حساب کرنے اور حساب دینے میں بڑا فرق ہے ۔ حساب کرنے کے
ہم سب بڑے ماہر ہیں ۔ بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے اس کے بعد ہم سب
پروفیشنل آؤٹیر بن جاتے ہیں ۔ حساب دینے کی فکر کرنے والے گزرگئے ۔ سلطان
بن عبد الملک کا بیٹا حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا ۔ اس کی زمین خلیفہ
نے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے ضبط کرلی تھی ۔ اس نے آکر درخواست کی کہ
امیرالمومنین ! آپ مجھے میری زمین واپس فرما دیں ۔ آپ مجھے میری زمین واپس
کیوں نہیں کرتے آپ نے بڑے تحمل کے ساتھ جواب دیا کہ اگر تمہارے پاس زمین کی
ملکیت کی کوئی دستاویزہے تو پیش کرومیں کون ہوتا ہوں کہ دستاویزدیکھنے کے
باوجود تمہیں تمہاری زمین واپس نہ لوٹانے والا ۔دستاویز دکھاؤ اور زمین لے
لو ۔ اس نے جب یہ سنا تو اپنی آستین سے ایک دستاویز نکال کر آپ کے حضور پیش
کی ۔ حضرت عمر نے دستاویز کو دیکھا اور فرمایا کہ اس دستاویز کی زمین کس کی
ہے ۔ کلیمنٹ نے جواب دیا کہ حجاج کی ۔ یہ سن کر خلیفہ نے فرمیا کہ پھر تو
اس کے صحیح حقدار مسلمان ہیں ۔ خلیفہ کے اس جواب کے بعد سلیمان کا لڑکا
خاموش ہوگیا ۔ لا جواب ہو کر اس نے خلیفہ سے دستاویز واپس مانگی ۔ خلیفہ نے
فرمایا کہ یہ دستاویز تم نے خود پیش کی جب تک یہ تمہارے پاس رہے گی تم اپنا
یہ غلط اور ناجائز مطالبہ دہراتے رہوگے ۔ لہذا اب یہ دستاویز تمہیں واپس
نہیں ملے گی ۔ قصہ مختصر یہ کہ خلیفہ عمر ثانی نے سلیمان کے بیٹے کے ساتھ
بھی وہی معاملہ کیا جو دیگر زمینوں پر قابض امراء کے ساتھ کیا تھا مسلمان
کا بیٹا خاموش ہو کر آپ کے سامنے رونے لگا ۔ اس کا رونا دھونا دیکھ کر بھی
آپ نے انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ آپ کا غلام یہ سب منظر دیکھ
رہا تھا جب سلمان کا بیٹا چلا گیا تو نے خلیفہ عمر ثانی سے کہا کہ
امیرالمومنین آپ سلیمان کے بیٹے کے ساتھ یہ برتاؤ کر رہے ہیں اور آپ کو اس
کے رونے پر بھی ترس نہیں آیا ۔ کی بات سن کر عمرثانی نے لازوال جواب دیا آپ
نے فرمایا ۔
میں سلیمان کے بیٹے کیلئے اسی قدر شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جس قدر اپنی
اولاد کے لئے رکھتا ہوں لیکن کیا کروں معاملہ دین کا ہے کل اﷲ کو حساب دینا
ہے ابو ایوب سلیمان بن عبدالملک کو اس کے باپ نے ولید کے بعد خلیفہ مقرر
کیا اسی سلیمان بن عبدالملک نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکومت کی بیعت
اپنی زندگی میں 99ہجری میں لے لی تھی گویا سلیمان بن عبدالملک نے ہی حضرت
عمر بن عبدالعزیز کا بطور خلیفہ نہ صرف انتخاب کیا بلکہ آپ کے لئے اپنی
زندگی میں ہی بیعت بھی لی ۔ پھر اپنی حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قانون اور
حکومتی معاملات میں سلیمان کے بیٹے کو زمین کی ملکیت دینے سے انکار فرمایا
۔ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنا بڑا ہی مشکل کام ہے ۔ بنو امیہ کے بڑے
خلفاء گزرے لیکن جو مقام حضرت عمر بن عبدالعزیز کو حاصل ہوا وہ کسی اور کو
نہ حاصل ہوسکا ۔ اگر ان کے دور کے واقعات کااحاطہ کیا جائے تو آپ نے حساب
لینے اور دینے میں دونوں طرح ناپ تول سخت رکھا نہ کسی کو رعائت دی نہ ہی
خود کو کسی پیمانے سے آزاد سمجھا ۔ آپ کے دور میں بھیڑیوں اور بکریوں کو
ایک ساتھ پھرتے دیکھا گیا ۔ نہ بھیڑیں بھیڑیاؤں سے ڈرتیں نہ ہی بھیڑئیے
بکریوں اور بھیڑوں کو نقصان پہنچاتے ۔سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے غلام
