دنیا میں کون شخص ہے جس کو کبھی نہ کبھی تنہا ہونے کا
احساس نہیں ہوتا، کوئی ایسا لمحہ جو اسے زندگی میں سماجی طور پر کسی سے بھی
جڑے نہ ہونے کا احساس دلاتا ہے اور اس وقت یہ دنیا جو بظاہر بہت بڑی نظر
آتی ہے دشمن محسوس ہونے لگتی ہے اور ہم خود کو بہت چھوٹا محسوس کرنے لگتے
ہیں۔ تنہائی یا تنہا ہونے کا احساس ہر شخص پر مختلف انداز سے اثر انداز
ہوتا ہے اور یہ ایسا چکر ہے جو شروع ہوتا ہے تو اس کا اختتام نہیں ہوتا،
یہاں تک کہ جانوروں کے لیے بھی یہ احساس جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔تاہم زندگی
کے اس احساس کو سمجھنا آپ کو کسی تاریک غار کی گہرائیوں میں ڈوبنے سے
بچانے میں مددگار بھی ثابت ہوسکتا ہے جبکہ دنیا میگزین کی ایک رپورٹ کے
مطابق تنہائی کے کچھ اثرات آپ کو دنگ بھی کرسکتے ہیں۔
|
|
تنہا رہنے کی بجائے برقی جھٹکے قبول
ایک منٹ کے لیے تصور کریں کہ آپ کے پاس کچھ کرنے کے لیے نہ ہو،
کہیں جا نہ سکتے ہوں اور کوئی بھی آپ سے بات نہ کرنا چاہتا ہو، آپ کا کام
ہی بس ایک کمرے میں بیٹھ کر سوچنا ہو یا خیالی پلاؤ بنانا ہو۔ اب بتائیں
کیا آپ اپنے ذہن میں گم رہ کر زندہ رہنا پسند کریں گے ، سننے میں زبردست
لگتا ہے نا؟ مگر ایسا کرنا عملی طور پر انسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔ ہاورڈ
یونیورسٹی اور ورجینیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بیشتر افراد کی نظر میں
یہ تصور ہی ناقابل برداشت ہے بلکہ بیزارکن ہے چاہے اس سے بچنے کے لیے انہیں
خود تکلیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے وہ اس سے گریز بھی نہیں کریں گے۔ اس تحقیق
کے دوران 18 سے 77 سال کی عمر کے افراد پر تجربات کرتے ہوئے انہیں چھ سے 15
منٹ تک ایک کمرے میں تنہا بیٹھنے کے لیے کہا گیا اور عمر کے فرق سے ہٹ کر
نتائج یکساں ہی رہے۔ ان افراد کے لیے سوچنا مشکل ہوگیا، توجہ مرکوز کرنا
مشکل ہوگیا، وہ انتہائی بیزاری اور خود کو مشکل میں محسوس کرنے لگے۔ دلچسپ
بات یہ ہے کہ ایسے افراد خود کو تھکاوٹ کا شکار اور ذہنی انتشار میں مبتلا
محسوس کرنے لگے جس کے باعث ان کے لیے سوچنا مشکل ہوگیا۔ محققین کا کہنا ہے
کہ اپنے گھروں میں بھی لوگ ایسے حالات میں موسیقی سن کر یا موبائل فون پر
گیمز کھیل کر اپنی توجہ بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر اس تجربے کی خاص بات
یہ تھی کہ رضاکاروں کو آپشن دیا گیا کہ اگر وہ اس کمرے سے نکلنا چاہتے ہیں
تو انہیں ایک بٹن دبانا ہوگا جس سے ایک برقی شاک لگے گا مگر انہیں باہر
نکال لیا جائے گا۔ تجربے کے شروع میں پیسے ملنے کے باوجود رضاکاروں نے برقی
جھٹکا کھانے سے انکار کردیا تھا مگر تجربے کے دوران انہوں نے تنہا رہنے کے
احساس پر کرنٹ کھانے کو ترجیح دی حالانکہ اس کمرے میں انہیں صرف 15 منٹ ہی
گزارنے تھے۔
تنہائی ایک بیماری کی طرح پھیلتی ہے
آپ نے ایسی فلمیں تو دیکھی ہوں گی جن میں زومبیز یا زندہ مردے کا مرض دنیا
بھر میں پھیل جاتا ہے اور تنہائی کا احساس بھی کسی مرض کی طرح پھیل سکتا
ہے۔شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تنہائی بھی ایک خطرناک جراثیم کی طرح
پھیل سکتی ہے، اس کا آغاز آپ کی حوصلہ شکنی سے ہوتا ہے اب چاہے وہ کسی
دوست کا کوئی جملہ ہو یا کچھ اور جو غیر اطمینان بخش ہو۔اگر آپ کا مزاج
خوشگوار ہے تو ہوسکتا ہے کہ آپ ان چیزوں کا نوٹس نہ لیں مگر کسی اداس دن
پر یہ براہ راست آپ کے دل پر حملہ کرتی ہیں، یہ ذہن سے چپک جاتی ہیں اور
اکثر دوستوں سے تعلقات بھی اس وجہ سے بگڑ جاتے ہیں جبکہ اسی مزاج کے ساتھ
آپ دیگر افراد کو بھی اسی احساس کا شکار کردیتے ہیں۔ محققین کے مطابق
تنہائی کے شکار افراد لاشعوری طور پر اپنے اقدامات سے خود کو مزید تنہا
کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ چیز سماجی تناؤ کا باعث بنتی ہے جس کا شکار دیگر
افراد ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق یہ احساس بالکل کسی چھوت کے مرض کی طرح ایک
سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اور اس طرح بڑے حلقے تک پھیل جاتا ہے۔ اس میں
شدت کے نتیجے میں ذہنی امراض، ڈپریشن اور تنہائی کا شدید احساس بھی شکار
بناسکتا ہے۔
|
|
تنہا افراد کا دماغ بھی مختلف ہوتا ہے
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تنہا افراد کے دماغ دیگر افراد کے مقابلے میں
مختلف ہوتے ہیں۔ شکاگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں لوگوں سے ایسے سوالات
کیے گئے جن سے ان کی تنہائی کا پتا چلایا جاسکے۔ ایسے تنہا افراد کو جب
ایسے لوگوں کی تصاویر دکھائی گئیں جو خوش باش تھے تو ان کے دماغ کے اس حصے
میں سرگرمی نہ ہونے کے برابر تھی جو مسرت اور انعام ملنے پر سرگرم ہوتا ہے۔
اس بارے میں تو محققین پر یقین نہیں کہ دماغی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ
تنہائی کا باعث بنتی ہے یا الگ تھلگ ہونے کے نتیجے میں ان کا دماغ خود کو
دیگر افراد سے کاٹ لیتا ہے مگر یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ ان کے دماغ مختلف
ہوتے ہیں۔ تنہائی سرد درجہ حرارت کے اثرات کو بھی ظاہر کرتی ہے، ٹورنٹو
یونیورسٹی کے بقول تنہا افراد کے لیے اوسط درجہ حرارت بھی زیادہ سرد ہوتا
ہے، جبکہ وہ گرم مشروبات کا بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
جانوروں کو بھی تنہائی برداشت نہیں
ہمارا خیال ہے کہ تنہائی صرف انسانوں پر ہی اثرانداز ہوتی ہے اور جانوروں
کو اس کی پروا نہیں ہوتی مگر یہ درست نہیں۔ایک تحقیق کے دوران افریقی گرے
طوطوں کو تنہا رکھا گیا تو کافی حیران کن نتائج سامنے آئے۔ تحقیق کے مطابق
تنہائی اور الگ تھلگ ہونے کا احساس ان کے جنیاتی نظام کو ہلا کر رکھ دیتا
ہے اور وہ تیزی سے موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک حالیہ تحقیق میں
یہ بات سامنے آئی کہ مختلف جانور تنہائی کے اثرات کا شکار ہوتے ہیں، ٹوکیو
یونیورسٹی کے مطابق کسی جانور کو تنہا کردینا اس کی زندگی کی مدت میں 91
فیصد تک کمی کرسکتا ہے۔جس کی وجہ خوراک کا زیادہ ہوجانا ہوتا ہے کیونکہ وہ
اپنی خوراک ایک دوسرے سے بات کر اپنے نظام ہاضمہ کو درست رکھتے ہیں مگر
تنہا ہونے پر ایسا نہیں ہوپاتا اور بس تنہائی کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔
|
|
تنہائی بھی مٹاپے کی طرح جان لیوا
تنہائی مٹاپے کی طرح جان لیوا اور روزانہ 15 سگریٹ استعمال کرنے کے برابر
صحت کے لیے خطرناک ہے۔ امریکا کی برمنگھم یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق
نوجوانوں میں تنہائی کا احساس ان کی زندگی کا دورانیہ کم کرنے کے باعث بن
جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تنہائی اور قبل از وقت موت کے درمیان
تعلق موجود ہے اور یہ خطرہ موٹاپے کے شکار افراد کے برابر ہوتا ہے جبکہ
دنیا سے کٹ جانے کا احساس صحت کے لیے تمباکو نوشی کی طرح تباہ کن ثابت ہوتا
ہے۔ محقق جولین ہولٹ لونسٹینڈ کے مطابق ہمیں اپنے سماجی تعلقات کو بہت
سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ تنہا ہوجانا صحت کے لیے انتہائی سنگین ثابت
ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تنہا افراد کی تعداد میں اضافہ
ہورہا ہے۔ محققین کا مزید کہنا تھا کہ بزرگ افراد کو تنہا کردینے کا رجحان
کافی عرصے سے عام ہے مگر اب نوجوانوں میں طلاق کی بڑھتی شرح نے ان کے اندر
تنہائی کا احساس بڑھا دیا ہے جس سے ان کے اندر مختلف جذباتی پیچیدگیاں پیدا
ہوجاتی ہیں۔
فیس بک پر بہت زیادہ شیئرنگ
تنہائی کی علامت فیس بک پر ہر قسم کا اسٹیٹس اپ ڈیٹس ہوسکتا ہے کہ دیگر
