آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں، کسی قدر معمولی غوروفکر سے
دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ
یہ ہمارا دور کہیں وہی نہ ہو، نہیں تو وہ دور ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے،
اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« كيف بكم إذا فسق فتيانكم ، وطغى نساؤكم ؟ » قالوا : يا رسول الله ، وإن
ذلك لكائن ؟ قال : « نعم ، وأشد منه ، كيف بكم إذا لم تأمروا بالمعروف
وتنهوا عن المنكر ؟ » قالوا : يا رسول الله ، وإن ذلك لكائن ؟ قال : « نعم
، وأشد منه ، كيف بكم إذا رأيتم المنكر معروفا ، والمعروف منكرا ؟ » (الزهد
والرقائق لابن المبارك،حدیث نمبر:۱۳۷۶)
ترجمہ:… ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے،
اور تمہاری عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی! صحابہ کرام نے عرض کیا، یا
رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت
تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع
کروگے! صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا:
ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی جب تم برائی کو بھلائی
اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے!“
ہمارے معاشرے کی بدلتی قدروں اور شر و فتنہ کی نت نئی شکلوں کا جائزہ لیجئے
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔
دراصل معاشرہ جب بڑی بڑی برائیوں اور فحاشی کی ایمان شکن کارروائیوں کو صبر
و تحمل سے برداشت کرلیتا ہے تو اس کے بعد اچھے اور بُرے کی تمیز اٹھنے لگتی
ہے، دل و دماغ گناہوں کی غلاظت سے اٹھنے والی بدبوکے عادی ہوجاتے ہیں، اور
کسی اچھائی کی مشام جاں کو معطر کرنے والی خوشبو سے نامانوس ہوجاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہمارے معاشرے میں رونما ہوتا نظرا ٓرہا ہےکہ دین و دینی عقائد
و مسائل کا کبھی الیکٹرانک میڈیا پر تو کبھی پرنٹ میڈیا پر مذا ق اڑایا
جارہا ہے، قرآن و حدیث کے صریح و محکم احکامات کو مسلمانوں کے اذہان میں
مشتبہ بنا یا جارہا ہے۔ ٹاک شوز میں مختلف احکامات قرآنی کو زیر بحث
لایاجاتا ہے اور ان پر رویبضہ گفتگو کرتے ہیں۔کبھی شراب کی حرمت پر بحث کی
جاتی ہے اوراس کی حرمت کومشکوک کیا جاتا ہے،کبھی ’نظریہ ارتقاء کو اسلام
میں ٹھونس کر "تخلیقِ آدم " کورد کیا جاتا ہے ،کبھی ڈاڑھی، ٹوپی کو عہدِ
جاہلیت کی نشانی بتایا جاتا ہے اور کہیں عدّت کا انکار کردیا جاتا ہے،یہاں
تک کہ بعض ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود تک پر گفتگو کرتے ہیں۔
بے شک اسلام میں " پاپائیت " کی گنجائش نہیں، یہ بات عیسائی مذہب ہی کا
خاصہ ہے کہ اس میں مذہبی مسائل پر گفتگو کا حق صرف پوپ ور اسکے منتخب
نمائندوں کو ہوتا ہے، کسی دوسرے شخص کو اس سے مجالِ اختلاف نہیں ہوتا۔
اسلام نے تو اپنے ماننے والوں کو غور وفکر کی تلقین کی ہے اور سوالات کرنے
کو آدھا علم قرار دیا ہے، لہذا دینی موضوعات پر علمی گفتگو کرنا ، سمجھنے
کی نیت سے اہلِ علم سے سنجیدہ سوالات کرنا ، اخلاقیات کے دائرے میں اپنی
اختلافی رائے پیش کرنا کسی صورت شجرہ ممنوعہ نہیں ہے، لیکن اس آزادی کی کچھ
