آزادکشمیرنئی پاکستانی برانچ
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں مسلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی لڑائی نے کشمیریوں کے مقدمے
کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر دیا ہے ۔ پاکستان اور بھارت عالمی ادارے
میں لڑائی کے لیے سال بھر تیاری کرتے رہے ہیں ۔ اس لفظی جنگ میں نواز شریف
کے مقابلے کے لیے بھارت نے شسما سوراج کو جنرل اسمبلی کے پنڈال میں اتارا
تھا۔ نواز شریف نے بھارت کو جنگ نہ کرنے ، کے معائدے کی پیش کش سمیت چار
نکاتی امن فارمولا دیا ۔ ظاہر ہے یہ فارمولا جنرل مشرف کے فارمولے کے برعکس
بھارت کے لیے موافق نہ تھا اس لیے اسے مسترد کر دیا گیا۔پاکستان اور بھارت
کے درمیان اس سے قبل ستمبر میں دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کی61 ویں
کانفرنس کے سلسلے میں لفظی لڑائی ہوچکی تھی ۔ برطانیہ کے زیر تسلط رہنے
والے 53 ممالک کی تنظیم دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کی کانفرن 30
ستمبر سے 8 اکتوبر 2015 تک اسلام آباد میں ہونا تھی مگر پاکستان نے کانفرنس
کی میزبانی سے معزرت کر لی تھی کیوں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے
سپیکر کو کانفرنس میں مدعو نہیں کر نا چاہتا تھا۔ 2003 میں
دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کی کانفرنس بنگلہ دیش جبکہ 2007 میں
بھارت میں ہوئی تھی ۔ پاکستان نے ابتدا میںدولت مشترکہ کے 53 ممبرممالک کی
165 برانچوں کے 407 مندوبین کو کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا ۔
برطانیہ کے سابق غلاموں کی انجمن کا جدید نام دولت مشترکہ Commonwealth ہے۔
دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کے ممبرممالک کی صوبائی اور ریاستی
اسمبلیوں کو بھی سی پی اے کی رکنیت حاصل ہے ۔صوبائی اسمبلیوں کا تعلق جس
ملک سے ہو انہیں اس ملک کی سی پی اے برانچز کہا جاتا ہے ۔بھارت کے زیر
کنٹرول جموں وکشمیر کو سی پی اے میں بھارتی برانچ(شاخ)کا درجہ حاصل ہے۔اس
دفعہ پاکستان نے دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کی رکنیت کے لیے
آزادکشمیر کو بطور پاکستانی برانچ متعارف کرا دیا ہے۔ آزادکشمیر کی رکنیت
کے لیے باضابطہ درخواست بھی دے دی گئی ہے ۔دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی
ایشن کی کانفرنس عالمی میڈیا کا موضوع بحث رہی کیوں کہ میزبان ملک ہونے کے
ناطے پاکستان نے پڑوسی ملک بھارت کی ایک برانچ کو کانفرنس میں شرکت سے روک
دیا تھا ۔بھارتی برانچ ہونے کے ناطے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے سپیکر KAVINDER
GUPTA کے وندر گپتا بھی اسلام آباد مدعو ہونا چاہتے تھے ۔ ۔پاکستان نے
بھارتی برانچ کو مدعو نہ کرنے کے اس اقدام کی وجہ مسلہ کشمیر کو قرار دیا
ہے ۔ اسلام آباد میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری کئے گئے اعلامیہ
میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے سپیکر کو دولت مشترکہ کے ممالک
کی پارلیمانی یونین کے اجلاس میں بلانا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ یہ فیصلہ پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف
کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں اقوام
متحدہ کے ایجنڈا پر ہیں جو یہ تقاضا کرتی ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ
استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا۔قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق
گزشتہ برس دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کے ساٹھویں اجلاس میں متفقہ
طور پر ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے دولت
مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کانفرنس میں مقبوضہ جموںکشمیر اسمبلی کے
سپیکر کو شرکت کیلئے مدعو کرنے کا بھارتی مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا تھا
کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے سپیکر کو کسی بھی صورت میں کانفرنس میں
