رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری 17

غزوہ حنین و طائف
شرک کی جب سب سے عظیم اساس گاہ کا قلع قمع ہوگیا اور ”سواع، مناہ“ اور ”عزہ“ جیسے بت کدے مسلمانوں کے ہاتھوں ویران ہوگئے تو سلام کا عسکری و سیاسی اثر نفوذ تمام ”جزیرہ نما عرب“ پر چھا گیا۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ اکثر و بیشتر مشرکین قبائل نے اسلام کی اطاعت قبول کرلی اور اپنے عجز و انکساری کا اقرار کرلیا۔ ہوازن ”اور ثقیف“ ایسے دو قبیلے تھے جو اسلام سے نفرت کرنے میں پیش پیش اور جنگجوئی میں سب پر فوقیت رکھتے تھے۔

اس کے علاوہ ان کے پاس اسلحہ جنگ بھی سب سے زیادہ رہتا تھا۔ انہیں یہ علم ہوا کہ مسلمانوں کو مشرکین پر فتح و نصرت حاصل ہوئی ہے تو وہ سخت سراسیمہ و پریشان خاطر ہوئے اور اب انہیں یہ خوف لاحق رہنے لگا کہ قریش کو مغلوب کرنے کے بعد سپاہ اسلام انہیں اپنے حملے کا نشانہ بنالیں گی۔ چنانچہ انہوں نے خود ہی پیشرفت کی اور مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار ہونے کا ارادہ کرلیا، ہوازن اور ثقیف کے لوگوں نے چند دیگر قبائل سے بھی عہد و پیمان کرلیا تھا۔ چنانچہ سب نے مجموعی طور پر طاقتور سپاہ کی شکل اختیار کر کے ”مالک بن عوف“ کی فرمانداری کے تحت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کےلئے آمادہ ہوگئے۔

دشمن نے اس خیال کے پیش نظر کہ محاذ جنگ کی پشت سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور مسلمانوں کے ساتھ جان توڑ کر جنگ کرے، اپنی عورتوں، بچوں اور مال وغیرہ کو اپنے سے دور کر دیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب دشمن کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو آپ 6شوال 8ہجری میں 12 ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر جس میں10ہزار افراد مدینہ کے اور2 ہزار نو مسلم شامل تھے، دشمن کی جانب روانہ ہوئے۔

دونوں لشکروں کا مقابلہ ”حنین“ نامی مقام پر ہوا
مشرکین کا لشکر پہلے ہی وادی حنین میں اتر چکا تھا اور اس نے سارے ناکوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ وہ سپاہ اسلام کے اس پیش ہر اول دستے پر جس کا فرماندار ”خالد بن ولید“ تھا اچانک حملہ آور ہوا اور اس دستے کو منتشر و پراگندہ کردیا۔ باقی مسلمانوں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ صرف19 ہزار ہی ایسے تھے جو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بدوش رہے۔ (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۶۲)

ابوسفیان اور وہ قریش جو چند روز قبل ہی مسلمان ہوئے تھے مسلمانوں کی اس شکست پر بہت مسرور ہوئے اور اس پر تمسخر کرنے لگے۔ (تاریخ طبری)

اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تنہا رہ گئے تھے لیکن ان چند اصحاب کے ساتھ جو اس وقت آپ کے ساتھ تھے میدان جنگ میں پوری استقامت و پائیداری کے ساتھ اپنی جگہ پر ہے اور جو لوگ فرار کرنے لگے تھے انہیں واپس آنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ اے لوگوں! کہاں بھاگے چلے جا رہے ہو؟ واپس آجاؤ، میں محمد بن عبداللہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بلا رہا ہوں۔ (السیرة ابن ہشام)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ایماء پر حضرت ”عباس بن عبدالمطلب“ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام باآواز بلند لوگوں تک پہنچایا جسے سن کر مسلمان ایک ایک کر کے واپس آنے لگے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ازسر نو مرتب کیا اور میدانِ جنگ دوبارہ شعلہ ور ہوگیا۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سب سے زیادہ جوش و خروش میں تھے اور دشمنوں کو خاک و خون میں ملا رہے تھے۔ یہاں تک کہ قبیلہ ہوازن کے40 افراد آپ کی شمشیر سے ہلاک ہوئے۔ دوسرے مسلمانوں نے بھی شکست کی تلافیاں کیں اور چند لمحہ فرار رہنے کی وجہ سے جو خفت ہوئی تھی اسے دور کرنے کے لئے جان کی بازی لگا دی۔ بالخصوص اس وقت جبکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ ”ام عمارہ، ام سلیم، ام سلیط“ اور اور ام حارث“ جیسی دلیر خواتین بھی میدان کارزار میں اتر آئیں ہیں اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مردانہ وار دفاع و تحفظ کر رہی ہیں۔ (مغازی ج۲ ص ۹۰۳)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سپاہ میں مزید جوش و خروش پیدا کرنے کی خاطر اعلان فرمایا کہ ”جو کوئی کسی کافر کو قتل کرے گا وہ مقتول کے لباس و اسلحہ کا مالک ہوگا۔“ (السیرة النبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۶۲۰)