شرعی حدود بھی ہیں۔ یہ سب کچھ اُگل دینے والی ”ننگی آزادی“ نہیں، جس میں
مسلّمہ دینی احکامات کی من مانی تشریح یا خود ساختہ تاویل کی اجازت ہو۔کسی
سنت کا مذاق یا قرآنی حکم کی توہین کا تو تصور ہی کیا۔
درحقیقت دین کے شعائر و شرائع کے استہزا کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں بلکہ یہ
معاملہ تو اتنا خطرناک ہے کہ اگر کوئی مسلمان دین کے کسی قطعی و مسلّم حکم
کا استہزا یا انکار کرے تو وہ خود اسکا اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔اللہ جل
جلالہ کا فرمان ہے:
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ
نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ
تَسْتَهْزِءُوْنَ۠۰۰۶۵لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ
اِيْمَانِكُمْ١ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ
طَآىِٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَؒ۰۰۶۶( سورۃ التوبۃ:۶۵،۶۶)
ترجمہ: اگر تم ان سے پوچھوگے تویہ یقیناً کہیں گے کہ ہم تو ہنسی مذا ق اور
دل لگی کررہے تھے۔ کہو کہ: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اسکے رسول کے
ساتھ دل لگی کر رہے تھے" بہانے نہ بناؤ ، تم ایمان کے اظہار کے بعد کفر کے
مرکب ہوچکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معافی دے بھی دیں ، تو دوسرے
گروہ کو ضرور سزادیں گے"
یہ آیت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ اﷲاس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم اور شریعت
کی توہین کرنے والاکافر ہے۔لہٰذا ایسے توہین آمیز مذاکروں یا جملوں کو
فرضی کردار کا تقاضا یا معاشرے کے ایک طبقہ کی نمائندگی یا اختلافِ رائےیا
مذہبی رواداری کا عنوان دینے سے ان کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی اور نہ ہی اس
ڈھال سے اپنا ایمان بچایا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان
لانے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اللہ کے وجود اور اس کی صفات پر یقین ہو بلکہ
اس کے ساتھ ساتھ اس کی نازل کی ہوئی ہر تعلیم پر سرِ تسلیم خم کرنا بھی
ضروری ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا بھی یہ
مطلب نہیں ہوسکتا کہ صرف یہ مان لیا جائے کہ آپ مکہ میں پیدا ہوئے اور
مدینہ طیبہ میں وفات پائی بلکہ بحیثیت ِ رسول ایمان لانے کی حقیقت وہ ہے جو
قرآن نے بتائی ہے:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ
بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا
قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۶۵ ( سورۃ النساء:۶۵)
ترجمہ:(اے پیغمبر!) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں
ہوسکتے جب تک یہ باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں ۔ پھر تم جو کچھ
فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اسکے
آگے مکمل طور پر سرِ رسلیم خم کردیں"
اس آیت کی تلاوت کرکے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ قسم کھا کر فرمایا کرتے
تھے کہ اگر کوئی قوم اللہ کی عبادت کرے اور نماز ، روزہ، زکاۃ کی پابندی
کرے ، حج بھی کرے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےکسی فعل پر اعتراض کرے
