علما دیوبند اور جہاد

طلحہ السیف

المرابطون کی”بزم یوسفی“ آج کل سرگرم عمل ہے اور پورے ملک میں اس کے زیر اہتمام پرجوش پروگرام چل رہے ہیں۔ پہلے سالانہ طلبہ اجتماع جس نے ماشاءاﷲ پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور اب پورے پنجاب میں تقریری مقابلے۔ ڈویژنل سطح کے تمام مقابلے اختتام پذیر ہوئے ان میں سے بعض کی کار گزاری آپ نے القلم کے صفحات پر پڑھ لی ہوگی، سالانہ طلبہ اجتماع کی مفصل رپورٹ بھی القلم کے صفحات کی زینت بن چکی ہے۔ اب یہ تمام پروگرام آخری مرحلے میں ہیں اور اس سلسلے کی آخری تقریب مرکز عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ و علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہاولپور میں ہونے والا صوبائی تقریری مقابلہ ہو گا انشاءاﷲ۔

بزم یوسفی شہید اسلام سلطان القلم حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید قدس سرہ کی طرف منسوب ہے۔ اس بزم کا قیام امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب حفظہ اﷲ کے حکم سے عمل میں آیا اور اس کا مقصد طلبہ علم کی تحریری و تقریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور انہیں اس قابل بنانا مقرر کیا گیا کہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو ہر گلی پھیلے ہوئے علمی و عملی فتنوں کا مقابلہ کر سکیں۔

اب تک ہونے والے تقریری مقابلوں کا مشترکہ عنوان”صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور جہاد“رکھا گیا، پورے پنجاب میں اسی عنوان کے تحت خوب زور دار بیانات ہوئے طلبہ کرام نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زندگی کے اس اہم ترین اور واضح ترین پہلو کو خوب اچھے انداز میں اجاگر کیا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور جہاد آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے حالات زندگی پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے ہر صحابی کے تعارف میں ”مجاہد“ کا لفظ ضرور مل جائے گا اور بعض حضرات تو ایسے تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد وحید ہی جہاد فی سبیل اﷲ کو بنا رکھا تھا۔ حواری رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت زبیر بن عوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ سوائے قتال کے اور کوئی کام نہ کیا کرتے حتیٰ کہ جہاد سے واپس آکر اپنے گھوڑے کے لئے جَو دلنے کا مشکل کام بھی اپنی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے سپرد فرما رکھا تھا جس کی انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت بھی کی۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا عمل جہاد ایک طرف تو ہمارے لئے جہاد کی فرضیت، اہمیت اور اونچے مقام کو سمجھنے کا ذریعہ ہے دوسری طرف ان کے فدائی واقعات اور اسلام کے لئے قربانی کی حیرت انگیز مثالیں دلوں میں جذبہ جہاد ابھارنے اور بزدلی، کم ہمتی اور بے حوصلگی کی زنجیریں توڑنے کا باعث ہیں۔ ان کی جہاد میں سبقت لے جانے کی کوشش اور دوسروں سے زیادہ قربانی پیش کرنے کا جذبہ آج بھی دلوں میں فدائیانہ جذبات ابھارتے ہیں اور دیوانہ وار میدان جہاد میں نکلنے کا حوصلہ بخشتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک ایسا موضوع تھا جو یقیناً دلوں میں جذبہ جہاد کو جگانے اور نظریہ جہاد کی پختگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ بعض طلبہ نے خصوصی محنت کی اور ایسی تقاریر کیں جنہوں نے سامعین کی آنکھوں کے بند کھول دیئے اور بعض مواقع پر مجمع جذبات سے بے قابو نظر آیا۔ جن طلبہ نے امتیازی پوزیشن حاصل کی اب ان کے مابین مقابلہ ہونا ہے اور جس وقت آپ یہ سطور ملاحظہ کر رہے ہوں گے انشاءاﷲ وہ مقابلہ بھی وقوع پذیر ہو چکا ہوگا۔ اس مقابلے کا موضوع ہے”علماءدیوبند اور جہاد“ مدرسہ دیوبند اور اس کے اکابر کی تاریخ میں بھی ”جہاد“ ایک لازمی عنصر کے طور پر موجود ہے۔ دیوبند کافکری اور تدریسی سلسلہ حضرت شاہ ولی اﷲ قدس سرہ سے متصل ہے جو اس خطے میں”احیاء جہاد“ کے پہلے داعی تھے۔ ان کے صاحبزادے اور جانشین حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہ نے اس سلسلے کو پروان چڑھایا، اپنے تلامذہ اور مسترشدین میں جذبہ جہاد پیدا کیا، خفیہ انداز میں جماعت سازی کی، ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی جاری کر کے جہاد کی راہ ہموار کی، اپنے مرید باصفا سید احمد شہید اور مایہ ناز شاگردان حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا عبدالحی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا محمد یوسف رحمتہ اﷲ علیہ وغیرہ کی مکمل سرپرستی فرمائی اور ہندوستان میں وہ تحریک جہاد برپا کی جس کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ دہلی سے بالاکوٹ کا طویل راستہ اس تحریک کے نفوش پا اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور یہ پورا راستہ اس کاروانِ ایمان و عزیمت کے اقدام مبارک کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔

