(جنّت کا بیان(گلدستہ احادیث)
(syed imaad ul deen, samandri)
اور جو اپنے رب سے ڈرتے تھے انکی
سواریاں گروہ گروہ جنت کی طرف چلائی جائینگی یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے
اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہونگے اور اسکے دروغہ ان سے کہیں گے کہ سلام تم
پر تم خوب رہے تو جنت میں جاؤ ہمیشہ رہنے کے ليے اور جنتی کہیں گے کہ سب
خوبیاں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیااور ہمیں زمین کا
وارث کیا کہ ہم جنت میں رہیں جہاں چاہیں تو کیا ہی بہترین بدلہ ہے نیک عمل
کرنےوالوں کا اور تم فرشتوں کو دیکھو گے عرش کے آس پاس حلقہ باندھے اپنے رب
کی تعریف کے ساتھ اسکی پاکی بول رہے ہونگے اور لوگوں میں سچا فیصلہ
کردیاجائیگا اور (ہر طرف) سے یہی کہاجائے گا کہ سب خوبیاں اللہ کے لیے ہیں
جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے(پ24،الزمرآیت75)
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جہنم میں لے جانے والے عقائد و اعمال سے توبہ کرے
اور کبھی بھی ان اعمال کا مرتکب نہ ہو اور جنت میں لے جانے والے عقائد و
اعمال پر مستقیم رہ کر ان عقائد و اعمال کا زندگی بھر پابند رہے۔
جنت ایک مکان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے، اس میں وہ
نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسی ۱ ؎
آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔ (1) جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے
سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ ۲ ؎ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز
کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔ وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے تو
زمین سے آسمان تک روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور چاند سورج کی
روشنی جاتی رہے اور اُس کا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر۔ (2) اور ایک روایت
میں یوں ہے کہ اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے
حسن کی وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرے تو
اسکی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہو جائے جیسے آفتاب کے سامنے چراغ (3) اور
اگر جنت کی کوئی ناخن بھَر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس
سے آراستہ ہو جائیں اور اگرجنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹادے،
جیسے آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے۔ (4) جنت کی اتنی جگہ جس میں کوڑا
(5) رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (6)
جنت کتنی وسیع ہے، اس کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی
جانیں، اِجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں ۱۰۰سو درجے ہیں۔ ہر دو درجوں میں وہ
مسافت ہے، جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ (7) رہا یہ کہ خود اُس درجہ کی
کیا مسافت ہے، اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں، البتہ ایک حدیث ''ترمذی''
کی یہ ہے: ''کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے۔
''(8)
جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ۱۰۰سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار چلتا
رہے اورختم نہ ہو۔(9) جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک بازو سے دوسرے
تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہوگی(10) پھر بھی جانے والوں کی وہ کثرت
ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چِھلتا ہوگا(11)، بلکہ بھیڑ کی وجہ سے دروازہ
چَرچَرانے لگے گا۔(12) اس میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں، ایسے صاف و
شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے۔(13) جنت کی
دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں(14)، ایک
اینٹ سونے کی، ایک چاندی کی، زمین زعفران کی، کنکریوں کی جگہ موتی اور
یاقوت۔ (15) اور ایک روایت میں ہے کہ جنتِ عدن کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے،
ایک یاقوتِ سرخ کی، ایک زَبَرْجَد سبز کی،
اور مشک کا گارا ہے اورگھاس کی جگہ زعفران ہے، موتی کی کنکریاں، عنبر کی
مٹی(16)، جنت میں ایک ایک موتی کا خیمہ ہوگا جس کی بلندی ساٹھ میل۔(17) جنت
میں چار دریا ہیں، ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا، چوتھا شراب
کا، پھر اِن سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری ہیں۔(18) وہاں کی
نہریں زمین کھود کر نہیں بہتیں، بلکہ زمین کے اوپر اوپر رواں ہیں، نہروں کا
ایک کنارہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا اور نہروں کی زمین خالص مشک کی(19)،
وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں جس میں بدبُو اور کڑواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور
پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں، آپے سے باہر ہو کر بیہودہ بکتے ہیں، وہ پاک
شراب اِن سب باتوں سے پاک و منزَّہ ہے۔(20) جنتیوں کو جنت میں ہر قسم کے
لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے، جو چاہیں گے فوراً ان کے
سامنے موجود ہو گا(21)، اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی ہو
تو اُسی وقت بُھنا ہوا اُن کے پاس آجائے گا(22)، اگر پانی وغیرہ کی خواہش
ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آجائیں گے، ان میں ٹھیک اندازے کے موافق پانی،
دودھ، شراب، شہد ہوگا کہ ان کی خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ، بعد پینے کے
خودبخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے۔ (23) وہاں نجاست، گندگی، پاخانہ،
پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل اصلاً نہ ہوں گے، ایک خوشبو
دار فرحت بخش ڈکار آئے گی، خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا، سب کھانا ہضم
ہوجائے گا اور ڈکا ر اور پسینے سے مشک کی خوشبو نکلے گی۔(24) ہر شخص کو
۱۰۰سو آدمیوں کے
کھانے، پینے، جماع کی طاقت دی جائے گی۔(25) ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر
بہ قصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری ہوگی۔(26) کم سے کم ہر شخص کے سرہانے
د۱۰س ہزار خادم کھڑے ہونگے، خادموں میں ہر ایک کے ایک ہاتھ میں چاندی کا
پیالہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہر پیالے میں نئے نئے رنگ کی
نعمت ہو گی(27)، جتنا کھاتا جائے گا لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی
، ہر نوالے میں ۷۰ ستّرمزے ہوں گے، ہر مزہ دوسرے سے ممتاز، وہ معاً محسوس
ہوں گے، ایک کا احساس دوسرے سے مانع(28) نہ ہوگا، جنتیوں کے نہ لباس پرانے
پڑیں گے، نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔(29)
پھلا گروہ جو جنت میں جائے گا، اُن کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں
رات کا چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ، جنتی سب ایک دل
ہوں گے، ان کے آپس میں کوئی اختلاف و بغض نہ ہوگا، ان میں ہر ایک کو حورِ
عِین میں کم سے کم دو بیبیاں ایسی ملیں گی کہ ستّر ستّر جوڑے پہنے ہوں گی،
پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز
دکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شرابِ سُرخ دکھائی دیتی ہے(30) اور یہ اس
وجہ سے کہ اﷲ عزوجل نے انہیں یاقوت سے تشبیہ دی اور یاقوت میں سوراخ کرکے
اگر ڈورا ڈالا جائے تو ضرور باہر سے دکھائی دے گا۔(31) آدمی اپنے چہرے کو
اس کے رُخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا اور اس پر ادنیٰ درجہ کا
جو موتی ہوگا، وہ ایسا ہو گا کہ مشرق سے مغرب تک روشن کر دے۔(32) اور ایک
روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانوں کے درمیان رکھے گا تو سینہ کی
طرف سے کپڑے اور جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا۔(33) اگر جنت کا
کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بے ہوش ہو جائے، اور لوگوں کی نگا ہیں
اس کا تحمل نہ کرسکیں(34)،
مرد جب اس کے پاس جائے گا اسے ہر بار کوآری پائے گا، مگر اس کی وجہ سے مرد
و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی(35)، اگر کوئی حور سمندر میں تھوک دے تو
اُس کے تھوک کی شیرینی کی وجہ سے سمندر شیریں ہوجائے۔(36) اور ایک روایت ہے
کہ اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو
جائیں۔(37)
جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی(38) دو حوریں
نہایت اچھی آواز سے گائیں گی، مگر اُن کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ
اﷲ عزوجل کی حمد و پاکی ہوگا(39)، وہ ایسی خوش گُلو ہوں گی کہ مخلوق نے
ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی: کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں
ہیں، کبھی نہ مریں گے، ہم چَین والیاں ہیں، کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے، ہم
راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے، مبارک باد اس کے لیے جو ھمارا اور ہم اس کے
ہوں۔(40) سر کے بال اور پلکوں اور بھَووں کے سوا جنتی کے بدن پر کہیں بال
نہ ہوں گے، سب بے ریش ہوں گے، سُرمگیں آنکھیں، تیس برس کی عمر کے معلوم ہوں
گے (41)،
کبھی اس سے زیادہ معلوم نہ ہوں گے۔(42) ادنیٰ جنتی کے لیے اَ۸۰سّی ہزار
خادم اور ۷۲بہتّربیبیاں ہوں گی اور اُن کو ایسے تاج ملیں گے کہ اس میں کا
ادنیٰ موتی مشرق و مغرب کے درمیان روشن کر دے(43) اور اگر مسلمان اولاد کی
خواہش کرے تو اس کا حمل اور وضع(44) اور پوری عمر (یعنی تیس سال کی)، خواہش
کرتے ہی ایک ساعت میں ہو جائے گی۔(45) جنت میں نیند نہیں، کہ نیند ایک قسم
کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں۔(46) جنتی جب جنت میں جائیں گے ہر ایک اپنے
اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی حد نہیں۔ پھر اُنھیں
دنیا کی ایک ہفتہ کی مقدار کے بعد اجازت دی جائے گی کہ اپنے پروردگار عزوجل
کی زیارت کریں اور عرشِ الٰہی ظاہر ہوگا اور رب عزوجل جنت کے باغوں میں سے
ایک باغ میں تجلّی فرمائے گا اور ان جنتیوں کے لیے منبر بچھائے جائیں گے،
نورکے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زَبرجَد کے منبر، سونے کے منبر،
چاندی کے منبر اور اُن میں کا ادنیٰ مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا اور
اُن میں ادنیٰ کوئی نہیں، اپنے گمان میں کرسی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر
نہ سمجھیں گے اور خدا کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں رات
کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے، کہ ایک کا دیکھنا
دوسرے کے لیے مانع نہیں اور اﷲ عزوجل ہر ایک پر تجلّی فرمائے گا، ان میں سے
کسی کو فرمائے گا: اے فلاں بن فلاں! تجھے یاد ہے، جس دن تُو نے ایسا ایسا
کیا تھا...؟! دنیا کے بعض مَعاصی یاد دلائے گا، بندہ عرض کریگا: تو اے رب!
