ایثار اور قربانی کے بغیر قوموں کی ترقی ایک خواب
ہے۔ وہی قومیں بقا پاتی ہیں جو باہمی ایثار و قربانی اور احترامِ آدمیت
جیسے جذبات سے سرشار ہوتی ہیں۔ ایثار اور قربانی کا جذبہ اجاگر کرنے میں
عیدالاضحی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صرف سنت ابراہیمی ہی نہیں، اﷲ کی راہ
میں قربانی کی لازوال مثال بھی ہے۔ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ہر مرد
مجاہد اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے، لیکن خود اپنے ہاتھوں سے اپنی متاعِ
عزیز کو قربان کر دینا، قربانی کی ایسی تابندہ مثال ہے جو رہتی دنیا تک
صاحبِ ایمان لوگوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ انہی راستوں پر کامیابی کی
منزل ملتی ہے، لیکن جب ہم نے ان اصولوں سے روگردانی کی، ملت کے بجائے اپنی
ذات کو اولیت دی تو ہماری رسوائی کا دور شروع ہوا۔ اگر آج بھی ہم قربانی کے
اصولوں کو اپنالیں تو ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کر سکتے ہیں۔
بے شک اﷲ تعالیٰ نے انسانوں اور جانوروں کے اندر قربانی کا جذبہ رکھا ہے
جانور اپنے گروہ کے لیے انسانوں سے زیادہ قربانی دیتے ہیں ،کیونکہ ان میں
حسد اور بغض کا مادہ کم شامل ہوتا ہے۔ اس کی بہ نسبت انسان ایک دوسرے کے
خلاف بر سرِپیکار ہیں۔قربانی قربِ خداوندی کا ذریعہ اور حج اتحاد و اخوت کا
پیغام ہے۔ قربانی جذبہ جہاد کی نشانی ہے اس کا انکار خدا کے حکم کی
نافرمانی ہے۔عید قربان محض جانور کی قربانی کا نام نہیں، بلکہ اﷲ کی رضا کے
لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہی قربانی کہلاتا ہے۔ عیدالاضحی ہمیں قربانی
کا درس دیتی ہے۔ آج عالم اسلام کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اسی جذبے کی
ضرورت ہے۔
عیدِ قربان بہ ظاہر سنتِ ابراہیمی کی یادمیں ‘ اﷲ تعالیٰ کے حضور‘ جانوروں
کی قربانی دے کر منائی جاتی ہے، مگریہ تاریخِ اسلام کا وہ درخشاں باب ہے‘
جس پر امتِ مسلمہ کے لیے زیست کاملہ کا کلیہ رقم ہے۔ در حقیقت اس کا مقصد
تخلیق آدم کے مقصد سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔جہاں یہ محبتِ الٰہی کی بے لوث
یاد آوری کا دن ہے ‘وہاں یہ تجدید ہے اس بات کی کہ ہماری جان اور مال کا
اصل مالک وہ ذات ہے جس نے ہمیں دنیا میں صرف اس لیے بھیجاہے کہ ہم اس کے
بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزاریں اور اس حقیقت کو فراموش نہ کریں
کہ یہ دنیا عارضی ٹھکانہ اور مکافات عمل ہے۔ یہاں ہم جو افعال سرانجام دیں
گے ان کا حساب ہمیں روزِ محشر دینا پڑے گا۔ہم گہرائی سے ’قربانی ‘ کا
مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر وسیع تر
مفاہیم سمیٹے ہوئے ہے۔اسلامی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھ لیں ‘اس میں
رضائے خداوندی کے لیے نا قابل فراموش قربانیاں پائی جاتی ہیں۔ اسلام زندگی
کے ہر معاملے میں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔ اس کی حقیقی مثال اﷲ
تعالیٰ نے ہمیں اس وقت دکھائی جب حضرت ابراہیم ٓخواب دیکھ کر اپنی سب سے
پیاری چیز‘ اپنے لخت جگر‘ حضرت اسماعیل ؑکو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے
لیے تیار ہوئے۔ اس وقت انہیں جنت سے دنبہ ذبح کرنے کے لیے پیش کر
دیاگیا۔اسی لیے مسلمان ہر سال عید قرباں مناتے ہیں۔جن کے پاس استطاعت ہوتی
ہے وہ خانہ کعبہ کا طواف کر کے حج بھی ادا کرتے ہیں ‘ جس میں دنیا کے ہر
خطے سے تمام مسلمان اپنا قومی لباس اتار کر یک رنگ سفید لباس(احرام ) پہن
