اصلی اور نقلی شہد کی پہچان

ہمارے ملک میں اصلی شہد ایک پراسرار سی شے بن چکی ہے۔ نہ جانے کیوں لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ اصلی شہد بھی مل سکتا ہے۔ دراصل شہری علاقوں کے رہنے والوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اصلی شہد کا حصول بہت مشکل ہے اور اگر مل بھی جائے تو وہ بہت مہنگا اور کم ہوتا ہے ۔ اس لیے جب کہیں شہد بڑی مقدار میں دیکھتے ہیں تو انہیں یہ یقین کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ سارا شہد واقعی اصلی ہے۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کے خیالات کے برعکس دنیا بھر میں شہد کی سالانہ پیداوار بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر خالد غزنوی صاحب اپنی صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب ’طب نبوی‘ کے باب شہد میں رقم طراز ہیں کہ ”اندازہ لگایا گیا ہے کہ آج کل دنیا میں ہر سال پچاس کروڑ کلو سالانہ شہد پیدا ہوتا ہے۔“ یاد رہے کہ ان کی یہ تحریر پچیس سال پرانی ہے جب کہ آج جدید تحقیق کے مطابق شہد کی سالانہ پیداوار اس مقدار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ملک عزیز پاکستان میں ہر سال کئی ہزار ٹن شہد پیدا ہوتا ہے جس کی بڑی مقدار یورپ اور بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔

شہد کے متعلق غلط فہمیاں

شہد کا جم جانا:
اصلی شہد کے متعلق عوام الناس کے ذہنوں میں کئی غلط فہمیاں موجود ہیں، جو دراصل شہد کے بارے میں صحیح علم کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ پہلی بڑی غلط فہمی لوگوں کو شہد کے متعلق یہ ہے کہ اصلی شہد کبھی جمتا نہیں ہے۔ جب کہ درحقیقت شہد کا جم جانا ایک فطری عمل ہے۔ دراصل انگوری شکر (Glucose) سردی کے اثر سے جلد منجمد ہو جاتی ہے اس لیے جس شہد میں انگوری شکر کی مقدار زیادہ ہوگی وہ جلدی منجمد ہوجاتا ہے جب کہ جس شہد میں پھلوں کی شکر (Lactose) زیادہ ہو گی وہ کافی عرصہ تک مائع حالت میں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ شہد میں موجود زرگل(Pollen)، ہوا کے بلبلے اور موم کے ذرات بھی شہد کے جمنے کا باعث ہوتے ہیں۔ نیز جس شہد میں پھلوں کی شکر کا تناسب زیادہ ہوتا ہے ، وہ جمنے کے بعد گھی یا جمے ہوئے ناریل کے تیل کی طرح ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح جس شہد میں انگوری شکر کا تناسب زیادہ ہوتا ہے تو وہ جم کر دانے دار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جس شہد میں گنے کی شکر کا تناسب زیادہ ہوتا ہے تو وہ جم کر قلمی شکر اختیار کر لیتا ہے اور بالکل سادہ شکر جیسا محسوس ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ لوگ شہد کے قلمی شکل میں جمنے پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ ناواقفیت کی بنا پر اُسے چینی کی ملاوٹ والا سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے میں نیویارک سے شائع شدہ انسائیکلوپیڈیا آف بی کیپنگ کے رائٹرE.P Dutton اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ شہد مختلف شکروں کا گاڑھا محلول ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شہد میں پانی کا جو تناسب ہوتا ہے اس کے مقابلے میں اس میں شامل قدرتی گلوکوز کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اس پانی میں حل نہیں ہوسکتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شکریات پانی کی قید سے آزاد ہو کر جمی ہوئی قلمی شکر میں نمودار ہو جاتی ہیں، اسے ہم شہد کا جمنا کہتے ہیں۔

جما ہوا دانے دار شہد (Granulated Honey) کہلاتا ہے۔ یہ پگھلے ہوئے شہد کی بہ نسبت زیادہ صحت بخش اور توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اور اس میں (H.M.F) ہائیڈرو کسی میتھائل فرفل ڈی ہائیڈ کا عنصر بھی کم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا عنصر ہے جو ابھی حال ہی میں دریافت ہوا ہے اور یہ ہر شہد میں1%لازمی ہوتا ہے۔ امریکن اسٹینڈرڈ کے مطابق جس شہد میں یہ عنصر 3%سے زیادہ ہو تو شہد کا معیار متاثر ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے کئی ممالک میں جما ہوا شہد زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔

ایک اور مسئلہ جمے ہوئے شہد کی رنگت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ جمنے کے بعد شہد کی رنگت تبدیل ہو جاتی ہے مثلاً جمنے سے پہلے شہد براؤن کلر کا تھا تو جمنے کے بعد کریم کلر کا ہو جاتا ہے۔ اگر جمنے سے پہلے گولڈن کلر کا تھا تو جمنے کے بعد سفید رنگ کا دکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اسے چینی کا سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر جمے ہوئے شہد کو گرم کیا جائے تو وہ پگھل کر دوبارہ اپنی پرانی رنگت میں آجاتا ہے۔

ہمارے ملک میں عموماً سرسوں، بکیڑ اور پھلائی کے پھولوں کا شہد بہت بڑی مقدار میں حاصل ہوتا ہے اور بالعموم ان ہی پھولوں کا شہد مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اور درحقیقت سرسوں کا شہد تقریباً دو ماہ میں، بیکڑ چار ماہ میں اور پھلائی کا شہد آٹھ ماہ میں جم جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بیری، شفتل اور مالٹے کے پھولوں سے حاصل شدہ شہد نسبتاً کافی عرصہ تک نہیں جمتا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ بیرون ملک سے درآمد شدہ تقریباً تمام شہد مصنوعی پراسیس سے گزارے جاتے ہیں، اسی وجہ سے یہ امپورٹڈ شہد نہیں جمتے۔

مشکل یہ ہے کہ نقلی اور اصلی شہد دونوں جم جاتے ہیں اور عوام کے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ جو شہد جما ہوا ہے وہ اصلی ہے یا نقلی؟ تو قارئین یاد رکھیں کہ اصلی شہد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تہہ کی جانب سے جمنا شروع ہوتا ہے۔ اگر شہد اوپر کی جانب سے جمنا شروع ہو تو وہ نقلی یا ملاوٹ شدہ ہوتا ہے۔

شہد کی پہچان کے معروف فرسودہ طریقہ کار:
ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لوگوں نے شہد کی پہچان کے کئی طریقے مشہور کیے ہوئے ہیں لیکن اس میں سے اکثر مستند نہیں ہیں۔ مثلاً ایک طریقہ اصلی شہد کی پہچان کے لیے یہ معروف ہے کہ ایک نمک کی ڈلی شہد میں ملاتے ہیں اگر شہد نمکین ہو جائے تو کہتے ہیں کہ شہد ملاوٹ والا ہے کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق خالص شہد میں نمک حل نہیں ہوتا۔ یہ طریقہ یکسر تو غلط نہیں ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ شہد میں پچیس فی صد پانی بھی ہوتا ہے جس میں نمک حل ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ کوئی کنفرم بات نہیں ہے کہ ذائقہ نمکین ہونے پر شہد خالص نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح کہتے ہیں کہ خالص شہد روٹی پر لگا کر کتے کو کھلایا جائے تو کتا اسے نہیں کھاتا کیوں کہ مشہور ہے کہ کتا شہد نہیں کھاتا لیکن شیرہ کھا لیتا ہے۔ یہ بھی اصلی نقلی کے پہچان کا کوئی معیار نہیں ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کتا کسی وقت کھانے کے موڈ میں ہی نہ ہو، جس کی وجہ سے نقلی شہد کو اصلی سمجھ لیا جائے۔

ہماری تحقیق کے مطابق شہد کی پہچان کے جو ٹیسٹ کتابوں میں لکھے ہیں ، ان سب میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی ہے جن کی وجہ سے اصلی نقلی کا سو فی صد فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ اکثر ان طریقوں پر عمل کرنے سے اپنے سامنے درخت سے اتارے ہوئے خالص شہد بھی فیل ہو جاتے ہیں اور اکثر شیرے سے تیار شدہ نقلی شہد پاس ہو جاتا ہے۔ دراصل ہوتا یوں ہے کہ نقلی اور اصلی شہد کی بعض خصوصیات ایک جیسی ہوتی ہیں مثلاً پندرہ سے بیس فی صد تک پانی کا تناسب اور ستر فی صد مختلف قسم کے گلوکوز وغیرہ.... یہی وجہ ہے کہ طریقے کی خامی کی وجہ سے نتیجہ اکثر کچھ کا کچھ نکلتا ہے۔