اس وقت ہوازن کا پرچمدار ”ابوجردل“ سرخ اونٹ کے اوپر سوار بلند نیزہ ہاتھ میں لیے سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ وہ اپنے لشکر کے پیش پیش چل رہا تھا۔ ان عوامل کے باعث اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں اس کے قتل کی وجہ سے دشمن کے لئے فرار کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ فتح و ظفر اسلام کو نصیب ہوئی۔

اس جنگ میں 6 ہزار سپاہی قید ہوئے ان کے علاوہ 24 ہزار اونٹ،40 ہزار بھیڑ اور وزن میں 4 ہزار اوقیہ (تقریباً 850 کلوگرام) چاندی بطور مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آئی باقی جو سپاہ بچی تھی وہ بھاگ کر ”طائف“ ”نخلہ“ اور ”اوطاس“ کی طرف نکل گئی۔ (طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۵۱،۵۲)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ”بدیل بن ورقا“ کو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ مالِ غنیمت کو ”جعرانہ“ نامی مقام پر لے جائیں اس کی حفاظت کریں تاکہ جنگ ختم ہونے کے بعد اسے تقسیم کیا جاسکے اور آپ بذاتِ خود سپاہ اسلام کو ساتھ لے کر ”طائف“ کی جانب روانہ ہوئے۔ کیونکہ ”مالک بن عوف“ ثقیف کے دیگر لشکروں کے ہمراہ بھاگ کر اس طرف نکل گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔

قلعہ طائف کا محاصرہ تقریباً 20 روز تک جاری رہا۔ دشمن کی استقامت و پائیداری کو ختم کرنے کے لئے مسلمانوں نے منجنیقیں اور جنگی گاڑیاں بھی استعمال کیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ قلعے کے استحکام، اسلحہ جنگ اور سامان خوراک کے ذخیرے کی وجہ سے دشمن کی استقامت و پائیداری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے مشورے سے محاصرہ جاری رکھنے کا خیال ملتوی کر دیا اور جعرانہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (مغازی ج۳ ص ۸۳۷)

اس فیصلے کی شاید یہ وجہ تھی کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے وسائل و اسلحہ کا جائزہ لینے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا کہ طائف کو فتح کرنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہے اور مدینہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوسوں دور تھے۔ اس کے علاوہ مختلف افکار و خیالات کے 12 ہزار سپاہیوں کو کافی عرصے تک قلعہ طائف کے اطراف میں نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ کیونکہ ایک طرف تو لشکر کے لئے سامان خوراک کم ہوتا چلا جا رہا تھا اور دوسری طرف ماہ حرام اور حج کا زمانہ قریب چلا آرہا تھا۔ اس کے علاوہ6 ہزار جنگی قیدیوں کے مسئلے کے بارے میں بھی غور کرنا تھا۔

مالِ غنیمت کی تقسیم
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب ”جعرانہ“ واپس تشریف لائے تو ”ہوازن“ کا وفد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے دین اسلام قبول کرنے کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد اور ان کی دل جوئی کی خاطر ہوازن کے 6 ہزار قیدیوں کو فدیہ لیے بغیر آزاد کر دیا اور باقی مالِ غنیمت کو آپ نے قریش کے درمیان تقسیم کر دیا جبکہ وہ لوگ جو حال ہی میں مشرف با اسلام ہوئے تھے ان کے سرداروں کو آپ نے بیشتر حصہ عطا کیا تاکہ اس طریقے سے ان کے دل اسلام کی جانب بیشتر مائل ہوسکیں۔