کر اپنی قوم ،رنگ ونسل اور ذات پات سب کچھ بھلاکر ایک میدان (میدان عرفات )
میں جمع ہوتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کا جینا اور مرنا صرف اس ذات
باری تعالیٰ کے لیے ہے جسں نے انھیں اس زمین پر بھیجا۔ پھر قربانی ہوتی ہے
‘ اور فضا اور زمین اﷲ اکبر کے صداوں سے گونج اٹھتی ہے۔ یہ مہینہ روئے زمین
پر دعوتِ اسلام اور توحید کی بازگشت ہے کہ اﷲ ایک ہے، اس کے سوا کوئی معبود
نہیں۔ ایک طرف حج کے موقع پر لبیک سے فضائیں گونجتی ہیں تو دوسری طرف
جانوروں کی گردن پر چھری چلا کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اے خدا! ہر چیز کو
زوال ہے تیرے سوا ‘ مگر یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیئے کہ اﷲ کو ہماری
قربانی اور صرف اعلان نہیں چاہئے۔ عربوں میں ایک رواج عام تھا کہ جب وہ
قربانی کرتے تھے تو گوشت اور خون کعبہ کی دیواروں پر لٹکا دیتے تھے اور
سمجھتے تھے کہ یہ گوشت اور خون اﷲ کو پہنچے گا۔ اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے
فرمایا کہ ’’ اﷲ تعالیٰ کو نہ ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون ،اسے
تو صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے‘‘( الحج ۳۸:۲۲)۔ اسلام کا مطلب ہے کامل اطاعت
،مکمل سپردگی اور سچی وفاداری اور منافقت سے پاک تعلقات اور کینہ و نفرت سے
پاک گفتگو۔قربانی کا بے نظیر عمل وہی انسان سرانجام دے سکتا ہے جو ان سب پر
پورا اترتا ہے۔ اگر آپ کی زندگی ان تمام اعمال سے مبرّ ا ہے تو چند جانوروں
کا خون بہا کر ا?پ سنت ابراہیمی کو تازہ نہیں کر سکتے اور نہ اس عہد پر
پورا اتر سکتے ہیں جو آپ قربانی کرتے وقت اﷲ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔اس فریضے
کی فضیلت اور اﷲ کی نظر میں اہمیت تو یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ جانور زمین پر
گرایا جائے اور اس کا خون بہایا جائے ‘اﷲ اس قربانی کو قبول کرلیتا ہے‘ مگر
اس وقت ممکن ہے جب آپ کے اعمال بھی اس کی گواہی دیں، ورنہ یہی عبادات روز
محشر آپ کے گلے کا طوق بن جائیں گی۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے میں قبولیتِ
اعمال کی برکتیں ناپید ہو چکی ہیں ، مسلمانوں کی ذاتی ،سیاسی ، معاشی اور
معاشرتی زندگی میں فتنہ و فساد اور بگاڑ و انتشار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا
،سب ذاتی مفادات اور ہوس میں سرگرداں ہیں ،وہ سکون ،اطمیناں اور رواداری و
ایثار جو مسلم معاشرے کی خصوصیت ہوا کرتا تھا، اب کہیں کھو گیا ہے ، اور جب
ہم نے احساس کو کھویا ہم نے سب کچھ ہی کھو دیا ہے۔پھر ایک ہی صف میں ہم
کھڑے نہ ہوسکے اور دنیا نے ہمیں مٹانے کی سازشیں شروع کر دیں۔
آج امت مسلمہ دردو غم میں گھری ہوئی ہے ،غزہ ،فلسطین ،مصر،لیبیا،شام،عراق
اور افغانستان کے مسلمان ،جن کیلئے ہر لمحہ موت جیسا ہے ،ان کی چیخوں سے یہ
زمین لرز رہی ہے۔ عید قرباں ہمارے لیے یہ پیغام لے کر آتی ہے کہ ہم اپنے
قرابت داروں ، پڑوسیوں اور ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو بھی اتنا ہی مقدم
سمجھیں جتنا اپنی ضرورتوں کو سمجھتے ہیں اور ایثار و قربانی کا جذبہ دل میں
لیے ہر شکوہ شکایت بھلا کر ان سے ملیں اور مشکل وقت میں اسلام کی راہ میں
سب کچھ قربان کر دینے میں بھی دریغ نہ کریں۔ اسی کا نام قربانی ہے اور یہی
اس کا مقصد ہے۔ہمیں اس فلسفے کو اپنانے کی ضرورت ہے۔تب ہی ہم اﷲ تبارک
تعالیٰ کی خوشنو دی حاصل کر سکتے ہیں۔ |