موت کا انتظار، متوقع قاتل کون؟

مرض کوئی بھی ہو اگر اس کے علاج کے لئے جیب میں رقم نہ ہو اور کسی بااختیار فرد یا ادارے سے کوئی تعلق بھی نہ ہو تو بیمار کا وہی حشر ہوتا ہے جو قومی ادارہ امراض قلب(این آئی سی وی ڈی)اپنے علاج کے لئے آنے والے51 سالہ گل ہارون شاہ کے ساتھ ہوا ہے۔ لانڈھی کی کچی آبادی میں رہ کر چار ہزار ماہانہ تنخواہ سے گھر کے اخراجات پورے کرنے اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے والے گل ہارون کے لئے وہ لمحات انتہائی پریشان کن تھے جب یومیہ بنیادوں پر مزدوری کر کے معاش کمانے والے محنت کش کو معدہ سے اوپر بائیں جانب مسلسل تکلیف محسوس ہونا شروع ہوئی۔ کچھ دن تو اس نے برداشت کرنے کی کوشش کی لیکن پھر مزید خرابی سے بچنے اور دل کی تسلی کے لیے وہ قومی ادارہ برائے امراض قلب پہنچا۔ مختلف معائنوں کے بعد ڈاکٹر نے گزشتہ برس اکتوبر کے مہینہ میں ایکو کارڈیو گرافی(ای سی جی)ٹیسٹ کروانے کی تجویز پیش کی، اگرچہ یہ اس کے لئے مالی طور پر ایک کٹھن کام تھا لیکن مجبوراً وہ اس مشکل سے گزرنے کو تیار ہو ہی گیا۔ ٹیسٹ کی رپورٹ کیا ملی اس کے پاﺅں تلے سے زمین ہی کھسک گئی۔ گل ہارون کا دل بیمار تھا وہ دل جو انسان کو زندہ رکھنے کے لئے چند ابتدائی اعضاء میں سے ایک ہے،18اکتوبر2009ء کی وہ تاریخ تو اسے ازبر ہو ہی چکی ہے جب تشخیصی رپورٹ نے گل ہارون شاہ کو باقاعدہ مریض قرار دے دیا۔ دل کی بیماری اسے دہلا دینے کو کافی تھی لیکن جوں جوں وہ اس کے علاج کے متعلق سوچتا گیا پریشانی بڑھتی ہی گئی، اسی دوران کئی ماہ گزر گئے ڈاکٹر سے معائنے کا سلسلہ بھی جاری رہا، این آئی سی وی ڈی کے معالجین نے اسے ایک بار پھر ایکو کارڈیو گرافی کروانے کی ہدایت دی تاکہ اولین ٹیسٹ سے دو ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد اس کے مرض کی حالت دیکھی جا سکے۔ ایک بار پھر شدید آزمائش سے گزرنے کے بعد بٹگرام کے سنگلاخ پہاڑوں کا خمیر رکھنے والے اس غریب نے اپنا ٹیسٹ کروا دیا، اگرچہ اس بار تکلیف کی شدت یکساں نہیں رہی تھی لیکن نہ جانے مستقبل میں علاج پر آنے والے اخراجات کا سوچ سوچ کر وہ کیوں ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ اوئل جنوری میں کروائے جانے والے ٹیسٹ کی رپورٹ لے کر وہ اس روز خراماں خراماں ڈاکٹر کے پاس پہنچا تھا، این آئی سی وی ڈی کے برآمدے میں ڈاکٹر کے پاس نمبر آنے کا انتظار کرتے ہوئے گل ہارون کا پورا دن تقریباً گزر ہی گیا تھا، اگر اس کی جگہ اندر بیٹھے ماہرا مراض قلب ڈاکٹر کا کوئی عزیز ہوتا تو جانے وہ اسے یہ انتظار کروا پاتا یا نہیں؟ ہاں اپنے پاس دیگر مریضوں کی موجودگی کو تاخیر کا سبب قرار دینے والے ڈاکٹر کی یہ دلیل اسے مطمئین کر سکتی تھی کہ وہ اسی جیسے دیگر مریضوں کو بھی ان کی باری پر دیکھ رہا ہے۔ لیکن دو ماہ سے اسپتال کے چکر لگاتے گل ہارون کو اندازہ ہو چکا تھا کہ ابھی اگر کسی کونے سے کوئی متقدر فرد نکل کر آگیا یا کسی مریض کے ہاتھ میں کوئی بااختیار پرچی ہوئی تو ڈاکٹر صاحب سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کا معائنہ کر لیں گے، یہ ساری باتیں سوچتے غربت کا شکار ۱۵ سالہ مریض انتظار کرتا ہی رہا حتیٰ کہ اس کا نمبر آگیا، رپورٹ لے کر دروازے سے اندر تو وہ صحیح حالت میں داخل ہوا تھا، ٹیسٹ کی رپورٹ ڈاکٹر کو دیتے وقت اس کے ہاتھوں میں لغزش بھی نہ تھی لیکن جب اس ایک ورقی رپورٹ کو دیکھ کر ڈاکٹر نے اسے ایک جملہ کہا تو گویا وہ چند لمحوں کو پانے ہوش و ہوا کھو بیٹھا۔ مجبوری اور بے بسی کی مجسم تصویر داستان کے اس حصے پر پہنچ کر ہمیں یوں لگا کہ شاید ڈاکٹر نے کوئی غلط بات کہہ دی ہوگی جسے غیرت کا پتلا برداشت نہ کر پایا ہوگا، جبھی 4 ہزار میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے کی کامیاب کوشش میں مصروف گل ہارون کے حواس گم ہوئے ہوں گے۔ اسی تاثر کے تحت ہم نے پوچھ لیا کہ ڈاکٹر نے کیا کہا تھا، تو وہ غمگین سے لہجے میں گویا ہوا”ڈاکٹر نے کوئی غلط بات نہیں کی بس اس نے صرف یہ کہا تھا کہ گل ہارون شاہ تمہارے مرض کی نوعیت ایسی ہو چکی ہے کہ آپریشن کرنا پڑے گا، جس پر 95 ہزار روپے کی لاگت آئے گی، اس آپریشن کے بعد امید ہے کہ تم دوبارہ سے نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکو گے“۔انتہائی ضروری آپریشن کے لئے جو اس کی زندگی بچانے کا آخری سہارا تھا ،95 ہزار روپے کی رقم کہاں سے لائی جائے؟ کا سوال اس کی نیند اور پہلے سے ختم ہوتے سکون کو مزید غارت کر گیا، بوجھل قدموں سے ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکلنے کے بعد گل ہارون انہی سوچوں میں غلطاں چلا جا رہا تھا کہ اسے کسی نے بتا دیا کہ ”پریشان نہ ہو اگر کوئی فرد آپریشن کی رقم نہ دے سکے تو اسپتال اس کا علاج سرکاری خرچ پر کرتا ہے، تم ایک درخواست لکھ کر انتظامیہ سے کہو کہ وہ زکوة کی رقم سے تمہارے علاج کا انتظام کروائے، گل ہارون شاہ نے درخواست بھی لکھوا لی، اسے اسپتال میں جمع کروایا تو پتہ چلا کہ زکٰوة کی رقم مریض کو رجسٹرڈ کرنے کے بعد پاکستان بیت المال سے لی جاتی ہے جس کے لئے تیار شدہ فارم پر اس کے کوائف پر مبنی درخواست جمع کروائی جاتی ہے۔19 جنوری کے ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے اس کی نازک حالت کے پیش نظر 12 فروری کی تاریخ بھی آپریشن کے لئے مقرر کر دی تھی۔ اوپن ہارٹ سرجری کے لئے بس اکلوتی ضرورت رقم کا انتظام کرنے کی رہ گئی تھی۔ گل ہارون نے درخواست لکھ کر اسپتال میں جمع کروا دی، جو سوشل ویلفئیر آفیسر، کارڈٰیک سرجن اور این آئی سی وی ڈی کے ڈائریکٹر کی منظوری حاصل کر کے 28 جنوری کے فوراً بعد پاکستان بیت المال کے صوبائی دفتر کو جمع کروا دی گئی، اس درخواست کے مطابق گل ہارون شاہ کو ایم وی آر کا مرض تشخیص ہوا تھا، ایکو کارڈیو گرافی اور دیگر مراحل سے گزرنے کے بعد ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مریض کی اوپن ہارٹ سرجری کرنے ہی سے مسئلہ کا حل ہو گا، جس کے لئے بیت المال سے رقم جاری کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ مذکورہ درخواست میں اسپتال انتظامیہ نے یہ تصدیق بھی کر دی تھی کہ 51 سالہ گل ہارون شاہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جس کے سبب وہ مطلوب علاج کے لئے درکار رقم مہیا نہیں کر پا رہا، اس لئے دیگر اخراجات کو منہا کرنے کے بعد دوران آپریشن استعمال ہونے والے ڈسپوزایبل آلات وغیرہ کے لئے 95 ہزار روپے جاری کئے جائیں۔ جب کہ آپریشن اور دیگر خدمات کی ادائیگی اسپتال کی جانب سے بلامعاوضہ کئے جانے کی تفصیل بھی درخواست کا حصہ بنائی گئی تھی۔

