مأرب میں دنیا کا سب سے پہلا ڈیم
(Shaikh Wali Khan Al Muzzafar, Karachi)
عرب مورخین لکھتے ہیں کہ یمنی
پہلے انسان ہیں جنہوں نے ملاقات کے وقت ہاتھ ملانے کی رسم کا آغاز کیاتھا،
یہ روایت یمنیوں کی خوش طبعی،آدابِ معاشرت،تواضع وانکساری، دوستی اور خوش
اخلاقی اجاگر کرتی ہے، سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل میں ایک
شخص قحطان تھے جو یمن میں آباد ہوئے اور یہاں ان کی نسل خوب پھلی
پھولی،قحطان کے پڑپوتے سبابن یشجب بن یعرب تھے جن کے نام پر ان کاملک ’’سبا‘‘
کہلایا ۔ جہاں تک حضر موت کا تعلق ہے، سیدنا ہود علیہ السلام کو حضر موت ہی
میں دفن کیا گیا تھا۔ حضر موت کے شمال میں وادی احقاف تھی جہاں قوم ہود
آباد تھی اور یہاں اس نافرمان قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا۔ چنانچہ
حضر موت میں کئی کھنڈر ایسے ہیں جو دارِعاد کہلاتے ہیں ،یہاں ایک جگہ قبر
ہود بھی ہے،اس وسیع وعریض علاقے کے نام کے بارے میں آتا ہے کہ عامر بن
قحطان کی اس علاقے میں اس قدر شہرت تھی کہ وہ جس جنگ میں شریک ہوتا، کشتوں
کے پشتے لگا دیتا، چنانچہ جہاں بھی جاتا، لوگ کہتے: حَضَرَ مَوتٌ(موت آ گئی)۔
یوں لوگ اس خطہ زمین ہی کو حضر موت کہنے لگے، اسی طرح جب اہل حبش نے صنعاء
پر قبضہ کیا، تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ بلند وبالا عمارتوں،
خوبصورت باغات و دالانوں اور کشادہ راستوں پر مشتمل شہرگارے کے بجائے
پتھروں سے بنایا گیا ہے، تووہ بے اختیار بول اٹھے: ھٰذہ صنعۃ (یہ تو
کاریگری ہے)۔ اس وجہ سے اس شہر کا نام صنعاء پڑ گیا۔
سبا کے دو بیٹوں کہلان اور حمیر کے ناموں سے دو بڑے قبیلے مشہور ہوئے،بنو
حمیر میں قضاعہ، اسلم، کلب، جہینہ، عذرہ مشہور یمنی قبیلے تھے، جبکہ بنو
کہلان میں کندہ، ہمدان ، لخم، جذام، مذحج، خولان، اشعر، عنس، طے، جُعفی،
نخع، مراد طے، خزاعہ، مصطلق ، ازد، جفنہ، اسلم، غافق، بجیلہ، غامد، بارق
اور اوس و خزرج نے شہرت پائی۔ یمنی قبائل اسلامی فتوحات کے ساتھ مصر اور
اندلس میں بھی جا بسے تھے۔
اہل یمن کی فضیلت اس سے ظاہر ہے کہ جب اللہ کے حکم سے سیدنا ابراہیم نے حج
کی فرضیت کا اعلان کیا ،تو ان کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اہل
یمن تھے۔ أبوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے
ہیں کہ یمن والے آگئے ہیں ،یہ لوگ نہایت نرم دل اور کمزور دل ہیں ایمان بھی
یمنی اور حکمت بھی یمنی اور مسکینی بکری والوں میں اور فخر وغرور شور مچانے
والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں،(صحیح مسلم۔ حدیث نمبر:۱۸۸)۔
1600 ق م میں احقافِ یمن میں سلطنت معین قائم ہوئی تھی،ان ہی لوگوں کی حالت
سورۂ احقاف میں بیان ہوئی ہے، جو خلیج عدن سے حجاز تک پھیل گئی تھی، اس کا
صدر مقام معین یا القرن صنعاء کے شمال مشرق میں تھا، پھر مملکت سبا 1000 ق
م کے لگ بھگ یا اس سے دو ڈھائی صدی پہلے قائم ہوئی، یہ اللہ کے نبی اور
فلسطین کےبادشاہ سیدنا داؤد کا دور تھا، مملکت سبا کے کتبات میں خدائے واحد
کو (آسمانوں کا مالک بادشاہ) لکھا گیا ہے۔ شاہان سبا ’’مکارب/مقارب‘‘ یا
’’مکرب/مقرب‘‘ کہلاتے تھے،ان مکاربین سبا کا پایہ تخت صرواح تھا، جس کے
کھنڈر صنعاء اور مأرب کے درمیان ملتے ہیں،آج کل یہاں حوثی باغیوں کے
سرکاری اور عرب اتحادی فوجیوںمیں صرواح پر قبضے کے لئے زبردست لڑائی جاری
ہے ۔ قوم سبا نے وادی اذینہ میں 800 ق م کے لگ بھگ سدمأرب تعمیر کیا تھا،
جو انسانی تاریخ میں پہلا آبی ڈیم تھا اور یہ تیرہ چودہ صدیوں تک کارآمد
رہا حتیٰ کہ ابرہۃ الاشرم(نکٹا) کے زمانے 542ء اور 570ء سیل عرم یعنی ’’بند
کے سیلاب‘‘ نے اسے تباہ کر دیا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے: ’’(اہل)
سبا کے لئے ان کے مقامِ بودوباش میں ایک نشانی تھی (یعنی) دو باغ (ایک)