امیر المومنین سید احمد شہید رحمتہ اﷲ علیہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمتہ اﷲ علیہ جماعت دیوبند کے مسلّمہ اکابرین میں سے ہیں، علماء دیوبند کا علمی سلسلہ تو اسی خاندان سے آیا ہی ہے سلسلہ طریقت بھی اس جماعت سے آیا۔ اکابر دیوبند میں سے اکثر حضرات کا سلسلہ طریقت حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکی قدس سرہ سے متعلق ہے۔ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ خلیفہ ہیں میانجی نور محمد جھنجھانوی رحمتہ اﷲ علیہ کے جو قافلہ سید احمد شہید رحمتہ اﷲ علیہ میں شامل ہونے کے لئے سرحد تشریف لائے تھے مگر انہیں کچھ امور کی انجام دہی کیلئے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ میانجی نور محمد رحمتہ اﷲ علیہ خلیفہ ہیں حاجی عبدالرحیم ولایتی رحمتہ اﷲ علیہ کے جو اس قافلے کے رکنِ رکین تھے اور اسی جہادی مہم میں انہوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ یوں حضرت حاجی امداداﷲ صاحب مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ سے اوپر کے دونوں بزرگ تحریک جہاد کے ارکان تھے اور پھر خود حضرت حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ جو اکابر علماء دیوبند کے بلاواسطہ پیر تھے نہ صرف مجاہد تھے بلکہ امیر جہاد تھے۔ شاملی کا جہادی معرکہ جو۷۵۸۱ھ کی جنگ آزادی کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ کی سرکردگی میں لڑا گیا۔ ان کے امیر بنائے جانے کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ خانقاہ تھانہ بھون جو اس زمانے میں ”دکّان معرفت“ کے لقب سے موسوم تھی تین بزرگوں کی آماجگاہ تھی۔ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ ۔ اوّل الذکر دونوں بزرگوں کا اتفاق تھا کہ علم جہاد بلند کرنا چاہئے مگر شیخ تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ کو اختلاف تھا۔ وہ چونکہ عالم تھے اس لئے ان سے اس سلسلے میں بحث کرنے تشریف لے گئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ۔ بات چیت کچھ یوں ہوئی۔ شیخ محمد صاحب سائل تھے اور یہ حضرات مجیب۔

سوال: جہاد کے لئے امیر ہونا چاہئے ہمارے پاس امیر نہیں؟
جواب: امیر مقرر کرنا تو اپنے اختیار کی بات ہے، حضرت حاجی صاحب ہم سب کے بڑے ہیں ابھی ان کے ہاتھ پر بیعت علی الجہاد کر کے انہیں امیر بنا لیا جائے۔
سوال:جہاد استطاعت سے ہوتا ہے جبکہ ہم میں استطاعت نہیں؟
جواب: کیا اصحابِ بدر جتنی بھی نہیں؟

