٣- تذکارِ شمائلِ مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم:-
تذکارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے شمائل بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و
جمال اور خوبصورتی و رعنائی کا حسین تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا کا ذکرِ جمیل قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کی
روشنی میں نہایت ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے وَالضُّحیٰ چہرے، وَاللَّیْل زلفوں، مَا زَاغَ الْبَصَر
کا دل آویز بیان سماعتوں میں رَس گھولنے لگتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سرتا قدم حسنِ مجسم تھے اور یہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ صوری حسن جسدِ
اَطہر کے کس کس مقام پر کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن کو دیکھ کر
مست و بے خود ہو کر رہ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا
کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذاتِ
مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سرمدی اِظہار و بیان سے ماوراء تھا
اور اہلِ عرب زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کے اپنے تمام تر دعوؤں کے
باوجود بھی اُسے کما حقہ بیان کرنے سے عاجز تھے۔
ماہِ میلاد میں نورِ مجسم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسی
حسنِ بے مثال کا تذکرہ ہوتا ہے، کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک
زلف و رخسار کا ذکر کرتا ہے تو کوئی چشمانِ مقدسہ کی تاثیرِ کرم کی مدح
سناتا ہے، کوئی گوش مبارک کی دلکشی اور ان کی بے مثل سماعت پر سلام بھیجتا
ہے تو کوئی گل قدس کی پتیوں جیسے نازک ہونٹوں پر درود پڑھتا ہے۔ کوئی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس سے صادر ہونے والے معجزات کا ذکر
چھیڑتا ہے تو کوئی حسن و جمال سے معمور دہنِ اقدس اور اس سے نکلے ہوئے لعاب
مبارک کی برکات کے نغمات الاپتا ہے۔ اس تذکار شمائل سے وجود میں کیفیاتِ
وجد کا نزول ہونے لگتا ہے اور بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
حضوری کی خیرات ملنے لگتی ہے۔ یہی وہ کیفیات ہیں جو ان محافل کا حاصل ہیں
اور جن سے قلب و روح میں تجليّاتِ ایمان کا ورود ہونے لگتا ہے۔
تذکارِ خصائص و فضائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:-
محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل اور اَوصاف و کمالات ہی ہیں جو آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو دیگر انبیاء کرام علیھم السلام اور تمام انسانوں سے
ممتاز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جامع کمالاتِ انبیاء ہیں، آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں تمام اَنبیاء و رُسل کے محامد و
محاسن اور معجزات و کمالات بہ درجۂ اَتم جمع فرما دیے گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے
اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اہلِ جہان پر شرف و فضیلت
عطا فرمائی اور تمام اَوّلین و آخرین کا سید اور سردار بنایا۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قربِ خاص سے نوازا اور شبِ معراج عرش پر بلا کر
اپنا دیدار عطا فرمایا۔ اُس نے قرآن حکیم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی اِطاعت کو اپنی اطاعت، (1) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو اپنی
رضا، (2) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کو اپنی بیعت، (3) آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل، (4) نطقِ رسول کو اپنی وحی، (5)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی، (6) آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کو اپنی مخالفت(7) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی عطا کو اپنی عطا قرار دیا۔ (8) اِس پر مستزاد حضور سرورِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے دُنیوی، برزخی اور اُخروی خصائص و فضائل
سے نوازا جو بے مثال ہونے کے علاوہ حدِ شمار سے بھی باہر ہیں۔
(1) النساء، 4 : 80
(2) التوبة، 9 : 62
(3) الفتح، 48 : 10
(4) الأنفال، 8 : 17
(5) النجم، 53 : 3، 4
(6) النساء، 4 : 14
(7) التوبة، 9 : 63
(8) التوبة، 9 : 59، 74
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک تقریبات میں حسنِ صورت و
سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے تو ہوتے ہی ہیں، اِس کے
ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثیر الجہت شانوں کا بیان اہلِ
ایمان کے دلوں میں عشق و محبت کی وہ شمعیں فروزاں کر دیتا ہے جن کی ضوء
شبستان زندگی کو منور کر دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و
خصائص پر مشتمل چند احادیث ذیل میںدرج کی جاتی ہیں :
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنا أوّلهم خروجاً، وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطيبهم إذا أنصتوا، وأنا
مشفعهم إذا حبسوا، وأنا مبشّرهم إذا أيسوا. الکرامة والمفاتيح يومئذ بيدي،
وأنا أکرم ولد آدم علي ربي، يطوف عليّ ألف خادم کأنهم بيض مکنون أو لؤلؤ
منثور.
’’(روزِ قیامت) سب سے پہلے میں (اپنی قبرِ اَنور سے) نکلوں گا اور جب لوگ
وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا۔ اور جب وہ خاموش ہوں گے
تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا جب وہ
روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوش خبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس
ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اُس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں
اپنے رب کے ہاں اَولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں میرے اِرد گرد اُس
روز ہزار خادم پھریں گے گویا وہ (گرد و غبار سے محفوظ) سفید (خوبصورت) انڈے
(یعنی پوشیدہ حسن) ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘
1. دارمي، السنن 1 : 39، رقم : 48
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل، 5
: 308، رقم : 3148
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه
وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3610
4. أبو يعلي، المعجم : 147، رقم : 160
5. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 1 : 234، 235
6. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 47، رقم : 117
7. بغوي، شرح السنة، 13 : 203، رقم : 3624
8. ابن أبي حاتم رازي، تفسير القرآن العظيم، 10 : 3212، رقم : 18189
9. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 5 : 484
10. أبو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 64، 65، رقم : 24
11. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 131
12. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 8 : 376
اِس حدیثِ مبارکہ میں روزِ قیامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے
والے مراتب و درجات کا ذکر ہے اور یہ بھی موضوعاتِ میلاد میں سے ہیں۔
2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنا سيّد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما من
نبيّ يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وأنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض ولا
فخر.
