خواجہ سرائوں سے متعلق سیمینار ' تحقیر اور مذاق
(musarrat ullah jan, pesahwar)
جب کسی شخص کو اس کی جسمانی ساخت
کی بناء پر مخصوص روزگار کیلئے مختص کیا جائے اور اس پر دیگر کاروبار
اورملازمت کے مواقع بھی بند ہوںساتھ میں ستم ظریفی یہ ہو کہ اسے معاشرے میں
وہ مقام حاصل نہ ہو جو کہ عام لوگوں کو حاصل ہوں ' ویسے ہمارے معاشرے میں
عام شہری کو کونسے حقوق حاصل ہے لیکن پھر بھی جتنے حقوق حاصل ہے اس جیسے
نارمل انسانوں کے حقوق حاصل نہ ہو تو ایسے لوگ کیا کرینگے-میں ذکر کررہا
ہوں اپنے معاشرے میں اردگرد پھیلے ہوئے خواجہ سرائوں کا ، جن کا اس طرح کی
پیدائش میں ان کا کوئی دوش نہیں - لیکن ہمارے معاشرے میں ان جیسے لوگوں کو
کن القابات اورکن نظروں سے دیکھا جاتا ہے اس کا مزید اندازہ گذشتہ روز
پشاور پریس کلب میں منعقدہ ایک سیمینار میں ہوا- جس میں صوبہ بھر کے مختلف
علاقوں سے آنیوالے خواجہ سرائوں نے شرکت کی اور اپنی مشکلات سے آگاہ کیا-
پریس کلب کے پروگرام میں شرکت کے دوران میں خواجہ سرائوں کی مشکلات سنتے
ہوئے اپنے بچپن کی یادوں میں پہنچ گیا جب ہماری سکولنگ کے دوران چھٹی کلاس
میں ایک لڑکا جو انتہائی شریف تھا وہ بھی ایسا ہی تھا اس کے ہاتھ ہلانے کا
انداز ' بات کرنے کاانداز ' اس بات پر لوگ اسے چھیڑتے تھے اور وہ کھیل کے
میدان میں ایک سائیڈ پر بیٹھ کر ہمیں دیکھتا تھا- پتہ نہیں اب کہاں ہوگا
لیکن اپنے کلاس میں سب سے زیادہ گپ شپ کرنے والا اور شریف لڑکا وہی تھا کسی
کے ساتھ زیادتی نہیں کرتاتھالیکن پھر بھی لوگ اسے چھیڑتے اور میں کبھی
کبھار اس کی سائیڈ بھی لیا کرتا تو میرے ساتھی مجھے بھی چھیڑتے کہ خیر تو
ہو کہ اس کی سائیڈ لے رہے ہوں اور میں شرمندگی کے مارے کھل کر اس کا ساتھ
بھی نہیں دے پاتاتھا-
پھر غم روزگار کے چکر میں ایک اخبار میں ایسے ہی فرد سے ملاقات ہوئی جو
میرے ایک نزدیکی دوست کا انتہائی قریبی ساتھی تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ اسکے
اطوار و انداز زمانے کے مروجہ اصولوں سے مختلف تھے لوگ اسے چھیڑتے مگرمیرا
ساتھی اس کا ساتھ دیتا - اس کی بدقسمتی یہی تھی کہ آٹھ بہنوں کا اکلوتا
بھائی تھا اور بہنوں کے سائے پلتے بڑھتے اس کی چال ڈھال میں تبدیلی آگئی
اسی بناء پر لوگ اس کا مضحکہ اڑاتے اور تنگ کرتے لیکن بڑے دل کا مالک تھا
کسی کی برائی نہیں کرتاتھا- اپنے دوست کے توسط سے میری اس سے دوستی ہوئی او
ر یہ دوستی آج تک قائم و دائم ہے میرا وہ دوست آج دو بچوں کا والد ہے اور
اچھی پوسٹ پر تعینات ہیں لیکن پھر بھی معاشرے میں اسے وہ مقام حاصل نہیں
کیونکہ جہاں بھی وہ جاتا ہے اسے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے-
سول سوسائٹی کی جانب سے پشاور پریس کلب میں ہونیوالے سیمینار میں شرکت
کیلئے جب میں دفتر سے نکلنے لگا تو میرے کچھ ساتھیوں نے مجھے چھیڑتے ہوئے
کہا کہ خیر تو ہو آج پھر سرپرست بنے ہوئے ہو اور میں اپنے دوستوں کی باتیں
سنی ان سنی کرتا ہوا پریس کلب پہنچا جہاں پر معاشرے کے دھتکارے ہوئے بہت
سارے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہیں ہم خواجہ سراء کہتے ہیں ان میں کچھ
بزرگ خواجہ سراء بھی موجود تھے' جنہوں نے اپنے مسائل بیان کئے جن کا کہنا
تھا کہ ان کی پیدائش میں ان کا کوئی قصور نہیںاللہ تعالی نے ہمیں ایسے پیدا