بس معاملہ ختم ہو گیا۔ بیعت ہوئی، حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ امیر بنائے گئے اور جہاد کا اعلان کر دیا گیا۔ سید الطائفہ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ امیر، حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ امیر لشکر، حضرت گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ قاضی لشکر اور توپخانے کے انچارج۔ شاملی کے میدان میں معرکہ لڑا گیا اور مسلمانوں نے فتح حاصل کی مگر ارد گرد کے علاقوں میں اسلامی لشکر جم کر نہ لڑ سکے، غداروں کا کھیل کامیاب رہا اور ۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی اپنے منطقی نتائج حاصل نہ کرسکی اور یوں شاملی کے اس جہاد کے ثمرات بھی اہل ہندوستان کو نہ مل سکے مگر تاریخ میں ایک عظیم باب کا اضافہ ہو گیا۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ امیر نہ ہونے کا عذر محض عذرِلنگ اور فضول بہانہ ہے، استطاعت محض اتنی ضروری ہے جتنی اصحابِ بدر کے پاس تھی اور جہاد سب پر فرض ہے خواہ کوئی صوفی ہو،پیر ہو، عالم ہو یا علامہ۔ شاملی کی جہادی تحریک امت مسلمہ کو یہ اسباق دے کر ختم ہو گئی۔

سید احمد شہید رحمتہ اﷲ علیہ دہلی سے لکھنو جاتے ہوئے دیوبند سے گزرے تھے، جہاں مدرسہ قائم ہے اسی جگہ رکے اور فرمایا:”یہاں سے علم کی خوشبو آتی ہے“ یہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کی روحانی بشارت تھی جو امیر المومنین، امیر جہاد کی زبان سے ادا ہوئی۔ مدرسہ قائم کرنے کا خیال حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کو آیا جو خود نہ صرف مجاہد بلکہ امیر جہاد تھے۔ یقین نہ آئے تو ان کی وفات کے موقع پر زندگی بھر کے رفیق اور محرمِ راز حضرت گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ کے الفاظ ملاحظہ کر لئے جائیں:
”آہ آج امیر جہاد چل بسا جو خود بھی کٹتا اور ہمارے بھی سر کٹواتا اب تو امید نہ رہی“

قاسم رحمتہ اﷲ علیہ کے حق میں رشید رحمتہ اﷲ علیہ سے بڑھ کر کسی کی گواہی معتبر نہیں۔ اور سنیئے! حضرت حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کو جب مدرسہ کے قیام کی اطلاع دی گئی تو کیا فرمایا:
”جناب فرماتے ہیں کہ ہم نے مدرسہ قائم کیا، یہ جو اتنی پیشانیاں رب کے حضور کے حضور سجدہ ریز رہیں وہ کیا تھا؟“

یعنی مدرسہ کے قیام میں اپنی مساعی کا ذکر فرمایا۔ دیوبند کا مدرسہ جہاد سے کتنی نسبت رکھتا ہے یہیں سمجھ لیا جائے۔ اس کی بشارت دینے والے مجاہد، اس کے قیام کے لئے عرصہ دراز تک دعائیں کرنے والے مجاہد، بانی مدرسہ مجاہد اور یہ تینوں حضرات امیر جہاد نہ کہ صرف مجاہد، دیگر بانیان میں حضرت گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ عملی مجاہد۔

آئیے! آپ کو تصویر دکھائیں کہ بانی دیوبند حضرت قاسم نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کیسے مجاہد تھے؟ ان کا علمی مقام تو دنیا بھر پر آشکارہ ہے، وہ شخص جس کے علوم کو سمجھنے والے بھی خال خال ہوئے، جن کے علوم کے آگے غیر مسلموں نے بھی سرخم کیا اور تسلیم کیا کہ ان کا مقابلہ ممکن نہیں، ان حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کی جہاد میں مہارت ملاحظہ کیجئے:

مولانا محمد منیر صاحب رحمتہ اﷲ علیہ جو اس جنگ میں شریک تھے فرماتے تھے کہ ”اس ہنگامہ محشر خیز میں حضرت مولانا نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ میدان جنگ کے ایک کنارے پر دم لینے کیلئے کھڑے تھے کہ(انگریز فوج) کا ایک سپاہی جو صورتاً سکھ(معلوم) ہوتا تھا اور ڈیل ڈول میں اتنا طویل وعریض تھا کہ حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کے جثہ کے آدمی اس جیسے تن و توش رکھنے والے سے چار بن سکتے تھے۔ انگریزی فوج کے اس سپاہی نے حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کو کنارے میدان کے کھڑاپا کر دور سے تاکا اور غصہ میں لپک کر اس طرف آیا اور حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کو ڈانٹا کہ تم نے بہت سر ابھارا ہے اب آ! میری ضرب کا جواب دے۔ اس کے ساتھ ہی تلوار جو اس کے ہاتھ میں تھی بلند کرتے ہوئے چلایا کہ یہ تیغہ تیرے موت کا پیغام ہے۔ حضرت قاسم نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ نے اسی فوجی گر سے فرمایا باتیں کیا بنا رہا ہے اپنے پیچھے کی خبر لے اس نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا اس کا مڑنا تھا کہ حضرت بجلی کی طرح تڑپے، مڑنے کے بعد آپ کی طرف رخ کرنے کا بھی موقعہ اسے نہ ملا کہ جنیو کا ہاتھ اس کے داہنے کندھے پر مارا، وار اتنی قوت سے کیا گیا تھا کہ تلوار دائیں مونڈھے کو کاٹ کر گزرتی ہوئی بائیں پیر پر آکر رکی“۔