کا کہنا ہے کہ ایک دن مجھے آپ کی بیوی محترمہ نے کھانے کے لئے مسور کی دال
دی تو میں نے شکوہ کیا کہ مجھ سے ہر روز مسور کی دال نہیں کھائی جاتی تو
انہوں نے فرمایا کہ بیٹے امیرالمومنین یہی مسور کی دال خوراک میں کھاتے ہیں
۔ ایک دن آپ نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ فاطمہ ! اگر تمہارے پاس ایک درہم ہو
تو لے آؤ آج انگور کھانے کی تمنا ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے پاس
بھلادرہم کہاں ہیں کیا آپ امیر المومنین ہوکر بھی ایک درہم نہیں رکھتے کہ
اس سے انگور خرید لیں ۔
آہ کیا وہ لوگ تھے ایک کیا ہم ہیں ان کے جانشین ہونے کے دعوے دار ۔ ہم تو
اس قابل بھی نہیں کہ ان کو اپنا اسلاف بھی کہہ سکیں ۔ آج کی سیاست پر ذرا
نظر دوڑائیں تو ناانصافیوں کی گندی دلدل پر نظر پڑتے ہی انصاف کی چیخ نکل
جاتی ہے ۔ بیٹے بیٹیاں نواسے بیگمات بھتیجے بھانجے سب ہی ننگوٹ کس کر
سرکاری خزانے پر حملہ آور ہیں ۔ خان صاحب کے علاوہ کسی میں جرات ہی نہیں یا
ہمت ہی نہیں کہ کسی کو روک کر کہہ سکیں کہ باپ کے عہدے کا یہ مطلب نہیں کہ
تمام لوگ دن رات عیاشیوں کی سبیل سمجھ کر سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال
شروع کردو ۔ ذرا سا احتساب کیا شروع ہوا ہے ہر طرف چیخ و پکار مچی ہے ۔
پارٹی ٹکٹ لینے کے بعد میں نے آج تک کسی ممبر کو حق بات پارٹی سربراہان کے
سامنے کہتے نہیں دیکھا ۔ اگر کبھی کسی نے مفادات کے اندھے پن میں مبتلاہوکر
پارٹی لیڈرز کی طرف انگلی اٹھا بھی دی تو گھڑی سے پہلے اسے پارٹی سے نکال
باہر کیا گیا اور رکنیت کینسل کردی گئی ۔ سادگی کا یہ عالم ہے کہ پروٹوکول
قافلے دیکھ کر لوگ ہمیں رجتے ہوئے بھکاری قرار دیکر امداد دینے سے دور بھاگ
رہے ہیں ۔دن رات ہر طرف مباحثے ہور ہے ہیں کہ ملک کیوں پیچھے سے پیچھے جاتا
جا رہا ہے ۔ ہر دانشور ہر روز ملکی زوال کی نئی وجوہات تراش رہے ہیں ۔ ایک
طرف سربراہان مملکت سائیکلوں پر سوار ہوکر امور مملکت انجام دینے آرہے ہیں
دوسری طرف ہم نے چوروں کو حکمرانی کرنے کی نہ صرف کھلی چھٹی دے رکھی ہے
بلکہ ہر طرح کے ان نالائقوں کے ناز نخرے بھی خوشی خوشی اٹھا رہے ہیں ۔
اسلاف کی میراث سنبھال کر رکھنا تو دور کی بات الٹا ہم تو اسلاف کی عزت
ڈبونے کی دن رات کوشش کر رہے ہیں ۔ درخشاں ماضی کی یاد میں آہیں بھرنے کی
بجائے کرتوتوں کو سدھارنے پر ذرا سی توجہ دیں تو آج بھی ترقی کا راستہ کوئی
ہم سے پوشیدہ نہیں جس قوم کے خادم اقتدار کی ہوس اور پروٹوکول کے ٹھرک میں
مبتلا ہوں وہاں ترقی کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوتا عوام آقا ہوتی ہے اور
حکمران آقا کے نوکر ہوتے ہیں ۔ترتیب الٹ چکی ہے عوام کو دن رات احساس دلایا
جات ہے کہ تمہاری حیثیت کمی کمین سے زیادہ کچھ نہیں ۔ عوام کا ردعمل بڑا
کول اور پرسکون ہے ۔ ایسے خاموش آتش فشاں اچانک ہی پھٹا کرتے ہیں پھر محلوں
میں نہ ہی کسی گھر میں پناہ ملتی ہے نہ ہی کوئی محل عوام کے ہاتھوں کی
چنگاریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ ہمارے ترقی کے زینے سرخ قالین کی دین ہونگے
فیتے گم ہوچکے ہیں یہ ریڈ کارپٹس ہٹنے کی دیر ہے راستہ بڑا واضح ہے ۔
معمولی سے حساب کتاب سے آہ دفغاں مچی ہے اگر کسی دن سچ مچ احتساب شروع
ہوگیا تو یہاں کوئی اونچے طرحے والا باعزت نہیں رہے گا کسی کو ایک فقرے نے
تاریخ میں امر کردیا کہ معاملہ دین کا ہے آخرت میں اﷲ کو حساب دینا ہے ۔
حساب کتاب پر ہی یہ دنیا قائم ہے اور اگلی دنیا میں فیصلہ بھی حساب کتاب پر
موقوف ہے۔ |