کیا تُو نے مجھے بخش نہ دیا؟ فرمائے گا: ہاں! میری مغفرت کی وسعت ہی کی وجہ
سے تُو اِس مرتبہ کو پہنچا، وہ سب اسی حالت میں ہونگے کہ اَبر چھائے گا اور
اُن پر خوشبو برسائے گا، کہ اُس کی سی خوشبو ان لوگوں نے کبھی نہ پائی تھی
اور اﷲ عزوجل فرمائے گا: کہ جاؤ اُس کی طرف جو میں نے تمہارے لیے عزت تیار
کر رکھی ہے، جو چاہو لو، پھر لوگ ایک بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے
ہوئے ہیں، اس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ
کانوں نے سنی، نہ قلوب پر ان کا خطرہ گزرا، اس میں سے جو چاہیں گے، اُن کے
ساتھ کر دی جائے گی اور خریدوفروخت نہ ہوگی اور جنتی اس بازار میں باہم
ملیں گے، چھوٹے مرتبہ والا بڑے مرتبہ والے کو دیکھے گا، اس کا لباس پسند
کریگا، ہنوز گفتگو ختم بھی نہ ہوگی کہ خیال کریگا، میرا لباس اُس سے اچھا
ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں، پھر وہاں سے اپنے اپنے
مکانوں کو واپس آئیں گے۔ اُن کی بیبیاں استقبال کریں گی اور مبارکباد دے کر
کہیں گی کہ آپ واپس ہوئے اور آپ کا جمال اس سے بہت زائد ہے کہ ھمارے پاس سے
آپ گئے تھے، جواب دیں گے کہ پروردگار جبّار کے حضور بیٹھنا ہمیں نصیب ہوا
تو ہمیں ایسا ہی ہوجانا سزاوار تھا۔ (47)جنتی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا
تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔ (48)
اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی سواریاں اور گھوڑے
لائے جائیں گے اور ان پر سوار ہو کر جہاں چاہیں گے جائیں گے۔ (49) سب سے کم
درجہ کا جو جنتی ہے اس کے باغات اور بیبیاں اور نعیم و خدّام اور تخت ہزار
برس کی مسافت تک ہوں گے اور اُن میں اﷲ عزوجل کے نزدیک سب میں معزز وہ ہے
جو اﷲ تعالیٰ کے وجہِ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرّف ہوگا۔ (50) جب
جنتی جنت میں جا لیں گے اﷲ عزوجل اُن سے فرمائے گا: کچھ اور چاہتے ہو جو تم
کو دوں؟ عرض کریں گے: تُو نے ھمارے مونھ روشن کیے، جنت میں داخل کیا، جہنم
سے نجات دی، اس وقت پردہ کہ مخلوق پر تھا اُٹھ جائے گا تو دیدارِ الٰہی سے
بڑھ کر انھیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی۔(51)
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا زِیَارَۃَ وَجْھِکَ الْکَرِیْمِ بِجَاہِ حَبِیْبِکَ
الرَّؤُوفِ الرَّحِیْمِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتسلیمُ، اٰمین!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ ؎ یعنی بے دیکھے ورنہ دیکھ کر توآپ ہی جانیں گے تو جنہوں نے حالتِحیات
دنیوی ہی میں مشاہدہ فرمایا وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی سرے سے یہ حکم
انہیں شامل ہی نہیں، علی الخصوص صاحب ِ معراج صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۔ ۱۲
منہ
1۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، الحدیث:۲۸۲۴،
ص۱۵۱۶.
۲؎ کعبہ معظمہ، جنت سے اعلیٰ ہے اور تربتِ اطہرِ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم تو کعبہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے، مگر یہ دُنیا کی چیزیں نہیں ۔
۱۲ منہ
2۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، الحدیث:
۶۵۶۸، ج۴، ص۲۶۴. وفي روایۃ ''المعجم الکبیر'' للطبراني، الحدیث: ۵۵۱۲، ج۶،
ص۵۹
3۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أھل
الجنۃ، الحدیث:۹۷، ج۴، ص۲۹۸.
4۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ أھل الجنۃ،
الحدیث: ۲۵۴۷، ج۴، ص۲۴۱.
5۔۔۔۔۔۔ چابک ، درّہ۔
6۔۔۔۔۔۔ ( ''صحیح البخاري''، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ
وأنّہا مخلوقۃ، الحدیث: ۳۲۵۰، ج۲، ص۳۹۲).
شیخ محقق شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِھلوی علیہ ر حمۃاللہ القوی ارشادفر ما
تے ہیں: ''یعنی جنت کی تھوڑی سی اور معمولی جگہ د نیا اور اس کی ہرچیز سے
بہتر ہے ۔چابک کا ذکر اس عادت کے مطابق ہے کہ سوار جب کسی جگہ اترنا چاہتا
ہے تو اپنا چابک پھینک دیتا ہے تاکہ اس کی نشانی رہے اور دوسرا کوئی شخص
وہاں نہ اُترے۔ (''أشعۃ اللمعات''، ج۷، ص۵۰)۔
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان
فر ما تے ہیں: کوڑے سے مراد ہے وہاں کی تھوڑی سی جگہ۔ واقعی جنت کی نعمتیں
دائمی ہیں۔دنیا کی فانی پھر دنیا کی نعمتیں تکالیف سے مخلوط وہاں کی نعمتیں
خالص ،پھر دنیا کی نعمتیں ادنیٰ وہ اعلیٰ اس لیے دنیا کو وہاں کی ادنیٰ جگہ
سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ (''مراۃ المناجیح''، ج۷ ، ص۴۴۷)۔
وانظر ''المرقاۃ''، کتاب الفتن، باب صفۃ الجنۃ وأھلہا، الحدیث: ۵۶۱۳، ج ۹،
ص ۵۷۸۔
7۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ درجات الجنۃ،
الحدیث: ۲۵۳۹، ج۴، ص۲۳۸.
8۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ درجات الجنۃ،
الحدیث: ۲۵۴۰، ج۴، ص۲۳۹.
9۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ، باب إنّ في الجنۃ شجرۃ... إلخ،
الحدیث:۲۸۲۷۔۲۸۲۸، ص۱۵۱۷.
10۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، حدیث أبي رزین العقیلي، الحدیث:
۱۶۲۰۶، ج۵، ص۴۷۵.''حلیۃ الأولیاء''، الحدیث: ۸۳۷۱، ج۶، ص۲۲۱.
11۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، أبواب صفۃ الجنۃ... إلخ، باب ما جاء في صفۃ
أبواب الجنۃ، الحدیث: ۲۵۵۷، ج۴، ص ۲۴۶.
12۔۔۔۔۔۔ ((ولیأتین علیہا یوم وہو کظیظ من الزحام)). ''صحیح مسلم''، کتاب
الزہد، الحدیث: ۲۹۶۷، ص۱۵۸۶.
13۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في درجات الجنۃ
وغرفھا، الحدیث: ۲۷، ج۴، ص۲۸۱.
14۔۔۔۔۔۔ ''مجمع الزوائد''، کتاب أھل الجنۃ، باب في بناء الجنۃ وصفتہا،
الحدیث: ۱۸۶۴۲،ج۱۰، ص۷۳۲.
15۔۔۔۔۔۔ ''سنن الدارمي''، کتاب الرقائق، باب في بناء الجنۃ، الحدیث:۲۸۲۱،
ج۲، ص۴۲۹. ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ماجاء في صفۃ الجنۃ
ونعیمہا، الحدیث: ۲۵۳۴، ج۴، ص۲۳۶.
16۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، الترغیب في الجنۃ
ونعیمھا، فصل في بناء الجنۃ وترابھا وحصبائھا وغیر ذلک، الحدیث: ۳۳، ج۴،
ص۲۸۳.
17۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في صفۃ خیام
الجنۃ... إلخ، الحدیث: ۲۸۳۸، ص۱۵۲۲.
18۔۔۔۔۔۔ پ۲۶، محمد: ۱۵. ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۰۰۷۲،
ج۷ ،ص۲۴۲. وفي روایۃ ''الترمذي''کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ
أنہارالجنۃ، الحدیث: ۲۵۸۰،ج۴، ص۲۵۷. في ''المرقاۃ''، ج۹، ص۶۱۶، تحت الحدیث
19۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب وا لترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أنہار
الجنۃ، الحدیث: ۴۸، ج۴، ص۲۸۶. ''حلیۃ الأولیاء''، الحدیث: ۸۳۷۲، ج۶، ص۲۲۲،
بألفاظ متقاربۃ.
20۔۔۔۔۔۔ پ۲۶، محمد: ۱۵۔ في ''تفسیر ابن کثیر'' ج۷، ص۲۸۹، (وَسَقَاہُمْ
رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا) پ۲۹، الدہر:۲۱. (یَتَنَازَعُوْنَ فِیْہَا
کَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَاْثِیْمٌ) پ۲۷، الطور:۲۳.
(بِاَکْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ وَکَاْسٍ مِّن مَّعِیْنٍ لَا یُصَدَّعُوْنَ
عَنْہَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ) پ۲۷، الواقعۃ: ۱۸۔۱۹. (یُطَافُ عَلَیْہِمْ
بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ بَیْضَاءَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِیْنَ لَا فِیْہَا
غَوْلٌ وَّلَا ہُمْ عَنْہَا یُنْزَفُونَ) پ۲۳، الصفت: ۴۵۔۴۷.
21۔۔۔۔۔۔ (وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ اَنْفُسُکُمْ) [پ۲، فصلت: ۳۱]،
وفي ''تفسیر ابن کثیر''،ج۷، ص۱۶۲،
22۔۔۔۔۔۔ (وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ) پ۲۸، الواقعہ: ۲۱. ''الدر
المنثور''، ج۸، ص۱۱. ''الترغیب وا لترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في
أکل أھل الجنۃ وشربھم وغیر ذلک ، الحدیث: ۷۳، ج۴، ص ۲۹۲.
23۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب وا لترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أکل أھل
الجنۃ وشربھم وغیر ذلک، الحدیث: ۶۶، ج۴، ص۲۹۰.
24۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأھلہا، باب في صفۃ الجنۃ
... إلخ، الحدیث: ۲۸۳۵، ص۱۵۲۰. وفي روایۃ ''المسند'': الحدیث: ۱۹۲۸۹، ج۷، ص
۷۶
25۔۔۔۔۔۔ ''المسند للامام احمد بن حنبل''، الحدیث: ۱۹۲۸۹۔۱۹۳۳۳، ج۷، ص۷۶
و۸۴.
26۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في صفات
الجنۃ... إلخ، الحدیث: ۲۸۳۵، ص۱۵۲۱. وفي ''فتح الباري''، ج۷، ص۲۶۷،
27۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب وا لترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أکل أھل
الجنۃ وشربھم وغیر ذلک، الحدیث: ۷۰، ج۴، ص۲۹۱. و''حلیۃ الأولیاء''، الحدیث:
۸۲۴۶، ج۶، ص ۱۸۸.
28۔۔۔۔۔۔ روکنے والا۔
29۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في دوام نعیم
أھل... إلخ، الحدیث: ۲۸۳۶، ص۱۵۲۱.
30۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ
وأنّھا مخلوقۃ، الحدیث: ۳۲۵۴، ج۲، ص۳۹۳. وفي روایۃ ''المعجم الکبیر''
للطبراني: الحدیث: ۱۰۳۲۱، ج۱۰، ص۱۶۰۔۱۶۱.
31۔۔۔۔۔۔ (کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ) [الرحمن :۵۸] ''سنن
الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ نساء أھل الجنۃ، الحدیث:
۲۵۴۱، ج۴، ص۲۳۹.
32۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۱۷۱۵، ج۴، ص۱۵۰.
33۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء
أھل الجنۃ، الحدیث: ۹۶، ج۴، ص۲۹۸.
34۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في ثیابہم
وحللہم، الحدیث: ۸۴، ج۴، ص۲۹۴.
35۔۔۔۔۔۔ ((ولا یأتیھا مرۃ إلاّ وجدھا عذراء ما یفتر ذکرہ ولا یشتکي
قبلھا)).
''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، الترغیب في الجنۃ ونعیمھا،
الحدیث: ۹۶، ج۴، ص۲۹۸.
36۔۔۔۔۔۔ عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:
((لو أنّ حوراء بزقت في بحر لعذب ذلک البحر من عذوبۃ ریقھا)). ''الترغیب
والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أھل الجنۃ، الحدیث:
۹۸، ج۴، ص۲۹۹.
37۔۔۔۔۔۔ عن ابن عباس موقوفاً قال: ((لو أنّ امرأۃ من نساء أھل الجنۃ بصقت
في سبعۃ أبحر لکانت تلک الأبحر أحلی من العسل)).