کیا ہے کوئی شوق سے خواجہ سرا نہیں بنتا ' ایک خواجہ سرا اپنی مشکلات بیان
کرتے ہوئے رو پڑا اور کہا کہ اگر کوئی خواجہ سرا بننا چاہے ت وہ ایک کروڑ
روپے دینے کو تیار ہے کوئی خواجہ سرا تو بنے- تاکہ اسے پتہ چلے کہ یہ کیسا
دکھ ہوتا ہے کہ نہ تو ہمیں مرد اپنا تے ہیں اور نہ ہی ہمیں عورت ذات اپناتی
ہیں- اگر حکومت بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کرتی تو ہمارے لئے خواجہ سرا کا
لفظ شناختی کارڈ میں لکھے اور ہمارے شناختی کارڈ بنائے-لیکن حکومتی عدم
تحفظ کا رونا رونے والے ان خواجہ سرائوں کا موقف ہے کہ عام لوگوں کی بہ
نسبت ہمارا شناختی کارڈ بھی نہیں بنتا اور اگر کاغذات مکمل بھی ہوں تو پھر
ہماری تصدیق کوئی نہیں کرتا- پختون معاشرے میں رہتے ہوئے ہم گھر والوں سے
دور رہتے ہیں کیونکہ ہماری وجہ سے ہمارے بہن بھائیوں 'ماں باپ اور رشتہ
داروں کو لوگ طعنے دیتے ہیں کہ تمھار ا ہاں ہیجڑا ہوا ہے جسے سن کر بعض
اوقات ہمار ے گھر والے ہمارے مارتے ہیں اور بعض اوقات ایسی نظروں سے دیکھتے
ہیں کہ اپنے آپ سے گھن آتی ہیں لیکن ہم کریں بھی تو کیا کریں-ایسے معاشرے
میں جہاں ہر کوئی روزگار کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف عمل ہے اب خواجہ سرا
روزگار کیلئے نکلتے ہیں تو انہیں روزگار نہیں ملتا- انہیں اتنا تنگ کیا
جاتا ہے کہ وہ مجبورا میوزک اور ڈانس تک محدود رکھا جاتا ہے یا پھرہمارے
کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ انہیں"جنس"کی منڈی سمجھتے ہیں- اوربعض لوگ اپنی
جنسی ہوس بجھانے کیلئے کہیں پر انہیں زبردستی زیادتی کا نشانہ بھی بناتے
ہیں-
سیمینار کے دوران پتہ چلا کہ پشاور میں اس وقت چھ سو کے قریب خواجہ سراء
موجود ہیں اور صوبے کے اٹھارہ اضلاع میں کئے گئے سروے میں ہزاروں خواجہ
سراء ہیں جن کی اپنی اپنی چھوٹی تنظیمیں ہیں لیکن سرکاری طور پرانہیں
پوچھنے والا نہیں نہ ہی رجسٹرڈطورپران کی تعداد سرکاری کاغذات میں موجود
ہیں- ایک خواجہ سراء جس کی بینائی ختم ہو چکی تھی اور شادی شدہ تھا
وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے علاقے سے تعلق تھا آج وہ روزگار کیلئے رو رہا
تھا نہ تو اسے نوجوانی میں کوئی روزگار ملا مجبورا میں ڈانس اور میوزک کی
جانب چلا گیا اور آج اس حال میں ہے کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ اور زکواة کی
اامداد کیلئے بھی دہائی دے رہا تھا- صوبے کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے
خواجہ سرائوں نے بتایا کہ پاپی پیٹ ہر ایک کیساتھ لگا ہوا ہے اگر معاشرے کا
کوئی شخص انہیںرقم دے سکتا ہے تو وہ گھر بیٹھنے کو بھی تیار ہے لیکن کوئی
انہیں مہینے کے ایک ہزار روپے دینے کو بھی تیار نہیں-ایک خواجہ سرا نے کہہ
دیا کہ "ہیجڑے سے ہم خواجہ سرا"ہوگئے ہیں یعنی ہماری عزت ہوگئی ہیں ورنہ
پہلے تو ہم ہیجڑے کہلائے جاتے تھے-
کچھ عرصہ قبل ایک اخبار کے کلر ایڈیشن کیلئے کئے جانیوالے خواجہ سرائوں کے
انٹرویو میں ایسے خواجہ سرا سے بھی ملاقات ہوئی تھی جس کا تعلق ایسے ضلع سے
ہے جن کے لوگ سیاست کے میدان میں نمایاں مقام رکھے ہیں وہ خواجہ سرا اپنی
بہنوں کیلئے پشاور میں ڈانس اور میوزک کے کاروبار سے مجبورا وابستہ تھا