اس درخواست کے ساتھ ہی ایک سادہ صفحہ پر مریض کے بزرگ والد کی جانب سے بھی پاکستان بیت المال کراچی کے ڈائریکٹر کو عرضداشت بھیجی گئی تھی، جس کے مطابق ہارون کے آپریشن کے لئے ڈاکٹروں نے 12 فروری کی تاریخ مقرر کر دی تھی لیکن اپنی غربت کے باعث وہ اس پر آنے والے اخراجات کا بار اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، بوڑھے والد نے اپنی اپیل میں یہ بھی کہا تھا کہ امید ہے بیت المال کے ڈائریکٹر انہیں مایوس نہیں فرمائیں گے۔

درخواست بھیجنے اور اس کے ساتھ اسپتال کی اپیل شامل ہونے کے بعد باپ بیٹا مطمئین تھے کہ ان کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور آپریشن سے قبل رقم حوالہ کر دی جائے گی، جس کے بعد گل ہارون ایک بار پھر اپنی معمول کی زندگی کو لوٹ کر گھر کے اخراجات چلانے کے قابل ہو سکے گا۔ دن، ہفتے اور ہفتے مہینوں میں ٹل گئے، آپریشن کی تاریخ آئی اور آکر گزر بھی گئی، اسپتال اور بیت المال کے دفاتر کے چکر لگا لگا کر باپ، بیٹے کی چپلیں گھس گئیں لیکن معالجین کے بعد بیت المال کے ارباب اختیار نے بھی ان سے گویا آنکھیں بند کر لی تھیں جبھی تو آج دو ماہ گزرنے کے بعد بھی دل کے مریض کو جسے آپریشن تجویز کیا جا چکا ہے، زکٰوة کی رقم ادا نہیں کی گئی۔

یہاں تک کی داستان سنا کر گل ہارون اور اس کے والد کی ہمت جواب دے گئی لیکن ان کے چہرے پر چھائی گھمبیر خاموشی بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ راقم نے اسپتال ذارئع سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ جن مریضوں کو بیت المال سے اخراجات حاصل کرنے کا کہا جاتا ہے انہیں پہلے اسپتال اور بعد میں بیت المال کے افسران و اہلکاروں کی جیبیں گرم کرنا پڑتی ہیں، تب کہیں جا کر اس کی امیدیں بر آتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس دوران مریض رشوت اور روزمرہ اخراجات کی مد میں حاصل ہونے والی رقم سے زیادہ اپنی جیب سے خرچ کر چکا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال گل ہارون کے ساتھ بھی پیش آئی لیکن چونکہ اس کے پاس رشوت میں دینے کو رقم نہ تھی جو اسپتال والوں کو جلدی کرنے اور بیت المال والوں کو اپنے حصہ کا کام نمٹانے پر آمادہ کرتی اس لئے وہ اپنے جیب سے روزمرہ اخراجات پر تو خرچ کرتا رہا لیکن ان کی جیبیں نہ بھر سکا، نتیجتاً وہ اب بھی منتظر ہے کہ کوئی اس پر ترس کھائے اور اس کا مسئلہ حل کروا دے۔

دل کے آپریشن کا منتظر گل ہارون اب بھی اس بات کا منتظر ہے کہ اس کا جلد آپریشن ہو تاکہ وہ ایک بار پھر سے اپنے گھر والوں کو سہارا دینے کے لئے کم ہی سہی چار ہزار ماہانہ تو کما کر لا سکے۔ بے حسی کا شاہکار اس داستان کو معالجین شاید اپنی بے بسی سے تعبیر کریں، اسپتال انتطامیہ کے پاس اپنے اختیارات سے باہر جا کر کام نہ کر سکنے کی دلیل سہارا بن جائے، بیت المال کے افسران اپنے ہاں سے رقم جاری نہ کرسکنے کی وجہ زکٰوة فنڈز کی عدم موجودگی کو قرار دے دیں، لیکن کیا وہ گل ہارون کے اس بات کا جواب دیں گے کہ ان کے کسی پیارے کو اگر یوں ہی دل کا مرض لاحق ہوتا اور ڈاکٹر اوپن ہارٹ سرجری تجویز کرتے تو کیا وہ ایک درخواست لکھ کر مطمئین ہو جاتے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے اس آپریشن کو ملتوی کئے جاتے یا متبادل راستہ اپناتے ہوئے حتی المقدور کوشش کرتے کہ جلد از جلد بیماری کا علاج کیا جا سکے۔ اس کا جواب تو متعلقہ افراد ہی دے سکیں گے، تاہم گل ہارون کتنے دن مزید جیتا ہے، یہ ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، لیکن تبدیلی حالات کے لئے کوشش شرط ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31839 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More