اٹلی کی ڈائری = قسط نمبر دو
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
اس سے پہلے کہ میں اپنے پچھلے
کالم کے تسلسل سے آپ کو آگے لے کر چلوں .آپ کو تھوڑا سا یورپ اور پاکستان
کا فرق بتا دیتا ہوں .یا اپنی اور یورپ کے نفسیاتی فرق سے آگاہ کر دیتا ہوں
.کہ ہم یورپ میں آ کر وہ چیزیں وہ سٹائل کیوں پسند کرنے لگ جاتے ہیں .جن کو
ہم پاکستان میں برداشت نہیں کرتے .مسلاً پاکستان میں لائین میں لگنا اپنی
باری کا انتظار کرنا ہمارے لئے کیوں مشکل ہوتا ہے .پاکستان میں ٹیکس دینا
نہیں چاہتے جب کہ یورپ میں ٹیکس نہ دینے کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہوتا .بھوت
سارا فرق ہے پاکستان اور یورپ کے لائف سٹائل میں .تفصیل آہستہ آہستہ اگلی
نششت پر انشااللہ.گو کہ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ پاکستان میں
سب اچھا ہے اور یورپ میں برایاں ہی برایاں ہیں .یا پاکستان کو برا لکھوں
اور یورپ کو پاک صاف لکھوں .ایسا نہیں ہے .ہر قسم کی برائی اب پوری دنیا
میں پائی جاتی ہے .اب حالات بدل چکے ہیں نہ پاکستان میں اسلامی نظام کا
وجود ہے نہ یورپ میں صرف عیسایت ہے .اب پاکستان میں جتنا مسلمان نماز کا
پابند ہے اس سے زیادہ یورپ میں ملمان نماز کا پابند ہو رہا ہے .یہ مسلمانوں
کی تبلیغ کا اثر ہے .بلکہ ایک دکھ والی بات عرض کرتا چلوں کہ یورپ کو برا
اور کافر کافر کہنے والو ذرا اپنے گریبان میں جھانکو کہ اب پاکستانی حکمران
کی نا اہلی اور اسلام دشمنی کا یہ عالم ہے .کہ بہت ساری مسجدوں کا یہ حال
ہے کہ صبح تہجد کے وقت مسجد کے دروازوں کو تالے لگے ہوتے ہیں .اس کو مسجد
کی بدنصیبی کہو گے یا مسلمان کی .کہ جس مسجد میں تہجد کی نماز پڑھنے والا
کوئی نہ آے.اس مسجد اس محلے داروں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے .میں ابھی
پاکستان سے آیا ہوں .تہجد کے وقت میں اپنے محلے کی مسجد کے باہر آدھا آدھا
گھنٹہ ٹہلتا رہتا تھا .مگر دروازہ جب کھلتا تھا تو تہجد کا وقت گزر چکا
ہوتا تھا .مگر یورپ میں آ کر حیران رہ گیا .کہ آذان کے وقت سے آدھا گھنٹہ
پہلے مسجد گیا تو دروازہ بھی کھلا تھا اور دو نمازی تہجد بھی پڑھ رہے تھے .فورن
ذہن پاکستان کی طرف چلا گیا .بھوت ساری یادیں تازہ ہو چکی تھیں .کہ میرے
گھر کے ارد گرد چار مسجدوں کا جائزہ لیا تھا .کس کا دروازہ تہجد کے وقت
کھلتا ہے .ہاں تو ذکر کر رہا تھا کہ کیوں اپنی باری کا انتظار کیوں نہیں
کرتے .اس لئے یورپ میں اک نظام ہے سب اس کے پابند ہیں .کوئی کن ٹوٹا بدمعاش
یا سفارشی نہیں ہوتا .جو لائین کو توڑے .مختصر اتنا ہی کافی ہے عقلمند کے
لئے اشارہ ہی کافی ہے .میں اگر کتنا ہی مہذب ہوں گا کتنا ہی اخلاق والا ہوں
گا مگر جب اپنی حق تلفی ہر ادارے ہر محکمہ ہر دفتر میں ہوتی دکھوں گا تو
میرا انداز خود بخود بدل جاۓ گا .اسی لئے جب ہم مہذب قوم کو چھوڑ کر مہذب
انداز میں جہاز سے اتر کر لاہور ائیرپورٹ کے حال میں داخل ہوتے ہیں .تو
دیکھتے ہیں کچھ بیوروکریٹ کے کچھ افسر شاہی کے کچھ سیاسدانوں کے لاڈلے تلاش
کیے جاتے ہیں اور ان کے پاسپورٹ پر سب سے پہلے بغیر کسی انکورای کے مہریں
لگ جاتی ہیں .تو اس وقت میرا دماغ گھوم جاتا ہے .اور میرا سارا اخلاق ختم
ہو جاتا ہے .اس وقت میں دو چار اپنے آپ کو دو چار پاکستانی حکمران کو سنا
دیتا ہوں .جس سے اک تماشہ لگ جاتا ہے .یہ شروعات ہوتی ہے پاکستانی سر زمین
میں داخل ہوتے وقت .آگے آگے کی کہانیاں آپ سنیں تو مزید حیران ہو جایں گے .تو
بھر حال اپنی اصل کہانی کی طرف لوٹتے ہیں .تو جب پولیس والا چلا گیا اور
مجھے سیکورٹی والی لڑکی کے سپرد کر گیا تو میں اب اس لڑکی کے رحم و کرم پر
تھا .ایک طرف مریض کی پریشانی دوسری طرف ائیرپورٹ سیکورٹی کا معاملہ تھا .نہ
اکیلا ائیرپورٹ کے اندر داخل ہو سکتا تھا نہ سیکورٹی والی لڑکی سے یہ کہ
سکتا تھا کہ جلدی کرو .کیونکہ اٹالین لوگوں کی عادت ہے کہ یہ بڑے جلدی
ڈسٹرب ہو جاتے ہیں .کام آرام آرام سے کرتے ہیں .کام کے دوران کسی کی بے جا
مداخلت پسند نہیں کرتے .اٹالین سے بات کرنے سے پہلے معزرت کرنا پڑتی ہے .تب
وہ آپ کی مدد کرتے ہیں .ورنہ کبھی کبھی جھاڑ بھی پلا دیتے ہیں .ویسے اخلاق
والے لوگ ہیں .میں نے جرات کر کے بڑے پیار اور اخلاق سے اس سے بات کرنے کی
پہلے اجازت لی .پھر اس کو اپنی ساری کہانی سمجھائی.باتوں باتوں میں اسے یہ
بھی سمجھا دیا کہ ابھی یہ تینوں بیگ باہر لے کر جانے ہیں .باہر بیٹا انتظار
کر رہا ہے .اسے بھی ساتھ لے کر چلنا ہے .پھر مریض کے پاس بھی جلدی پنچنا ہے
.ڈاکٹر انتظار کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ .میری دکھ بھری کہانی سن کر اس پر
اتنا اثر ہوا کہ اس نے سارے کام چھوڑ دئے اور اپنے ساتھی کو بتا کر میرے
ساتھ چل دی .جب ہم سامان لے کر باہر کی طرف نکلے تا کہ بیٹے کو ساری کہانی
بتاؤں اور بیگ گاڑی میں رکھ کر جلدی مریض کے پاس پنچا جاۓ .مگر بیٹے کو تو
پہلے ہی علم ہو چکا تھا .کیونکہ جو لوگ جہاز سے نکلے تھے انہوں نے باہر نکل
کر ساری روادات بیان کر دی تھی .اب تو بیٹا صرف با امر مجبوری میرا انتظار
ہی کر رہا تھا .اس کے پاس اور کوئی چارہ کار نہ تھا .یہاں ایک اور حقیقت
بھی بیان کرتا چلوں کہ میں جب بیٹے اور سیکورٹی والی لڑکی کے ساتھ سفر کر
رہا تھا .تو بیٹا یقینن اپنی ماں کی صحت کے بارے میں سوچ رہا ہو گا.مگر
میرا ذہن اپنے دونوں ھینڈEبیگ کے بارے میں پریشان تھا .جن کے اندر میری
بیوی کا زیور نقدی موبایل کمپیوٹر اور ضروری اشیاء تھیں .اور پھر ووہی ہوا
جس کا مجھے ڈر تھا .جب ہم ائیرپورٹ کی ڈسپنسری میں پنچے تو دیکھ کر حیران
رہ گے کہ وہاں نہ مریض تھا اور نہ ہینڈ بیگ .وہاں انفورمیشن والوں نے بتایا
کہ آپ نے دیر کر دی .ایمبولینس والے کسی کا انتظار نہیں کیا کرتے .اب تم
اپنی گاڑی میں فلاں ہسپتال پنچ جاؤ .......باقی آئندہ ...جاری ہے ... |
|