یا اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے(
تفسیرِ روح المعانی:۵/ ۶۵)
کسی ایک حکم کا انکار ایمان کش اسلیے ہے کہ کفر و ارتداد مالک الملک کی
بغاوت کا نام ہے ، اور یہ حقیقت ہے کہ بغاوت جس طرح بادشاہ کے تمام احکام
کے انکار کا نام ہے اسی طرح قانون ِ شاہی کی ایک شق کے انکار کو بھی بغاوت
ہی قرار دیا جاتا ہے اگرچہ باقی سب احکام تسلیم ہوں۔ شیطان ابلیس جو اس
دنیا کا سب سے بڑا کافر ہے اس کا کفر بھی اسی قسم کا ہے کیونکہ اس نے بھی
نہ تبدیلِ مذہب کیا نہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کیا ، صرف ایک حکم سے
سرتابی کی وجہ سے مردود ہوگیا۔حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے الصارم المسلول
میںشیطان کےکفر کی یہی وجہ بتائی ہے(صفحہ:۳۶۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے بعد جو لوگ مرتد کہلائے ، جن کے خلاف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قیادت
میں صحابہ نے جہا د کیا ان میں سے اکثریت کا کفر بھی صرف فریضہ زکاۃ کے
انکار کی بنا پر تھا ورنہ تبدیلی مذہب عموماً نہیں تھا۔
مسلم معاشرے میں یہ سنگین خرابی اور شرعی معاملات پر لب کشائی بلکہ منہ
زوری کی روش اچانک ہی نہیں پیدا ہوگئی بلکہ اس کے پیچھے اغیار کی عرصہ دراز
محنت اور اپنوں کی طویل غفلت ہے۔ یورپ اورمغرب کا اسلام سے تعصب کوئی ڈھکا
چھپانہیں ۔ایک طرف تو یہود ونصاریٰ نے ہمیشہ اسلامی تہذیب وثقافت،شعائر
اسلام اورشخصیاتِ اسلام کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا مہم جاری رکھی کہ اسلام
ایک انتہاپسند،رجعت پسند اورتشدد پر یقین رکھنے والا مذہب ہے،اسلام میں
عورت کے کوئی حقوق نہیں، وغیرہ وغیرہ، تو دوسری طرف ان حاسد اور معاند
قوتوں کے فکری نمائندوں ( مستشرقین )نے بڑے اہتمام اور ریاضت کے ساتھ
اسلامی فکر اور اس کے مراجع و مصادر کے بارے میں ایسی تحقیقات کے انبار
لگادیے کہ جن کا مقصود اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ مسلمانوں کے اذہان و
قلوب میں شک کے کانٹے بو دیے جائیں۔انہوں نے اپنی تحریروں ، ادبی میلوں ،
اور علمی مذاکروں کے راستے سے دینی عقائد، تاریخی مسلّمات ، اسلامی شخصیات
اور معروف مسائل ، سب چیزوں کو مشکوک بنا دیا۔ انہوں نے پوری جانفشانی سے
اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا۔ ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ، عربی زبان تھی اس
کی شدبد پیدا کرنے کے لیے تقریباً پانچ صدیاں صرف کی گئیں؛ چنانچہ جینوا کی
کلیسا نے عربی زبان کو مختلف یونیورسٹیوں میں داخلِ نصاب کرنے کا فیصلہ کیا
اور ۱۷۸۳ء میں اس کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اصل مقصد کی یاد
دہانی کرواکر اصل کام کا آغاز کیا گیا ،اس تحریک کا نام Orientalism کادیا
گیااور اسی وقت استشراق اور مستشرق کا لفظ "شرق" سے وضع کیا گیا۔
اسی کا نتیجہ ہے آج ہمارے معاشرے میں ایک فکری انتشار ہے، وہ بنیادیں
بالکل متزلزل ہوگئیں جن پر وہ باشعور معاشرہ قائم ہوتا ہے جس کو اپنے
عقیدہ، تشخص، اور تاریخ پر ناز ہو اور اس سے کارزارِ حیات میں قوتِ مقابلہ،
ثابت قدمی، دین کی حمیت اور عزت و ناموس کا احساس ہوسکے۔ اس کی جگہ شک، بے