جو لوگ چند روز قبل ہی مسلمان ہوئے تھے ان کے سرداروں کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی داد و دہش بعض افراد بالخصوص انصار کو ناگوار گزری۔(اگرچہ اس مالِ غنیمت میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ ”خمس“ پانچواں تھا) لیکن جب انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پند و نصائح سنیں اور اس کی حکمت کے بارے میں انہیں علم ہوا تو وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس اقدام سے مطمئن ہوگئے۔ (ارشاد ص ۷۶، ۷۷)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کرنے کے ارادے سے ”جعرانہ“ میں احرام باندھا، عمرہ کرنے کے بعد آپ نے ”عتاب بن اسید“ کو مکہ کا فرماندار مقرر فرمایا اور حضرت ”معاذ بن جبل“ کو احکام دین کی تعلیم دینے کے لئے متعین فرمایا اور خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ (تاریخ ابوالفدا ج۱ ص ۱۴۸)

غزوہ حنین کی ابتدا میں شکست کے عوامل اور آخر میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب و علل۔

(الف) اابتدائی مرحلے میں شکست
کثرتِ سپاہ کی وجہ سے احساس تکبر اور غیبی مدد کی جانب سے غفلت و چشم پوشی۔ جس وقت 12 ہزار افراد پر مشتمل سپاہ اسلام مکہ سے نکل کر چلی اور اس کی شان و شوکت اور طاقت ابوبکر نے دیکھی تو ان کی زبان پر یہ جملہ آ گیا کہ طاقت کی کمی کے باعث بھی اب ہم مغلوب نہ ہوں گے۔

اور اس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ”لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرة و یوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین“

اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو اس روز تمہیں اپنی کثرت کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھرا کر بھاگ نکلے۔ (سورہ توبہ)

سپاہ اسلام میں اہل مکہ کے ایسے افراد کی موجودگی جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض منافق تھے اور بعض محض مالِ غنیمت جمع کرنے کی خاطر سپاہ اسلام کے ساتھ ہوگئے تھے نیز کچھ لوگ بغیر مقصد و ارادہ کے مکہ سے باہر نکل آئے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ ابتدائی مرحلے پر جب دشمن کا اچانک حملہ ہوا تو سب سے پہلے جو سر پر پیر رکھ کر بھاگے وہ یہی لوگ تھے اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سپاہ اسلام پر عن و طعن شروع کر دی تھی حتیٰ کہ بعض نے تو یہ بھی ارادہ کرلیا تھا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسے عناصر کی ان حرکات کا باقی سپاہ پر اثر انداز ہونا اور ان کی قوت ارادی و حوصلہ مندی میں ضعف آنا فطری و قدرتی امر تھا۔ (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۶۲)

دشمن کے سپاہی جس جگہ جمع تھے نیز جہاں دونوں لشکروں کے درمیان معرکہ ہوا اس جگہ کا محل وقوع، دشمن کی کمین گاہیں، درے اور پہاڑی شگاف، اذان فجر کے وقت جبکہ مطلع صاف و روشن نہیں تھا غنیم کا اچانک حملہ وغیرہ ایسے عوامل تھے جن کے باعث مسلمانوں سے یہ قوت فیصلہ سلب ہوگئی کہ وہ کیا اقدام کریں۔

آخری فتح
غیبی مدد اور خداوند تعالیٰ کی طرف سے نصرت و کامیابی۔ اس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے”ِثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنودالم تروھا وعذب الذین کفروا وذلک جزاءالکفرین“(۴۷)

”پھر اللہ نے اپنا سکون اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمایا ہے اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کرتے ہیں۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ایثار پسند و جان نثار مردوں نیز عورتوں کی میدانِ کارزار کا میں استقامت و پائیداری اس کے ساتھ ہی میدانِ جنگ میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا واپس سپاہ کو بلانا اور انہیں ازسر نو منظم کرنا۔ حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں دشمن کے پرچمدار اور دیگر مسلمانوں کے ہاتھوں دشمن کے سردار ”ورید بن صمہ“ نامی کا قتل کیا جانا۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122500 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More