شہد کی پہچان کے مستند طریقے:
اصلی شہد کی پہچان کے لیے ہم چند آسان ٹپس اور ایک مستند طریقہ درج کر رہے ہیں، انشاءاللہ اس سے بہت فائدہ ہو گا۔

٭ دیکھ کر چیک کرنا:
قدرتی شہد نقلی شہد کی بہ نسبت زیادہ پتلا اور دھندلا ہوتا ہے اور پولن کے ذرات شہد کی سطح پر نظر آتے ہیں۔

٭سونگھ کر چیک کرنا:
ہر شہد کی اپنی الگ خوشبو ہوتی ہے جو پھولوں کی بھینی بھینی مہک سے مہک رہا ہوتا ہے، جب کہ شیرے اور گلوکوز سے تیارشدہ شہد سونگھنے پر صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہ شیرہ ہے۔

٭شہد کو چکھ کر چیک کرنا:
ہر علاقہ کا شہد اپنا ایک مخصوص ذائقہ رکھتا ہے، کبھی بھی ایک علاقے کا شہد دوسرے علاقے کے شہد جیسا نہیں ہوگا چاہے کسی ایک مخصوص پھول کے باغات سے حاصل شدہ ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً اجوائن ، مالٹے اور سرسوں کا شہد یاد رکھیں۔ شہد کا ذائقہ موسمی درختوں، پھلوں، پھولوں علاقوں کے حساب سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اگر کسی کمپنی کا شہد ہمیشہ ایک جیسی رنگت، خوشبو اور ذائقہ والا ہو تو سمجھ لیں کہ یہ قدرتی نہیں ہے بلکہ فارمولے کے تحت شدہ ہے۔ یاد رکھیں کہ شہد کی مکھی کو جس موسم کے پھولوں کا رس یعنی غذا ملے گی ویسے ہی اس کا ذائقہ ہو گا۔

٭شہد کا پتلا ہو جانا:
قدرتی شہد میں ایک خاص طرح کا سسٹم ہوتا ہے جسے اوسموٹک پریشر کہا جاتا ہے۔ اس پریشر کے تحت شہد ہوا میں موجود نمی کو جذب کر لیتا ہے۔ ایک کھلے منہ کی بوتل میں تقریباً پچیس گرام (۲ چمچ) شہد رکھ کر چند دنوں کے لیے چھوڑ دیں، اگر شہد اصلی ہوا تو پتلا ہو جائے گا اور نقلی ہو تو سطح پر خشک ہو جائے گا اور ایک باریک جھلی سطح پر آجائے گی۔

خالص شہد کو چیک کرنے کا جدید ترین طریقہ:
ہم نے قدرتی اور نقلی شہد کو چیک کرنے کا سہل ترین اور جدید سائنٹفک طریقہ ایجاد کیا ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اس ٹیسٹ کے لیے مندرجہ ذیل سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔
(۱)میتھائیل اسپرٹ۔ (۲)ٹیسٹ ٹیوب کیپ کے ساتھ (۳) شہد کا نمونہ

ٹیسٹ ٹیوب میں پانچ گرام میتھائیل اسپرٹ اور پانچ گرام شہد لے کر زور سے ہلانا شروع کر دیں ۔ اگر شہد اصلی ہو گا تو فوراً حل ہو جائے گا اور دودھیا کلر کے جھاگ سے بن جائیں گے اور اگر نقلی ہوا اور بالخصوص لیکوئڈ گلوکوز کی ملاوٹ والا شہد ہوا تو بہت مشکل سے حل ہو گا۔ اب ٹیسٹ ٹیوب کو لگا کر چھوڑ دیں۔ تین سے سات دن کے بعد چیک کریں، اگر اصلی شہد ہوا تو اس کی سطح پر شکری روغنیات (Mucilage) آ جائے گی، جو کہ دیکھنے میں بالکل بادل کی طرح محسوس ہو گی۔ اگر شہد نقلی ہوا تو سطح بالکل صاف ہو گی اور جو شہد مکس کیا گیا تھا وہ دوبارہ تہہ میں بیٹھا ہو ا دکھائی دے گا۔ جب کہ اصلی شہد مکمل طور پر حل ہو چکا ہوگا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186430 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More