یقینی، بزدلی، خوف اور عافیت پسندی نے لے لی ہے ۔ مستشرقین کی اس زبردست
منصوبہ بندی کی وجہ سے آج کی نوجوان نسل اپنے ہی مذہب کے بارے میں تذبذب
اور بے یقینی کا شکار ہوتی جارہی ہے، اورمغربی اعتراضات قبول کرنے لگی ہے
اور ان اعتراضات کو اپنی گفتگو میں نقل کررہے ہیں۔رہی سہی کسر میڈیا کی
اسلام مخالف پروگرامزنے پوری کردی ہے، جن کی وجہ سے یقین کی وہ قوت ناپید
ہوتی جارہی ہے جس کے بارے میں اقبال کہ گئے:
یقین افراد کا سرمایہ تعمیرِ ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیرِ ملت ہے
بلکہ وہ تو یقین کی اہمیت اس قدر بیان کرتے ہیں کہ:
زبان سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اس یقین اور اعتماد کی فضا کو بحال کرنے اور مستقبل میں " اپنوں " کے
ہاتھوں شعائرِ اسلام کی توہین و استہزا کا راستہ رو کنے کے لیے تین فوری
اور دیرپا اقدامات کی ااشد ضرورت ہے۔
۱۔ ہمارا ملک جس طرح فرقہ واریت اور تعصب کے بھیانک عواقب سے دو چار ہے،
بہت ضروری ہے کہ میڈیا مستشرقین کے حملوں سے ہوشیار رہے اور مسلمانوں کے
اجماعی و اتفاقی عقائد و موضوعات کو عوامی سطح پر زیرِ بحث لاکر مزید
اختلاف و انتشار کا ذریعہ نہ بنیں۔ ہمارا ملک قطعاً ایسی مباحث کا متحمل
ہوسکتا ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔
۲۔ نصابِ تعلیم مسلّم عقائد وقومی مقاصد کے مطابق بنایا جائے، اس میں سے
مغرب کے ذہنی تسلط کو دور کیا جائے اور اسلامیات کا نصاب مدلّل انداز میں
مرتب کیا جائے کہ کالج یونیورسٹی کے طلبہ اپنے مذہبی احکامات کے دلائل
سمجھنے اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا منطقی جواب دینے کی صلاحیت
رکھتے ہوں۔اس اقدام کے بغیر ہمارے طلبہ یوں ہی ذہنی مرعوبیت کا شکار رہیں
گے اور اپنی پوری ثقافت، اپنے اقدار اور پورے تاریخی عہد کو حقارت سے
دیکھتے رہیں گے۔
۳۔قرآنِ کریم ، سیرت نبوی، فقہ و تصوف، صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ
مجتہدین، محدثین ، مشائخ و صوفیہ، حدیث کی اہمیت، فقہ کی تدوین، غرض ہر
موضوع سے مستشرقین کی کتابوں میں اتنا تشکیکی مواد پایا جاتا ہے جو ایک بھی
دینی گہری بصیرت سے محروم شخص کو پورے اسلام سے منحرف کردینے کے لیے کافی
ہے۔ ان کی تحریفات، فنی غلطیوں اور علمی خیانتوں کا جواب دینے کے لیے منظم
ادارے قائم کیے جائیں اوران موضوعات پر مستند محقق علمائے کرام اور
دانشوروں کی مدد سے عام فہم کتب تیار کروئی جائیں۔ دوسری طرف عوامی مجامع،
بازاروں سے متشرقین اور ان کے ہمنواؤں کی تحریرات کو تلف کیا جائے کیونکہ
میڈیا میں وقفے وقفے سے اٹھنے والے اعتراضات، ایمان کش پروگرامز کی تیاری
انہی کتب سے کی جاتی ہے۔
۳۔سب سے مؤثر علاج ہمارے پاس نظامِ مساجد کے عنوان سے موجود ہے، اسے مزید
فعال کرنے اور مساجد میں ایمانی حلقے قائم کرنے اور زیادہ سے زیادہ طبقات
کو اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایمانی نور سے تمام مادی، علمی ،
فکری ظلمتیں واضح ہوجائیں اور کسی بھی خود ساختہ"مخلص" یا " مفکر" کی
"اسلامی "تحقیقات کسی بھی فرد کو غیر مسلم نہ بناسکیں۔
ان اقدامات کا حاصل ، بقولِ اقبال:
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی |