خبریں دینے والے جب خود خبر بنتے ہیں
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
انقلاب زمانہ دیکھئے کہ مٹی کا
پتلا کیسے کیسے سہانے خواب ہر روز اپنے دل کے گوشوں میں سجاتا اور سنوارتا
رہتا ہے .سو سو سال کی پلاننگ کل کی خبر نہیں .ہر روز یہ پانی کا بلبلہ کئی
پانی کے بلبلوں کو نیست و نابود ہوتے دیکھتا ہے .مگر پھر بھی نہ نصیحت
پکڑتا ہے .نہ مادیت پرستی کی نہ خود غرضی کی نہ خود نمائی کی نہ نمود و
نمایش کی سوچ کو بدلتا ہے .میں نے بھی جب پاکستان سے اٹلی کے لئے رخت سفر
باندھا تو اس دفعہ پروگرام کچھ نرالے ہی تھے . ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر
خواہش پے دم نکلے والا معاملہ تھا .کچھ لوگوں سے پرفیوم کا وعدہ کچھ دوستوں
یہ وعدہ تھا کہ ہر روز اٹلی کی ڈائری لکھ کر بھیجوں گا کچھ سے سفر نامہ
لکھنے کا وعدہ تھا .غرض کہ ہزاروں وعدے.مگر بات ووہی وہ وعدہ ہی کیا جو وفا
ہو جاۓ .کسی سے کہا کہ میں تم کو ہر روز فون کروں گا ..مگر کسی نے سچ کہ ہے
کہ دنیا میں اور بھی غم ہیں محبت کے سوا .کسی نے سچ کہا تھا کہ ہر غم کو
دھوویں میں اڑاتا چلا گیا جو مل گیا اس کو غنیمت سمجھ لیا جو نہ ملا اس کو
بھلاتا چلا گیا .مگر ہم پھر بھی عقلمند کہلوانے کے باوجود عقل سے پیدل نظر
آتے ہیں کبھی کبھی میری طرح..اور خدا کے فرشتے بھی ہم پر دن میں لاکھوں بار
ہنستے ہوں گے کہ دیکھو یہ انسان دنیا کو سمیٹنے کے لئے کتنی منصوبہ بندی
رہا ہے .جب کہ اس کو اگلے لمحے پر بھی اختیار نہیں ہے .اپنے ارمانوں اپنی
خواہشات اپنی دنیاوی سوچوں کو سمیٹتے ہووے لاہور ائیرپورٹ پنچ چکا تھا اور
بھوت کچھ پہلے سے انوکھا بھی دیکھ چکا تھا .یہ بھی تجزیہ کر چکا تھا کہ
کیوں پی.آئی .اے .تباہ و برباد ہوا ہے .بورڈنگ لاونج میں پنچا تو نئی نویلی
دلہنیں دیکھنے کو ملیں .جو یقینن سنہرے خوابوں کے ساتھ اپنے مجازی خدا سے
ملنے ہ کے لئے یورپ پہلی مرتبہ جا رہی تھیں .ان کو کیا معلوم تھا کہ ان کے
ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے .بھر حال سپنوں پر پابندی تو نہیں لگائی جا
سکتی .کچھ لڑکیوں نے ہاتھوں پر ترو تازہ مہندی لگا رکھی تھی .اور فون پر نہ
ختم ہونے والی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہی تھیں .لاہور سے مسقط کا سفر بھی
لکھنے کے قابل تھا .پھر مسقط اومان ائیرپورٹ کی رنگینیاں قلمبند کر چکا تھا
.گلف اخبار کے تبصرے تجزیے بھی دیکھ اور پڑھ چکا تھا .اپنے تخلیات کے ساتھ
جہاز میں بیٹھ چکا تھا جس فلایٹ کا نام ١٤٣ تھا جو میلان مالپینسا اٹلی کی
طرف ہواؤں کو چیرتا پھلانگتا اپنی منزل کی طرف رواں دھواں تھا .مسافر پہلے
ہلکا پھلکا جوس وغیرہ بھی پی چکے تھے اور اب کچھ کھانا کھا چکے تھے کچھ
تناول فرما رہے تھے .اور میری بیگم صاحبہ جو تین سال سے برین ٹیومر کے
آپریشن سے مستفید ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے مجھے یہ سفر کرنا پڑھا تھا .وہ
ان لوگوں پر تبصرہ فرما رہی تھیں .مجھ سے کہ رہی تھی کہ فلاں شراب پی رہا
ہے فلاں یہ کر رہا ہے فلاں وہ کر رہا ہے .اور میں کہ رہا تھا تم آرام کرو
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے .ساڑھے ٦ گھنٹے کی فلایٹ سے ابھی تین گھنٹے باقی
تھے .اب کچھ لوگ سو چکے تھے کچھ اپنی پسند کی فلمیں دیکھ رہے تھے کچھ ذکر
اذکار کر رہے تھے .بچے کارٹون دیکھ رہے تھے .میری بیوی خراٹے لے رہی تھی .کہ
اچانک جہاز میں چیخ کی آواز آئی کہ مجھے پکڑو .اس کے بعد آواز بند مگر نہ
سمجھ آنے والی سسکیاں جاری تھیں.جہاز کے تمام مسافر میری طرف متوجہ ہو چکے
تھے .کیونکہ میری بیگم صاحبہ کو فالج کا حملہ ہو چکا تھا ..رایٹ سایڈ اور
بازو کی حرکت بند ہو چکی تھی .دو پاکستانی فیملی میری بیوی کو مالش کر رہے
تھے .کوئی ہاتھ کی کوئی پاؤں کی کوئی بازو کی .کچھ دیر بیگم صاحبہ خود بھی
لیفٹ بازو سے رایٹ بازو سے کشتی اور جنگ لڑتی رہی .مگر آخر کار تھک ہار کر
بے سد ہو چکی تھی .اور میں جہاز کے عملے کو ٹرانسلیشن سے تفصیل بتا چکا تھا
اور عملے سے متفق تھا کہ انٹرنیشنل کال سے میلان اٹلی ائیرپورٹ کو اطلاح دے
دی جاۓ .دوسرے ہی لمحے جہاز میں اعلان کر دیا گیا کہ مسافر اپنی اپنی سیٹوں
پر تشریف رکھیں اور جہاز میں اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ اپنی خدمات پیش کرے .یہ
اچھا ہوا میر ے لئے کہ ڈاکٹر اٹالین مل گیا جس کو میں آسانی سے سمجھا چکا
تھا .اور کپتان سے فسٹ ایڈ بکس حاصل کرنے کے بعد اعلاج سٹارٹ ہو چکا تھا .اور
میں سب سفر نامہ بھول چکا تھا ..جونہی ہم میلان مالپینسا اٹلی کے ائیرپورٹ
پر پنچے .جہاز نے ٹائر زمین کو لگاۓ.تو مکمل خاموشی تھی .جبکہ یورپ کے
لوگوں کا اسٹایل ہے کہ وہ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں جب جہاز
ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے .مگر آج سب کچھ مختلف تھا .ہر کوئی پریشان تھا .کپتان
نے اعلان کیا کہ مریض کے لئے وہیل چیئر سٹریچر ایمبولینس تیار ہے .اس لئے
کوئی اپنی سیٹ سے نہ اٹھے .جہاز کا ایمرجنسی دروازہ کھولا گیا .اٹلی ہسپتال
کا عملہ اندر آیا .مریض کو وہیل چیئر پر ڈالا اور مجھے ساتھ لے کر چل
دئے.ہم سیدھے ائیرپورٹ کے اندر والی ڈسپنسری میں پنچ چکے تھے .وہاں سب سے
پہلے گلوکوز کی بوتل لگا دی گئی..ڈاکٹر اپنی کاروائی میں مصروف ہو چکے تھے
کہ مریض کو کس ہسپتال منتقل کیا جاۓ .جبکہ اخلاقی طور پر انسانی حقوق کی
بنیادوں پر امیگریشن پولیس کا ایک آدمی وہاں ہمارے پاسپورٹوں پر ایگزٹ
سٹیمپ لگانے کے لئے تیار کھڑا تھا . پولیس والے نے مزید اخلاق کا مظا ھرہ
یہ کیا کہ اس نے کہا اپنے ہینڈ بیگ یہاں رکھو اور دوسرے تین بیگ جو تم نے
بک کرواۓتھے وہ وصول کر لو .جب ہم وہاں پنچے تو وہاں نہ کوئی مسافر تھا نہ
کوئی سامان .آخر کار پولیس والے نے بڑی تگ و دو کے بعد سیکورٹی والی لڑکی
سے ملکر بیگ تلاش کئے.مگر ایک ضروری فون کال کی وجہ سے وہ چلا گیا اور مجھے
لڑکی کے سپرد کر گیا .اور پھر جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے ..کل انشااللہ لکھوں
گا ... |
|