مدعو نہیں کیا جائیگا۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر ہے
اور 1947 سے اب تک حل طلب ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں
اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے تحت
کشمیری عوام کو انکا حق خود ارادیت دینے کی حمایت کرتی ہیں، مسئلہ کشمیر کے
حل کیلئے آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کے علاوہ کسی بھی متبادل کی
نفی کرتی ہیں۔ ادھر بھارت نے پاکستان کے اس اقدام کے جواب میں دولت مشترکہ
پارلیمانی ایسوسی ایشن کی61 ویںکانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا بھارتی
لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا
تھا کہ جموں کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کو مدعو نہ کئے جانے کے سبب بھارت نے
اسلام آباد پاکستان میں منعقد ہونے والی دولت مشترکہ پارلیمنٹری یونین کی
کانفرنس کا بائیکاٹ کرے گا۔ پاکستان اور بھار ت کے اس جھگڑے نے دولت مشترکہ
پارلیمانی ایسوسی ایشن کی کانفرنس کے انعقاد کو ہی نا ممکن بنا دیا۔۔ کئی
وجوہات کی بنا پر جموں کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کو مدعو نہ کئے جانے کا
فیصلہ درست تھا تاہم اگر صرف کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے جموں و
کشمیر اسمبلی کے سپیکر کو مدعو نہیں کیا گیا تو پھر آزاد کشمیر کو کس حیثیت
میں سی پی اے کی رکنیت دلوائی جائے گی ؟ ماہرین کی رائے میں ریاست جموں
وکشمیر میں استصواب رائے کی ذمہ داری بھارت کے زیر کنٹرول جموں و کشمیر
حکومت کی ہے ۔جموں و کشمیر حکومت اس حوالے سے کوئی کام نہیں کر سکی۔سرینگر
حکومت سلامتی کونسل کی 21 اپریل 1948 کی قرارداد کے مطابق اپنا کردار متعین
کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قرارداد وضاحت کرتی ہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی مظفر
آباد اور گلگت کے بغیر نامکمل ہے۔اقوام متحدہ کی 30 مارچ 1951 کی قرارداد
کے مطابق عالمی ادارہ صرف ایک حصے کی منتخب کردہ اسمبلی کو پوری ریاست کی
نمائندہ اسمبلی تسلیم نہیں کرتا چنانچہ جموں وکشمیر کو پوری ریاست کی
نمائندہ اسمبلی کا درجہ حاصل نہیں ہے۔لندن میں مقیم جموں وکشمیر کونسل کے
سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کی کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی
قراردادوں پرگہری نظر ہے ۔ ڈاکٹر گیلانی رابطہ کرنے میں ہمیشہ پہل کر دیتے
ہیں ۔ گزشتہ روز ٹیلی فونک رابطے میں جموں و کشمیر اسمبلی کے سپیکر کو
اسلام آباد مدعو نہ کر نے اور سامنے آنے والے جواز پر بات ہوئی۔ ان کا کہنا
تھا بد قسمتی سے جموں و کشمیر اسمبلی اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام
رہی ہے بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں سرینگر کی مدد نہ کر کے اقوام متحدہ
کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے جس کے نتیجے میں کشمیر میں عسکری تحریک
شروع ہوئی، بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا۔ ایک اسمبلی جو اتنے بڑے
پیمانے پر نقصان کی ذمہ دار ہو۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی
کررہی ہو، ریاستی عوام کی رائے جاننے کے لیے رائے شماری کے سلسلے میں کچھ
نہ کر سکی ہو اسے دولت مشترکہ کانفرنس میں نہ بلانا درست فیصلہ ہے۔ایک اور
بات جو میری سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے کشمیر کی حکومتوں نے ریاست
کی ترجمانی کے بجائے پاکستان اور بھارت کی ترجمانی شروع کی ہے ان کی اپنی
حیثیت متاثر ہورہی ہے ۔ اقوام متحدہ نے سری نگر اور مظفر آباد کو ایسی کوئی
ذمہ داری تفویص نہیں کی تھی پھر بھی دونوں حکومتیں اپنے کام میں بہتری کے
بجائے دوسری حکومتوں کی ترجمانی کررہی ہیں جسکی وجہ سے ان کی اپنی حاکمیت
کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔ کشمیری عوام اگر پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں
تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ مظفرآبادکی حکومت اچھی حکمرانی کے بجائے
اسلام آباد کی مداح سرائی میں لگ جائے۔ |
|