’’روزِ قیامت میں تمام اَولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اِس پر کوئی
فخر نہیں۔ اور اُس روز لواءِ حمد (حمدِ اِلٰہی کا جھنڈا) میرے ہاتھ میں
ہوگا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز آدم سمیت تمام نبی میرے
جھنڈے تلے ہوں گے، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے)
لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا اور اس (اَوّلیت) پر مجھے فخر نہیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه
وآله وسلم ، 5 : 587، رقم : 3615
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب تفضيل نبيّنا علي جميع الخلائق، 4 :
1782، رقم : 2278
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 398، رقم : 6478
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 281
5. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 2
6. أبو يعلي، المسند، 13 : 480، رقم : 7493
7. مقدسي، الأحاديث المختارة، 9 : 455، رقم : 428
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
أنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض، فأکسَي الحُلة من حُلل الجنة، ثم أقوم عن
يمين العرش ليس أحد من الخلائق يقوم ذالک المقام غيري.
’’(روزِ قیامت) میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین
کا سینہ کھولا جائے گا، مجھے جنت کی پوشاکوں میں سے ایک پوشاک پہنائی جائے
گی، پھر میں عرشِ الٰہی کے دائیں جانب اُس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے
علاوہ مخلوقات میں سے کوئی ایک (فرد) بھی کھڑا نہیں ہوگا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه
وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3611
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 10 : 263
ہم اِن اَحادیث کو بہ طور حوالہ اس لیے لا رہے ہیں تاکہ یہ اَمر واضح ہو
جائے کہ ان میں کسی قسم کے اَحکامِ شریعت یا حلال و حرام اور تبلیغ و دعوت
یا سیرت وغیرہ کے کوئی پہلو بیان ہوئے ہیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے خلقِ عظیم کا کوئی ذکر ہوا ہے بلکہ ان میں تواتر کے ساتھ جو چیزیں بیان
ہوئی ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائص اور اَولادِ
آدم علیہ السلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ، بے مثال
عظمت و رِفعت اور روحانی مدارج کا ذکر ہے۔ کتبِ اَحادیث میں فضائل و مناقب
کے ذیل میں صرف یہی خاص مضمون بیان ہوئے ہیں
ذکرِ وِلادت اور روحانی آثار و علائم کا تذکرہ:-
محفلِ میلاد کا پانچواں پہلو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے تذکار
اور بہ وقتِ ولادت رونما ہونے والی روحانی علامات و آثار کے بیان پر مشتمل
ہے۔ محافلِ میلاد میں ہم خصوصیت کے ساتھ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ولادت باسعادت اور ان خارق العادت روحانی آثار و علائم کا تذکرہ
کرتے ہیں جو ان ساعتوں یا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ظہور پذیر
ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد شباب اور عمر مبارک کے
چالیس سال کو پہنچنے پر پیغمبرانہ منصب پر فائز ہونے کے واقعات کا تذکرہ
کیا جاتا ہے۔ تذکارِ میلاد میں ان فوق العادۃ روحانی واقعات اور آثار و
علامات کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ ان محیر العقول واقعات کو بیان کیا جاتا
ہے جو ظہورِ قدسی کے وقت شہر مکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں پیش آئے، جن
کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان بشارتوں اور پیشین گوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو
حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری سے
متعلق سابقہ الہامی کتب میں مذکور ہیں۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک نسل در نسل اور گروہ در گروہ تمام انبیاء علیہم
السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے تذکرے کرتے رہے یہاں تک کہ یہ
سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں انجام پذیر
ہوا۔ یہ سب بشارتیں جو کتبِ سابقہ اور صحائفِ آسمانی میں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے بارے میں مرقوم تھیں، میلاد کا موضوع بنتی ہیں۔ اِسی طرح حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسب و نسب اور حضرت آدم علیہ السلام سے آگے جن
پاک پشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور منتقل ہوتا ہوا پہلوئے
سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا میں دُرِّ یتیم کی صورت میں ظاہر ہوا اور وہ نوعِ
اِنسانی کے لیے اﷲ کے فضل اور نعمت کے طور پر جلوہ گر ہوا، میلاد کا نفسِ
مضمون ہیں جن کا ذکر مولد یا میلاد کے موضوع میں ڈھل جاتا ہے۔
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے اَحوال اور رشکِ
زمانہ سیدہ آمنہ اور سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنھما کی آغوشِ عاطفت میں آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد طفلی کے حالات و واقعات کا تذکرہ ان پاکیزہ
محافل و مجالس میں قلب و روح کے تار ہلا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے معجزات و کمالات بیان کیے جاتے ہیں تو وجد و مستی کے ایسے مظاہر
دیکھنے میں آتے ہیں جنہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، انہیں بیان کرنے کی
سکت کسی قلم اور زبان میں نہیں۔
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کو جلا بخشنے کا ایک انتہائی
مؤثر و مجرب ذریعہ ہے۔ اس سے وہ قوت پیدا ہوتی ہے جسے علامہ اِقبال رحمۃ
اللہ علیہ قوتِ عشق کا نام دیتے ہیں اور جس کی بدولت اسمِ محمد صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ضیاء پاشیوں سے شبستانِ دہر میں اُجالا کیا جا سکتا ہے۔
یہی جشنِ میلاد منانے کا مدعا و مقصود ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسمِ محمد (ص) سے اُجالا کر دے
اِقبال، کلیات (اُردو)، بانگِ درا : 207!
جاری ہے--- |