوانی میری
مختصر ترین بات یہ ہے کہ پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج
پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو قدرت نے ایک بہت بڑا موقعہ دیا ہے کہ وہ
آزاد کشمیر کے غریب عوام کے ساتھ ایک نیکی کر جائیں اور اپنے دامن پر لگنے
والے الزامات کے ان دھبوں کو صاف کر دیں جو ان کے ناقدین ان پر عائد کرتے
رہتے ہیں میڈیکل کالج کا آغاز ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک
ٹیچنگ ہسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے ۔ غریب عوام آج بھی معیاری سہولیات کو
ترس رہے ہیں اور بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہی ۔ وہی علم سود مند
ہوتا ہے جس کا فائدہ ایک غریب انسان کو ہو میڈیکل کالجز میں بھاری بھرکم
فکلیٹی کام کر رہی ہے لیکن تربیتی ہسپتالوں میں ابھی تک ایک بھی ڈیپارٹمنٹ
اس انداز میں قائم نہیں کیا گیا جس انداز میں راولپنڈی ، اسلام آباد، لاہور
، کراچی ، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں تربیتی ہسپتالوں میں دیکھنے میں
آتا ہے ۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو دس ارب روپے مالیت کے یہ ’’سفید
ہاتھی ‘‘ پورس کا وہ لشکر ثابت ہوں گے جو چار ملین غریب کشمیریوں کو گھاس
کی طرح کچل کر رکھ دیں گے ۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے سپیشلسٹ ڈاکٹرز
کو ان ہسپتالوں میں جائز مقام دیکر اگر انہیں تربیت فراہم نہ کی گئی اور
مستقبل کی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو وہی حال ہوگا جو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کیے
بغیر پورے پاکستان کو ملٹی نیشنل کمپنی کی مارکیٹ بنا کر کیا گیا ۔ آخرکیا
وجہ ہے کہ آزادکشمیر کے محکمہ صحت میں کام کرنے والے 28سے زائد سپیشلسٹ
ڈاکٹرز جن میں ڈاکٹر مرتضیٰ بخاری ، ڈاکٹر امجد محمود، ڈاکٹر طارق مسعود ،
ڈاکٹر ریاض چوہدری ، ڈاکٹر شکیل آصف ، ڈاکٹر فرخندہ ، ڈاکٹر نسرین حمید ،
ڈاکٹر شازیہ اشفاق ، ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر رضا گورسی ، ڈاکٹر راجہ
عبدالغفور،ڈاکٹر سعید عالم،ڈاکٹر وسیم عباسی ، ڈاکٹر شعیب انجم ، ڈاکٹر
احسان اکرم سمیت دیگر انتہائی معتبر نام شامل ہیں انہیں ’’Attachment‘‘کا
لالی پاپ دیکر انہیں میرپور میڈیکل کالج اور آزاد کشمیر بھرکے دیگر
سپیشلسٹس کو مظفرآباد اور راولاکوٹ کے میڈیکل کالجز میں درست اندازمیں
ایڈجسٹ نہیں کیا جارہا ۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ان تمام سینئراور
کوالیفائیڈ جونیئر ڈاکٹرز کو میڈیکل کالجز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور
اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تعینات کیاجائے جسے ڈیپوٹیشن کا نام دیا جاتا
ہے اور خالی ہونے والی نشستوں پر نوجوان تربیت یافتہ ڈاکٹرز کو بھرتی
کیاجائے تاکہ یہ لوگ بھی درست انداز میں اہل وطن کی خدمت کر سکیں اور بے
روزگاری بھی ختم ہو سکے ۔ پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کی ذاتی خوبیوں کے
ہم مداح اور دل سے قائل ہیں اﷲ کرے کہ وہ درست انداز میں ترجیحات کے مطابق
کام کر سکیں۔ میڈیکل کالجز اس مقصد کیلئے بنائے گئے تھے کہ آزاد کشمیر کے
نوجوان طلباء و طالبات معیاری طبی تعلیم حاصل کریں ، چالیس لاکھ سے زائد
کشمیریوں کو ٹرشری کئیر لیول کی سہولیات ملیں اور صحت جیسی بنیادی ضرورت ہر
غریب شہری کو مل سکے ۔ بدقسمتی سے موجودہ حالات جس طرف جا رہے ہیں ہمیں
خطرہ ہے کہ موت کا لائسنس دیکر ’’معذور ڈاکٹرز ‘‘ پیداکرنے جیسی کیفیت
سامنے آرہی ہے اور نظام صحت کے ساتھ ساتھ سوشل سیٹ اپ کے تباہ ہونے کا خطرہ
بھی ہے ۔ اﷲ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے آمین
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
دن دیہاڑے گھر میں ڈاکہ ڈالتے ہوئے سب کچھ لوٹنے کے بعد ڈاکو آخر میں جائے
نمازبھی اٹھانے لگا ۔
مالک نے گھبرا کر کہا ’’بھائی یہ جائے نماز تو چھوڑ دو‘‘
ڈاکو نے اکڑتے ہوئے جواب دیا
’’او تم ہمیں کافر سمجھتے ہو‘‘
ایک طرف ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کا موسم عروج پر ہے اور دوسری جانب الیکشن کا
موسم بھی آنے والا ہے ۔ ان موسموں میں یقینا خرد کی کوئی بات کرنا جنوں
سمجھا جاتا ہے اﷲ ہمارے سر اور سر میں سمائے جنوں دونوں کا سلامت رکھے اور
عوام کیلئے آسانی پیدا کرے ۔ آمین |