بقول اس کے گھر والوں کواس کے روزگار کے بارے میں نہیں پتہ ' گریجویشن تک
تعلیم حاصل کرنے والا وہ خواجہ اپنے گھر والوں کی پیٹ کی خاطر پشاور میں
موسیقی اور ڈانس کا کام کرتا تھا- اس کے بقول مہینے میں دو دن وہ گھر
گزارتا اور باقی وہ پشاور میں کام کرتا اور جب وہ گھر جاتا تو یہی ظاہر
کرتا کہ اسے پنجاب میں کسی ہوٹل میں ملازمت ملی ہیں - حالانکہ اس کی خواہش
تھی کہ اسے روزگار کسی ہوٹل میں ملے لیکن نہیں ملی تھی اور وہ مجبورا یہاں
پشاور میں موسیقی سے وابستہ تھا مہینے میں وہ گھر والوں سے جا کر چپکے سے
ملتااپنی ایک مہینے کی کمائی والدہ کو دیتا-تاکہ اس کی گھر بیٹھی بہنوں اور
والدین کی زندگی آرام سے گزرے-یعنی اس خواجہ سراء میں اتنا ایثارتھا کہ گھر
والوںکی اہمیت اس کی زندگی میں تھی لیکن ہمارے معاشرے میں اس کی قربانی کو
کوئی دیکھنے والا نہیں تھا ہاں اسکے اانداز کو تحقیر اور مذاق کا اڑانے
والے ہم سب لوگ ہی تھے-
سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ ا س معاشرے میں جہاں ہرایک شخص اپنا آواز '
احتجاج اٹھا سکتا ہے یہ واحد طبقہ ہے کہ ان کی آواز کو بھی مضحکہ خیز انداز
میں پیش کیا جاتا ہے میڈیا بھی ان جیسے لوگوں کو وہ مقام نہیں دیتا - انہیں
معاشرے میں مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے - معاشرے میں ان کیساتھ
ہونیوالی زیادتیوں کی نشاندہی کے بجائے ان کے مذاق اڑانے والے پوز دکھائے
جاتے ہیں-ٹھیک ہے کہ یہ لوگ خواجہ سرا ہے لیکن کیا یہ لوگ انسان نہیں- بچپن
میں کان میں سنائی جانیوالی ایک اذان سے مسلمان ہونیولے ہم سب انہیں مسلمان
ماننے کو بھی تیار نہیں-اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اگرکبھی کوئی خواجہ سرا
نماز پڑھنے کیلئے مسجد آئے تو ہم لوگ کیسے اور کن نظروں سے انہیں دیکھتے
ہیں-اپنی روح کی زبان سمجھنے والوں کو "ہم" برا کہنے والے کون ہیں-
سپریم کورٹ نے ملازمتوں میں ان خواجہ سرائوں کو دو فیصد کوٹہ دینے کے
احکامات بھی جاری کئے ہیں ' شناختی کارڈ کے حصول سمیت انہیںبنیادی انسانی
حقوق دینے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں
ہورہااور یہ لوگ 2011 ء میں کئے گئے فیصلے پر عملدرآرمد کیلئے خوار ہورہے
ہیں-
سیمینار میں کافی اچھی باتیں ہوئی لیکن سب سے اچھی بات کہ ایک بہت بڑے
سرکاری افسر نے شناختی کارڈ کی تصدیق کی یقین دہانی بھی خواجہ سرائوں کو
کرائی اور ساتھ میں کہا کہ اگر کسی کو مسئلہ ہے تو خواجہ سرا اپنے مشکلات
لیکر ان کے پاس آسکتے ہیں-سیمینارمنعقد کرانے والے ادارے کی کاوشیں بھی
قابل تحسین ہیںجنہوں نے معاشرے کے اس دھتکارے ہوئے طبقے کی آواز بننے کی
کوشش کی - یقینا اس میں انہیں کافی مشکلات بھی سامنے آئینگی لیکن کسی بے
آواز کیلئے آواز اٹھانا کتنی بڑی بات ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے
ہیں جنہیں اس کا پتہ ہو- آخر میں ایک بات جو میں ایک خواجہ سرا نے انٹرویو
کے دوران مجھے بتائی تھی کہ جو لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں تو ہم اپنی چپل
الٹی کرکے بددعا دیتے ہیں کہ اے اللہ ان لوگوں کے گھر میں بھی خواجہ سرا
پیدا کرتاکہ ان لوگوں کو بھی احساس ہو کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے-
(سمجھدار کیلئے اشارہ ہی کافی ہے(
|
|