''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أھل الجنۃ،
الحدیث: ۹۹، ج۴، ص۲۹۹.
38۔۔۔۔۔۔ یعنی پیروں کی طرف۔
39۔۔۔۔۔۔ عن أبي أمامۃ، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:((ما من عبد یدخل
الجنۃ إلاّ [ویجلس] وعند رأسہ وعند رجلیہ ثنتان من الحور العین یغنیان
بأحسن صوت سمعہ الإنس والجن، ولیس بمزامیر الشیطان، ولکن بتحمید اللہ
وتقدیسہ)).
''مجمع الزوائد''، کتاب أھل الجنۃ، باب ما جاء في نساء أھل الجنۃ... إلخ،
الحدیث: ۱۸۷۵۹، ج۱۰، ص۷۷۴.
''المعجم الکبیر'' للطبراني، الحدیث: ۷۴۷۸، ج۸، ص۹۵.
40۔۔۔۔۔۔ عن علي قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّ في الجنۃ
لمجتمعًا للحور العین یرفعن بأصوات لم یسمع الخلائق مثلھا، قال: یقلن: نحن
الخالدات فلا نبید، ونحن الناعمات فلا نبأس، ونحن الراضیات فلا نسخط، طوبی
لمن کان لنا وکنّا لہ)). ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في
کلام حورالعین، الحدیث: ۲۵۷۳، ج۴، ص۲۵۵.
41۔۔۔۔۔۔ عن معاذ بن جبل أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:((یدخل أھل
الجنۃ الجنۃ جرداً مرداً مکحّلین أبناء ثلاثین أو ثلاث وثلاثین سنۃ)).
''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ماجاء في سن أھل الجنۃ، الحدیث:
۲۵۵۴، ج۴، ص۲۴۴. =
''المسند للامام احمد بن حنبل'' ، الحدیث: ۹۳۸۶، ج۳، ص۳۹۳ . ''المسند
للامام احمد بن حنبل''، الحدیث: ۲۲۰۸۵، ج ۸ ،ص۲۳۷.
42۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء مالأدنی أھل الجنۃ
من الکرامۃ، الحدیث:۲۵۷۱، ج۴، ص ۲۵۴.
43 ۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ما لأدنی أھل الجنۃ
من الکرامۃ، الحدیث: ۲۵۷۱، ج۴، ص۲۵۴.
44۔۔۔۔۔۔بچے کاماں کے پیٹ میں ٹھہر نا اور اس کی پیدائش۔
45۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ما لأدنی أھل الجنۃ
من الکرامۃ، الحدیث: ۲۵۷۲، ج۴، ص۲۵۴.
46۔۔۔۔۔۔ ((النوم أخو الموت، وأھل الجنۃ لا ینامون)). ''المعجم الأوسط ''
للطبراني، الحدیث: ۹۱۹، ج۱، ص۲۶۶.
47۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في سوق الجنۃ،
الحدیث:۲۵۵۸، ج۴، ص۲۴۶.
48۔۔۔۔۔۔ ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في تزاورہم
ومراکبہم، الحدیث: ۱۱۵، ج۴، ص۳۰۴.
49۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ،باب ماجاء فيصفۃ خیل
الجنۃ،الحدیث:۲۵۵۳، ج۴، ص۲۴۴. ''الترغیب والترھیب''، کتاب صفۃ الجنۃ
والنار، فصل في تزاورہم ومراکبہم، الحدیث:۱۱۴، ج۴، ص۳۰۳.
50۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب منہ، الحدیث: ۲۵۶۲، ج۴،
ص۲۴۹.
51۔۔۔۔۔۔ ''صحیح المسلم''، کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المومنین في
الآخرۃ...إلخ، ص۱۱۰، الحدیث:۱۸۱. و''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما
جاء في رؤیۃ الرب تبارک وتعالٰی، الحدیث:۲۵۶۱، ج۴، ص۲۴۸.
|
|