بیانِ شرف و فضیلت کے لیے
اِہتمامِ اِجتماع:-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانِ میلاد کے علاوہ اپنی شرف و
فضیلت بیان کرنے کے لیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام
فرمایا :
1۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
جلس ناس من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ينتظرونه، قال : فخرج
حتي إذا دنا منهم سمعهم يتذاکرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم عجباً : إنَ اﷲ
عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ إبراهيم خليلاً، وقال آخر : ماذا بأعجب
من کلام موسي کلّمه تکليماً، وقال آخر : فعيسي کلمة اﷲ وروحه، وقال آخر :
آدم اصْطفاه اﷲ. فخرج عليهم فسلّم، وقال صلي الله عليه وآله وسلم : قد سمعت
کلامکم وعجبکم أن إبراهيم خليل اﷲ وهو کذلک، وموسٰي نجي اﷲ وهو کذالک،
وعيسي روح اﷲ وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه اﷲ وهو کذلک، ألا! وأنا حبيب
اﷲ ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول
مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح اﷲ لي
فيدخلنيها، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلين والآخرين ولا
فخر.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر
تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے
تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا : بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق
میں سے (ابراہیم علیہ السلام کو اپنا) خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ اس سے
زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ تیسرے
نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ چوتھے نے
کہا : آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا
: میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ ابراہیم علیہ
السلام اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام
اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ
السلام اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم علیہ
السلام کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں
اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد
کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور میں قیامت
کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر
نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور
اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے
ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی
کوئی فخر نہیں، اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی
ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلي الله
عليه وآله وسلم ، 2 : 202، رقم : 3616
2. دارمي، السنن 1 : 39، رقم : 47
3. بغوي، شرح السنة، 13 : 198، 204، رقم : 3617، 3625
4. رازي، مفاتيح الغيب (التفسير الکبير)، 6 : 167
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 560
6. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 2 : 705
2۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خرج يوماً فصلي علي أهل أحد صلا ته علي
الميت، ثم انصرف إلي المنبر، فقال : إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم، وإني واﷲ!
لأنظر إلي حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض، وإني
واﷲ! ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي، ولکن أخاف عليکم أن تنافسوا فيها.
’’ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف
لے گئے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی
طرح نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے
اور فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی
تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں۔ اﷲ کی قسم! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا
ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم!
مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، البتہ یہ خوف
ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علي الشهيد، 1 : 451، رقم :
1279
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة، 3 : 1317، رقم : 1401
3. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب أحد يحبنا، 4 : 1498، رقم : 3857
4. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما يحذرمن زهرة الدنيا والتنافس فيها،
5 : 2361، رقم : 6062
5. بخاري، الصحيح، کتاب الحوض، باب في الحوض، 5 : 2408، رقم : 6218
6. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4 : 1795، رقم : 2296
7. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 149، 153
8. ابن حبان، الصحيح، 7 : 473، رقم : 3168
9. ابن حبان، الصحيح، 8 : 18، رقم : 3224
اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ۔ ثم انصرف الی المنبر (پھر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے)۔ سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ
کیا قبرستان میں بھی منبر ہوتا ہے؟ منبر تو خطبہ دینے کے لیے مساجد میں
بنائے جاتے ہیں، وہاں کوئی مسجد نہ تھی، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے۔
اُس وقت صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں منبر ہوتا تھا۔ اس
لیے شہدائے احد کی قبور پر منبر کا ہونا بظاہر ایک ناممکن سی بات نظر آتی
ہے۔ مگر در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر شہدائے اُحد کے
قبرستان میں منبر نصب کرنے کا اِہتمام کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ منبر شہر
مدینہ سے منگوایا گیا یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ساتھ ہی لے کر گئے
تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا؟ یہ سارا اِہتمام
و اِنتطام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومناقب کے بیان
کے لیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کے لیے تھا جسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم خود منعقد فرما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس اجتماع میں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت
بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح دلیل ہے۔
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کو بیان کرنے کے لیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود
سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے
اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں تاجدارِ
کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی
جائے۔
بیانِ سیرت و فضائلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:-
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں منعقد ہونے والے اِجتماعات
میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و فضائل کا ذکر ہوتا ہے۔ محفلِ
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تذکارِ رسالت درج ذیل پانچ جہتوں
میں ہوتا ہے
١- ۔ اَحکامِ شریعت کا بیان:-
محافلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اِسلامی اَحکام مثلاً نماز،
روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر اَحکامِ شریعت کے بیان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن ارشادات وتعلیمات کا ذکر کیا
جاتا ہے جو اِسلامی شریعت کی بنیاد ہیں اور جن پر اَرکانِ اِیمان و اِسلام
کی عمارت قائم ہے۔ فقہی اور فروعی مسائل کو موضوع بنانے کے بجائے اِس بات
پر زور دیا جاتا ہے کہ فرض عبادات کی ادائیگی درجہ قبولیت تک کیسے پہنچ
سکتی ہے؟ اﷲ تعالیٰ کی رضا کا حصول کیسے ممکن ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی اِتباع اور محبت کس طرح ہم پر فوز و فلاح کے دروازے وَا کرتی
ہے اور ہم ایمان کے تقاضوں کو کس طرح بطریقِ اَحسن پورا کر سکتے ہیں؟ اِس
طرح کی دیگر اَبحاث محفلِ میلاد میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اُسوہء کامل کی
روشنی میں عبادات کی روح کو اپنے اندر سمو کر اپنے اعمال اور شخصیت کی
عمارت کو اَحکامِ شریعت کی بنیادوں پر استوار کرنے کے عہد کی تجدید کی جا
سکے۔
٢- تذکارِ خصائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:-
محافلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اپنایا جانے والا
دوسرا طریقہ ’’تذکارِ خصائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے جو حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
یہ وہ آئینہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت، سیرت اور ُخلقِ
عظیم کا پرتَو جھلکتا دکھائی رہتا ہے۔ اس تذکار کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہم اس
کے ذریعے اپنی زندگی کو اِنفرادی اور اِجتماعی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی تعلیمات اور متعین کردہ اَقدار سے سنواریں اور اپنے شب و روز
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق بسر کریں۔ یہ دوسرا موضوع ہے
جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی کے حوالے سے
علمائے کرام محافلِ میلاد میں زیربحث لاتے ہیں۔ اگرچہ محافلِ میلاد کا
اَوّلین مقصد آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں جشنِ مسرت
منانا ہے لیکن ان تقریباتِ سعیدہ میں قرآنی تعلیمات اور سیرتِ مبارکہ کے
تعلیمی، تربیتی، اَخلاقی اور روحانی پہلوؤں کا ذکر بھی علمائے کرام اپنی
تقاریر و خطابات میں خصوصی طور پر کرتے ہیں۔
جاری ہے--- |