داہنی طرف اور (ایک) بائیں طرف۔ اپنے پروردگار کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر
کرو۔ (یہاں تمہارے رہنے کو یہ) پاکیزہ شہر ہے اور (وہاں بخشنے کو) رب
غفور۔تو انہوں نے (شکرگزاری سے) منہ پھیر لیا ،پس ہم نے ان پر زور کا سیلاب
چھوڑ دیا اور انہیں ان کے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جن کے میوے بدمزہ
تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔یہ ہم نے ان کی ناشکری
کی ان کو سزا دی۔ اور ہم سزا ناشکرے ہی کو دیا کرتے ہیں۔اور ہم نے ان کے
اور (شام کی) ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی (ایک دوسرے کے
متصل) دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد ورفت کا اندازہ
مقرر کردیا تھا کہ رات دن بےخوف وخطر چلتے رہو۔ تو انہوں نے دعا کی کہ اے
پروردگار ہماری مسافتوں میں بُعد (اور طول پیدا) کردے اور (اس سے) انہوں نے
اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے (انہیں نابود کرکے) ان کے افسانے بنادیئے اور
انہیں بالکل منتشر کردیا۔ اس میں ہر صابر وشاکر کے لئے نشانیاں ہیں۔اور
شیطان نے ان کے بارے میں اپنا خیال سچ کر دکھایا کہ مومنوں کی ایک جماعت کے
سوا وہ اس کے پیچھے چل پڑے۔اور اس کا ان پر کچھ زور نہ تھا مگر (ہمارا)
مقصود یہ تھا کہ جو لوگ آخرت میں شک رکھتے ہیں ان سے ان لوگوں کو جو اس پر
ایمان رکھتے تھے متمیز کردیں۔ اور تمہارا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘(سورۂ
سبأ، 15سے 21 )۔بہرحال آج بھی نیٹ پر جاکر آپ تفصیل سے دوبارہ ترمیم
وتعمیر کے بعد اس ڈیم کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
مملکت سبا اپنے عہد ِعروج (650 ق م تا 115 ق م) میں افریقی ممالک
جیبوتی،صومالیہ،اریٹیر یا وایتھوپیا تک پھیل گئی تھی۔ اس دور میں شاہانِ
سبانے ملک کا لقب اختیار کر لیا اور مأرب کو دارالسلطنت بنایا۔ اس کا دوسرا
نام شہر سبا بھی تھا۔ اس کے کھنڈر صنعاء سے 60 میل مشرق میں ملتے ہیں اس
وقت مأرب موجودہ یمن کا ایک سٹراٹیجک صوبہ ہے، اسی لئے عرب اتحاد کی فوجی
سعودی کمانڈ میں صنعأ سے قبل مأرب پر قبضہ کرنے کے لئے تگ ودو کررہی ہے۔
سبا کی بندرگاہوں میں چین کا ریشم، انڈونیشیا اور ہندوستان کے گرم مسالے،
ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، افریقہ کے زنگی غلام، بندر، شتر مرغ کے پر
اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور یمن سے یہ اشیاء مصر ، شام ، یونان و روم کی
منڈیوں میں جاتی تھیں، ادھر یمن کی پیداوار سے لوبان، عود، عنبر، مشک اور
مر کی تجارت ہوتی تھی،عدن اور حضر موت کے تجارتی راستے مأرب پر ملتے تھے
جہاں سے ایک شاہراہ نجران و جازان سے ہوتا ہوامکہ، یثرب، وادی القریٰ، تبوک،
ایلہ سے ہو کر شام کو جاتی تھی اور ایک تجارتی راستہ ساحل پر سے مصر کو
نکلتا تھا۔
آل سبا میں بنو حمیر کی تاریخ 100 ق م کے لگ بھگ شروع ہوتی ہے۔ حمیری
سلاطین کا لقب ’’ملک سبا و ذو ریدان‘‘ تھا۔ ان (ذو )امراء کا پایہ کسی
زمانے میں تخت ظفار تھا، جس کے آثار صنعاء کے جنوب میں ملتے ہیں۔ حمیری
بادشاہ ظفار کے متصل قلعہ ریدان میں رہتے تھے۔ اسی دور میں حمیری علاقے کے
لئے پہلی بار ’’یمنت‘‘ اور ’’یمنات‘‘ کا استعمال شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس
پورے خطے کا نام یمن ہو گیا ،جو عسیر سے عدن اور باب المندب سے حضرموت تک
واقع ہے،پہلے شمالی اور جنوبی یمن سوویت یونین کی ایمأ پر الگ الگ ملک بن
گئے تھے، نوے کی دہائی میں دونوں ایک ہو ئے تھے، جو آج تک ایک ہیں ، البتہ
خان جنگی نے اس کا برا حال کیا ہواہے،اللہ کرے یمن ایک مرتبہ متحد اور
پرأمن ہوکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو۔ |
|