افراد کو پسند نہ آئے مگر دنیا کی مقبول ترین سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ
پر بہت زیادہ شیئرنگ کسی فرد کی جانب سے تنہائی کے اشارے کا اظہار بھی ہوتا
ہے۔نیو ساؤتھ ویلز کی چارلس اسٹیورٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 79 فیصد
افراد جو خود کو تنہا سمجھتے ہیں اپنی ذاتی معلومات جیسے پسندیدہ کتابیں،
فلمیں وغیرہ ظاہر کردیتے ہیں۔ اسی طرح تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تنہائی کے
شکار 98 فیصد افراد اپنے تعلقات کے اسٹیٹس کو دوستوں تک محدود رکھنے کی
بجائے ہر ایک کیلئے عام کردیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کا پتا بھی
شیئر کردیتے ہیں۔تحقیق کے مطابق تنہائی کے شکار افراد کو فیس بک پر اپنے
خیالات یا معلومات شیئر کر کے اطمینان کا احساس ہوتا ہے اور انہیں اپنے
عارضے پر قابو پانے میں مدد بھی ملتی ہے۔
تنہائی جسمانی دفاعی نظام اور صحت کے لئے
خطرناک قرار
تنہائی کا احساس جسم کے دفاعی نظام اور صحت کے لئے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تنہائی سے جسم میں ایسے پروٹین
کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو امراض قلب، ٹائپ ٹو ذیابیطس، الزائمر اور دیگر
امراض کا سبب بنتے ہیں۔تحقیقی ٹیم کی قائد لیزا جرمیکا کے مطابق سابقہ
اسٹیڈیز میں یہ بات تو واضح ہوگئی تھی کہ خراب رشتے متعدد طبی مسائل کا سبب
بنتے ہیں، تاہم ہماری تحقیق میں تنہائی اور رشتوں کے باہمی تعلق اور ان کے
صحت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے دوران متوسط طبقے
کے فربہ افراد اور بریسٹ کینسر سے نجات پانے والے لوگوں کے 2 گروپس کا
جائزہ لیا گیا۔ جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ سماجی قطع تعلق اور تنہائی
جسمانی دفاعی نظام کو تہس نہس کردیتی ہے اور وہ متعدد اقسام کے امراض کا
شکار ہوجاتے ہیں۔
|
|
ٹیکنالوجی سے نوجوان نسل تنہائی کی شکار
ٹیکنالوجی کے نشے میں مبتلا افراد میں تنہا زندگی گزارنے کا رجحان زور
پکڑنے لگا ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اسمارٹ فونز، آئی
پیڈ، ای میل، ایس ایم ایس اور دیگر ڈیوائسز کے باعث نوجوانوں کی جسمانی اور
سماجی سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس وقت ٹیکنالوجی کے
عادی نوجوانوں کا کسی چیز کے لئے دکان پر جانا بھی 4 گنا کم ہوگیا ہے۔
تحقیق کے مطابق 19 فیصد برطانوی نوجوان ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس حد تک گم
ہیں کہ دو ، دو روز کسی سے بات کئے بغیر گزار دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان
کے الفاظ کمپیوٹرز یا ایس ایم ایس تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ نوجوان
موبائل فون اور ٹیبلیٹ کے بغیر کہیں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، یہاں تک کہ
کھانا بھی انٹرنیٹ کے ذریعے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
دنیا کا سب سے تنہا مقام
کیا آپ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور نکل جانا چاہتے ہیں تاہم آپ کی خواہش
مکمل تنہائی کی ہو تو ؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کا سب سے الگ تھلگ
تنہا مقام کونسا ہے؟اگر نہیں تو جان لیں کہ یہ پوائنٹ نیمو ہے جو کہ جنوبی
بحراوقیانوس کے وسط میں مہر آئی لینڈ، ایسٹر آئی لینڈ اور ڈیوئس آئی
لینڈ کے درمیان واقع ہے۔ پوائنٹ نیمو کی دریافت 1992 میں سیٹلائیٹ
ٹیکنالوجی کی مدد سے اس خطے کا نقشہ تیار کرتے ہوئے ہوئی اور اس وقت اسے یہ
نام بھی دیا گیا۔ یہ مقام اوپر درج کیے گئے جزائر سے 2300 کلو میٹر کے
فاصلے پر واقع ہے اور اس میں کسی قسم کے جاندار نہ ہونے کی وجہ سے اسے دنیا
کا سب سے تنہا مقام بھی قرار دیا گیا ہے۔ |