یہ تو مدرسہ دیوبند کے اکابر و بانیان کا جہادی کردار تھا، اب آگے اس نسبت کا انتقال دیکھئے!۔

دیو بند کے پہلے طالب علم”محمود“ تھے جو بعد میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن قدس سرہ کہلائے، اپنے زمانے کے سب سے بڑے شیخ الحدیث، سب سے اعلیٰ پائے کے مفسر، سب سے بڑے باغی، سب سے بڑے مجاہد اور امیر جہاد، جنہوںنے تحریک جہاد کو اتنا منظم کیا کہ انگریز جیسے شاطر کو دانتوں پر پسینہ آگیا اور اتنا پھیلایا کہ پورا ہندوستان تاحد افغانستان اس کی لپیٹ میں آگیا۔ میدان سیاست سے معرکہ کارزار تک ہر جگہ انہوں نے انگریز کو ٹکر دی اور اتنی دی کہ اسے بالآخر نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر سے اپنا بوریہ بستر گول کر کے نکلنا پڑا۔ حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کے خاص الخاص شاگرد ، خاص الخاص خادم اور محرم راز تھے۔ وہ جہاں حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کی مسند علم کے وارث تھے وہیں مسند جہاد کی وراثت بھی انہی کے حصے میں آئی۔ انہوں نے ہندوستان کے بڑے بڑے روحانی مراکز کو جہادی مراکز میں بدل دیا، امروٹ شریف کی گدی، دین پور شریف کی خانقاہ عالیہ، لاہور، صوبہ سرحد میں سلسلہ قادریہ کی معروف روحانی گدی جس کے صدر نشین اس زمانے میں حضرت مولانا ولی احمد المعروف سنڈا کئے باباجی تھے، یہ تمام روحانی مراکز اندرون خانہ جہادی مراکز بن چکے تھے۔ یہاں اﷲ اﷲ کی عاشقانہ ضربوں کے ساتھ نظریہ جہاد کا سبق پڑھایا جاتا تھا اور قربانی کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ انگریز کے خلاف جہاد کے لئے اسلحہ جمع کیا جاتا، مجاہدین تک خفیہ پیغامات اور اموال پہنچائے جاتے،انگریز کے باغیوں اور مطلوب افراد کو پناہ دی جاتی۔ اس پوری تحریک کے حیرت انگیز واقعات تاریخ کا حصہ ہیں اور بزرگوں کی سوانح میں درج ہیں۔

حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کا روحانی سلسلہ یوں تو براہ راست حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ سے تھا مگر خلافت انہوں نے حضرت گنگوہی قدس سرہ سے حاصل کی اور انہی کا سلسلہ چلایا۔ حضرت گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ کے تین خلفاء زیادہ مصروف ہوئے، حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمتہ اﷲ علیہ۔

ان تینوں حضرات کا تحریک جہاد سے گہرا تعلق تھا۔ حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کا تو اظہر من الشمس ہے، حضرت سہارنپوری رحمتہ اﷲ علیہ بھی شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کی اس تحریک کا حصہ تھے اور اسی کی پاداش میں حرمین شریفین میں گرفتار ہوئے جبکہ حضرت مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمتہ اﷲ علیہ تو حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کے زمانہ اسارت میں ہندوستان میں ان کے نائب تھے اور تمام امور کی نگرانی ان کے ذمہ رہی اور وہ تاحیات ان کو نبھاتے رہے۔

حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے شاگردوں کی اس نہج پر تربیت فرمائی جس طرح حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ نے ان کی تربیت کی، شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کے سلسلے میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا عزیر گل رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی رحمتہ اﷲ علیہ وغیرہ حضرات ہوئے جن کے جہادی اور تحریکی کارناموں کی گونج آج تک سنی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں علماء و عوام میں نظریہ جہاد کا احیاء حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کا زریں کارنامہ تھا۔ حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ سے زیادہ نہ دارالعلوم کے قیام کے مقاصد کو سمجھنے والا کوئی ہو سکتا ہے نہ ہی اپنے استاذ محترم اور مربی کے لگائے اس گلشن کا ان سے زیادہ کوئی خیر خواہ۔ اس لئے حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کا دیو بند کو مرکز بنا کر اس تحریک کی سرپرستی کرنا اور اس میں عملی شرکت فرمانا اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ دارالعلوم اور جہاد کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور نظریہ جہاد کا فروغ، تحریکات جہاد کا احیاء دارالعلوم کے قیام کے مقاصد میں شامل تھا اور شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کے ملفوظات میں اس بات کا برملا اظہار بھی جا بجا ملتا ہے۔

آج کے زمانے میں کئی لوگوں کی کوشش ہے کہ باور کرا دیا جائے کہ دیوبند اور جہاد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور حضرات اکابر کے یہ جہادی کارنامے وقتی حالات کی مجبوریاں تھیں مگر ہمارے اکابر علماء دیوبند کا قول و عمل اس تاثر کی مکمل نفی کرتا ہے۔ ایسے میں یہ اقدام خوش آئند ہے کہ مدارس میں اس موضوع پر بات کی جائے اور اس روشن باب کو اجاگر کیا جائے۔ آخر میں ہم حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے معروف زمانہ خطبہ صدارت(علی گڑھ) کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس سے واضح ہو جائے گا کہ علماء دیوبند کے سرخیل حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ علماء کرام کا کیا طرز عمل دیکھنا چاہئے تھے اور ان کے خیال میں زمانے کی باگ ڈور سنبھالنے والے”ورثةا لانبیائ“ کو نظریاتی و عملی طور پر کیسا ہونا چاہئے اور عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا انداز فکر و عمل کیا ہونا چاہیے۔

”میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر اس لئے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گم شدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوارہوں۔ بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اﷲ کی روشنی جھلک رہی ہے لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا جلد اٹھو اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس مسلط ہو جاتا ہے، خدا کا نہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اور ان کے سامان حرب وضرب کا۔

اے نونہالان وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار(جس میں میری ہڈیاں پگھلی جار ہی ہیں) مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں” دیوبند اور علی گڑھ“ کا رشتہ جوڑا۔

آپ میں سے بعض حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے اکابر سلف نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفری کا فتویٰ نہیں دیا۔ ہاں یہ بے شک کہا گیا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے، جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور اپنے مذہب والوں کا مذاق اڑائیں یا حکومت وقت کی پرستش کرنے لگیں تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کےلئے جاہل رہنا ہی اچھا ہے۔

ہماری قوم کے سر بر آوردہ لیڈروں نے سچ تو یہ ہے کہ امت اسلامیہ کی ایک بڑی اہم ضرورت کا احساس کیا ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کی درس گاہوں میں جہاں علوم عصریہ کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہو اگر طلبہ اپنے مذہب کے اصول و فروع سے بے خبر ہوں اور اپنے قومی محسوسات اور اسلامی فرائض فراموش کر دیں اور ان میں اپنی ملت اور اپنی قوموں کی حمیت نہایت ادنیٰ درجے پر ہو جائے تو یوں سمجھو کہ وہ درس گاہ مسلمانوں کی قوت کو ضعیف بنانے کا ایک آلہ ہے۔ اس لئے اعلان کیا گیا ہے کہ ایسی آزاد یونیورسٹی کا افتتاح کیا جائے گا جو گورنمنٹ کی اعانت اور اس کے اثر سے بالکل علیحدہ ہو اور جس کا تمام تر نظام عمل اسلامی خصائل اور قومی محسوسات پر مبنی ہو“۔
Haroon
About the Author: Haroon Read More Articles by Haroon: 13 Articles with 15779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.